Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

ترکی: اسلامی تعمیر و ثقافت کا امین

خطہ عرب میں جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو اس کی روشنی نہ صرف آس پاس کے عرب ممالک میں پہنچی بلکہ عجمی ملکوں میں اس روشنی نے اسلام کی تہذیب و تمدن کو منور کرنے میں جو بے مثال رول ادا کیا وہ بھی اسلامی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس نے جس خطے میں پیر جمائے وہاں اپنی تہذیب و معاشرت و تشخص کا جلوہ بھی برقرار رکھا مگر یہ اسلام کے پروانوں کی دانشمندی اور ادراک و فہم کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمان جہاں گئے وہاں کی معاشرت اور زبان کو بھی گلے لگایا وہاں کی تہذیبی فضا میں رچ بس گئے مگر اس تہذیبی اشتراک کے باوجود مسلمانوں نے ہر مقام پر اسلام کے تشخص کو حاوی رکھا۔ وہ جہاں گئے مسجدیں بنائیں۔ مدارس و مکتب بنائے تعمیراتی میدان میں بھی انہوں نے اسلامی طرز تعمیر کو سر فہرست رکھا۔ اسلام کی سرفرازی اور جلوہ نمائی میں مسلمانوں کے اس فکر و فہم کا بڑا ہاتھ ہے۔ زیر نظر مضمون ترکی میں اسلام کے فروغ کے تناظر میں ہے۔ یوں تو 10 ویں صدی میں ہی ترکی اسلام کا نہ صرف ایک اہم مرکز بن چکا تھا بلکہ وہ ایک طرح سے دنیا میں اسلامی قیادت کے لئے بھی سرگرم تھا۔ چنانچہ ترکی کے تقریباً ہر شہر میں تعمیراتی میدان اہمیت رکھنے والی مسجدوں کی تعمیر کا سلسلہ دراز تھا۔ آج بھی ترکی کا کوئی حصہ بچا نہیں ہے جہاں تاریخی اہمیت کی کوئی مسجد نہ ہو۔ گوکہ پورے ترکی میں اسلامی ثقافت اور تاریخی عمارتوں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے لیکن اس معاملہ میں استنبول کو فوقیت حاصل ہے۔ استنبول 633 قبل مسیح کا قدیم ترین شہر ہے، جس نے عروج و زوال کے کئی ادوار دیکھے مگر سلطنت عثمانیہ میں استنبول عروج کے کمال تک پہنچا۔ اس لئے عثمانی دور ثقافت کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ سلطان محمد کے دور میں تعمیرات کا عظیم الشان دور شروع ہوا۔ شاہی رہائش گاہ کے مقابلے ضیا محل اس انداز سے تعمیر ہوا کہ وہ عثمانی سلطنت کا ایک عظیم مرکز بن گیا، جہاں سے اسلامی قیادت اور دنیا سے روابط کے سلسلے دراز ہوئے۔ یہ سلسلہ 15 ویں صدی سے 19ویں صدی تک جاری رہا۔ ترکی اسلام کا قائد بن کر دنیا پر ان عظمت و وقعت کا پرچم لہراتا رہا۔ بہر حال، ترکی آج بھی اسلامی ثقافت اور تعمیراتی میدان میں دنیا کو اپنی سمت کھینچتا ہے۔ ترکی کا ماضی جتنا پر شکوہ تھا حال بھی کم نہیں ہے۔ آج بھی ترکی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ پیش ہے تاریخی پس منظر میں ترکی کی تاریخی عمارتوں کی داستان جس میں ترکی کی بے مثال ثقافت اور اسلامی خدمات کا ایسا جلوہ نظر آتا ہے جس پر اسلامی دنیا آج بھی فخر کا احساس کرتی ہے:

ظہور اسلام کے بعد سے ہی عربی خطہ میں واقع تقریباً تمام ممالک اور ریاستوں میں اسلام ضیا فگن ہوگیا تھا اور آج بھی وہاں کے باشندے اسلامی تعلیمات اور آفاقی عقیدے پر مستحکم ہیں۔ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی ان ممالک پر اثر انداز نہیں ہو سکیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدہ کو مزید استحکام عطا کر دیا۔ عرب سے ہی عجمی ممالک میں اسلام کا آفتاب طلوع ہوتا گیا اور آج پوری دنیا میں اسلام کو فروغ حاصل ہو گیا ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں عیسائیوں کی آبادی مسلمانوں کی آبادی سے زیادہ ہے، تاہم دنیا کا ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں پر اسلام کی تبلیغ کرنے والے فرزندان توحید موجود نہ ہوں۔ چونکہ اسلام کا طلوع عربی خطہ سے شروع ہوا تھا، اس لئے وہاں پر جو مسجدیں تعمیر کرائی گئی تھیں وہ بھی طرز تعمیر اور ساخت کی نوعیت سے اپنی مثال آپ ہیں۔ استنبول بھی اسلامی وراثت کا ایک عالیشان مرکز ہے۔

اسلامی تاریخ کے مطابق 10ویں صدی میں ہی ترکی میں مذہب اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئی تھیں۔ آئندہ صدیوں میں وہاں پر مسجدیں تعمیر کرانے کے جذبہ میں جوش پیدا ہو گیا تھا۔ سلجوک اور عثمانی دور کے ترکوں نے اندرونی تزئین کاری، عالیشان گنبد اور میناروں والی مسجدیں تعمیر کرائی تھیں۔ درحقیقت ترکی کے ہر شہر میں تعمیراتی اہمیت کی حامل تاریخی مسجدیں واقع ہیں۔ اس خطے میں جدید ترکی کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی نشاۃ ثانیہ سلجوک دور اقتدار اور سلطنت عثمانیہ کے ساتھ شروع ہوئی تھی تب اس کی اسلامی روایات کا شہرہ دور دراز کے ممالک تک پہنچ گیا تھا۔ ترکی میں آج بھی استنبول سمیت اس ملک میں کوئی بھی شہر یا قصبہ ایسا نہیں ہے، جہاں پر تاریخی مسجدیں واقع نہ ہوں۔ چنانچہ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ ترکی کے باشندوں کا بنیادی مذہب صرف اور صرف اسلام ہے۔ فیس بک اور فیکٹ بک کے مطابق ترکی میں 99.8 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ ترکی میں زیادہ تر آبادی سنی مسلمانوں کی ہے جو کہ آبادی کے لحاظ سے 70-80 فیصد ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے آخری دور اقتدار کے دوران ہی معاشرے میں سیکولرزم کا مطالبہ شروع ہونے لگا تھا۔ کمال اتا ترک کی اصلاحات کا یہ نہایت متنازع نظریہ تھا۔ حالانکہ سرکاری طور پر ترکی میں سیکولرزم نظام قائم ہو گیا تھا، تاہم عوامی سطح پر مذہب اسلام کی تقویت قدیم دور کی مانند برقرار رہی تھی اور اس کے مقلدین کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

حالانکہ پورے ترکی میں اسلام کی ثقافتی اور تاریخی تعمیرات اور عمارات کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے لیکن ان تمام یادگاروں اور تاریخی نوعیت کی عمارتوں اور مسجدوں کا استنبول مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ عجیب و غریب طور پر بسایا گیا یہ شہر تاریخی اعتبار سے 633 عیسوی قبل قدیم ہے۔ اس وقت میگارا (Megara) سے تعلق رکھنے والے آباد کاروں نے یہاں پر ایک چھوٹی سی تجارتی کالونی آباد کی تھی جوکہ بعد میں بائیزنٹیم (Byzantium) کے نام سے معروف ہو گئی تھی۔ چنانچہ قدیم شہروں کو بسانے کے لئے دو بڑی وجوہات بتائی جاتی ہیں یعنی نقشہ سازی اور حکمت عملی کے ساتھ غور و خوض کیا جانا تھا۔ ان دونوں پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے یہاں کے شہروں کو فروغ دیا گیا تھا۔ نئے قصبہ کو بسانے کے لئے ایک ایسے جزیرہ نما (Penisula) کے نزدیک جگہ منتخب کی گئی تھی، جہاں سے آبی راستوں سے رابطہ ہوتا تھا۔ اس طرح سے رسمی طور پر ایک میٹرو پولس قائم کیا گیا تھا اور اس کے تحفظ کے لئے 27 ٹاوروں سمیت 5کلو میٹر طول فصیل تعمیر کرائی گئی تھی۔ اسی فصیل کے احاطے میں ایک پہاڑی کی اونچائی پر ایک ایسی ہموار جگہ منتخب کی گئی تھی جہاں پر ایک قلعہ تعمیر کرایا گیا تھا۔ یہ شہر کی سات پہاڑیوں میں سے اولین پہاڑی تھی جہاں پر راجدھانی کے طور پر اس قلعہ کی تعمیر کرائی گئی تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ لیجینڈری قدیم شہروں کو آباد کرنے کے لئے نقشہ سازی قطعی طور پر لازمی تھی۔ تقریباً 2145 سال قبل جب اس شہر کی بنیاد ڈالی گئی تھی تو اس کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ایک 23سالہ نوجوان سلطان محمد دوئم نے اس پر فتح حاصل کر لی تھی اور اپنی فتح کا جشن منانے کے موقع پر انہوں نے عقیدت مند فاتح (ٖFaith the Conqueror) کے نام سے اسے منسوب کر دیا تھا۔ اپنی فتح سے سرمشار ہوکر انہوں نے نہایت انہماک کے ساتھ اپنی سلطنت کی زبردست پیمانے پر توسیع کی تھی۔

جس وقت سلطان محمد نے فتح حاصل کی تھی اس وقت 40000 افراد کی آبادی کے ساتھ شہر نہایت خستہ حالت میں تھا۔ اقتصادی صورتحال بھی مستحکم نہیں تھی اور وہاں کے لوگوں کی رہائش گاہیں اس علاقے میں کافی فاصلوں پر آباد تھیں یعنی وہ ایک دو سرے سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے لیکن انہوں نے اپنے محل کے لئے جو جگہ منتخب کی تھی وہ خصوصی نوعیت کی تھی، وہ ایک ایسی پہاڑی تھی جہاں پر زیتون کے باغیچے تھے اور وہاں پر غیر آباد خانقاہیں اور کلیسا واقع تھے، چھوٹی چھوٹی رہائش گاہیں اور حمام سمندری ضلع کے نزدیک واقع تھے۔ اس کے بعد ایک بے مثال اسکیم بھی تیار کی گئی، جس کے تحت عالیشان تعمیرات کا آغاز ہوا تھا۔ یہ عثمانیہ دور اقتدار کی مناسبت سے عثانی ثقافت اور انتظامی تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ شاہی رہائش گاہ کے کمپلیکس کے مقابلے نیا محل اس ساخت سے تعمیر کرایا گیا تھا کہ وہ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کا مرکز بن گیا تھا تاکہ دور دراز کی سلطنتوں سے رابطہ قائم کیا جا سکے۔ یہ روایت 15 ویں صدی کے آخری دور سے 19ویں صدی کے درمیانی دور تک جاری رہی تھی۔

یہاں کی عمارتیں جوکہ غیر متناسب، غیر محوری (Non-axial) اور تناسب کے اعتبار سے بے پایاں تھیں انہیں دیکھ کر کچھ یوروپی سیاحوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ٹوپکاپی (Topkapi) محل بلاشبہ یوروپی محلات سے بالکل مختلف ہے کیونکہ وہ ان محلات کی ساخت سے اچھی طرح واقف تھے لیکن انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ یہ بنیادی طور پر مشرقی یا اسلامک محلات سے مختلف ہیں۔ تاہم ان میں مقامی طرز تعمیر کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت میں ٹوپکاپی میں دنیا کا عجیب و غریب فلسفہ پوشیدہ ہے اور کرہ ارض پر یہ ایک جنت کی مانند ہے اور عثمانیہ دور اقتدار کی اصطلاح میں یہ محل انتہائی آرام دہ ہے، جس کو کسی زمانے میں (The Palace of Felicity) قرار دیا گیا تھا۔ ٹوپکاپی محل نہ صرف بہت وسیع ترین ہے بلکہ استنبول میں دیکھنے لائق بہت ہی معروف عمارت ہے۔ ایک چھوٹے جزیرہ نما کی ایک پہاڑی چوٹی کی ہموار جگہ پر سلطان محمد دوئم نے اس کی تعمیر 1466 اور 1478 کے درمیان کرائی تھی، جس کے شمال کی جانب قسطنطنیہ کی بندرگاہ (Golden Horn)، جنوب میں بحیرہ مرمرا (Marmara) اور شمال مشرق میں آبنائے باسفورس (Bosphorus Strait) کی نگرانی کی جاتی تھی۔ یہ محل سلطنت عثمانیہ کا 15 ویں صدی اور 19 ویں صدی میں سیاسی مرکز رہا تھا۔ شروعات میں اس محل کے اطراف میں 700-800 بنیادی باشندے رہائش پذیر تھے لیکن صدیاں گزر جانے کے بعد ڈرامائی انداز میں یہاں 5000 تک افراد کا اضافہ ہو گیا تھا اور کسی تیوہار کے موقع پر ان کی تعداد تقریباً 10,000 تک ہو جاتی تھی۔ ان لوگوں میں پیدل فو ج کے سلطان کے گارڈوں کی تعداد وہاں کے باشندوں سے بہت زیادہ ہوتی تھی جو کہ محل کے پہلے صحن میں ہی رہتے تھے۔ یہ محل اس دور میں دنیا کا سب سے بڑا محل تھا، جس میں شہر در شہر بسے ہوئے تھے۔

ٹوپکاپی میں 400 سالہ دور اقتدار کے دوران ہر ایک سلطان نے اس محل میں مختلف قسم کے ہال تعمیر کرائے تھے با الفاظ دیگر انہوں نے دیگر تعمیری اضافے کئے تھے جوکہ وقت کی ضرورت اور ان کی منشا کے مطابق ہوتے تھے۔ اس لئے اس محل کے اطراف میں اتنی عمارتیں بن گئی تھیں کہ انہوں نے بھول بھلیوں کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ان سب عمارتوں کے صحن ہوتے تھے جن کو مختلف دروازوں (Gates) سے تحفظ فراہم کرایا گیا تھا، جن میں مشرق وسطیٰ کی قدیم طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ یہ محل ایک میوزیم کے طور پر عوام کے لئے کمال اتاترک کے حکم سے 1924 میں کھولا گیا تھا۔ٹوپکاپی محل کے بہت سے حصے ایسے ہیں جنہیں عوام آج بھی دیکھ سکتے ہیں، اس میں ایک نمائش کا ہال بھی ہے، جہاں پر کسی بھی قسم کا فرنیچر نہیں ہے۔ نمائش کے کچھ ہال مرمت کے پیش نظر بند کر دیئے گئے ہیں لیکن کسی بھی سیاح کو اس محل کو دیکھنے میں آدھا دن لگ جاتا ہے۔

نیلی مسجد (The Blue Mosque):
ہاگیہ صوفیہ (Haghia Sophia) کے ٹھیک سامنے 17 ویں صدی کی یہ مسجد جس کی اندرونی دیواروں کی نیلے رنگ کے ٹائلوں سے تزئین کاری کی گئی ہے نہایت خوبصورت ترین ہے، اس مسجد کے دونوں طرف پتلی پتلی میناریں تعمیر کرائی گئی تھیں جوکہ دیگر مسجدوں کی میناروں سے مختلف ہیں۔ عام طور پر اس زمانے میں دو یا چار میناریں ہی مسجدوں میں ہوتی تھیں لیکن نیلی مسجد تعمیر کرانے کے وقت اس میں چھ میناریں تعمیر کرنے کا ایک ڈیزائنر نے تصور پیش کیا تھا۔ سلطان محمد اول کے حکم پر آرکیٹیکٹ محمد آغا نے یہ مسجد 1609-1616 کے درمیان 7 سال کی مدت میں تعمیر کرائی تھی جوکہ شہر میں نہ صرف بہت اہمیت کی حامل ہے بلکہ جگہ کے اعتبار سے بھی اس کو ایک فضیلت حاصل ہے کیونکہ یہ سلطان احمد چوراہے پر واقع ہے۔ استنبول میں سلطان احمد مسجد عثمانیہ دور اقتدار کے طرز تعمیرات کی ایک نادر مثال ہے۔ اس خوبصورت ترین اور عالیشان مسجد کو عرف عام میں نیلی مسجد کہا جاتا ہے اور پوری دنیا میں آج بھی یہ نیلی مسجد کے نام سے معروف ہے۔

سلیمانی مسجد (Suleymaniya Mosque):
استنبول میں سلیمانی مسجد سب سے بڑی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلیمان نے اس مسجد کی تعمیر 1550 اور 1557 کے درمیان کرائی تھی۔چار میناروں والی یہ عثمانیہ شاہی مسجد استنبول کی تیسری پہاڑی پر واقع ہے۔ اس مسجد کا غیر معمولی اور شان دار اسٹرکچر 16ویں صدی میں سلطان سلیمان کے حکم پر عثمانی آرکیٹیکٹ معمار سینان نے تعمیر کیا تھا۔ اس مسجد کے احاطہ میں سلطان سلیمان اور ان کی بیگمات کے مقبرے بھی ہیں اور ایک کمپاؤنڈ میں معمار سینان کا مقبرہ بھی واقع ہے۔

ڈولماباہس مسجد (Dolmebahce Mosque):
یہ مسجد ڈولما باہس محل کے جنوبی حصہ میں باسفورس (Bosphorous) میں واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام سلطان عبد المجید (Abdulmecid) کی والدہ بیزمیالم (Bezmialem) کے حکم سے شروع کیا گیا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد سلطان عبد المجید نے خود اس کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ یہ مسجد 1855 میں مکمل ہوئی تھی اور اس کے آڑکیٹیکٹ قرابت بالیان (Karabat Balyan) تھے۔ Boraque Style میں اس مسجد کی عجیب و غریب طریقہ سے تزئین کاری کرائی گئی تھی۔

السلطان ایوب مسجد (Eyup Sulan Mosque):
سلطان ایوب مسجد ایک ایسی جگہ پر تعمیر کرائی گئی تھی جوکہ باہری کونے پر واقع ہونے کے باوجود قسطنطنیہ بندر گاہ سے متصل دیواریں اس مسجد کے نزدیک ہیں۔ بنیادی مسجد ایک زبردست زلزلہ کے دوران منہدم ہو گئی تھی اور اسی جگہ پر موجودہ مسجد 1800 میں تعمیر کرائی گئی تھی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سلطان محمد کی وفات کے بعد تخت نشین ہونے والے آئندہ بادشاہوں نے سلطان ایوب مسجد کی زیارت کرنے کے ساتھ ہی اپنی تاج پوشی اور شمشیر برداری کی تقریبات مکمل کرتے تھے۔

دیگر شہر بھی اسلامی طرز تعمیرات کی شان دار طریقہ سے عکا سی کرتے ہیں۔ اسلام کی قدیم روایتوں کو یہاں کے باشندے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اسلام کی حقانیت اور آفاقیت کی آج بھی ان سے ترجمانی ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ دو مسجدوں کا ذکر کرنا بھی برمحل ہے۔ 20 گنبدوں والی شان دار مسجد (Ulu Cami) اور سبز مسجد (Green Mosque) جوکہ بصرہ میں واقع ہیں ان کی تعمیر 1419 اور 1420 کے درمیان کرائی گئی تھی۔ اسلامی دور میں جب ان مسجدوں کو تعمیر کرایا گیا تھا اس وقت بھی وہ فن تعمیرات کی عالیشان شاہ کار تھیں اور آج ہزاروں سال بعد بھی ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے انہیں قدر ومنزلت کا مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوروپ اور عجمی دنیا کے سیا ح انہیں دیکھنے کے لئے جوق در جوق یہاں آتے ہیں اور اسلام کی فنکارانہ مہارت کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close