Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

ملک عجب مطلق العنانیت اور وحشت کے دور سے گزر رہا ہے، جہاں نہ کسی کو ملک کے سماجی اقدار و سنسکار کی پروا ہے، نہ عدل وقانون کا لحاظ، بلکہ ہر سمت ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانے اور نفرت کی سیاست کو پروان چڑھانے کا کھیل جاری ہے۔ بلاشبہ سی اے اے نفرت کے اس کھیل کو پر تشدد بنانے میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ سی اے اے مخالفین غدار کہے جا رہے ہیں، ان کو گولی مارنے کے نعرے نئی نسل کے اذہان میں بارود کی طرح بھر رہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ایسے نعروں کا آغاز کرنے والوں کے خلاف عدالت وحکومت بھی کارروائی سے گریزاں ہے۔

شہریت قانون کے خلاف مظاہرین پر یوپی حکومت کی کارروائی بھی کچھ کم مضحکہ خیز اور بے تکی نہیں ہے۔ یوپی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں ’ہورڈنگس پالٹکس‘ انتقام کی کارروائی ہے، جہاں کالے قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو دنگائی کہا جا رہا ہے، اس کے لئے نہ کوئی دلیل ہے، نہ کوئی وکیل ہے اور نہ کوئی عدالت ہے۔ ہورڈنگس میں دہشت گردوں کی طرح سی اے اے مخالفین کی تصویریں لگوانا دراصل حکومت کی انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ واضح ہو کہ یو پی حکومت کی اس بے تکی حرکت پر الہ آباد ہائی کورٹ نے خود نوٹس لیا اور سرکار سے پوچھا کہ کس قانون نے تحت یہ کاروائی ہو رہی ہے۔ لکھنؤ کے چوک چوراہوں پر لگے ہورڈنگس نہ صرف عوامی بحث کا موضوع بن چکے ہیں، بلکہ یہ ہورڈنگس ملک کی جمہوریت، عدالت اور آئین کے آگے بھی سوال کھڑا کرتے ہیں کہ ملک کس نہج پر کھڑا ہے؟ ہورڈنگس میں سی اے اے کے مخالف معروف سماجی کارکن صدف ظفر، تھیٹر اداکار دیپک کبیر، سابق آئی پی ایس آردارا پوری سمیت 28 اہم شخصیات کے فوٹو اور پتے شامل ہیں اور حکومت کے ذریعہ انہیں یہ وارننگ دی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد سرکاری املاک کے نقصان کی بھرپائی کریں، ورنہ ان کی املاک قرق کرلی جائے گی۔ مگر لکھنؤ والوں کے برعکس دلی والوں کو شہریت قانون کے خلاف آواز اٹھانے کی ایسی سزا ملی ہے، جس پر سارا عالم چونک گیا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی دیرینہ رواداری اور نشان عظمت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ترکی، ایران سمیت کئی ملکوں نے ایک خاص طبقے پر تشدد کے خلاف تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کی 28 سے زائد یونیورسٹیوں نے دلی فساد پر احتجاج کیا ہے اور دلی فساد کی محرک شہریت قانون کے خلاف UNHRC نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یواین ایچ آرسی) نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے، جس میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسے بھی شہریت قانون کے خلاف فریق بنایا جائے۔

سی اے اے پر اقوام متحدہ فریق بنے گا یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے؟ مگر سی اے اے کو جس طرح ہندو، مسلم بنایا جا رہا ہے، وہ ایک بڑا خطرناک رجحان ہے۔ دلی کو ایک نئی پریوگ شالہ بنایا جا رہا ہے، وہ تشویش کا موضوع ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی زور دار مہم چل رہی ہے۔ ”میں نے اپنے پاپا سے کہہ کر مسلم ڈرائیور کو ہٹا دیا ہے“۔ جیسے ٹوئٹ خوب خوب وائرل ہو رہے ہیں، حالانکہ اس کی مذمت خود برادران وطن کر رہے ہیں، مگر اس ٹوئٹ کی آڑ میں نفرت کی کاشت تو بہرحال ہو رہی ہے، حالانکہ کسی مسلم کو دکان کرائے پر دینے، نوکری دینے یاکسی مسلم دکاندار سے کچھ نہ خریدنے کی فتنہ سازیاں تو عرصہ دراز سے ہوتی رہی ہیں، مگر پہلے یہ کام چوری چھپے ہوا کرتا تھا، مگر اب نئے دور ’سیّاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا‘ میں یہ سیاست کھل کر سامنے آگئی ہے۔ نام نہاد ہندوتو کی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، لیکن آج کے دور جدید میں معاشی بائیکاٹ کی یہ فکر کتنی مضحکہ خیز اور کتنی نقصاندہ ہے، کیا یہ نکتہ ہندوتو کے نام نہاد اور علم برادر نہیں جانتے؟ دلی کے فساد میں جس طرح وحشت کے مقابلے انسانیت ابھر کر سامنے آئی، اسے بھی سب نے دیکھا۔ جب برادران وطن نے سیکڑوں مسلمانوں کی جانیں بچائیں، مسلمانوں نے مندروں کو بچایا، ہندوؤں کو پناہ دی، وہ بے شک ملک کی ہندو، مسلم دوستی کی تاریخ کا گواہ ہے۔ لیکن اب جس طرح مسلم معیشت کو تاراج کرنے کی سیاست چل رہی ہے، مسلمانوں کے کاروبار کے بائیکاٹ کی بات ہو رہی ہے، یہ نفرت انگیز فکر خود ملک کی اکثریت کی معیشت کے لئے زہرہلا حل ہے۔

این ڈی ٹی وی کے سینئر صحافی پریہ رنجن اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں ”کبھی کبھی اس طرح کی بات کرنے والوں سے چٹکی لینے کا من کرتا ہے کہ کیا مسلمانوں کا بائیکاٹ ممکن ہے؟ کیونکہ آپ جب ہندوستانی مسلمانوں کا بائیکاٹ کریں گے تو دنیا کے مسلمانوں کا بائیکاٹ کریں گے تو پھر اس کے لئے پٹرول، ڈیزل کا استعمال چھوڑنا ہوگا، کیونکہ تیل تو مسلم ممالک سے ہی آتا ہے اور سوال یہ بھی ہے کہ جب آپ مسلمانوں کا بائیکاٹ کریں گے تو وہ بھی آپ کا بائیکاٹ کریں گے، ممکن ہے کہ آپ کو تیل دیا جانا بند کر دیا جائے اور پھر آپ دیش بھکتی کی خاطر تیل کا استعمال چھوڑ دیں گے تو سواری کے لئے الیکٹرک گاڑیاں خریدیں گے اور نہ خرید پائے تو کیا بیل گاڑی سے سفر کریں گے؟ تیل کا بحران ملک کی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچائے گا اس پر غور کیجئے“۔ خیر تیل تو چھوڑیئے! کیا ان نام نہاد دیش بھکتوں کو یہ گیان ہے کہ بہت ساری اشیاء ایسی ہیں، جس کی تجارت یا ملکیت میں پتہ نہیں چلتا کہ پونجی ہندو کی ہے یا مسلمان کی؟ آج بیف ایکسپورٹ میں ہندوستان نمبر1 ہے، اب ان دیش بھکتوں کو کیا پتہ کہ بیف ایکسپورٹرز کون ہیں؟ مسلمانوں کے بائیکاٹ سے چھوٹے موٹے مسلم کاروباری، مثلاً سبزی والے، پان والے، پرچون والے متاثر ہو سکتے ہیں، لیکن جو بڑے کاروبار ہیں، اس میں کس کا کتنا شیئر ہے یہ پتہ کیسے چلے گا؟ کس مسلمان نے اڈانی کے کتنے شیئر خریدے ہیں کیسے پتہ چلے گا؟ ماروتی، انفوسس وغیرہ میں کتنا حصص ہے؟ اس کا پتہ کیسے چلے گا؟ اگر بائیکاٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا تو پورا ہندوستان معاشی بدحالی کے دلدل میں ڈوب جائے گا۔

”میں پریہ رنجن کی باتوں سے متفق ہوں، لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ ایسی بے تکی فکر اور نفرت کی آندھی غارت گر تو ہوتی ہے، مگر اس کا وقفہ دیرپا نہیں ہوتا۔ یہ سب بچکانی حرکتیں ایشوز سے بھٹکانے کی کوشش ہے۔ آج ہندوستان معیشت کے مقام پر بری طرح متزلزل ہے، منموہن سنگھ نے معیشت کی زوال پذیری پر درس دیتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ سماجی کشیدگی ملک کی روح کو تباہ کر دے گی۔ دلی فساد کے بعد جی ڈی پی نصف سے ایک فیصد تک مزید گر جائے گی، اگر حکومت حالات سنبھالنا چاہتی ہے تو تین ایشوز پر کام کرے۔ اول تو وہ کورونا وائرس سے تیزی سے نمٹے اور فوری طور پر شہریت قانون کو واپس لے۔ اس کے علاوہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں اضافے کے لئے اقتصادیات میں سرمایہ کاری کرے“۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ آج معیشت جس کگار پر ہے، یس بینک نو بینک میں بدل چکا ہے، پورا بینکنگ سیکٹر بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے، ہر اکاؤنٹ ہولڈر خوفزدہ ہے کہ اس کی رقم کا کیا ہوگا؟ ایسے عالم میں سرمایہ کاری کیسے ہوگی؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ مگر ان تمام سوالوں سے بے نیاز آج بھی ملک میں محبت کی خوشبو گھولنے کے بجائے نفرت کی بساطیں بچھائی جا رہی ہیں۔ شاہین باغ کا مظاہرہ 84ویں دن میں داخل ہوچکا ہے اوروہ اس اقتداروسیاست کو آئینہ دکھا رہا ہے جو ہرطرح سے سی اے اے مخالفین کو جھکانا چاہتی ہے۔ دلی کا خونی تشدد ملک کے معاشی نظام کے آگے بھی سوال کھڑا کر رہا ہے کہ کیا دلی میں صرف ایک ہی طبقہ برباد ہوا ہے؟ یا برادر وطن کا بھی کچھ نقصان ہوا ہے؟

دلی کا یہ فساد یہ بھی بتا رہا ہے کہ نام نہاد راشٹرواد اور دیش بھکتی کا جنون ملک کے لئے کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ دلی کا فساد ملک کو تاریخ کے اس موڑ پر لے آیا ہے، جہاں عدلیہ سے لے کر آئینی ادارے اور انتظامیہ تک سبھی ایک فکر کے دباؤ میں نظر آ رہے ہیں۔ دلی کا فساد ملک کی جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے علم برداروں کے آگے بھی سوال کھڑا کر رہا ہے کہ کیا وہ دلی کو نفرت کی پریوگ شالہ بننے دیں گے یا نفرت پر معیشت کی بقاء کو ترجیح دیں گے؟ بقول فیض:

نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close