دلی این سی آر
وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے اپنے آبائی گاؤں نند گڑھ میں منائی 51ویں سالگرہ
(پی این این)
جند: دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نےکہ کہ وکست بھارت کی سمت دہلی اور ہریانہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ گپتا جند ضلع میں ایک پروگرام میں مہمانِ خصوصی کے طور پر خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت کا نتیجہ ہے کہ آج دہلی اور ہریانہ جیسی ریاستوں کے اعلیٰ عہدوں پر عام خاندانوں سے آنے والے لوگ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور سماجی خدمت کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔
دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے آج ہریانہ کے جولانہ میں اپنے آبائی گاؤں نند گڑھ میں اپنی 51ویں سالگرہ منائی۔ وہ 19 جولائی 1974 کو اس گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ہریانہ حکومت نے اس موقع پر نند گڑھ میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے جولانہ میں وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا کی سالگرہ کے موقع پر ان کا شاندار استقبال کیا۔وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے نند گڑھ گاؤں کو ریکھا گپتا کی سالگرہ کے تحفے کے طور پر کئی ترقیاتی تحفے دیے۔ اس کے لیے ریکھا گپتا نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔اس موقع پر ریکھا گپتا نے نند گڑھ سے متعلق اپنے بچپن کی یادیں اور دہلی یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات سے لے کر دہلی کے وزیر اعلیٰ بننے تک کے اپنے سفر کو یاد کیا۔
مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، "دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا جی کو ان کے یوم پیدائش پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ وہ دہلی کی خدمت میں ہمیشہ سرگرم رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے طور پر، انہوں نے قومی راجدھانی کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ خدا انہیں لمبی اور صحت مند زندگی عطا کرے،” مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا۔گپتا نے ان کی سالگرہ پر مبارکباد دینے پر وزیر اعظم مودی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی "ہمیشہ متاثر کن” رہنمائی ان کے (گپتا کے) عوامی خدمت کے سفر کے لئے طاقت اور تحریک کا مستقل ذریعہ ہے۔ریکھا گپتا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، "بطور وزیر اعلی، میںسب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پرایاس کے آپ کے وژن کو بامعنی نتائج میں تبدیل کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہوں۔ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا، "دہلی کی وزیر اعلیٰ، ہریانہ کی بیٹی ریکھا گپتا جی کو ان کے یوم پیدائش پر نیک خواہشات اور مبارکباد۔ آپ کی موثر قیادت اور سماج کے تئیں لگن راجدھانی میں اچھی حکمرانی اور بااختیار بنانے کی علامت بن گئی ہے۔ میں بھگوان شری رام سے دعا کرتا ہوں کہ آپ دہلی کی ترقی اور صحت مند زندگی کے لیے ہمیشہ قائم رہیں اور آپ کو صحت مند زندگی گزارنے کا موقع ملے۔”دہلی میں عہدیداروں نے بتایا کہ اس کا جولانہ اور نند گڑھ میں کئی پروگراموں میں حصہ لینے کا پروگرام ہے۔
ہریانہ کے وزیراعلیٰ نایب سنگھ سینی نے اس موقع پر کہا کہ ہریانہ کی بیٹی، ریکھا گپتا، دہلی کی وزیراعلیٰ بننے کے بعد آج پہلی بار اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنے آبائی گاؤں نندگڑھ آئی ہیں، وہ تمام ہریانہ کے لوگوں کی طرف سے انہیں سالگرہ کی مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے گپتا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ریکھا گپتا عام خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور پنڈت دین دیال اپادھیائے کی نظریاتی سوچ کے ساتھ جڑ کر عوامی خدمت کا کام کر رہی ہیں۔ ان کی پوری زندگی ملک کے لیے وقف رہی ہے اور انہوں نے ملک کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ ریکھا گپتا کی سوچ، ان کی پالیسی اور نیت یہی ہے کہ دہلی ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوئے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ‘وکست بھارت’ کے سفر میں ہریانہ اور دہلی حکومتیں مضبوطی سے آگے بڑھیں گی۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وکست بھارت کی سمت دہلی اور ہریانہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں اور وزیر اعظم کی قیادت کا نتیجہ ہے کہ آج دہلی اور ہریانہ جیسی ریاستوں کے اعلیٰ عہدوں پر عام خاندانوں سے آنے والے لوگ ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں اور عوامی خدمت کو سب سے بڑی ترجیح دے رہے ہیں۔ سینی نے کہا کہ پنڈت دین دیال اپادھیائے کےاصول اور نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی سمت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 2014 کے بعد ہندوستان نے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ مسٹر مودی کے ’وکست بھارت‘ کے عزم میں ہریانہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے مرکز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھے گا۔
اس سے پہلے وزیر اعلیٰ نے اگرسین دھرم شالہ کا افتتاح اور نندی و کامدھینو گؤ شالہ کا بھومی پوجن کیا۔ انہوں نے دھرم شالہ کے لیے 31 لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔ مسٹر سینی نے کہا کہ مسٹر مودی کی قیادت میں ملک نے عالمی سطح پر اپنی ایک مضبوط شناخت قائم کی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ پختہ یقین رہا ہے کہ ہندوستان ایک دن اقتصادی سپر پاور بنے گا اور آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی معیشت 11ویں مقام سے چوتھے مقام پر پہنچ چکی ہے۔ ترقی کا یہ سفر وزیر اعظم کی قیادت میں ہی ممکن ہو سکاہے اور آنے والے وقت میں ہندوستان یقیناً دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنے گا۔
دلی این سی آر
شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے موضوع پر توسیعی لکچر
(پی این این)
نئی دہلی:شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں آج ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت اہم توسیعی لیکچر منعقد ہوا جس میں عروض اور فنِ شعر کی باریکیوں کے ماہر پروفیسر احمد محفوظ (شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے اپنا پرمغز لیکچر دیا۔ پروگرام کی صدارت شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر محمد نعمان خان نے کی۔ اس سے قبل شعبۂ عربی میں توسیعی لیکچر کی روایت کا تذکرہ اور مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے صدرِ شعبہ پروفیسر سید حسنین اختر نے کہا کہ شاعری دراصل خیالات کو مؤثر اور خوبصورت موسیقیت کے سانچے میں پیش کرنے کا نام ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق ساتویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے عربی زبان کے مشہور عالم خلیل بن احمد فَرّاہیدی نے اس فن کے اصول و ضوابط مرتب کیے۔ فنِ عروض ایک مشکل فن ہے اور ہندوستان میں پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اساتذہ میں ہیں جو اس فن کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اس موضوع پر ان سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ لکچر شعبہ کے طلبہ اور اسکالرز کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے لیکچر میں فنِ عروض کے تاریخی پس منظر، بنیادی اصولوں اور وزن و بحور کی ساخت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’عروض‘‘ شعر کی موزونیت اور آہنگ کو جاننے کا فن ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شاعری کے لیے اس فن کا جاننا ضروری نہیں، چنانچہ اس فن کے اصول مرتب کیے جانے سے قبل بھی عربی شاعری کا بڑا ذخیرہ ہمارے درمیان موجود ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ شعرا اپنی داخلی و فطری موسیقیت کا سہارا لیتے ہوئے موزون شاعری کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس علم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اشعار کی صحیح تقطیع اور ان کے فنی تجزیے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ہمیں اشعار کی موسیقیت و موزونیت کے ادراک میں دقت آتی ہے اور نغمگی کے احساس میں تردد ہوتا ہے، ایسے میں اس علم کی فنی نزاکتیں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وتد، سبب، زحاف اور عروض کی ابجدیات اور اشعار کی تقطیع کے اصول فنکارانہ اور پرلطف انداز میں مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ و اسکالرز میں اس فن کے لیے دلچسپی پیدا کی اور سوالات کے جوابات دیے۔
پروفیسر محمد نعمان خان نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران عروض کو ایک عملی فن قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاعری داخلی استعداد کا بیرونی اظہار ہے، اسی وجہ سے اسے الہامی کہا جاتا ہے۔ مہمان مقرر کے لیکچر کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موضوع کے تناظر میں پروفیسر احمد محفوظ کا انتخاب نہایت عمدہ ہے اور انہوں نے اس خشک موضوع کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ بانیٔ فن کی علمی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیل فَرّاہیدی نے عربی زبان و ادب میں بےحد اہم کام کیے ہیں اور یہ فن ضرورت کی پیداوار ہے۔ البتہ موجودہ دور میں نثری شاعری کا رواج بھی عام ہے اور محض موسیقیت کی بنیاد پر شاعری کی جارہی ہے۔ عربی و سنسکرت کے درمیان مماثلت کا ضمنی تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں زبانوں کی فیملی جدا ہیں اور اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں کہ خلیل فَرّاہیدی نے یہ فن سنسکرت سے اخذ کیا تھا۔
قبل ازیں پروگرام کے کنوینر و نقیب ڈاکٹر مجیب اختر نے مقرر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اہلِ علم میں شامل ہیں جنہوں نے اردو کے نامور ادیب و ناقد پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی سے کسبِ فیض کیا ہے، اور آج اردو ادب میں ایک مستند و معتبر نام ہیں۔ پروگرام میں شعبۂ عربی کے سابق صدر پروفیسر نعیم الحسن، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر اصغر محمود، پروفیسر علیم اشرف، پروفیسر ابوبکر عباد، پروفیسر مشتاق عالم قادری، پروفیسر احمد امتیاز، ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر مہتاب جہان، ڈاکٹر زین العبا، ڈاکٹر عارف اشتیاق، ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر ابو تراب، ڈاکٹر محمد مشتاق اور ڈاکٹر غیاث الاسلام کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ، اسکالرز اور جامعہ ملیہ اسلامیہ و دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔
دلی این سی آر
اردو اکادمی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز کےایل سیگل کو پیش کیاگیا خراجِ عقیدت
(پی این این)
نئی دہلی:دہلی کے ادبی و ثقافتی حلقوں میں آج شام اردو اکادمی، دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز اُس وقت خاصی رونق دیکھی گئی جب پیروٹس ٹروپ نے اپنے نئے اسٹیج ڈرامے’’ترا راہ گزر یاد آیا (کے۔ایل۔سیگل)‘‘ کی شاندار پیشکش کی۔ ڈاکٹر سعید عالم کی تحریر و ہدایت میں تیار یہ منفرد اسٹیج ڈراما ایک میوزیکل فکشن ہے جس میں حقائق اور تخیل کو بڑی خوبصورتی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے تاکہ ملک کے معروف گلوکار کے۔ایل۔سیگل کی زندگی کے مختلف پہلو نمایاں ہوسکیں۔
ڈرامے کا عنوان مرزا غالبؔ کی غزل’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ کے پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے سے ماخوذ ہے، جسے سیگل نے اپنی مترنم آواز میں گایا تھا۔ اس پیشکش کی خاص بات متعدد فنی و تکنیکی تجربات رہے۔ کہانی کو راوی کے ذریعے آگے بڑھانا اور اہم و بنیادی مناظر کو فلیش بیک تکنیک کے ساتھ پیش کرنا ایسے عناصر تھے جنہوں نے ڈرامے کی دلکشی میں اضافہ کیا۔ڈرامے میں جہاں سیگل کی زندگی کے ابتدائی مراحل ،ایک معمولی سیلزمین سے شہرت یافتہ گلوکار بننے تک،بڑے دلکش انداز میں دکھائے گئے، وہیں ان کی گائیکی کے مختلف ادوار، مشہور نغمات اور فنی جدوجہد کو بھی نہایت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا۔ زبان و بیان کے حوالے سے ڈرامے کی نمایاں خوبی یہ رہی کہ ہر کردار اپنے زمان و مکان کے عین مطابق مکالمے ادا کرتا نظر آیا۔کلکتہ کے مناظر میں بنگلہ لب و لہجے کی لطافت اور چاشنی جھلکتی ہے، جبکہ مرادآباد اور کانپور کے مشاعراتی ماحول میں وہاں کا مخصوص اندازِ گفتگو پوری طرح برقرار رکھا گیا۔ اسی طرح دہلی اور ممبئی سے متعلق مناظر میں ان شہروں کی ثقافتی زبان اور مقامی لہجہ فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس سے ڈرامے کی حقیقت نگاری اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوا۔ کہانی میں مختلف کرداروں کے مکالموں کے ذریعے سیگل کے عہد کی اہم شخصیات اور اُس دور کے بنگلہ و ہندی فنکاروں کے فنی اثرات کو بھی مؤثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ڈرامے کا سب سے دلکش و نمایاں پہلو معروف تھیٹر اداکار یش راج ملک کی شخصیت اور ان کی اداکاری رہی، جنہوں نے سیگل کا کردار بخوبی نبھایا۔ وہ نہ صرف سیگل کے مشابہ دکھائی دیے بلکہ ان کے مقبول نغموں، غزلوں اور بھجنوں کو براہِ راست اسی انداز میں پیش کرکے پورے آڈیٹوریم میں سیگل کے زمانے کی یاد تازہ کردی۔
یہ ڈراما کل چوبیس کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں ایک مرکزی، چار معاون اور بیس ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی کی تشکیل سترہ مناظر پر کی گئی تھی، جن میں دو مناظر فلیش بیک تکنیک کے تحت پیش کیے گئے۔ ہدایت کار نے ڈرامے کا اختتام بھی نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، جہاں سیگل کے آخری لمحات کو بے بسی اور درد کے ساتھ دکھایا گیا۔ڈراما مجروح سلطان پوری کی غزل پر مبنی اس مشہور نغمے’’جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں‘‘ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، جسے سیگل نے اپنی آواز میں گایا تھا۔
آڈیٹوریم میں شریک ناظرین کا خیال تھا کہ یہ ڈراما نہ صرف ایک فن کار کو خراجِ عقیدت ہے بلکہ ہندوستانی فلمی و موسیقی کی تاریخ کے ایک سنہرے باب کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش بھی ہے۔ ڈرامے کے اختتام پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور ناظرین نے پیروٹس ٹروپ کی اس کامیاب پیشکش کو بھرپور سراہا۔
آخر میں اکادمی کے سینئر کارکن محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار ڈاکٹر سعید عالم کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے اس پیشکش کی قدردانی کی۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔
دلی این سی آر
اردو اکادمی کے زیر اہتمام ڈراما فیسٹول کے تیسرے روز منٹو کی کہانی ’’جیب کترا‘‘ کی متاثر کن پیشکش
(پی این این)
نئی دہلی:سعادت حسن منٹو کا شمار اردو افسانے کے اُن چند نادر تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور معاشرتی برائیوں کو بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کیا۔انھوں نے اپنے قلم کے زور سے سماج کے دوہرے چہروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ ان کا فن زندگی کی کڑوی حقیقتوں، انسانی کمزوریوں اور معاشرتی تضادات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر حقیقت پسندانہ ہے، جس میں طنز و مزاح کے پہلو بھی نمایاں ہیں۔ منٹو کے فن کی یہی خوبیاں انھیںاردو فکشن کا ایک منفرد اور لازوال افسانہ نگار بناتی ہیں۔
اردو اکادمی ،دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ’’اردو ڈراما فیسٹول‘‘ کے تیسرے دن منٹو کی یہی فنی و فکری خوبیاں ناظرین کے دل و دماغ پر اثرانداز رہیں۔ آج شام شری رام سینٹر میں اداکار تھیٹر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام منٹو کے معروف افسانے ’’جیب کترا‘‘ کو اسٹیج پر پیش کیا گیا، جس کی ہدایت کاری معروف تھیٹر فنکار جناب ہمت سنگھ نیگی نے کی۔ڈرامے کی پیشکش سے قبل ناظمِ محفل جناب مالک اشتر نے منٹو کے فکر و فن اور تھیٹر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی، جس کے بعد کہانی کی پیشکش نے ناظرین کو گہرے تاثرات میں ڈبو دیا۔
یہ کہانی ایک جیب کترے ’’کاشی‘‘ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو حالات کے جبر کے تحت چوری پر مجبور ہے۔ ایک دن بازار میں وہ ’’بملا‘‘ نامی عورت کا بٹوہ چرالیتا ہے، مگر اس میں موجود ایک خط کی افسردہ تحریر اسے پشیمان کردیتی ہے۔ اسے بملا کی زندگی میں غم اور مایوسی کے ایسے آثار نظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ انکشاف کاشی کے دل میں ندامت اور انسانیت دونوں کو بیدار کردیتا ہے۔ وہ بملا سے اپنے جرم کی معافی مانگتا ہے اور اس کی زندگی میں دم توڑتی امید کو پھر سے جلا بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔بدلے میں بملا وعدہ کرتی ہے کہ وہ کاشی کو ایک بہتر انسان بننے میں مدد کرے گی، مگر برسوں کی چوری نے کاشی کو ’’کلیپٹو مینیا‘‘ جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا کردیا تھا، جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ کہانی کا کلائمکس اس وقت آتا ہے جب بملا اپنی مجبوریوں کے باعث کاشی سے دوبارہ چوری کرنے کو کہتی ہے، لیکن اس بار کاشی انکار کردیتا ہے کیونکہ وہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ عزم کرچکا ہوتا ہے۔ کہانی کا اختتام علامتی اور فکرانگیز انداز میں ہوتا ہے، جو ناظرین کے ذہنوں پر یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ کیا کاشی اپنی نئی راہ پر قائم رہ پائے گا یا حالات اسے دوبارہ جرم کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔
یہ ڈراما کل اٹھارہ کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں دو مرکزی، دو معاون اور چودہ ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی سات بنیادی اور تین ضمنی مناظر پر مشتمل تھی۔ فنکاروں نے اپنی بے مثال اداکاری اور جذباتی گہرائی کے ساتھ منٹو کی سادہ زبان کو اس طرح مجسم کیا کہ ناظرین کے لیے افسانوی کردار اور تھیٹر اداکار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ معاون و ضمنی فنکاروں نے بھی اپنے دلچسپ مکالموں، گہرے تاثرات اور مزاحیہ حرکات کے ذریعے کہانی کے جذباتی توازن کو آخر تک برقرار رکھا۔مختصر یہ کہ یہ ڈراما نہ صرف فنِ اداکاری کے اعتبار سے کامیاب رہا بلکہ اپنے جامع و مؤثر اسکرپٹ، اثرانگیز مکالموں اور فنی پیشکش کے باعث ناظرین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔
ڈرامے کے اختتام پر اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار جناب ہمت سنگھ نیگی کو مومینٹو اور گلدستہ پیش کر کے ان کی شاندار پیشکش کو سراہا۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبا کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر10 مہینے agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر11 مہینے agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر11 مہینے agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ12 مہینے agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار6 مہینے agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ12 مہینے agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
