Connect with us

اتر پردیش

صفائی صرف اداروں کی نہیں، ہر شہری کی ذمہ داری : پروفیسر اجے تنیجا

Published

on

لینگویج یونیورسٹی میں سوچھتا پکھواڑے کے تحت صفائی مہم اور ریلی کا اہتمام
(پی این این)
لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی زبان یونیورسٹی کے احاطے میں آج اتر پردیش کی گورنر اور یونیورسٹی کی چانسلر کی ہدایات کے مطابق ’’سوچھتا ہی سیوا ہے‘‘ مہم کے تحت ایک صفائی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام وائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا کی زیر نگرانی منعقد ہوا جس میں این ایس ایس کی اکائی نمبر چار اور پانچ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس مہم کا آغاز این ایس ایس کے رضاکاروں کی ریلی سے ہوا۔ یہ ریلی ابوالکلام آزاد اکیڈمی بلاک سے شروع ہوکر روسا بلڈنگ تک نکالی گئی۔
ریلی کے دوران طلبہ و طالبات کو صفائی کی اہمیت اور پلاسٹک کے بے جا استعمال کے نقصانات سے آگاہ کیا گیا۔ رضاکاروں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر صفائی، ماحولیات اور صحت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے والے نعرے درج تھے۔ ’’پلاسٹک ہٹاؤ، ماحول بچاؤ‘‘، ’’صاف ستھرا کیمپس، صحت مند طلبہ‘‘ اور ’’سوچھتا میں سب کا ساتھ‘‘ جیسے نعروں نے ماحول کو پرجوش اور بامقصد بنا دیا۔ریلی کے بعد رضاکار رانی لکشمی بائی گرلز ہاسٹل کے سامنے جمع ہوئے جہاں انہوں نے عملی طور پر صفائی مہم چلائی۔ کچرے کو الگ الگ کرنا، پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں اکٹھی کرنا، جھاڑو لگانا اور کوڑے دان میں کوڑا ڈالنے جیسے اقدامات کے ذریعے انھوں نے دوسروں کے لیے ایک مثبت مثال قائم کی۔
اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے اپنے خطاب میں طلبہ سےکہا کہ صفائی صرف ظاہری ماحول کو بہتر بنانے کا نام نہیں بلکہ یہ ہماری صحت، فلاح اور مستقبل کی ضمانت ہے۔ ماحولیات دراصل فطرت کا وہ قیمتی تحفہ ہے جو ہمیں زندگی کے ہر لمحے سہارا دیتا ہے۔ ہم جو سانس لیتے ہیں وہ صاف ہوا ہی ہمیں صحت مند رکھتی ہے۔ اگر ہم ماحول کو گندا کریں گے تو فضائی آلودگی بڑھے گی اور طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوں گی۔ لیکن اگر ہم اپنے اردگرد صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تو نہ صرف ہمارا کیمپس بلکہ پورا معاشرہ صحت مند اور خوشگوار ماحول کا گہوارہ بن سکتا ہے۔انھوںنے مزید کہا کہ صفائی صرف حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہر شہری کا فرض ہے۔ ہمیں روزمرہ کی زندگی میں یہ عادت ڈالنی ہوگی کہ ہم کوڑا ادھر ادھر نہ پھینکیں، پلاسٹک کا کم سے کم استعمال کریں اور صفائی کو اپنی عادت بنائیں۔
اس موقع پراین ایس کوارڈینیٹرڈاکٹر نلنی مشرا نے این ایس ایس رضا کاروںسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو صفائی کی عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانےکی ضرورت ہےکیونکہ اس کے بغیر نہ اپنےگھر کی اور نہ ہی ملک کی صفائی ممکن ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ صفائی صرف ایک جسمانی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ہماری ذہنی اور سماجی کیفیت کا بھی آئینہ ہے۔ اگر ہم صاف ماحول میں رہتے ہیں تو نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ ذہنی سکون اور سماجی ہم آہنگی بھی قائم رہتی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ صفائی کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ پورے سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب ہر شخص اپنی ذمہ داری نبھائے گا تو ہم ایک صحت مند اور خوشحال سماج کی تعمیر کر سکیں گے۔ریلی کے آغاز میں ڈاکٹر ابھے کرشنا اور ڈاکٹر ظفرالنقی نے این ایس ایس کے مقاصد اور اس سماجی سروکار کے انسلاک پر تفصیل سے روشنی ڈالی تاکہ این ایس ایس کے رضاکاروں کے اندر خلق اور ملک کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوسکے۔اس ریلی اور صفائی مہم کا اہتمام این ایس ایس کے اکائی نمبر چار اور پانچ کے پروگرام آفیسر ڈاکٹر ابھے کرشنا اور ڈاکٹر ظفرالنقی نے کیا تھا۔
اس پروگرام میں ڈاکٹر تطہیر فاطمہ،ڈاکٹر ممتا شکلا،ڈاکٹر سید اصغر حسین رضوی اور راکیش کمار کے ساتھ این ایس ایس کے رضا کاروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔پروگرام کے اختتام پر سبھی این ایس ایس رضاکاروں نے کیمپس اور اپنے آس پاس کے علاقے کو صاف ستھرا رکھنے کا حلف بھی لیا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اتر پردیش

آج ثقافتی تنوع کی حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت : پروفیسر ہیم لتا مہیشور

Published

on

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے زیر اہتمام2روزہ قومی سیمینار کاانعقاد
(پی این این)
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے زیرِ اہتمام دو روزہ قومی سیمینار بعنوان ”معاصر ہندی ناول: وقت، سماج اور ثقافت کی مزاحمتی آواز“ کے دوسرے اور آخری دن کے اجلاس میں بھی پہلے دن کی طرح گرانقدر علمی و فکری مباحثے ہوئے۔ جہاں پہلے دن وقت، سماج اور نظریات کے باہمی رشتوں پر گفتگو ہوئی، وہیں دوسرے دن کا مرکز بحث ثقافتی تنوع، نسائی خودمختاری اور ماحولیاتی شعور جیسے اہم موضوعات رہے۔خاص مقرر پروفیسر ہیم لتا مہیشور(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے دلت ناولوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں ثقافتی تنوع کی حقیقت پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب کو نہ صرف حاشیے پر رہنے والے طبقات کی آواز کو جگہ دینی چاہیے بلکہ تجربے اور تخیل کے درمیان ایک پُل کی طرح کا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔
پروفیسر کہکشاں احسان سعد نے نسائی تحریروں میں خواتین کی خودمختاری کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاصر خاتون ناول نگاروں نے تخلیقی آزادی اور بیانیہ کو ایک نئی سمت عطا کی ہے۔ انہوں نے نسائی ادب میں آنے والی تبدیلیوں اور ابھرنے والے چیلنجوں پر بھی روشنی ڈالی۔ پروفیسر وبھا شرما (شعبہ انگریزی، اے ایم یو اور ممبر انچارج، دفتر رابطہ عامہ) نے ماحولیاتی انسانیات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیزی سے بدلتی دنیا میں انسان کی حساسیت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھہراؤ ہی انسان کو فطرت سے دوبارہ جوڑتا ہے، اور یہ ٹھہراؤ اپنی نوعیت میں ایک مزاحمت کی شکل ہے۔
اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ سماج ناول کی اصل بنیاد ہے، اور کہانی ہمیشہ اپنے عہد کی اخلاقی، ثقافتی اور جذباتی حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ڈاکٹر دیپ شکھا سنگھ نے بھی معاصر ہندی ناولوں کے نئے موضوعات اور بدلتی ہوئی سماجی ساخت پر اظہارِ خیال کیا۔اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر رام چندر (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی) نے کہا کہ آج کے ادیب اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں سابقہ ادب نے خالی چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ معاصر کہانی کاروں نے غیر جمہوری رجحانات کو توڑنے کا حوصلہ دکھایا ہے۔
پروفیسر کرشن مراری مشرا نے کہا کہ مزاحمت کی آواز دنیا کے ہر ادب میں پائی جاتی ہے کیونکہ مزاحمت خود سماج کی فطرت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاصر ناول میں فلسفے کی جگہ اب ایک نئی بصیرت نے لے لی ہے۔ پروفیسر تسنیم سہیل نے اپنے اختتامی خطاب میں سیمینار کی علمی دستیابیوں کی تلخیص پیش کی۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر جاوید عالم نے کی جبکہ پروفیسر شمبھو ناتھ تیواری نے شکریہ ادا کیا۔بڑی تعداد میں ماہرین، اساتذہ اور طلبہ کی شرکت نے شعبہ ہندی کے اس سیمینار کو یادگار بنا دیا۔

Continue Reading

اتر پردیش

اقراحسن نےکی اعظم خان سے ملاقات

Published

on

(پی این این)
رام پور:سماج وادی رکن پارلیمنٹ اقرا حسن نے اپنے بھائی ناہید حسن کے ساتھ ایس پی لیڈر اعظم خان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس ملاقات کو سیاست کے بجائے ذاتی معاملہ قرار دیا۔بہار انتخابات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بہار میں آل انڈیا مخلوط حکومت بنے گی۔ایس پی لیڈر اعظم خان سے لوگوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے۔اسی سلسلے میں کیرانہ کی ایس پی ایم پی اقرا حسن اپنے بھائی ناہید حسن کے ساتھ ایس پی لیڈر اعظم خان سے ملنے پہنچیں جہاں ان کی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ملاقات ہوئی۔
اس دورے کے دوران انہوں نے ایس پی لیڈر کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ اقرا حسن نے ایس پی لیڈر کی اہلیہ ڈاکٹر تزئین فاطمہ سے بھی ملاقات کی۔ بعد ازاں انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات سیاسی نہیں بلکہ گھریلوملاقات تھی۔وہ ایس پی لیڈر کی خیریت دریافت کرنے آئی تھیں۔ بھارت اتحاد کے لیے بہار کے انتخابات انتہائی اہم ہیں۔ اس لیے اس الیکشن میں انڈیا الائنس کامیاب ہو گا۔بھارت اتحاد کی حکومت بنے گی۔ وہ خود بھی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔

Continue Reading

اتر پردیش

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ غیر ملکی زبانوں میں 2روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام

Published

on

(پی این این)
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے فیکلٹی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے شعبہ غیر ملکی زبانوں نے گوئٹے سوسائٹی آف انڈیا اور گوئٹے انسٹیٹیوٹ / میکس مولر بھون، نئی دہلی کے اشتراک سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ”بیماری بطورِ بیانیہ: تاریخی تشکیل، حیاتیاتی سیاست اور انسانی کیفیت“ منعقد کی۔
کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے پرو وائس چانسلر پروفیسر محسن خان نے شعبہ کی جانب سے ایک اہم علمی و عصری موضوع پر پروگرام کے انعقاد کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ موضوع صحت، اخلاقیات اور انسانی شناخت سے متعلق موجودہ عالمی خدشات سے ہم آہنگ ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ بیماری صرف ایک طبی حالت نہیں بلکہ انسانی تجربہ ہے جو درد، حوصلے اور امید کی کہانیوں سے تشکیل پاتا ہے۔
گوئٹے سوسائٹی آف انڈیا کی صدر پروفیسر سواتی اچاریہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بیماری کو محض طبّی نقط نظر سے نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور بیانیاتی تشکیل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ادب اور زبان انسانی تکالیف، نگہداشت اور مزاحمت کو سمجھنے کا گہرا ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر آفتاب عالم، ڈین فیکلٹی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز اور چیئرمین، شعبہ غیر ملکی زبانوں نے کی۔ انہوں نے انسانی علوم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحت سے جڑے اخلاقی اور حیاتیاتی سیاسی پہلوؤں کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے شعبہ کی انٹرڈسپلینری علمی کاوشوں کو سراہا۔
مہمانِ اعزازی محترمہ پوجا مِدھا، پروگرام آفیسر، ڈی اے اے ڈی، نئی دہلی نے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان اور جرمنی کے درمیان مضبوط علمی روابط کا ذکر کیا اور طلبہ و محققین کو ڈی اے اے ڈی کے تحقیقی و تبادلہ پروگراموں سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی۔
کلیدی خطبہ پروفیسر مالا پانڈورنگ، پرنسپل، ڈاکٹر بی ایم این کالج، ممبئی، نے پیش کیا۔ انھوں نے ”عمررسیدہ جسم کا بیانیہ: بیماری، شناخت اور مزاحمت ہندوستانی انگریزی ادب میں“ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ادبی بیانیے کس طرح طبی نقطہ نظر پر مبنی تصورات کو چیلنج کرتے ہیں اور بڑھاپے اور بیماری سے جڑے سماجی کلنک کے تصور کا مقابلہ کرتے ہیں۔
پروگرام کی نظامت مسٹر عبدالمنان نے کی، جبکہ سید سلمان عباس نے اظہارِ تشکر کیا۔یہ کانفرنس یکم نومبر کو مقالہ جات کی پیشکش اور پینل مباحثوں کے ساتھ جاری رہے گی۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network