اتر پردیش
خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے پی ایچ ڈی مقالہ نگاروں کے لیے جامع اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد
(پی این این)
لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے داخلہ یافتہ پی ایچ ڈی تحقیق کاروں کے لیے ایک مربوط، منظم اور معلوماتی اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد اٹل ہال میں کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد تحقیق کاروں کو جامعہ کی پالیسیوں، تحقیقی ڈھانچے، علمی وسائل اور قوانین سے واقف کرانا تھا، تاکہ وہ اپنی تحقیقی زندگی کا آغاز باشعور اور منظم انداز میں کرسکیں۔
اس پروگرام کے آغاز میں ریسرچ کوارڈینیٹر پروفیسر چندنا ڈے نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس موضوع کی اہمیت و معنی خیزیت اور ضرورت پر اظہار خیال کیا۔ مختصر استقبالیہ کلمات کے بعد یونیورسٹی کےوائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں اس پروگرام کو تحقیق کے نئے سفر کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ابتدائی مرحلہ تحقیق کاروں کو علمی دنیا کے بنیادی اصولوں، تحقیقی عمل کی باریکیوں اور اس شعبے کی مخصوص ذمہ داریوں سے روشناس کراتا ہے۔پروفیسر اجےتنیجا نے واضح کیا کہ تحقیق کسی بھی شعبے کی ترقی کا بنیادی ستون ہے اور محققین ہی مستقبل کی سمت متعین کرنے والے ’’سنگِ میل‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ انھوںنے نئے اسکالرز کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے تحقیقی موضوعات کا انتخاب کریں جو بدلتی ہوئی سماجی ضروریات اور جدید صنعتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
اس اورینٹیشن پروگرام کے مہمان خصوصی اورلکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم کے صدر پروفیسر دنیش کمار نے اپنے خطاب میں ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی تحقیقی مقالے کے موضوع کے تعین سے پہلے نہ صرف اپنی دلچسپی کے مضامین کا مطالعہ ضروری ہے بلکہ تازہ ریسرچ جرنلز، میگزینز اور ڈیجیٹل رپوزیٹریز کا باقاعدہ جائزہ بھی انتہائی اہم ہے۔ ان کے مطابق ایک اچھی تحقیق کی بنیاد اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب طالبِ علم یہ سمجھ سکے کہ اس موضوع پر پہلے سے کتنا کام ہو چکا ہے اور موجودہ عہد کے مطابق کون سا پہلو نیا یا قابلِ تحقیق ہے۔
انھوں نےطلبہ کو تفصیلی رہنمائی دیتے ہوئے کہا کہ موضوع کی ابتدا بہتر طور پر کلیدی الفاظ طے کرنے سے ہونی چاہیے۔ ان ہی الفاظ کی مدد سے شعبہ جاتی ڈیٹابیسز میں ابتدائی تلاش کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی موضوع پر متعدد تازہ تحقیقات ملتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس پر خاصا کام موجود ہےتاہم طالب علم انھیں مطالعات کے اندر موجود خلا کو تحقیق کے ذریعے اپنا نیا زاویہ طے کر سکتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ریسرچ اسکالرز کو لٹریچر ریویو کے دورا ن قدیم و جدید حوالہ جات، پی ایچ ڈی تھیسسز اور کانفرنس پروسیڈنگز کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیےجس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موضوع کن جہات سے مکمل ہے اور کہاں مزید تحقیق کی گنجائش باقی ہے۔تبدیل ہو تے وقت اور ڈیجیٹل عہد کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مشورہ دیا کہ طلبہ اپنے موضوع کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ٹیکنالوجیکل، سماجی یا انڈسٹری بیسڈ پہلو شامل کریں۔اساتذہ نے مزید کہا کہ اگر کسی موضوع پر پہلے سے بہت زیادہ کام موجود ہو تو طلبہ اسکوب کو محدود کر کے (مثلاً مخصوص علاقے، گروہ یا ٹیکنالوجی تک)، نئی میتھوڈولوجی اختیار کر کے یا تقابلی مطالعہ شامل کر کے اپنے مقالے کو منفرد بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کرنا ضروری ہےجو یہ بتائے کہ طالب علم کا مطالعہ کیوں منفرد اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگ ہے۔
آخر میں انھوں اس بات پربھی زور دیا کہ موضوع طے کرنے کے فوراً بعد طلبہ کو اپنے سپروائزر کے ساتھ ابتدائی نتائج، تلاش شدہ حوالہ جات اور ممکنہ تحقیقی مسائل شیئر کرنا چاہیے تاکہ مقالے کی سمت درست رکھی جا سکے۔ان کے مطابق ایک کامیاب ریسرچ وہی ہے جو موجودہ علمی مباحث، سماجی ضرورت اور نئے فنی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔اس پروگرام کی نظامت اور شکریے کے الفاظ ڈاکٹر روچیتا سجائے نے ادا کیا۔اس موقع پر اساتذہ کے علاوہ سبھی شعبہ جات کے ریسرچ اسکالرس موجود رہے اور ان ریسرچ اسکالرس نےپروفیسر دنیش کمار سے بہت سے سولات بھی کئے جس کاانھوں نے تشفی بخش جوابات دیا۔
اتر پردیش
پروفیسر نعیمہ خاتون نے جے این میڈیکل کالج میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا کیاافتتاح
(پی این این)
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا افتتاح کیا اور بچوں کے امراض اور امراضِ نسواں و زچگی کے شعبوں کے اشتراک سے منعقدہ کنٹینیونگ میڈیکل ایجوکیشن (سی ایم ای) پروگرام کے دوران امراض سے متعلق آگہی مہم کا آغاز کیا۔ حکومتِ ہند کے محکمہ بایو ٹکنالوجی سے تعاون یافتہ یہ اقدام مغربی اتر پردیش میں جینیاتی تشخیص اور زچہ و بچہ صحت کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔تنظیمی سربراہان پروفیسر تمکین خان (امراضِ نسواں و زچگی) اور پروفیسر زیبا ذکاء الرّب (شعبہ امراض اطفال) نے مندوبین کا خیرمقدم کیا۔
اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے نِدان کیندر کے قیام کو تحقیق پر مبنی کلینیکل خدمات، کمیونٹی آؤٹ ریچ اور بیماریوں کی بروقت تشخیص کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔ مالیاتی مرحلے کے دوران کلیدی تعاون فراہم کرنے پر پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد محسن خان کو بھی سراہا گیا، جس کی بدولت اہم لیبارٹری آلات کی بروقت خریداری ممکن ہو سکی۔تقریب میں مہمانِ اعزازی پروفیسر سیما کپور (ڈائریکٹر، ڈپارٹمنٹ آف میڈیکل جینیٹکس، ایم اے ایم سی) کے علاوہ پروفیسر مدھولیکا کابرا (سائنس داں ایمرٹس، آئی سی ایم آر) اور پروفیسر کوشک منڈل (ایس جی پی جی آئی)بطور خاص شریک ہوئے۔
ڈی بی ٹی کے 2.12 کروڑ روپے کے گرانٹ سے قائم اُمّید-نِدان کیندر میں مختلف خدمات فراہم کی جائیں گی، جن میں قبل از پیدائش تھیلیسیمیا جانچ، پیدائشی نقائص کی اسکریننگ، نوزائیدہ بچوں کی پانچ بیماریوں کی جانچ اور جینیاتی ٹیسٹنگ اور مشاورت شامل ہیں۔ یہ تمام خدمات بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہیں، اور یہ مرکز ہر کام کے دن میں صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک کھلا رہے گا۔انٹرڈسپلینری ٹیم کی قیادت پروجیکٹ کوآرڈینیٹر اور پرنسپل انویسٹی گیٹر پروفیسر تمکین خان کر رہی ہیں، جبکہ ڈاکٹر عائشہ احمد اور ڈاکٹر گلنار نادری (شعبہ امراض اطفال)، پروفیسر حامد اشرف (اینڈوکرائنولوجی)، ڈاکٹر مہدی حیات شاہی (آئی بی آر سی)، پروفیسر افضل (زولوجی) اور ڈاکٹر احمد فراز (فزیالوجی) بھی اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر زہرہ محسن (چیئرپرسن، امراض نسواں و زچگی) کے تعاون کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا۔اپنی جدید سہولیات کے ساتھ، ڈی بی ٹی–نِدان کیندر، خطے میں جینیاتی بیماریوں کے لیے ایک امتیازی مرکزکے طور پر ابھرنے کے لیے تیار ہے۔
اتر پردیش
تعاون اور ہم آہنگی سے ملتی ہےعملی زندگی میں کامیابی: پروفیسر ثوبان سعید
لینگویج یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیےاستقبالیہ تقریب
(پی این این)
لکھنؤ: خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کے شعبہ ٔ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیے استقبالیہ تقریب کا انعقاد بزم ادب کی جانب سے کیا گیا۔ اس تقریب میں بی اے سال اول اور ایم سال اول کا استقبال کیا گیا ۔ اس استقبالیہ تقریب میںپی ایچ ڈی کے طالب علم اور بزم ادب کے سکریٹری محمد نسیم نے طلبہ اور اساتذہ کا خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ تقریب کچھ تاخیر سے منعقد ہو رہی ہے مگر دیر آید درست آیدکے مصداق یہ ایک خوشگوار موقع ہے۔انھوں نے اپنے اسقبالیہ کلمات میں اردو زبان و ادب میں بی اے اور ایم اے کرنے والے طلبہ ان معنوں میں خوش نصیب ہیں کہ انھیں ادبی نگارشات کے توسط سے حیات و کائنات کے ایسے اسرار سےآگہی ہوتی ہے جو زندگی کے پر پیچ مراحل سے سرخرو گزرنے میں ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔
انھوں نے زبان اور کلچر کے ربط باہم کے تناظر میں اردو پڑھنے کی اہمیت کو بیان کیا اور نووارد طلبہ سے کہا کہ اس شعبے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ کلاس روم کی تدریس کے ساتھ طلبہ کی تعلیمی اور اخلاقی تربیت میں ہر وقت ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔محمد نسیم کے استقبالیہ کلمات کے بعد نو واردریسرچ اسکالرس ،ایم اے سال اول اور بی اے سال اول کے طلبہ نے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ اس یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ ایک ذمہ دار شہری بننے کی کوشش کریں گے تاکہ اپنے سماج اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں تعاون کر سکیں۔ ان طلبہ نے اساتذہ کو یہ یقین دلایا کہ وہ پوری محنت اور دیانت داری کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گے تاکہ زبان اور کلچر کے تحفظ میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
اس استقبالیہ تقریب میں شعبہ ٔ اردو کے صدر پروفیسر ثوبان سعیدپنے اپنے خطاب میں نو وارد طلبہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی زندگی محض کتابی علم تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی شخصیت، سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارنے کا سنہرا دور ہوتا ہے۔ انھوں نے طلبہ کو یقین دلایا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ اور سینئر طلبہ ہر مرحلے پر ان کی رہنمائی، مدد اور حوصلہ افزائی کے لیے موجود رہیں گے تاکہ تعلیمی سفر ان کے لیے آسان اور بامقصد بن سکے۔انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ یونیورسٹی کے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، نظم و ضبط اور وقت کی قدر کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں، خود اعتمادی کو مضبوط رکھیں اور مسلسل سیکھنے کا جذبہ پیدا کریں۔ پروفیسر ثوبان سعید نے اس بات پر زور دیا کہ عملی زندگی میں کامیابی اُسی کو ملتی ہے جو تعاون، ہم آہنگی اور اتفاق کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ آخر میں انھوں نے طلبہ کے روشن، کامیاب اور باوقار مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اس موقع پر پروفیسر فخر عالم نے استقبالیہ تقریب کے کامیاب انعقاد پر بزمِ ادب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ شعبۂ اردو کی یہ روایت نہایت قابلِ قدر ہے کہ وہ ہر سال نو وارد طلبہ کے لیے اس نوعیت کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بزمِ ادب محض ایک ادبی انجمن نہیںبلکہ یہ طلبہ کی فکری تربیت، تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری اور ادبی ذوق کی نشوونما کا اہم پلیٹ فارم ہے۔
پروفیسر فخر عالم نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ایسی تقریبات طلبہ میں اعتماد، بیان کی مہارت، تخلیقی شعور اور علمی وابستگی کے جذبات کو مضبوط کرتی ہیں۔انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ بزمِ ادب کی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کو کلاس روم سے باہر ایک وسیع علمی فضا فراہم کرتے ہیںجہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکتے ہیں اور اپنی شخصیت کو بہتر طور پر نکھار سکتے ہیں۔ اس تقریب میں طلبہ نے غزلیں ،نظمیں ،مزاحیہ تقاریر،ادبی لطائف اور دیگر تخلیقی مظاہرے پیش کئے۔اس کے ساتھ ہی بزم ادب کے زیر اہتمام مقابلہ جاتی نشست منعقد ہوئی جس میں طلبہ نے بھرپور حصہ لیا۔اس تقریب کی نظامت ریسرچ اسکالر حسن اکبر اور شکریے کے کلمات ریسرچ اسکالر عبداللہ نے ادا کئے۔
اتر پردیش
خانقاہی نظام سے ہی انسانیت کی بقا: عبید اللہ خاں اعظمی
(پی این این)
رام پور:خانقاہ احمدیہ قادریہ میں عرس مبارک کی آخری پرُ کیف محفل منعقد ہوئی۔ قرآن خوانی ہوئی بعدہ قل شریف پڑھا گیا۔ بعد نماز مغرب محفل وعظ و نصیحت کاآغازقاری محمد مامون خاں فرقانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔خانقاہ کے مہتمم اورنواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمد شعائر اللہ خاں قادری وجیہی نے خانقاہ احمدیہ قادریہ کے بزرگان دین کی حیات و خدمات پر اپنی تعارفی تقریرمیں روشنی ڈالی کہا کہ خانقاہ احمدیہ کی بافیض علمی اور روحانی خانقاہ ہے،اس خانقاہ کے سب سے بڑے بزرگ حضرت سیدنا شاہ احمد علی سلسلۂ عالیہ قادریہ مجددیہ کے عظیم صوفی تھے۔آپ اپنی خانقاہ میں پچیس سال تک گوشہ نشین ہوکر عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔
عرس مبارک کی محفل میں دہلی سے تشریف لائے ہوئے ناظم جلسہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی (کنوینر خسرو فاؤنڈیشن) نے محفل میں پُرجوش خطاب کیا۔انھوں نے کہا کہ رام پور دہلی اور لکھنؤ کے بعد تیسرا دبستان کہلاتا ہے،اس سرزمین کوجہاں مرزا غالب ،ؔداغؔ دہلوی اور امیر مینائیؔ جیسی ہستیوں نے اپنا مسکن بنایا تو وہیں ملّا محمد حسن فرنگی محلیؒ، علّامہ فضل حق خیرآبادیؒ،مفتی ارشاد حسین مجددی ؒ،مولانا سلامت اللہ رام پوریؒ،مولوی عبد الغفار خاںؒ اور بیسویں صدی کی بحر العلوم شخصیت خطیب اعظم مولانا شاہ وجیہ الدین احمد خاں قادری مجددیؒ جیسی باکمال اور بافیض ہستیوں نے اپنے علم و عمل اور زہدوتقویٰ کی دولت سے اہل شہر کو مالا مال فرمایا۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے سابق ممبر پارلیمنٹ علّامہ عبید اللہ خاں اعظمی (نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)کا تعارف کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی نے کہا کہ مولانا عبید اللہ خاں دور حاضر میں ہندوستان کی مایہ ناز علمی شخصیت ہیں،آپ نے اپنی زندگی مظلوم اور کمزوروں کی آواز بن کر گزاری۔ہندوستان کے ایوان بالا(راجیہ سبھا) میں ملّی مسائل پر کی گئیں آپ کی تقاریر آج بھی یادگار ہیں۔
آخر میں مہمان خصوصی عبید اللہ خاں اعظمی نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خانقاہیں اصل میں راہ بہشت ہمارے لیے آسان کرتی ہیں ان خانقاہوں کی تعلیم شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت و معرفت پر بھی مبنی ہوتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو طریقت ومعرفت کی ایسی راہ دکھائی کہ انسان کو حقیقی انسان بنادیا ایک دوسرے کا دردمن بنادیا۔یہی تعلیم آج بھی ان خانقاہوں میں جاری و ساری ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ حضرات بہت خوش نصیب ہیں کہ خانقاہ احمدیہ کے عرس مبارک میں صوفیائے کاملین کا فیض پانے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔حضرت شاہ احمد علی خاں اور مولانا وجیہ الدین خاںؒ انیسویں اور بیسویں صدی کے عظیم المرتبت صوفی تھے جنہوں نے عوام و خواص کی خدمت کواپنا شعار بنایا ۔ غمخواروں کے غموں کو دور کیا ، زخم زدہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے اور تشنگان علوم کو سیراب کیا۔مولانا عبید اللہ خاں نے کہا کہ رام پور کی خانقاہ قادریہ مجددیہ نے پچھلی دو صدیوں میں اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں عظیم خدمات انجام دیں ہیں، اور حسبِ روایت حقیقی اعتدال کو اس خانقاہ نے آج بھی باقی رکھا ہے۔رام پورہمیشہ سے ہی اعتدال کا حقیقی مسکن رہا ہے جو اعتدال حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی مبارک تعلیمات سے دنیا میں پھیلاوہ آج تک انہی بزرگانِ دین کے ذریعہ سے باقی ہے اور انشاء اللہ تاقیامت باقی رہے گا۔صوفیائے کاملین کے مبارک طریقہ میں ہی ہمارے لئے راہِ نجات ہے۔
مولانا نے کہا کہ کامل ولی وہی ہوتا ہے جو ایک طرف شریعت اسلامی کی تعلیم سے آراستہ ہو اور دوسری طرف تعلیمات عرفانی سے بہرہ مند ہو اسی وقت اس کی مبارک تعلیم سے بہتر معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ جو شخص علم شریعت و طریقت سے واقف نہیں ہے وہ صوفی نہیں ہوسکتا۔مجددی صوفیائے کرام میں طریقت کے چاروں سلاسل مزین رہتے ہیں اور ان کی خانقاہوں میں نقش بندی اور قادری فیضان ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ عصر حاضر میں خانقاہی نظام کا جو پیغام امن ومحبت ہے اس کی نشرواشاعت کی اشد ضرورت ہے تاکہ حقیقی تصوف اور تعلیمات نبوی سماج میں عام ہوسکے اور ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل ہوسکے۔مہمان خصوصی کی ڈیڑھ گھنٹہ کی مدلل تقریر سے ہزاروں سامعین خوب محظوظ ہوئے۔ مولانا موصوف کی تقریر کے بعد نواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمدشعائر اللہ خاں وجیہی قادری نے فرمایا کہ ہم مہمان خصوصی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ مولانا موصوف ہماری فرمائش پر تشریف لائے اور پُر مغز خطاب فرمایا۔
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر10 مہینے agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر11 مہینے agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر11 مہینے agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ12 مہینے agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار6 مہینے agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ12 مہینے agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
