Connect with us

اتر پردیش

UP: غیر قانونی طور پر چلنے والے مدرسوں کے خلاف انتظامیہ کی کارروائی جاری

Published

on

لکھنو: ضلع شراوستی کے سرحدی علاقے میں غیر قانونی طور پر چلنے والے مزید چار مدارس کو اتوار کو سیل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سیل کیے جانے والے مدارس کی تعداد 14 ہو گئی ہے، اس وقت غیر قانونی طور پر چلنے والے مدارس کے خلاف مہم جاری ہے۔ ایسی صورت حال میں مزید کئی مدارس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ ضلع اقلیتی بہبود افسر دیویندر رام کے مطابق ضلع میں 297 مدارس کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 105 مدارس تسلیم شدہ ہیں جبکہ 192 مدارس تسلیم شدہ نہیں ہیں۔

ایسے میں ڈی ایم اجے کمار دویدی کی ہدایت پر نیپال کے سرحدی علاقے کے 15 کلومیٹر کے دائرے میں ہندوستانی علاقے میں چلنے والے مدارس کا معائنہ اور سیل کیا جا رہا ہے۔ایس ڈی ایم کی قیادت میں تشکیل دی گئی ٹیم نے ہفتہ کو 10 مدارس کو بند کر دیا تھا۔ ان میں سے بہت سے مدارس یا تو کرائے کی عمارتوں میں چل رہے تھے یا ان کی تعمیر نامکمل تھی اور ان کی کوئی پہچان نہیں تھی۔

اس کے تسلسل میں اتوار کو ایس ڈی ایم سنجے رائے اور ضلع اقلیتی بہبود افسر اور بی ای او ستیش کمار اور تھانہ صدر ملی پور آشیش کمار نے نیپال کی سرحد سے متصل جمونہا علاقے کے گاؤں فتح پور بنگئی میں چل رہے تین مدرسوں اور جمناہا بھوانی پور میں ایک مدرسہ کو سیل کر دیا۔ ایس ڈی ایم نے بتایا کہ بنگئی بازار میں واقع مدرسہ اسلامیہ انوار العلوم، مدرسہ الامۃ الاسلامیہ انوار العلوم اور مدرسہ عربیہ مسعودیہ دارالعلوم گداریاں پوروا، مدرسہ اسلامیہ مصباح العلوم جمونہا بازار پر چھاپے مارے گئے۔ یہاں عارضی دستاویزات کی مدد سے مدرسے چلائے جا رہے تھے۔ ان میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے انہیں سیل کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مدارس کے آپریٹر کا کہنا ہے کہ U-DISE کوڈ دستیاب ہے۔

اس میں مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں کی آن لائن فہرست کھلائی جاتی ہے۔ اساتذہ کا ڈیٹا بھی اسی کوڈ پر آن لائن فیڈ کیا جاتا ہے۔ یہ تمام مدارس محکمہ اقلیتی اور بنیادی تعلیم کے محکمے سے تسلیم شدہ ہیں۔ آپریٹرس کو کوئی نوٹس دیے بغیر ایس ڈی ایم نے بی ای او کے ساتھ آکر مدارس کو سیل کردیا۔

اتر پردیش

خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے پی ایچ ڈی مقالہ نگاروں کے لیے جامع اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد

Published

on

(پی این این)
لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے داخلہ یافتہ پی ایچ ڈی تحقیق کاروں کے لیے ایک مربوط، منظم اور معلوماتی اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد اٹل ہال میں کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد تحقیق کاروں کو جامعہ کی پالیسیوں، تحقیقی ڈھانچے، علمی وسائل اور قوانین سے واقف کرانا تھا، تاکہ وہ اپنی تحقیقی زندگی کا آغاز باشعور اور منظم انداز میں کرسکیں۔
اس پروگرام کے آغاز میں ریسرچ کوارڈینیٹر پروفیسر چندنا ڈے نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس موضوع کی اہمیت و معنی خیزیت اور ضرورت پر اظہار خیال کیا۔ مختصر استقبالیہ کلمات کے بعد یونیورسٹی کےوائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں اس پروگرام کو تحقیق کے نئے سفر کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ابتدائی مرحلہ تحقیق کاروں کو علمی دنیا کے بنیادی اصولوں، تحقیقی عمل کی باریکیوں اور اس شعبے کی مخصوص ذمہ داریوں سے روشناس کراتا ہے۔پروفیسر اجےتنیجا نے واضح کیا کہ تحقیق کسی بھی شعبے کی ترقی کا بنیادی ستون ہے اور محققین ہی مستقبل کی سمت متعین کرنے والے ’’سنگِ میل‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ انھوںنے نئے اسکالرز کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے تحقیقی موضوعات کا انتخاب کریں جو بدلتی ہوئی سماجی ضروریات اور جدید صنعتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
اس اورینٹیشن پروگرام کے مہمان خصوصی اورلکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم کے صدر پروفیسر دنیش کمار نے اپنے خطاب میں ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی تحقیقی مقالے کے موضوع کے تعین سے پہلے نہ صرف اپنی دلچسپی کے مضامین کا مطالعہ ضروری ہے بلکہ تازہ ریسرچ جرنلز، میگزینز اور ڈیجیٹل رپوزیٹریز کا باقاعدہ جائزہ بھی انتہائی اہم ہے۔ ان کے مطابق ایک اچھی تحقیق کی بنیاد اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب طالبِ علم یہ سمجھ سکے کہ اس موضوع پر پہلے سے کتنا کام ہو چکا ہے اور موجودہ عہد کے مطابق کون سا پہلو نیا یا قابلِ تحقیق ہے۔
انھوں نےطلبہ کو تفصیلی رہنمائی دیتے ہوئے کہا کہ موضوع کی ابتدا بہتر طور پر کلیدی الفاظ طے کرنے سے ہونی چاہیے۔ ان ہی الفاظ کی مدد سے شعبہ جاتی ڈیٹابیسز میں ابتدائی تلاش کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی موضوع پر متعدد تازہ تحقیقات ملتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس پر خاصا کام موجود ہےتاہم طالب علم انھیں مطالعات کے اندر موجود خلا کو تحقیق کے ذریعے اپنا نیا زاویہ طے کر سکتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ریسرچ اسکالرز کو لٹریچر ریویو کے دورا ن قدیم و جدید حوالہ جات، پی ایچ ڈی تھیسسز اور کانفرنس پروسیڈنگز کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیےجس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موضوع کن جہات سے مکمل ہے اور کہاں مزید تحقیق کی گنجائش باقی ہے۔تبدیل ہو تے وقت اور ڈیجیٹل عہد کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مشورہ دیا کہ طلبہ اپنے موضوع کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ٹیکنالوجیکل، سماجی یا انڈسٹری بیسڈ پہلو شامل کریں۔اساتذہ نے مزید کہا کہ اگر کسی موضوع پر پہلے سے بہت زیادہ کام موجود ہو تو طلبہ اسکوب کو محدود کر کے (مثلاً مخصوص علاقے، گروہ یا ٹیکنالوجی تک)، نئی میتھوڈولوجی اختیار کر کے یا تقابلی مطالعہ شامل کر کے اپنے مقالے کو منفرد بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کرنا ضروری ہےجو یہ بتائے کہ طالب علم کا مطالعہ کیوں منفرد اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگ ہے۔
آخر میں انھوں اس بات پربھی زور دیا کہ موضوع طے کرنے کے فوراً بعد طلبہ کو اپنے سپروائزر کے ساتھ ابتدائی نتائج، تلاش شدہ حوالہ جات اور ممکنہ تحقیقی مسائل شیئر کرنا چاہیے تاکہ مقالے کی سمت درست رکھی جا سکے۔ان کے مطابق ایک کامیاب ریسرچ وہی ہے جو موجودہ علمی مباحث، سماجی ضرورت اور نئے فنی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔اس پروگرام کی نظامت اور شکریے کے الفاظ ڈاکٹر روچیتا سجائے نے ادا کیا۔اس موقع پر اساتذہ کے علاوہ سبھی شعبہ جات کے ریسرچ اسکالرس موجود رہے اور ان ریسرچ اسکالرس نےپروفیسر دنیش کمار سے بہت سے سولات بھی کئے جس کاانھوں نے تشفی بخش جوابات دیا۔

Continue Reading

اتر پردیش

پروفیسر نعیمہ خاتون نے جے این میڈیکل کالج میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا کیاافتتاح

Published

on

(پی این این)
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا افتتاح کیا اور بچوں کے امراض اور امراضِ نسواں و زچگی کے شعبوں کے اشتراک سے منعقدہ کنٹینیونگ میڈیکل ایجوکیشن (سی ایم ای) پروگرام کے دوران امراض سے متعلق آگہی مہم کا آغاز کیا۔ حکومتِ ہند کے محکمہ بایو ٹکنالوجی سے تعاون یافتہ یہ اقدام مغربی اتر پردیش میں جینیاتی تشخیص اور زچہ و بچہ صحت کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔تنظیمی سربراہان پروفیسر تمکین خان (امراضِ نسواں و زچگی) اور پروفیسر زیبا ذکاء الرّب (شعبہ امراض اطفال) نے مندوبین کا خیرمقدم کیا۔
اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے نِدان کیندر کے قیام کو تحقیق پر مبنی کلینیکل خدمات، کمیونٹی آؤٹ ریچ اور بیماریوں کی بروقت تشخیص کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔ مالیاتی مرحلے کے دوران کلیدی تعاون فراہم کرنے پر پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد محسن خان کو بھی سراہا گیا، جس کی بدولت اہم لیبارٹری آلات کی بروقت خریداری ممکن ہو سکی۔تقریب میں مہمانِ اعزازی پروفیسر سیما کپور (ڈائریکٹر، ڈپارٹمنٹ آف میڈیکل جینیٹکس، ایم اے ایم سی) کے علاوہ پروفیسر مدھولیکا کابرا (سائنس داں ایمرٹس، آئی سی ایم آر) اور پروفیسر کوشک منڈل (ایس جی پی جی آئی)بطور خاص شریک ہوئے۔
ڈی بی ٹی کے 2.12 کروڑ روپے کے گرانٹ سے قائم اُمّید-نِدان کیندر میں مختلف خدمات فراہم کی جائیں گی، جن میں قبل از پیدائش تھیلیسیمیا جانچ، پیدائشی نقائص کی اسکریننگ، نوزائیدہ بچوں کی پانچ بیماریوں کی جانچ اور جینیاتی ٹیسٹنگ اور مشاورت شامل ہیں۔ یہ تمام خدمات بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہیں، اور یہ مرکز ہر کام کے دن میں صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک کھلا رہے گا۔انٹرڈسپلینری ٹیم کی قیادت پروجیکٹ کوآرڈینیٹر اور پرنسپل انویسٹی گیٹر پروفیسر تمکین خان کر رہی ہیں، جبکہ ڈاکٹر عائشہ احمد اور ڈاکٹر گلنار نادری (شعبہ امراض اطفال)، پروفیسر حامد اشرف (اینڈوکرائنولوجی)، ڈاکٹر مہدی حیات شاہی (آئی بی آر سی)، پروفیسر افضل (زولوجی) اور ڈاکٹر احمد فراز (فزیالوجی) بھی اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر زہرہ محسن (چیئرپرسن، امراض نسواں و زچگی) کے تعاون کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا۔اپنی جدید سہولیات کے ساتھ، ڈی بی ٹی–نِدان کیندر، خطے میں جینیاتی بیماریوں کے لیے ایک امتیازی مرکزکے طور پر ابھرنے کے لیے تیار ہے۔

Continue Reading

اتر پردیش

تعاون اور ہم آہنگی سے ملتی ہےعملی زندگی میں کامیابی: پروفیسر ثوبان سعید

Published

on

لینگویج یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیےاستقبالیہ تقریب
(پی این این)
لکھنؤ: خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کے شعبہ ٔ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیے استقبالیہ تقریب کا انعقاد بزم ادب کی جانب سے کیا گیا۔ اس تقریب میں بی اے سال اول اور ایم سال اول کا استقبال کیا گیا ۔ اس استقبالیہ تقریب میںپی ایچ ڈی کے طالب علم اور بزم ادب کے سکریٹری محمد نسیم نے طلبہ اور اساتذہ کا خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ تقریب کچھ تاخیر سے منعقد ہو رہی ہے مگر دیر آید درست آیدکے مصداق یہ ایک خوشگوار موقع ہے۔انھوں نے اپنے اسقبالیہ کلمات میں اردو زبان و ادب میں بی اے اور ایم اے کرنے والے طلبہ ان معنوں میں خوش نصیب ہیں کہ انھیں ادبی نگارشات کے توسط سے حیات و کائنات کے ایسے اسرار سےآگہی ہوتی ہے جو زندگی کے پر پیچ مراحل سے سرخرو گزرنے میں ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔
انھوں نے زبان اور کلچر کے ربط باہم کے تناظر میں اردو پڑھنے کی اہمیت کو بیان کیا اور نووارد طلبہ سے کہا کہ اس شعبے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ کلاس روم کی تدریس کے ساتھ طلبہ کی تعلیمی اور اخلاقی تربیت میں ہر وقت ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔محمد نسیم کے استقبالیہ کلمات کے بعد نو واردریسرچ اسکالرس ،ایم اے سال اول اور بی اے سال اول کے طلبہ نے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ اس یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ ایک ذمہ دار شہری بننے کی کوشش کریں گے تاکہ اپنے سماج اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں تعاون کر سکیں۔ ان طلبہ نے اساتذہ کو یہ یقین دلایا کہ وہ پوری محنت اور دیانت داری کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گے تاکہ زبان اور کلچر کے تحفظ میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
اس استقبالیہ تقریب میں شعبہ ٔ اردو کے صدر پروفیسر ثوبان سعیدپنے اپنے خطاب میں نو وارد طلبہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی زندگی محض کتابی علم تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی شخصیت، سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارنے کا سنہرا دور ہوتا ہے۔ انھوں نے طلبہ کو یقین دلایا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ اور سینئر طلبہ ہر مرحلے پر ان کی رہنمائی، مدد اور حوصلہ افزائی کے لیے موجود رہیں گے تاکہ تعلیمی سفر ان کے لیے آسان اور بامقصد بن سکے۔انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ یونیورسٹی کے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، نظم و ضبط اور وقت کی قدر کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں، خود اعتمادی کو مضبوط رکھیں اور مسلسل سیکھنے کا جذبہ پیدا کریں۔ پروفیسر ثوبان سعید نے اس بات پر زور دیا کہ عملی زندگی میں کامیابی اُسی کو ملتی ہے جو تعاون، ہم آہنگی اور اتفاق کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ آخر میں انھوں نے طلبہ کے روشن، کامیاب اور باوقار مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اس موقع پر پروفیسر فخر عالم نے استقبالیہ تقریب کے کامیاب انعقاد پر بزمِ ادب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ شعبۂ اردو کی یہ روایت نہایت قابلِ قدر ہے کہ وہ ہر سال نو وارد طلبہ کے لیے اس نوعیت کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بزمِ ادب محض ایک ادبی انجمن نہیںبلکہ یہ طلبہ کی فکری تربیت، تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری اور ادبی ذوق کی نشوونما کا اہم پلیٹ فارم ہے۔
پروفیسر فخر عالم نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ایسی تقریبات طلبہ میں اعتماد، بیان کی مہارت، تخلیقی شعور اور علمی وابستگی کے جذبات کو مضبوط کرتی ہیں۔انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ بزمِ ادب کی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کو کلاس روم سے باہر ایک وسیع علمی فضا فراہم کرتے ہیںجہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکتے ہیں اور اپنی شخصیت کو بہتر طور پر نکھار سکتے ہیں۔ اس تقریب میں طلبہ نے غزلیں ،نظمیں ،مزاحیہ تقاریر،ادبی لطائف اور دیگر تخلیقی مظاہرے پیش کئے۔اس کے ساتھ ہی بزم ادب کے زیر اہتمام مقابلہ جاتی نشست منعقد ہوئی جس میں طلبہ نے بھرپور حصہ لیا۔اس تقریب کی نظامت ریسرچ اسکالر حسن اکبر اور شکریے کے کلمات ریسرچ اسکالر عبداللہ نے ادا کئے۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network