Connect with us

اتر پردیش

خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں ” جی 20 اعلامیہ اور ہندوستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں کا فروغ : مسائل و امکانات ” میں 2رزہ سیمینارکا آغاز

Published

on

(پی این این)
لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں” جی 20 اعلامیہ اور ہندوستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں کا فروغ : مسائل و امکانات ” دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔آج سیمینار کے پہلے دن افتتاحی اجلاس کے ساتھ دو تکنیکی اجلاس منعقد کیا گیا ۔اس سیمینار کے آغاز میں ڈاکٹر نلنی مشرا نے مہمانوں کا شکریے ادا کرتے ہوئے سیمینار کے موضوع اور اس کی اہمیت و معنی خیزیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نہایت اہم اور بر وقت موضوع ہے۔ آج جب دنیا ایک نئے عالمی نظم کی تشکیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے تو ہندوستانی نوجوان اس تبدیلی کے محور بن کر ابھر رہے ہیں۔ جی-20 کے اعلامیے نے ترقی، پائیداری، شمولیت اور اختراع کو جس طرح مرکزِ توجہ بنایا ہے وہ براہِ راست نوجوان نسل کی توانائی، فکر اور قیادت سے جڑا ہوا ہے۔ہندوستان اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی نوجوان قوم ہے اور یہی نوجوان اس ملک کی حقیقی طاقت اور امکانات کے امین ہیں۔ مگر ان کی صلاحیتوں کے فروغ میں کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ایسے وقت میں یہ ضروری ہے کہ ہم نہ صرف نوجوانوں کے سامنے موجود مسائل کو سمجھیں بلکہ ان امکانات کی بھی نشاندہی کریں جو ان کی توانائی کو صحیح سمت دے سکیں۔
اس افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے لینگویج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے کہا کہ ہندوستان نے جی 20 اعلامیےاعلامیے کوایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل کے پیغام کے ساتھ نئی روح عطا کی اور یہ پیغام محض ایک سیاسی نعرہ نہیںبلکہ ایک تہذیبی تصور ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی ترقی کی اصل بنیاد نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر استوار ہے۔لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مہمان خصوصی پروفیسر منوکا کھنہ نے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے نوجوان آج اس عہد کے سب سے بڑے سرمایےہیں اور ایک ایسی قوت جو تخلیق بھی کر سکتی ہے، قیادت بھی کر سکتی ہےاور دنیا کو نئی سمت بھی دے سکتی ہے۔ہمارے نوجوان آج سائنس، ٹیکنالوجی، فنون، ادب اور معیشت کے ہر میدان میں اپنی شناخت قائم کر رہے ہیں۔یہی وہ نسل ہے جو اپنے عزم و ارادے سے ہندوستان کو عالمی برادری میں قیادت کی صفِ اوّل میں کھڑا کر سکتی ہے۔انھوں نےمزید کہا کہ جی 20 کی روح اجتماعیت، اشتراک اور شمولیت پر مبنی ہےاور ہندوستان نے اس فورم کو صرف ایک سیاسی یا معاشی اتحاد کے طور پر نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی تحریک کی شکل میں پیش کیا ہے۔
ایک اہم مقرر اور مہمان ذی وقار پروفیسر لو کش مشرانے جی 20 کی تاریخی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جی 20 صرف ایک اقتصادی یا سفارتی فورم نہیںبلکہ عالمی ہم آہنگی، اجتماعی ترقی اور انسانی فلاح کا ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے دنیا کو ایک نئی فکری سمت عطا کی ہے۔انھوں نے کہا کہ جی 20 کے قیام سے لے کر آج تک اس نے دنیا کی معیشت کو استحکام بخشنے، غربت کے خاتمے، ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اس افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر نیرج شکلا نے کی ۔
اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے جی 20 اعلامیے نے نوجوانوں کو عالمی ترقی کے مرکزی ستون کے طور پر تسلیم کیا ہے۔یہ اعلامیہ صرف اقتصادی یا سیاسی مفادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ایسا فکری منشور ہے جو مساوات، اشتراک، اجتماعیت اور پائیدار ترقی کے اصولوں پر استوار ہے۔پروفیسر سنتوش گوڈ( جواہر لال نہرو میموریل پی جی کالج بارہ بنکی ) اور پروفیسر دیپالی سنگھ( مہیلا مہا ودیالیہ پی جی کالج کانپور)نےاس اہم موضوع کے دوسرے حصے مسائل اور امکانات پر تفصیل سے گفتگو کی۔اس دوسرے تکنیکی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر محمد اکمل کی ۔اس سیمینار کے دونوں تکنیکی اجلاس میں اس اہم موضوع کے تعلق سے مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کئے جن پر سوالات بھی قائم کئے گئے اور مقالہ نگاروں نے ان کے تشفی بخش جوابات بھی دیئے۔اس سیمینار مختلف شعبوں کے اساتذہ کے علاوہ طلبہ نے بھی کثرت کے ساتھ شرکت کی۔

اتر پردیش

پروفیسر نعیمہ خاتون نے جے این میڈیکل کالج میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا کیاافتتاح

Published

on

(پی این این)
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا افتتاح کیا اور بچوں کے امراض اور امراضِ نسواں و زچگی کے شعبوں کے اشتراک سے منعقدہ کنٹینیونگ میڈیکل ایجوکیشن (سی ایم ای) پروگرام کے دوران امراض سے متعلق آگہی مہم کا آغاز کیا۔ حکومتِ ہند کے محکمہ بایو ٹکنالوجی سے تعاون یافتہ یہ اقدام مغربی اتر پردیش میں جینیاتی تشخیص اور زچہ و بچہ صحت کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔تنظیمی سربراہان پروفیسر تمکین خان (امراضِ نسواں و زچگی) اور پروفیسر زیبا ذکاء الرّب (شعبہ امراض اطفال) نے مندوبین کا خیرمقدم کیا۔
اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے نِدان کیندر کے قیام کو تحقیق پر مبنی کلینیکل خدمات، کمیونٹی آؤٹ ریچ اور بیماریوں کی بروقت تشخیص کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔ مالیاتی مرحلے کے دوران کلیدی تعاون فراہم کرنے پر پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد محسن خان کو بھی سراہا گیا، جس کی بدولت اہم لیبارٹری آلات کی بروقت خریداری ممکن ہو سکی۔تقریب میں مہمانِ اعزازی پروفیسر سیما کپور (ڈائریکٹر، ڈپارٹمنٹ آف میڈیکل جینیٹکس، ایم اے ایم سی) کے علاوہ پروفیسر مدھولیکا کابرا (سائنس داں ایمرٹس، آئی سی ایم آر) اور پروفیسر کوشک منڈل (ایس جی پی جی آئی)بطور خاص شریک ہوئے۔
ڈی بی ٹی کے 2.12 کروڑ روپے کے گرانٹ سے قائم اُمّید-نِدان کیندر میں مختلف خدمات فراہم کی جائیں گی، جن میں قبل از پیدائش تھیلیسیمیا جانچ، پیدائشی نقائص کی اسکریننگ، نوزائیدہ بچوں کی پانچ بیماریوں کی جانچ اور جینیاتی ٹیسٹنگ اور مشاورت شامل ہیں۔ یہ تمام خدمات بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہیں، اور یہ مرکز ہر کام کے دن میں صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک کھلا رہے گا۔انٹرڈسپلینری ٹیم کی قیادت پروجیکٹ کوآرڈینیٹر اور پرنسپل انویسٹی گیٹر پروفیسر تمکین خان کر رہی ہیں، جبکہ ڈاکٹر عائشہ احمد اور ڈاکٹر گلنار نادری (شعبہ امراض اطفال)، پروفیسر حامد اشرف (اینڈوکرائنولوجی)، ڈاکٹر مہدی حیات شاہی (آئی بی آر سی)، پروفیسر افضل (زولوجی) اور ڈاکٹر احمد فراز (فزیالوجی) بھی اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر زہرہ محسن (چیئرپرسن، امراض نسواں و زچگی) کے تعاون کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا۔اپنی جدید سہولیات کے ساتھ، ڈی بی ٹی–نِدان کیندر، خطے میں جینیاتی بیماریوں کے لیے ایک امتیازی مرکزکے طور پر ابھرنے کے لیے تیار ہے۔

Continue Reading

اتر پردیش

تعاون اور ہم آہنگی سے ملتی ہےعملی زندگی میں کامیابی: پروفیسر ثوبان سعید

Published

on

لینگویج یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیےاستقبالیہ تقریب
(پی این این)
لکھنؤ: خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کے شعبہ ٔ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیے استقبالیہ تقریب کا انعقاد بزم ادب کی جانب سے کیا گیا۔ اس تقریب میں بی اے سال اول اور ایم سال اول کا استقبال کیا گیا ۔ اس استقبالیہ تقریب میںپی ایچ ڈی کے طالب علم اور بزم ادب کے سکریٹری محمد نسیم نے طلبہ اور اساتذہ کا خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ تقریب کچھ تاخیر سے منعقد ہو رہی ہے مگر دیر آید درست آیدکے مصداق یہ ایک خوشگوار موقع ہے۔انھوں نے اپنے اسقبالیہ کلمات میں اردو زبان و ادب میں بی اے اور ایم اے کرنے والے طلبہ ان معنوں میں خوش نصیب ہیں کہ انھیں ادبی نگارشات کے توسط سے حیات و کائنات کے ایسے اسرار سےآگہی ہوتی ہے جو زندگی کے پر پیچ مراحل سے سرخرو گزرنے میں ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔
انھوں نے زبان اور کلچر کے ربط باہم کے تناظر میں اردو پڑھنے کی اہمیت کو بیان کیا اور نووارد طلبہ سے کہا کہ اس شعبے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ کلاس روم کی تدریس کے ساتھ طلبہ کی تعلیمی اور اخلاقی تربیت میں ہر وقت ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔محمد نسیم کے استقبالیہ کلمات کے بعد نو واردریسرچ اسکالرس ،ایم اے سال اول اور بی اے سال اول کے طلبہ نے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ اس یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ ایک ذمہ دار شہری بننے کی کوشش کریں گے تاکہ اپنے سماج اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں تعاون کر سکیں۔ ان طلبہ نے اساتذہ کو یہ یقین دلایا کہ وہ پوری محنت اور دیانت داری کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گے تاکہ زبان اور کلچر کے تحفظ میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
اس استقبالیہ تقریب میں شعبہ ٔ اردو کے صدر پروفیسر ثوبان سعیدپنے اپنے خطاب میں نو وارد طلبہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی زندگی محض کتابی علم تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی شخصیت، سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارنے کا سنہرا دور ہوتا ہے۔ انھوں نے طلبہ کو یقین دلایا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ اور سینئر طلبہ ہر مرحلے پر ان کی رہنمائی، مدد اور حوصلہ افزائی کے لیے موجود رہیں گے تاکہ تعلیمی سفر ان کے لیے آسان اور بامقصد بن سکے۔انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ یونیورسٹی کے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، نظم و ضبط اور وقت کی قدر کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں، خود اعتمادی کو مضبوط رکھیں اور مسلسل سیکھنے کا جذبہ پیدا کریں۔ پروفیسر ثوبان سعید نے اس بات پر زور دیا کہ عملی زندگی میں کامیابی اُسی کو ملتی ہے جو تعاون، ہم آہنگی اور اتفاق کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ آخر میں انھوں نے طلبہ کے روشن، کامیاب اور باوقار مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اس موقع پر پروفیسر فخر عالم نے استقبالیہ تقریب کے کامیاب انعقاد پر بزمِ ادب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ شعبۂ اردو کی یہ روایت نہایت قابلِ قدر ہے کہ وہ ہر سال نو وارد طلبہ کے لیے اس نوعیت کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بزمِ ادب محض ایک ادبی انجمن نہیںبلکہ یہ طلبہ کی فکری تربیت، تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری اور ادبی ذوق کی نشوونما کا اہم پلیٹ فارم ہے۔
پروفیسر فخر عالم نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ایسی تقریبات طلبہ میں اعتماد، بیان کی مہارت، تخلیقی شعور اور علمی وابستگی کے جذبات کو مضبوط کرتی ہیں۔انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ بزمِ ادب کی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کو کلاس روم سے باہر ایک وسیع علمی فضا فراہم کرتے ہیںجہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکتے ہیں اور اپنی شخصیت کو بہتر طور پر نکھار سکتے ہیں۔ اس تقریب میں طلبہ نے غزلیں ،نظمیں ،مزاحیہ تقاریر،ادبی لطائف اور دیگر تخلیقی مظاہرے پیش کئے۔اس کے ساتھ ہی بزم ادب کے زیر اہتمام مقابلہ جاتی نشست منعقد ہوئی جس میں طلبہ نے بھرپور حصہ لیا۔اس تقریب کی نظامت ریسرچ اسکالر حسن اکبر اور شکریے کے کلمات ریسرچ اسکالر عبداللہ نے ادا کئے۔

Continue Reading

اتر پردیش

خانقاہی نظام سے ہی انسانیت کی بقا: عبید اللہ خاں اعظمی

Published

on

(پی این این)
رام پور:خانقاہ احمدیہ قادریہ میں عرس مبارک کی آخری پرُ کیف محفل منعقد ہوئی۔ قرآن خوانی ہوئی بعدہ قل شریف پڑھا گیا۔ بعد نماز مغرب محفل وعظ و نصیحت کاآغازقاری محمد مامون خاں فرقانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔خانقاہ کے مہتمم اورنواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمد شعائر اللہ خاں قادری وجیہی نے خانقاہ احمدیہ قادریہ کے بزرگان دین کی حیات و خدمات پر اپنی تعارفی تقریرمیں روشنی ڈالی کہا کہ خانقاہ احمدیہ کی بافیض علمی اور روحانی خانقاہ ہے،اس خانقاہ کے سب سے بڑے بزرگ حضرت سیدنا شاہ احمد علی سلسلۂ عالیہ قادریہ مجددیہ کے عظیم صوفی تھے۔آپ اپنی خانقاہ میں پچیس سال تک گوشہ نشین ہوکر عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔
عرس مبارک کی محفل میں دہلی سے تشریف لائے ہوئے ناظم جلسہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی (کنوینر خسرو فاؤنڈیشن) نے محفل میں پُرجوش خطاب کیا۔انھوں نے کہا کہ رام پور دہلی اور لکھنؤ کے بعد تیسرا دبستان کہلاتا ہے،اس سرزمین کوجہاں مرزا غالب ،ؔداغؔ دہلوی اور امیر مینائیؔ جیسی ہستیوں نے اپنا مسکن بنایا تو وہیں ملّا محمد حسن فرنگی محلیؒ، علّامہ فضل حق خیرآبادیؒ،مفتی ارشاد حسین مجددی ؒ،مولانا سلامت اللہ رام پوریؒ،مولوی عبد الغفار خاںؒ اور بیسویں صدی کی بحر العلوم شخصیت خطیب اعظم مولانا شاہ وجیہ الدین احمد خاں قادری مجددیؒ جیسی باکمال اور بافیض ہستیوں نے اپنے علم و عمل اور زہدوتقویٰ کی دولت سے اہل شہر کو مالا مال فرمایا۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے سابق ممبر پارلیمنٹ علّامہ عبید اللہ خاں اعظمی (نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)کا تعارف کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی نے کہا کہ مولانا عبید اللہ خاں دور حاضر میں ہندوستان کی مایہ ناز علمی شخصیت ہیں،آپ نے اپنی زندگی مظلوم اور کمزوروں کی آواز بن کر گزاری۔ہندوستان کے ایوان بالا(راجیہ سبھا) میں ملّی مسائل پر کی گئیں آپ کی تقاریر آج بھی یادگار ہیں۔
آخر میں مہمان خصوصی عبید اللہ خاں اعظمی نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خانقاہیں اصل میں راہ بہشت ہمارے لیے آسان کرتی ہیں ان خانقاہوں کی تعلیم شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت و معرفت پر بھی مبنی ہوتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو طریقت ومعرفت کی ایسی راہ دکھائی کہ انسان کو حقیقی انسان بنادیا ایک دوسرے کا دردمن بنادیا۔یہی تعلیم آج بھی ان خانقاہوں میں جاری و ساری ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ حضرات بہت خوش نصیب ہیں کہ خانقاہ احمدیہ کے عرس مبارک میں صوفیائے کاملین کا فیض پانے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔حضرت شاہ احمد علی خاں اور مولانا وجیہ الدین خاںؒ انیسویں اور بیسویں صدی کے عظیم المرتبت صوفی تھے جنہوں نے عوام و خواص کی خدمت کواپنا شعار بنایا ۔ غمخواروں کے غموں کو دور کیا ، زخم زدہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے اور تشنگان علوم کو سیراب کیا۔مولانا عبید اللہ خاں نے کہا کہ رام پور کی خانقاہ قادریہ مجددیہ نے پچھلی دو صدیوں میں اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں عظیم خدمات انجام دیں ہیں، اور حسبِ روایت حقیقی اعتدال کو اس خانقاہ نے آج بھی باقی رکھا ہے۔رام پورہمیشہ سے ہی اعتدال کا حقیقی مسکن رہا ہے جو اعتدال حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی مبارک تعلیمات سے دنیا میں پھیلاوہ آج تک انہی بزرگانِ دین کے ذریعہ سے باقی ہے اور انشاء اللہ تاقیامت باقی رہے گا۔صوفیائے کاملین کے مبارک طریقہ میں ہی ہمارے لئے راہِ نجات ہے۔
مولانا نے کہا کہ کامل ولی وہی ہوتا ہے جو ایک طرف شریعت اسلامی کی تعلیم سے آراستہ ہو اور دوسری طرف تعلیمات عرفانی سے بہرہ مند ہو اسی وقت اس کی مبارک تعلیم سے بہتر معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ جو شخص علم شریعت و طریقت سے واقف نہیں ہے وہ صوفی نہیں ہوسکتا۔مجددی صوفیائے کرام میں طریقت کے چاروں سلاسل مزین رہتے ہیں اور ان کی خانقاہوں میں نقش بندی اور قادری فیضان ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ عصر حاضر میں خانقاہی نظام کا جو پیغام امن ومحبت ہے اس کی نشرواشاعت کی اشد ضرورت ہے تاکہ حقیقی تصوف اور تعلیمات نبوی سماج میں عام ہوسکے اور ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل ہوسکے۔مہمان خصوصی کی ڈیڑھ گھنٹہ کی مدلل تقریر سے ہزاروں سامعین خوب محظوظ ہوئے۔ مولانا موصوف کی تقریر کے بعد نواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمدشعائر اللہ خاں وجیہی قادری نے فرمایا کہ ہم مہمان خصوصی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ مولانا موصوف ہماری فرمائش پر تشریف لائے اور پُر مغز خطاب فرمایا۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network