Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

امریکی ارب پتی اور معروف سماجی خدمتگار جارج سوروس نے کہا ہے کہ ہم تاریخ کی تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں، وسیع النظر سماج خطرے میں ہے، دنیا میں تاناشاہوں کا راج بڑھ رہا ہے، جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم مودی بھارت کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ سوروس کا یہ بیان اس دوران آیا ہے، جب شاہین باغ کی آواز نہ صرف قومی سطح، بلکہ عالمی سطح پر گونج رہی ہے۔ امریکہ فرانس سے لے کر برطانیہ وغیرہ تک شہریت قانون کے خلاف انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

ہندوستان کے سابق وزیرخارجہ نے بھی دنیا میں ہندوستان کے تنہا پڑ جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، لیکن لگتا ہے کہ حکومت کو نہ تو عوام کے سڑکوں پر آنے کی فکر ہے، نہ عالمی سطح پر ہندوستان کی امیج گرنے کی پرواہ ہے۔ وزیراعظم اس کالے قانون پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں، امت شاہ ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور تو اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جس غیر اخلاقی انداز میں شاہین باغ کی خواتین کی توہین کر رہے ہیں، وہ ایک وزیراعلیٰ کو زیب نہیں دیتا۔ حد تو یہ ہے کہ دہلی میں بی جے پی امیدوار کپل مشرا بھی شاہین باغ کو ’شیم باغ‘ قرار دے رہے ہیں اور اسے آتنک وادیوں کا آندولن کہہ رہے ہیں، مگر صبروتحمل، عزم وحوصلے کی انتہا ہے کہ تمام تر مغلظات اور دھمکیاں شاہین باغ کی خواتین کے عزم و حوصلے کو پست نہیں کرسکی ہیں۔ فسطائی قوتوں کی دھرنا توڑنے کی ہرکوشش ناکام ہوچکی ہے۔

شاہین باغ میں عزم حوصلے کا چراغ تمام تر آندھیوں کے باوجود 43 دنوں سے جل رہا ہے اور اس کی روشنی میں ہرشہر، ہرقصبہ، ہرگاؤں شاہین باغ بنتا جا رہا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ملک کے 400 سے زائد شہروں اور قصبات کی خواتین شاہین باغ کی علامت بن کر بی جے پی اقتدار وسیاست کو چیلنج کر رہی ہیں۔ لکھنؤ کا گھنٹہ گھر، الٰہ آباد کا منصور پارک، بریلی کا اسلامیہ کالج، کانپور کا محمد علی پارک، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دیوبند کا عیدگاہ میدان، اقبال میدان، سنبھل کا پکاباغ، بھوپال کی سینٹرل لائبریری، بڈوالی چوک، مانک باغ، اندورکا کھجرانا، کوچین کا آزادی اسکوائر، ناگپور کا سنودھان چوک، پونے کا کونڈھوا، احمدآباد کا پوکھیال، کوٹہ کا کشورپورا، ارونگ آباد، حیدرآباد کی ٹول چوکی سے لے کر کولکاتہ کے پارک سرکس اور رانچی کے کڈرو میں خواتین کے دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے، مگر اس موقع پر بہار نے جو دم خم دکھایا ہے، وہ ملک کی بدلتی ہوئی سیاست کا منظرنامہ ہے۔ گیا کے شانتی باغ سے اٹھی آواز نے بہار کے چپہ چپہ میں ایک نئی ہمت اور جوش بھر دیا ہے۔ گھر کی چہار دیواریوں سے نکل کر خواتین نے جو آندھی کا روپ اختیار کیا ہے، وہ بلاشبہ ملک کے اقتدار وسیاست کے آگے ایک بڑا چیلنج ہے۔

1977 میں بہار کی سرزمین سے جے پرکاش نارائن نے ’سمپورن کرانتی‘ کا نعرہ دیا تھا، جے پی کی اپیل پر بہار کے طلباء سڑکوں پر اتر آئے تھے، پھر ملک میں انقلاب کی ایسی آندھی چلی کہ اپنے وقت کی خاتون آہن کہی جانے والی اندرا گاندھی کی سرکار بھی اس آندھی کی نذر ہوگئی، اب دہلی کے شاہین باغ سے اٹھی آواز میں آواز ملا کر بہار کے مرد و خواتین بھی سڑکوں پر ہیں اور بہار وہ واحد ریاست ہے، جہاں 17سے زائد اضلاع میں خواتین دھرنوں پر بیٹھی ہوئی ہیں اور وہاں کے عوام بھی انسانی زنجیر بنا کر حکومت وقت کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ گیا کے شانتی باغ کی تقلید میں موتیہاری، بتیا، بیگوسرائے، نالندہ، مظفر پور، گوپال گنج، دربھنگہ، مدھوبنی، بھاگلپور، کشن گنج، پورنیہ، ارریا تک خواتین کے دھرنوں کا سلسلہ نہ صرف بڑھتا ہی جا رہاہے، بلکہ نتیش حکومت کے آگے آئینہ بھی رکھتا جا رہا ہے کہ اسی سال ہونے والے بہار اسمبلی کے چناؤ میں این ڈی اے کا کیا حشر ہونے والا ہے؟

یوں تو شہریت قانون کے خلاف ملک گیر دھرنوں کے اثرات چار سال بعد لوک سبھا الیکشن میں نظر آئیں گے، لیکن گیا کے شانتی باغ سے اٹھنے والی آواز نے جس طرح بہار و جھارکھنڈ کے عوام کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا ہے، وہ نتیش حکومت کے لئے ایک وارننگ سے کم نہیں ہے۔ دراصل سی اے اے حامیوں کو یہ گمان تھا کہ اس معاملے میں مسلمان اکیلے پڑ جائیں گے، تھوڑی بہت چیخ وپکار کرکے چپ ہوجائیں گے، لیکن توقع کے برعکس ایسا نہیں ہوا۔ ہرطبقہ خیال کے لوگوں نے اس آندولن میں جس طرح سے ساتھ دیا، وہ اس بات کا منظرنامہ ہے کہ:

بات نکلی ہے تو بہت دورتلک جائے گی

اور اب تو سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی مایوسی نہیں ہوئی ہے، بلکہ مظاہرین کا عزم وحوصلہ بڑھتاہی جا رہا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی شہر شاہین باغ بنتا جا رہا ہے، بلاتفریق مذہب وملت سبھی اس آندولن سے جڑتے جا رہے ہیں، کل ہی گیا کے شانتی باغ، ٹکاری اور شیرگھاٹی جلسے میں خطاب کرنے کے لئے مجھے مدعو کیا گیا تھا۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند بہار کے شیر لالو پرساد یادو کی کمی آج عوام کو بہت ہی کھل رہی ہے، مگر لالو کے سپوت تیجسوی یادو جس طرح دھرنے پر بیٹھیں خواتین اور عوام کے درمیان جاکر ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں، وہ سی اے اے کے خلاف تحریک کو مزید تقویت دے رہی ہے اور نتیش کمار کو بھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اس سے صرف مسلمان متاثر ہوں گے، بلکہ دلت اور پسماندہ طبقہ بھی اس کا شکار ہوگا۔ لالو پرساد یادو کا یہ ٹوئٹ بھی دلتوں اور پسماندہ طبقے کو بی جے پی کے مکڑجال سے نکلنے کی تلقین کر رہا ہے۔ لالویادو نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ”سی اے اے میں مسلمان تو بہانہ ہے، دلت اور پچھڑا اصل نشانہ ہے“۔ اسی فکر وتشویش کے پیش نظر بھیم آرمی کے قائد چندر شیکھر آزاد، بام سیف کے قومی صدر وامن مشرام کو جس طرح دلتوں کا ساتھ مل رہا ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ دلت طبقہ بی جے پی کی زنجیر سے آزاد ہو رہا ہے اوراب یہ طے ہے کہ سی اے اے مرکزی سرکار کے گلے کی ہڈی تو بنے گا ہی فی الحال نتیش کے گلے کی پھانس ضرور بن گیا ہے۔ جے ڈی یو کے پون ورما اور پرشانت کمار سمیت کئی لیڈر سی اے اے پر نتیش کو گھیر رہے ہیں اور انہیں مظلوم کے ساتھ چلنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

بہرحال نتیش کمار وقت کے ساتھ چلیں گے یا بی جے پی کی چھترچھایا میں رہیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن ہرجلسے میں تیجسوی یادو کی جس طرح پذیرائی ہورہی ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاجوماحول نظرآرہا ہے، وہ بہار میں نئے دور کا عندیہ ہے۔تیجسوی یادو نے لالوپرساد کی آواز بن کر سی اے اے کے خلاف جس طرح کمان سنبھالی ہے،وہ یقینا بہار کو نئی سمت دے گا۔ لالوپرساد جیل میں ضرور ہیں، لیکن وہ بہار کے دبے کچلے مظلوم عوام کے دلوں میں حوصلے کا چراغ بن کر روشن ہیں۔ بقول شاعر:

دعا کرو کہ سلامت رہے لالو کا حوصلہ
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close