Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

دنیا میں نشان امتیاز شیخ زائد مسجد

مسجدیں اسلام کے فروغ کا نہ صرف محرک رہی ہیں بلکہ اسلامی نظام حیات کی تشکیل کا ضامن بھی رہی ہیں۔ مسجدیں نے نہ صرف عبادت و ریاضت کا مسکن ہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے مسجدوں کے صحن سے اسلام کے نہ جانے کتنے جیالے نکل کر دنیا پر چھا گئے اور اسلام کا پرچم بلند کیا۔ دنیا کی پہلی مسجد نبوی جس کی بنیاد ہمارے حضور اکرمؐ نے اپنے دست مبارک سے رکھی تھی اس مسجد کے دامن میں تو جانے کتنے ایسے ایسے واقعات پوشیدہ ہیں جو اسلام میں انسانیت اور مساوات کے شاہد ہیں۔ مسجد نبوی میں سیرت رسول ؐ اور کردار پیغمبر کا عظیم جلوہ بھی دیکھا ہے جہاں تفریق مذہب و ملت ہر مذہب کے لوگ آتے تھے اور ان کی تکریم و تواضع میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔ غیر مسلموں کو اسلام سے واقفیت کے لئے مسجد نبوی کا سب سے اہم رول رہا ہے۔ چنانچہ حضور اکرمؐ کے بعد خلفائے راشدین سے لے کر بڑے پیمانہ پر مسلم سلاطین اور بادشاہوں نے مسجدوں کی تعمیر کا فریضہ دین سمجھا۔ مسجدوں کے ذریعہ اسلام کے فروغ کی راہیں نکالیں۔ یہی وہ دینی و ملی جذبہ تھا کہ مسلمان جس ملک میں گئے وہاں سنت رسولؐ یعنی تجارت کے ساتھ مسجدوں کے قیام کو بھی ضروری سمجھا۔ دنیا میں مسجدوں کی تعمیر کا دینی جذبہ ایسا تھا کہ دنیا میں بعض ایسی مسجدیں تعمیر ہوئیں جو سیاحت اور تعمیرات کی دنیا میں کمال کا مقام رکھتی ہیں اور اسلامی تعمیرات کا جلوہ بکھیرتی ہیں۔ اس طرح ہر مسجد کے صحن سے انسانیت کی تعلیم کے ساتھ بنی نوع انسان سے محبت اور اللہ کی عبادت کی صدا اٹھتی رہی ہے اور جب تک مسجدوں سے صدائے توحید اور پیغام انسانیت کی باز گشت دنیا میں پھیلتی رہی اسلام کا بول بالا رہا مگر ایک دور ایسا بھی آیا کہ مسجدوں کے منبر و محراب خاموش ہوگئے، مسجدیں نمازیوں سے بھر تو گئیں مگر مسلمان دنیا کو مسخر کرنے کے گُر سے محروم ہوگئے۔ بہر حال، اب دور جدید میں ایک بار پھر مسجدوں سے اسلام کا پرچم بلند ہونے لگا ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بڑے بڑے اسلامک مراکز قائم ہونے لگے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اپنے ماحول سے اکتائی مغربی نسل اسلام کی طرف راغب ہے اسلام کی حقانیت اسے متاثر کر رہی ہے۔ چنانچہ بڑی تعداد میں اہل مغرب دائرہ اسلام میں آنے لگے ہیں۔ یہ سب مساجد کی تعلیمات و پیغامات کا کمال ہے۔ زیرنظر مضمون ابو ظہبی کے شیخ زائد مسجد کی تعمیر و تاریخ تشکیل پر محیط ہے۔ شیخ زائد مسجد دنیا کے عظیم ترین مسجدوں میں شمار ہوتی ہے جو متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زائد بن سلطان الہنان کے نام سے منسوب ہے۔ یہ مسجد اسلامی تعمیرات میں ایسا گراں قدر اضافہ ہے کہ اس پر ریسرچ کرنے کے لئے دنیا کے معروف آرکیٹیکٹ ابو ظہبی آتے ہیں اور اسلامی فن تعمیر کی بلندی کا اثر لے کر واپس جاتے ہیں کیونکہ اس مسجد کا طرز تعمیر جہاں پر اسلامی روایتوں اور ڈیزائن کا خوبصورت شاہکار ہے تو دوسری طرف جدید آرکیٹکچرل تکنیک کا ایسا شاندار اظہار ہے، جس پر اہل مغرب کہتے ہیں کہ ایسی شاندار اور اتنی بڑی مسجد دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ شیخ زائد تاریخی نشان امتیاز بھی ہے اور مسلمانان عالم کے لئے باعث افتخار بھی ہے جو نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دنیا کے سیاحوں کو بھی اپنی سمت کھینچتی ہے:

ظہور اسلام کے بعد پیغمبر حضرت محمد ؐ نے مدینہ منورہ میں اولین مسجد کا سنگ بنیاد خود آپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا۔ اس کے بعد جیسے جیسے اسلام کو فروغ ملتا گیا اسی کی مناسبت سے نہ صرف عرب میں بلکہ عجمی ممالک میں بھی مسجد تعمیر کرانے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا تھا۔ کچھ مسجدیں تو ایسی ہیں جن کی تعمیر آپ ؐ کی حیات مبارکہ میں ہی مکمل ہو گئی تھی۔ اس کے بعد خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور تبع تابیعن کے ذریعہ بھی مسجدیں تعمیر کرائی گئی تھیں۔ اولیا کرام اور بہت سے مبلغین کے ذریعہ بھی نہ صرف مسجدیں تعمیر کرائی گئیں بلکہ بہت سی ریاستوں کے حکمرانوں، سلاطین اور نوابین کے ذریعہ بھی مسجدیں تعمیر کرائی گئیں۔ عرب کے تاجروں نے جب اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے غیر ممالک کے دورے کئے تھے تو ان کے ہی توسط سے وہاں پر اسلام سایہ فگن ہوا تھا۔ حضور پاکؐ کی حیات مبارکہ میں ہی عرب کے ایک تاجر ملک دینار اپنے ایک ساتھی اور اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ ہندوستان کی کیرالہ ریاست میں آئے تھے۔ ان کی آمد سے قبل اس وقت کے وہاں کے راجا چیرامن پیرومل اپنے محل کی چھت سے شق القمر کا معجزہ دیکھ چکے تھے۔ اپنے دربار کے جیوتشیوں سے جب انہوں نے اس کے بارے میں بتایا تو انہوں نے حساب لگا کر کہا کہ عرب دیش میں ایک ”اوتار“ ہوا ہے یہ ان ہی کا معجزہ ہے۔ ملک دینار سے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی۔ ملک دینار مسجد تعمیر کرنے کی جب راجہ سے منظوری چاہی تو انہوں نے خوشی کے ساتھ مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ چنانچہ اس مسجد کو راجہ چیرامن کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا زیادہ لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ مسجد آج بھی نہ صرف ہندوستان کی اولین مسجد ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ ایک قدیم اسلامی شاہکار ہے۔

عام طور پر مسجدوں کی تعمیرات میں اسلامی تشخص اور روایات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے لیکن جدید دور میں ٹکنالوجی اور ڈیزائنوں پر بھی توجہ دی جاتی ہے جن کے ڈیزائن ماہر فن تعمیرات کے ذریعہ تیار کئے جاتے ہیں۔ مسجد کی عمارت چاہے جتنی بھی جدید ہو لیکن ان میں اسلام کی قدیم تعمیراتی روایت واضح طور پر نمایاں ہوتی ہیں اور پوری دنیا میں ایسی بہت سی مسجدیں واقع ہیں جوکہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ابو ظہبی کی شیخ زائد مسجد ان ہی میں سے ایک ہے۔ جیسے ہی کوئی شخص ایئرپورٹ سے ابو ظہبی میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی نظر اس عظیم الشان مسجد پر پڑتی ہے۔ فلک بوس یہ مسجد دن ہو یا رات اپنی چمک دمک اور شان و شوکت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ یہ مسجد دنیا کی 10 عظیم ترین مسجدوں میں سے ایک ہے جس کو متحدہ عرب امارات کے بانی اور اولین صدر شیخ زائد بن سلطان ال نہان کے نام سے منسوب کیا گیا اور ان کا مزار بھی اس مسجد میں واقع ہے۔ یہ مسجد 2007 میں ماہ رمضان کے دوران پنچ وقتہ نمازیں ادا کرنے کے لئے کھولی گئی تھی۔ یہ مسجد دو پلوں یعنی مصفہ اور مقطع پلوں کے درمیان واقع ہے۔

میونسپل افیئر ڈپارٹمنٹ (Munispal affairs Department) میں عوامی رابطہ کے ڈائریکٹر مبارک سیف المزروع (Mubark Saif Al-Mazrouis) نے کہا تھا کہ ابو ظہبی میں شیخ زائد مسجد اسلامی تعمیرات میں ایک نہایت شاندار اضافہ ہے۔ یہ نہ صرف متحدہ عرب امارات میں بلکہ پورے خطے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پوری دنیا میں اپنے سب سے بڑے قالین، ضخیم فانوس اور سب سے بڑے گنبد کی حامل مسجد ہونے کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے تین زمروں میں اس مسجد کو درج کیا تھا۔ اس مسجد کا طویل ترین قالین کثیر صرفہ سے ایران کی قالین بنانے والی ایک کمپنی نے تیار کیا تھا اور اس کا ڈیزائن ایران کے ہی ایک آرٹسٹ علی خالقی نے تیار کیا تھا۔ 5627 مربع میٹر کے اس قالین کو تقریباً 1200 بنکروں، ٹکنالوجی کے 20 ماہرین اور 30 کاریگروں نے تیار کیا تھا۔ 47 ٹن کے اس قالین میں 35 ٹن اون اور 12ٹن سوت کا استعمال کیا گیا تھا جس میں 2,268,000 پھندے یا گرہیں (Knots) ہیں۔ ایک بڑے فانوس کے علاوہ اس مسجد میں تانبے اور طلائی پرتوں والے جرمن ساخت کے دیگر سات فانوس بھی ہیں۔ سب سے بڑے فانوس کا دائرہ 10میٹر ہے اور اس کی اونچائی 15 میٹر ہے۔ یہ بڑا فانوس اہم گنبد کے درمیان میں نصب کیا گیا ہے۔ ان سے قبل فانوسوں کا ریکارڈ عمان میں واقع سلطان قابوس جامع سے معنون کیا گیا تھا۔

اس مسجد میں کل 82گنبد ہیں، بڑے گنبد کا باہری دائرہ 32.8میٹر کا ہے اور اس کی اونچائی 70 میٹر کی ہے جو کہ بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ ان گنبدوں کی تزئین کاری سفید ماربل سے کی گئی جبکہ اندرونی آرائش سفید جپسم سے کی گئی ہے۔ اس مسجد کے صحن کو بہترین قسم کے رنگین پھول دار پچی کاری کے ماربل سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے صحن کا رقبہ 17,000 مربع میٹر پر محیط ہے۔ اس مسجد کے چاروں کونوں پر چار میناریں تعمیر کرائی گئی ہیں جن کی اونچائی 107 میٹر ہے۔ آہن بستہ کنکریٹ سے بیرونی حصار تیار کیا گیا ہے جس کا رقبہ گراؤنڈ سے پانچ گنا 22000 مربع میٹر ہے۔ اس کی تعمیر میں تقریباً 210,000 مکعب میٹر کنکریٹ اور 33,000 ٹن اسٹیل کے سریو ں کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہ مسجد زمین کی سطح سے 9 میٹر اونچے پلیٹ فارم پر تعمیر کرائی گئی تھی، مغربی جانب مکہ معظمہ کی سمت میں اس مسجد کی قبلہ دیوار ہے جس کی کو فی خط میں اللہ تعالیٰ کے 99 اسماء مبارک سے تزئین کاری کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں چاروں جانب کی دیواروں کی سطح پر بھی نہایت نفاست کے ساتھ تزئین کاری کی گئی ہے۔ اس مسجد میں جو خطاطی کی گئی ہے وہ پھول دار اور نباتاتی ہے، جن کے پس منظر میں فائبر آپٹکس کی خوشنما روشنی رہتی ہے۔ مغربی دیوار کے درمیانی حصہ میں ماربل سے تعمیر شدہ ایک محراب ہے جہاں پر امام جماعت کی امامت کرتے ہیں، اس محراب کی طلائی شیشہ (Gold -Glass) کی پچی کاریوں سے تزئین کاری کی گئی ہے جن کی وجہ سے وہاں کا منظرنامہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ اسلامی ضیا مکہ معظمہ کی جانب سے آرہی ہے۔ نماز کے ہال کا سائز، ڈیزائن اور اس کی تزئین کاری اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہاں کا ماحول انتہائی پُرسکون ہوتا ہے جو کہ نمازیوں کے ذریعہ نماز ادا کرنے کے دوران نہایت لازمی ہوتا ہے۔

اس مسجد کے پروجیکٹ کا آغاز 1998 میں شیخ زائد نے کیا تھا اور 2009 میں اس مسجد کا تعمیراتی کام مکمل ہوگیا تھا۔ ابو ظہبی کے ایک انجیئر علی العامری نے یہ بتایا تھا کہ ”شیخ زائد کی یہ خواہش تھی کہ اس مسجد کی تعمیر 9 میٹر اونچے پلیٹ فارم پر کرائی جائے تاکہ وہ دور سے ہی صاف نظر آئے۔“ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ مسجد کی تعمیر میں صد فیصد اٹلی سے درآمد ماربل کا استعمال کیا گیا تھا اور اس مسجد کی تعمیر میں ہزاروں کاریگروں نے کام کیا تھا جن میں زیادہ تر کاریگروں کا تعلق ایشیائی برصغیر سے تھا جبکہ سنگ تراش مراقش سے بلائے گئے تھے۔ ہزاروں قسم کے بیش قیمتی اور جزقیمتی پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی ماربل میں آمیزش کر دی گئی تھی تاکہ اس مسجد کی عمارت کی تزئین کاری میں چار چاند لگ جائیں۔ نماز ادا کرنے کے اہم مرکزی ہال کے علاوہ خواتین کے لئے مختص دو کمرے بھی اس مسجد میں تعمیر کرائے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک میں بیک وقت 1500 خواتین کے ذریعہ نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ایک اخبار ’یو اے ای پیپر‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اس مسجد کی پروجیکٹ ڈائیرکٹر انجینئر خوالہ سلیمان سلیمانی نے بتایا تھا کہ ”مرحوم شیخ زائد نے مسجد کے لئے جگہ اور اس کے ڈیزائن کا انتخاب بذات خود کیا تھا کیونکہ وہ ابو ظہبی کے وسطی علاقے میں اس کا قیام چاہتے تھے“۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ اس مسجد کا طرز تعمیر اسلامی روایتی ڈیزائن اور جدید آرکیٹکچرل تکنیک کی آمیزش پر مبنی ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس مسجد کے اندرونی اور بیرونی حصوں کی تزئین کاری ماربل سے ہی کی گئی تھی۔ اس مسجد کا باہری حصہ بھی اندرونی حصہ کی مانند نہایت دلکش ہے۔ مغربی ملک کی ایک خاتون سیاح نے اس مسجد کے تعلق سے اپنے بلا گ پر لکھا تھا کہ ”یہاں پر نہ صرف غیر معمو لی سکون ہے بلکہ یہ مسجد غیر معمولی طور پر خوبصورت بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ دنیا کے عظیم عجائبات کی فہرست میں شامل کرلی جائے گی۔“ ابو ظہبی میں مقیم جرمنی کے ایک باشندے ٹرسٹر(Terster) نے اس ضمن میں کہا تھا کہ ”حقیقت میں یہ نہایت عظیم مسجد ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں شیخ زائد جیسی بڑی مسجد نہیں دیکھی ہے، جب ہم اس مسجد کے اندرونی آرکیٹکچر اور آرٹ کے بارے میں ذکر کرتے ہیں تو ہمارے پاس کہنے کے لئے صرف ایک ہی لفظ ”شاندار“ ہوتا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں مقیم فن لینڈ کی ایک گھریلو خاتوں نے روزنامہ یو اے آئی سے بات چیت کرتے ہو ئے کہا تھا کہ ”ہم نے شیخ زائد مسجد میں نہایت شاندار اور متاثر کن اسلامی آرکیٹیکچر کا دیدار کیا۔ میں اس عظیم کارنامہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں۔“ اس مسجد میں گائیڈ کی خدمات انجام دینے والے احمد المہیبی کا کہنا تھا کہ ”اس مسجد میں گائیڈ کے طور پر خدمات انجام دینا بھی ایک قسم کی مراعت ہے، مجھے اس وقت خوشی کا احساس ہوتا ہے جب میں کسی سیاح کے سوالات کا جواب دیتا ہوں اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر تبسم نمایاں ہو جاتا ہے۔“ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ ”شیخ زائد بن سلطان مسجد کو دکھانے میں 60 سے90 منٹ تک کا وقت لگ جاتا ہے۔“

اس مسجد کے افتتاح کے بعد ابو ظہبی ٹورزم اتھارٹی نے یہ اعلان کیا تھا کہ مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو فرو غ دینے کے لئے غیر مسلم سیاحوں کو اس مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ 12سال قبل عالمی یوم سیاح گائیڈ کی تقریبات کے موقع پر سیاحت کے لئے خصوصی طور پر اہتمام کیا گیا تھا اور اسی دوران سیاحت سے متعلق سیاحوں کو ایسی گائڈ بک فراہم کرائی گئیں تھیں، جن سے سیاح اس مسجد کی ساخت اور اس کی شاندار زیبائش سے لطف اندوز ہوسکیں۔ اس کے ایک ماہ بعد سیاحوں کو ہفتہ سے لے کر جمعرات تک اس مسجد کا دیدار کرنے کی سہولت فراہم کر دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ابو ظہبی کے لائیسینسنگ اور درجہ بندی ڈویژن (ADTA’s Licencing and classification) کے ڈائیرکٹر ناصر سیف الریامی نے کہا تھا کہ ہم نے یہ اقدام اس لئے کیا تھا کہ ”اس کی وجہ سے اسلامی روحانیت، مذہبی امن و آشتی، تعلیم و رواداری کی عکاسی کو فروغ مل جائے۔ اس لئے مقامی باشندون اور سیاحوں دونوں کے لئے اس مسجد کے دروازے کھلے ہوئے ہیں تاکہ وہ اسلامی جانکاری سے نہ صرف واقف ہو جائیں بلکہ ابو ظہبی کی وراثت سے بھی آشنا ہوسکیں۔“

ناصر سیف الریامی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ”یہ مسجد ابو ظہبی کی روایات، گرمجوشی کے ساتھ ضیافت اور مہمان نوازی کی ایک علامت ہے اور نکتہ رسی کے ساتھ وہ سیاحوں کو اس بات کی جانکاری دیتی ہے کہ وہ اس سلطنت کی راجدھانی میں پہنچ گئے ہیں، یہ مسجد ابو ظہبی امارت کی تمام خصوصیات کی ترجمانی کرتی ہے۔“ اس مسجد کے تعلق سے شائع کرائی گئی گائڈ بک میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ ہزاروں مسلمان جو کہ یہاں پر نماز ادا کرنے کے لئے آتے ہیں ان کے علاوہ جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی، رو س، امریکہ، ارجنٹینا اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے سیاح بھی اس مسجد کا مشاہدہ کرنے آتے ہیں۔ مغربی ممالک کے زیادہ تر افراد تو صرف شیخ زائد مسجد کی تعمیراتی شان و شوکت کو دیکھنے کے لئے ہی ابو ظہبی آتے ہیں لیکن جو خواتین اس مسجد کو دیکھنا چاہتی ہیں انہیں سر سے لے کر پیروں تک پردہ کرنا ہوتا ہے اور انہیں مسجد کے داخلی دروازے پر ہی عبایا (Abaya) دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ زیب تن کرلیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پابندی بھی عائد کی گئی ہے کوئی بھی غیر مسلم قرآن کریم کو نہیں چھوئے گا۔ گا ئڈ پہلے ہی سیاحوں کو تاکید کر دیتے ہیں کیونکہ مسجد کے ہر ہال، جہاں نماز ادا کی جاتی ہے نہایت احترام کے ساتھ قرآن کریم الماریوں میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

یہ مسجد غیر معمولی طور پر اتنی کشادہ ہے کہ اس میں بیک وقت 40,960 نمازیوں کے ذریعہ نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ 7126 نمازی نماز کے بڑے ہال میں 1960 نمازی کھلے ہوئے ہال میں 980 خواتین نمازی ایک دیگر کھلے ہوئے ہال میں 22729 نمازی صحن میں، نماز ادا کرنے کے مرکزی ہال کے داخلہ کی جگہ پر 682 اور مسجد کے اہم ہال کے داخلہ کی جگہ پر 784 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے والی اتھارٹی کے پروموشن ڈائریکٹر علی الحسنی کا کہنا تھا کہ ”شیخ زائد مسجد نہ صرف ابو ظہبی میں تاریخی نشان امتیاز ہے بلکہ پورے متحدہ امارات کی یہ ایک غیر معمولی افتخار والی مذہبی عمارت ہے۔ یہ صرف عبادت کرنے والی عمارت (مسجد) ہی نہیں بلکہ یہ ملک اور بیرون ملک کے سیاحوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔

آج کے دور میں جہاں اسلام کو مذموم اور منظم طریقہ سے بدنام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہیں پر اسلام کے آثار قدیمہ، نوادرات، فن پاروں اور اسلامی ایجادات کو دیکھ کر پوری دنیا کے لوگ خصوصی طور پر امریکہ اور یوروپ سے تعلق رکھنے والے لوگ اور سیاح انہیں دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم اور اس کی فیاضی ہے کہ جتنی اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہیں اس کی آفاقی فضیلت دو بالا ہوتی جا رہی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close