Connect with us

دلی این سی آر

اقتدار میں واپسی کے بعدکجریوال بنیں گے وزیر اعلیٰ :آتشی

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی :دہلی الیکشن: جیسے جیسے دہلی میں انتخابات کی تاریخ قریب آ رہی ہے، سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بی جے پی اور کانگریس لگاتار کہہ رہی ہیں کہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی اروند کیجریوال دہلی کے وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتے۔ اس کے لیے دونوں فریقین ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف سے عائد کردہ شرائط کا حوالہ دے رہے ہیں۔
اس دوران دہلی کے وزیر اعلیٰ آتشی نے بتایا ہے کہ کیجریوال اقتدار میں واپس آنے کے بعد دوبارہ وزیر اعلیٰ کیسے بن سکتے ہیں۔ہندوستان ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں، کالکاجی سے AAP امیدوار، آتشی نے کہا کہ اس کیس کی قانونی حیثیت "بالکل واضح” ہے۔ انہوں نے کہا، ‘قانونی طور پر یہ بالکل واضح ہے کہ جو بھی الیکشن لڑ سکتا ہے وہ وزیراعلیٰ بننے کا اہل ہے۔ اس لیے اس کی صداقت بالکل واضح ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں اروند کیجریوال نے مبینہ شراب گھوٹالہ کیس میں ضمانت پر رہا ہونے کے دو دن بعد دہلی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسمبلی انتخابات کے بعد ہی اقتدار میں واپس آئیں گے جب دہلی کے لوگ انہیں "ایمانداری کا سرٹیفکیٹ” دیں گے۔
اے اے پی نے اگلے ماہ اقتدار میں واپسی کے لیے اروند کیجریوال کو اپنا وزیر اعلیٰ امیدوار قرار دیا ہے، جب کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ابھی تک ایسا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے لگائی گئی ضمانت کی شرط کی وجہ سے اروند کیجریوال کے وزیر اعلیٰ نہ بننے کے امکان پر بات کرتے ہوئے، آتشی نے کہا کہ ان کی پارٹی نے ہمیشہ "مسلط شرائط” میں کام کیا ہے۔دہلی کے وزیر اعلی نے کہا، ‘پچھلے 10 سالوں سے، AAP نے ہمیشہ کسی نہ کسی حالت میں اپنی حکومت چلائی ہے۔ ہم فروری 2015 میں دہلی میں اقتدار میں آئے۔
مئی 2015 میں وزارت داخلہ نے غیر قانونی طور پر دہلی حکومت کے تمام اختیارات چھیننے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ ہم نے آٹھ سال تک عدالت میں اس کے خلاف لڑا، اور ہم درست ثابت ہوئے۔ آٹھ دن کے اندر انہوں نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس نے پھر سے ہمارے تمام اختیارات چھین لیے۔آتشی نے کہا کہ AAP اور کیجریوال نے تمام "حالات” کے باوجود ایک کامیاب عوام نواز حکومت چلائی ہے۔ اس لیے ان (کیجریوال) پر شرائط عائد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے 5 فروری کو ایک ہی مرحلے میں ووٹنگ ہوگی۔ جبکہ ووٹوں کی گنتی 8 فروری کو ہوگی۔ اس دن پتہ چل جائے گا کہ اگلے پانچ سال تک دہلی کا اقتدار کس کے پاس رہے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دلی این سی آر

اردو اکادمی کے زیر اہتمام ڈراما فیسٹول کے تیسرے روز منٹو کی کہانی ’’جیب کترا‘‘ کی متاثر کن پیشکش

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:سعادت حسن منٹو کا شمار اردو افسانے کے اُن چند نادر تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور معاشرتی برائیوں کو بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کیا۔انھوں نے اپنے قلم کے زور سے سماج کے دوہرے چہروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ ان کا فن زندگی کی کڑوی حقیقتوں، انسانی کمزوریوں اور معاشرتی تضادات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر حقیقت پسندانہ ہے، جس میں طنز و مزاح کے پہلو بھی نمایاں ہیں۔ منٹو کے فن کی یہی خوبیاں انھیںاردو فکشن کا ایک منفرد اور لازوال افسانہ نگار بناتی ہیں۔
اردو اکادمی ،دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ’’اردو ڈراما فیسٹول‘‘ کے تیسرے دن منٹو کی یہی فنی و فکری خوبیاں ناظرین کے دل و دماغ پر اثرانداز رہیں۔ آج شام شری رام سینٹر میں اداکار تھیٹر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام منٹو کے معروف افسانے ’’جیب کترا‘‘ کو اسٹیج پر پیش کیا گیا، جس کی ہدایت کاری معروف تھیٹر فنکار جناب ہمت سنگھ نیگی نے کی۔ڈرامے کی پیشکش سے قبل ناظمِ محفل جناب مالک اشتر نے منٹو کے فکر و فن اور تھیٹر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی، جس کے بعد کہانی کی پیشکش نے ناظرین کو گہرے تاثرات میں ڈبو دیا۔
یہ کہانی ایک جیب کترے ’’کاشی‘‘ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو حالات کے جبر کے تحت چوری پر مجبور ہے۔ ایک دن بازار میں وہ ’’بملا‘‘ نامی عورت کا بٹوہ چرالیتا ہے، مگر اس میں موجود ایک خط کی افسردہ تحریر اسے پشیمان کردیتی ہے۔ اسے بملا کی زندگی میں غم اور مایوسی کے ایسے آثار نظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ انکشاف کاشی کے دل میں ندامت اور انسانیت دونوں کو بیدار کردیتا ہے۔ وہ بملا سے اپنے جرم کی معافی مانگتا ہے اور اس کی زندگی میں دم توڑتی امید کو پھر سے جلا بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔بدلے میں بملا وعدہ کرتی ہے کہ وہ کاشی کو ایک بہتر انسان بننے میں مدد کرے گی، مگر برسوں کی چوری نے کاشی کو ’’کلیپٹو مینیا‘‘ جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا کردیا تھا، جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ کہانی کا کلائمکس اس وقت آتا ہے جب بملا اپنی مجبوریوں کے باعث کاشی سے دوبارہ چوری کرنے کو کہتی ہے، لیکن اس بار کاشی انکار کردیتا ہے کیونکہ وہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ عزم کرچکا ہوتا ہے۔ کہانی کا اختتام علامتی اور فکرانگیز انداز میں ہوتا ہے، جو ناظرین کے ذہنوں پر یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ کیا کاشی اپنی نئی راہ پر قائم رہ پائے گا یا حالات اسے دوبارہ جرم کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔
یہ ڈراما کل اٹھارہ کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں دو مرکزی، دو معاون اور چودہ ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی سات بنیادی اور تین ضمنی مناظر پر مشتمل تھی۔ فنکاروں نے اپنی بے مثال اداکاری اور جذباتی گہرائی کے ساتھ منٹو کی سادہ زبان کو اس طرح مجسم کیا کہ ناظرین کے لیے افسانوی کردار اور تھیٹر اداکار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ معاون و ضمنی فنکاروں نے بھی اپنے دلچسپ مکالموں، گہرے تاثرات اور مزاحیہ حرکات کے ذریعے کہانی کے جذباتی توازن کو آخر تک برقرار رکھا۔مختصر یہ کہ یہ ڈراما نہ صرف فنِ اداکاری کے اعتبار سے کامیاب رہا بلکہ اپنے جامع و مؤثر اسکرپٹ، اثرانگیز مکالموں اور فنی پیشکش کے باعث ناظرین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔
ڈرامے کے اختتام پر اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار جناب ہمت سنگھ نیگی کو مومینٹو اور گلدستہ پیش کر کے ان کی شاندار پیشکش کو سراہا۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبا کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

اردو اکادمی کے زیر اہتمام35واں اردو ڈراما فیسٹول کا آغاز

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:ڈراما ادب کی وہ صنف ہے جس میں زندگی کے حقائق، احساسات اور مظاہر کو کرداروں اور مکالموں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ معروف فلسفی و نقاد ارسطو کے مطابق ڈراما انسانی اعمال کی تقلید ہے، یعنی یہ انسانی زندگی کو پیش کرنے کا دلچسپ اور مؤثر ذریعہ ہے۔اردو ڈرامے کی ایک اہم شاخ اسٹیج ڈراما ہے، جس میں اداکاری کے ذریعے کسی کہانی یا واقعے کو براہِ راست ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے اسٹیج پرفارمنس نہ صرف تفریح کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور فکری شعور کو بھی بیدار کرتے ہیں۔
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو اکادمی، دہلی گذشتہ۳۵برسوں سے مسلسل اردو ڈراما فیسٹول کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ اس فیسٹول کا مقصد محض ناظرین کے ذوق کی تسکین ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ثقافت کے فروغ اور عصری مسائل کے فنی اظہار کو بھی اجاگر کرنا ہے۔اس سال بھی اردو اکادمی، دہلی نے محکمہ فن، ثقافت و السنہ، حکومتِ دہلی کے زیر اہتمام چھ روزہ ۳۵واں اردو ڈراما فیسٹول منعقد کیا ہے۔ یہ فیسٹول 10 نومبر سے شروع ہوکر 15 نومبر تک سری رام سینٹر، منڈی ہاؤس میں جاری رہے گا، جہاں ہر روز شام ساڑھے چھ بجے ایک نیا اسٹیج ڈراما پیش کیا جارہا ہے۔
افتتاحی نظامت میں اطہر سعید نے نہایت دل کش انداز میں اردو ڈرامے اور پارسی تھیٹر کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اسٹیج ڈراموں کی ادبی و ثقافتی اہمیت پر گفتگو کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر رمیش ایس لعل (لنک آفیسر، اردو اکادمی، دہلی) نے اپنے استقبالیہ خطاب میں اس فیسٹول کو تھیٹر سے وابستہ فنکاروں کے لیے ایک مثبت اور با مقصد پلیٹ فارم قرار دیا۔فیسٹول کے پہلے دن پریتی پریرنا فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام پیش کیے گئے ڈرامے ’’بدھا اور غالب سے ملاقات‘‘ نے اپنے منفرد موضوع، مکالموں اور اداکاری کے ذریعے ناظرین کو مسحور کردیا۔ ڈراما ایک نوجوان شاعر کی خود شناسی کی کہانی ہے جو مرزا غالب کے کلام اور گوتم بدھ کے افکار سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ ایک طرف وہ غالب کے اشعار کے ذریعے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری جانب بدھ کی تعلیمات اسے روحانی بصیرت عطا کرتی ہیں۔ڈرامے میں فلسفیانہ اور ادبی دونوں جہتیں اس خوبی سے یکجا کی گئی ہیں کہ ناظرین خود کو کرداروں کے احساسات میں شریک محسوس کرتے ہیں۔ جناب اشوک لال کی تحریر اور آشیش شرما کی ہدایت نے اس پیشکش کو مزید دلکش بنا دیا۔دھرمیندر، وکرم آدتیہ، پریرنا کشیپ اور دیگر فنکاروں نے اپنے کرداروں کو بھرپور انداز میں نبھایا، جبکہ مکالمے، اسکرپٹ اور منظرنامہ نہایت بامعنی اور مؤثر رہے۔
ڈرامے کےاختتام پر اردو اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیرحسن قدوسی نے ہدایت کار آشیش شرما کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے ان کی کاوشوں کو سراہا۔تقریب میں اکادمی کے سابق سکریٹری انیس اعظمی، ڈاکٹر شبانہ نذیر، ایڈوکیٹ عبدالرحمٰن، شیخ علیم الدین اسعدی، پروفیسر خالد علوی، پروفیسر رحمان مصور، فرحت احساس سمیت علمی و ادبی شخصیات اور تھیٹر کے شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

دہلی میں ہواکے معیار میں معمولی بہتری

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی :دارالحکومت دہلی میں آج صبح ہوا کے معیار میں معمولی بہتری دیکھی گئی، لیکن یہ اب بھی انتہائی خراب زمرے میں رہا۔ ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) آج صبح 8 بجے 345 پر ریکارڈ کیا گیا، جو اتوار کو 391 ریکارڈ کیا گیا تھا۔مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کے مطابق، آنند وہار میں 379، علی پور میں 360، اشوک وہار میں 367، بوانا میں 412، بروری کراسنگ میں 389، چاندنی چوک میں 360، دوارکا سیکٹر-8 میں 356، آئی ٹی او آئی میں 367، جے پور میں اے کیو آئی 338 ریکارڈ کیا گیا۔ منڈکا میں 368، نریلا میں 368، اوکھلا فیز 2 میں 348، پتپر گنج میں 376، پنجابی باغ میں 324، آر کے پورم میں 363، روہنی میں 390، اور سونیا وہار میں 369۔
راہل نامی ایک شخص نے کہا، شہر میں واقعی بہت زیادہ آلودگی ہے، یہ دھند نہیں ہے، یہ آلودگی ہے۔ ہمیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے اور ہماری آنکھیں جل رہی ہیں۔ حکومت کو اسے روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پٹاخے پھوٹے گئے، اور پراٹھا جلانے کا دھواں بھی دہلی تک پہنچتا ہے۔
واضح ہوکہ دہلی میں ہوا کا معیاراتوار کوانتہائی خراب زمرے میں چلا گیا تھا، جس کا مجموعی AQI 391 صبح 7 بجے ریکارڈ کیا گیا تھا۔دوسری طرف دہلی پولیس نے اتوار کی رات انڈیا گیٹ پر مظاہرین کو حراست میں لے لیا جو حکومت سے قومی دارالحکومت کے علاقے میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے پالیسی بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

 

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network