Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

ابھی تک کچھ لوگ سوئے ہوئے ہیں خواب غفلت میں

محاسبہ…………….سید فیصل علی

شہریت قانون کے خلاف شاہین باغ کی خواتین کا آندولن اور حوصلہ 34 دنوں کے بعد بھی تھکا ہوا یا ڈرا ہوا نہیں ہے، یہ آندولن دن بہ دن جوان ہوتا جا رہا ہے، ہر روز نئے عزم کے ساتھ ملک بھر میں خواتین کے دھرنوں اور مظاہروں کی حوصلہ افزائی میں جوش پیدا ہو رہا ہے، گیا کے شانتی باغ، پٹنہ کے سبزی باغ، ہارون نگر، پھلواری شریف، ارریہ کا مولوی ٹولہ، لکھنو کا گھنٹہ گھر، کانپور کا محمد علی پارک اور چمن گنج، پریاگ راج کا روشن باغ وغیرہ سے لے کر راجستھان کے کوٹہ، ممبئی، بنگلورو، حیدرآباد اور کولکاتہ کے پارک سرکس میدان تک خواتین کو عزم وحوصلہ ٹھنڈ بارش اور موسم کے تیور کے باجود ٹوٹ نہیں رہا ہے۔ یہ شاہین باغ کا ہی کرشمہ ہے کہ ہر روز کوئی نہ کوئی شہر شاہین باغ بنتا ہی جا رہا ہے۔ ملک کے ہرگوشے میں بنتے شاہین باغ نے بی جے پی اقتدار کو اندر سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس کی ساری خوش فہمی ہوا ہوچکی ہے۔ سی اے اے پر مسلمان الگ تھلگ ہوجائیں گے اور برادران وطن نفرت کی سیاست میں نام نہاد ہندتوا کا ساتھ دیں گے۔

بدلتے منظرنامہ کے تحت بی جے پی کے سُر بدلنے لگے ہیں، وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ این آر سی اور این پی آر کے لانے کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ امت شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ مسلم بھائی غلط فہمی دور کریں کسی بھی مسلمان کو نقصان نہیں ہوگا، پی ایم تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ این آر سی پر کوئی چرچہ تک نہیں ہو رہی ہے مگر بی جے پی کے نہاں خانوں میں کون سی سازش چل رہی ہے کسی کو پتہ نہیں۔ بی جے پی پر اسی عدم اعتماد نے اس کی تمام سیاست اور ’کاریہ کلاپ‘ کو فلاپ کر دیا ہے۔

سی اے اے کی حمایت میں جو بھی بساط بچھائی جا رہی ہے وہ الٹی پڑ رہی ہے۔ 16 جنوری کو دہلی میں کچھ زرخرید نام نہاد مولویوں کے ذریعہ سی اے اے کی حمایت میں منعقد کانفرنس شدید مخالفت کی نذر ہوگئی ہے۔ مسلم مورچہ کانفرنس میں آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار کے سامنے جس طرح سی اے اے کی مخالفت کی گئی اس سے اب بی جے پی نے خریدے ہوئے نام نہاد مسلم علماء کو سامنے لانے سے توبہ کرلی ہے۔ چنانچہ اب وہ خود مسلمانوں کو سمجھانے بجھانے کے لئے 250 سے زائد ملک بھر میں پریس کانفرنس اور 1000 سے زائد جلسے کرے گی۔ بڑے لیڈران سمیت مقامی لیڈران بھی اب گھرگھر جاکر سی اے اے کی اصلیت سے آگاہ کرائیں گے۔ سوال تو یہ ہے کہ شہریت قانون این آر سی اور این پی آر کی کارستانی جب دنیا پر عیاں ہوچکی ہے، اس کے خلاف لوگ سڑکوں پر ہیں تو کیا وہ بی جے پی پر بھروسہ کریں گے؟ کیا سی اے اے مخالف مظاہرے بند ہوجائیں گے؟ کیوںکہ بات صرف سی اے اے اور این آر سی کی نہیں ہے بلکہ ملک کے عوام اپنے مسائل اور ملک کی خستہ حالی کو لیکر بیدار ہوچکے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہے اور اسی جھوٹ سے اکتا کر عوام سڑکوں پر آگئے ہیں۔

سی اے اے کو لیکر امت شاہ ہندوؤں کے مذہبی استحصال کا رونا روتے رہتے ہیں کہ آزادی کے وقت پاکستان میں 23.2 فیصد غیر مسلم تھے، اور اب وہاں ہندوؤں کی آبادی 1.6 فیصد رہ گئی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی کی شرح 3.2 پر پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کا یہ جھوٹ ایک شگوفہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 1947 میں متحدہ پاکستان یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان میں بے شک 23.2 فیصد غیر مسلم تھے، مغربی پاکستان میں سکھوں، ہندوؤں سمیت اقلیتوں کی آبادی 3.2 فیصد تھی، جبکہ ہندوؤں کی آبادی 1.6 فیصد تھی۔ ادھر مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 22.05 فیصد تھی اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ مل کر یہ آبادی 23.2 فیصد تھی۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 23 فیصد سے گھٹ کر صرف 1.8 فیصد رہ گئی ہے، یہ سراسر جھوٹ اور ایک پروپیگنڈہ ہے جو کامیابی کے ساتھ جاری ہے حالانکہ آج جسے پاکستان کہا جا رہا ہے وہ کل کا مغربی پاکستان تھا۔ آزادی کے وقت وہاں ہندوؤں کی آبادی 1.6فیصد تھی۔

2011 کی مردم شمادی کے تناظر میں بات کریں تو پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 1.85 فیصد ہے۔ یہ انکشاف 23 مارچ 2020 کے بزنس اسٹینڈرڈ میں شائع ایک مضمون میں کیا گیا ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ نے ایک چونکانے والی وضاحت مزید کی ہے، اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی میں کمی نہیں، بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ وہاں ہندوؤں سمیت اقلیتوں کی جو آبادی آزادی کے وقت تھی وہ 3.2 سے بڑھ کر 3.7 ہوچکی ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی جتنی تیزی سے بڑھی ہے، ہندوستان میں نہیں بڑھی۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی صحیح ہے کہ کل کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں آزادی کے دوران ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی آبادی 22.5 فیصد تھی، وہ 2011 میں گھٹ کر 8.50 پر آٹکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جو آبادی کم ہوئی تو پھر کہاں گئی؟ ظاہر ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں کے حالات سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی اور یہ لوگ بنگلہ دیش سے قریبی علاقوں نارتھ ایسٹ، آسام اور مغربی بنگال پہنچے۔ بنگلہ دیش سے آنے والے مذہبی استحصال کا شکار ہوکر آئے ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لیکن ایسے بے شمار شواہد ہیں کہ یہ لوگ بہتر زندگی امن وامان کی خاطر ہزاروں کلومیٹر کی ہند بنگلہ دیش کی سرحد کو کراس کرکے ہندوستان میں داخل ہوئے اور یہ حقیقت اس سے بھی اجاگر ہے کہ جب آسام میں این آر سی کی فائنل فہرست بنی تو 19 لاکھ لوگوں کے نام درج نہیں ہوئے اور وہ ایک طرح سے غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئے۔ مگر جب یہ انکشاف ہوا کہ 19 میں 16 لاکھ غیر مسلم ہیں خاص کر او بی سی دلت ہیں جو بنگلہ دیش سے آئے ہیں تو ان کی فتنہ ساز فطرت بے دار ہوئی غیر ملکیوں کو مین اسٹریم میں لانے اور شہریت دینے کی بساط بچھائی گئی، غیر مسلموں کو شہریت دینے کا اعلان ہوا، لیکن غیر یقینی حالات کے تحت آئے 3 لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے الگ رکھا گیا، مذہب کی بنیاد پر اس طرح کے قانون کی عالمی سطح پر مذمت ہورہی ہے۔ جھوٹ اور نفرت کی سیاست کے علمبردار کہہ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے آئے غیر مسلموں سے قومیت کے دستاویز کی کوئی ضرورت نہیں، پھر یہ کیسے طے ہوگا کہ یہ لوگ واقعی مذکورہ بالاملکوں سے آئے ہیں سرکار کے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ ان لوگوں کی قومیت کی جانچ کرسکے۔ بغیر دستاویزات کے شہریت ہندوستان کی سالمیت، استحکام اور تحفظ کے آگے ایک بڑا سوال ہے۔ قانون بنتے ہیں عوام کی فلاح اور تحفظ کے لئے مگر یہ کیسا قانون ہے جو یہاں کے رہنے والوں کو ڈرا رہا ہے اور دوسروں کو اپنا رہا ہے۔ اس بات کو ایک عام آدمی بھی سمجھ رہا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی ایک ایسا قانون ہے جو اپنے بچے کے بجائے پرائے کو گود لے رہا ہے اور اپنے ہی بچے سے پوچھ رہا ہے کہ تیرا باپ کون ہے؟

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی بات میں بڑا دم ہے کہ یہ حکومت بالکل ہٹلر کے اسٹائل کی تقلید کر رہی ہے۔ ہٹلر بھی جھوٹ کی سیڑھی سے مقبولیت کی انتہا کو پہنچا تھا، ہٹلر اور جنرل گوئیبل کی جوڑی بہت مشہور تھی۔ گوئیبل کا یہ مقولہ آج بھی مشہور ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ ہوجائے۔ موجودہ دور بھی ہٹلر کے نازی دور کا اشارہ دیتا ہے۔ ہٹلر نے قومیت اور نسلی برتری میں ہر حد کو پار کرلیا تھا، اس نے 1933میں ’جرمن نارم برجر سٹیزن قانون‘ بنایا، جس کے تحت یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا ان کے نام فون ڈائریکٹری سے کاٹ دیئے گئے۔ پارک میں جانا ممنوع ہوگیا، جرمن اور یہودیوں میں شادی پر پابندی عائد ہو گئی، کسی تقریب میں یہودیوں کی موجودگی باعث توہین سمجھی گئی۔ قانون کے مطابق کوئی بھی یہودی کسی جرمن عورت سے گھریلو کام نہیں کرا سکتا تھا۔ یہودیوں کو اپنے گھروں پر جرمنی کا جھنڈا لگانے پر پابندی تھی، ہٹلر کی نسلی برتری اور نفرت کی سیاست کے تحت 60 لاکھ یہودی مارے گئے۔ 1.5 کروڑ مظالم کا شکار ہوئے۔ نازی تاریخ کے اس بدترین باب کو HOLOCAUST کہا جاتا ہے۔ اب ہٹلر کی تقلید میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا دور آیا ہے لیکن ہندوستان کوئی جرمنی نہیں ہے، یہاں کی مٹی میں گنگا جمنی تہذیب کا خمیر شامل ہے، یہاں کے لوگوں کی فطرت میں رواداری اور محبت کی خوشبو بستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں ہو رہے مظاہرے کو بلاتفریق مذہب ہر کسی کا ساتھ مل رہا ہے۔شاہین باغ کا مظاہرہ قومی یکجہتی کی علامت بن کر فسطائی نواز فکر وقوتوں کو للکار رہا ہے۔ مودی کے کالے قانون کے خلاف خواتین کا یہ مجاہدانہ عمل ملت کے قائد کہے جانے والے مذہبی، سیاسی، سماجی رہنماؤں کو بھی آئینہ دکھا رہا ہے کہ تم میدان میں نہیں ہو تو کیا ہوا، ملت کی بیٹیاں تو کمیونل ایجنڈے کے خلاف یہ جنگ لڑ رہی ہیں۔ بقول شاعر:

نہ جلسوں میں نہ ریلی میں، نہ شامل درد ملت میں
ابھی تک کچھ لوگ سوئے ہوئے ہیں خواب غفلت میں

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close