دیش
ایس آئی ٹی میں ہندو–مسلم افسران کی شمولیت پر سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلاف، آکولہ فساد معاملہ چیف جسٹس کے پاس بھیجا گیا
(پی این این)
نئی دہلی :ریاست مہاراشٹر کے آکولہ شہر میں گزشتہ سال مئی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) پر سپریم کورٹ کے دو ججوں کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے۔ تقسیم شدہ فیصلہ (Split Verdict) آنے کے بعد یہ معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا کے پاس بھیج دیا گیا ہے، جو فیصلہ کریں گے کہ آیا اسے کسی بڑی بینچ کے سامنے سنا جائے یا کسی تیسرے جج کی رائے حاصل کی جائے۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ جسٹس سنجے کمار اور جسٹس ستیش چندر شرما نے سنایا۔ مہاراشٹر حکومت نے عدالت میں نظرثانی کی درخواست دائر کرتے ہوئے 11 ستمبر کے اس حکم پر اعتراض کیا تھا، جس میں عدالت نے 2023 کے آکولہ فسادات کی غیرجانبدارانہ تفتیش کے لیے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی، جس میں ہندو اور مسلم دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے پولیس افسران شامل ہوں۔ حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس فورس کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا ریاست کی سیکولر پالیسی کے منافی ہے، کیونکہ پولیس اہلکاروں کی پہچان مذہب سے نہیں بلکہ قانون کے نفاذ اور انصاف کی فراہمی سے ہونی چاہیے۔
سولیسیٹر جنرل تشار مہتا نے ریاست کی جانب سے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ اگر ہر فرقہ وارانہ فساد کے بعد پولیس تفتیش افسران کے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی جائے تو یہ ایک خطرناک مثال بن جائے گی، جو ادارہ جاتی سیکولرازم کے اصولوں کو متاثر کرے گی۔ تاہم عدالت نے اپنے سابقہ حکم میں کہا تھا کہ چونکہ یہ واقعہ فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا اور پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے اور مناسب تفتیش میں کوتاہی برتی تھی، اس لیے شفافیت اور غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے لیے دونوں برادریوں کے افسران پر مشتمل ٹیم ضروری ہے۔جسٹس ستیش چندر شرما نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ریاستی حکومت کی نظرثانی درخواست اس حد تک قابلِ غور ہے جہاں یہ ایس آئی ٹی کی تشکیل مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہونے کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘عدالت کی رائے میں چونکہ نظرثانی اور فیصلے کی واپسی صرف اُس حصے تک مانگی گئی ہے جہاں ایس آئی ٹی کی تشکیل مذہبی بنیاد پر کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، لہٰذا یہ درخواست غور کے لائق ہے۔ اس لیے فریقِ مخالف کو نوٹس جاری کیا جائے، جو دو ہفتوں میں جواب داخل کرے۔
دوسری جانب جسٹس سنجے کمار نے ریاست کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست نے دونوں ججوں کے سامنے علیحدہ علیحدہ طور پر درخواست دائر کی، مگر ایک دوسرے کو اطلاع نہیں دی، جو عدالت کے عمل کے منافی ہے۔ جسٹس کمار نے کہا کہ‘‘چونکہ یہ کیس فرقہ وارانہ فسادات سے متعلق ہے اور اس میں مذہبی تعصب کے آثار واضح ہیں، اس لیے ضروری تھا کہ دونوں برادریوں کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے تاکہ شفافیت اور غیرجانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ بدقسمتی سے، مہاراشٹر پولیس نے اس معاملے میں اپنے بنیادی فرائض کو پورا نہیں کیا۔اختلافی فیصلے کے باعث اب معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا کے پاس جائے گا، جو طے کریں گے کہ اس کیس کو کسی نئی بینچ کے سپرد کیا جائے یا کسی تیسرے جج کی رائے حاصل کی جائے۔یہ مقدمہ نہ صرف آکولہ فسادات کی تفتیش کے لیے اہم ہے بلکہ یہ ہندوستانی آئین کے اس بنیادی اصول کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ ریاستی ادارے مذہب، ذات اور عقیدے سے بالاتر ہوکر کام کریں۔
سپریم کورٹ کی یہ کارروائی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اصل مقصد انصاف فراہم کرنا ہے، نہ کہ کسی مخصوص برادری کے حق یا مخالفت میں عمل کرنا۔آکولہ میں 23 مئی 2023 کو دو فرقوں کے درمیان تصادم ہوا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے سنگباری، تشدد اور آتش زنی میں تبدیل ہوگیا۔ مشتعل ہجوم نے کئی گاڑیاں نذر آتش کیں اور پولیس تھانے کا گھیراو کیا۔ اس واقعے میں ایک شخص ولاس مہادیو گائکواڑ ہلاک ہوا جبکہ دو پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے واقعے کے بعد متعدد گرفتاریاں کیں اور سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد کی جانچ شروع کی۔
محمد شریف نامی شہری نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے الزام لگایا کہ فسادات کے دوران ان پر حملہ ہوا مگر پولیس نے نہ تو ایف آئی آر درج کی اور نہ ہی مناسب تفتیش کی۔ ان کی عرضی پہلے ناگپور ہائی کورٹ میں مسترد کر دی گئی تھی، جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت نے 19 ستمبر 2024 کو سماعت کے دوران ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ فسادات کی غیرجانبدارانہ تفتیش کے لیے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی جائے اور اس میں دونوں مذاہب کے افسران شامل کیے جائیں۔اب سپریم کورٹ کے دونوں ججوں کی مختلف آراء کے باعث، اس اہم معاملے کا حتمی فیصلہ چیف جسٹس کے حکم کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
دیش
کرن رجیجوحج معاہدے 2026کیلئے پہنچے سعودی عرب
(پی این این)
ریاض: پارلیمانی اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو سعودی مملکت کے ساتھ دو طرفہ حج معاہدے پر دستخط کرنے اور حج 2026 کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے سعودی عرب کے جدہ پہنچ گئے۔سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر سہیل اعجاز خان اور جدہ میں ہندوستانی قونصل جنرل فہد سوری نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ہفتے کے روز، رجیجو نے پوسٹ کیا، "سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ حج معاہدے پر دستخط کرنے اور حج 2026 کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے جدہ، سعودی عرب پہنچے۔ سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر سہیل اعجاز خان نے ہوائی اڈے پر گرمجوشی سے استقبال کیا۔جولائی کے شروع میں، حج 2026 کے بارے میں اقلیتی امور کی وزارت کے اعلان نے ہزاروں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے حکومت ہند کے تعاون اور سہولت سے حج کرنے کی اپنی روحانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ایک اور موقع کا آغاز کیا۔
حج 2026 کے لیے وزارت کے اعلان میں کہا گیا ہے، "حج کمیٹی آف انڈیا عازمین حج سے آن لائن حج درخواست فارم کے ذریعے حج 2026 کے لیے درخواستیں طلب کرتی ہے، جو سرکاری ویب سائٹ https://hajcommittee.gov.in اور موبائل ایپلیکیشن ‘ حج سہولت'(آئی فون اور اینڈرائیڈ دونوں آلات کے لیے دستیاب ہے)۔درخواست کی کھڑکی 7 جولائی 2025 سے 31 جولائی 2025 تک کھلی تھی ۔نوٹیفکیشن میں درخواست دہندگان کو یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فارم جمع کرانے سے پہلے گائیڈ لائنز اور انڈرٹیکنگس کو اچھی طرح پڑھیں۔ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "درخواست کی آخری تاریخ کو یا اس سے پہلے جاری کردہ مشین سے پڑھنے کے قابل ہندوستانی بین الاقوامی پاسپورٹ کا حامل ہونا لازمی ہے، اور کم از کم 31 دسمبر، 2026 تک درست ہے۔”
حج کمیٹی نے درخواست گزاروں کو مشورہ دیا کہ وہ درخواست دینے سے پہلے اپنی تیاریوں پر غور کریں۔ اس نے کہا، "منسوخات، سوائے موت کی بدقسمتی یا کسی سنگین طبی ایمرجنسی کے، جرمانے کو دعوت دیں گی اور مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ہندوستانی حکومت گزشتہ 10 سالوں سے حج کو شفاف، یکساں، کم خرچ، محفوظ اور روحانی طور پر پورا کرنے والا تجربہ بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ہندوستانی حج مشن – ہندوستان کی سرحدوں سے باہر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا سرکاری آپریشن ہے – نے نئی پہل کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ سعودی حکام کے ساتھ لاجسٹک کو قریب سے مربوط کیا ہے۔
دیش
پی ایم مودی نے 4نئی وندے بھارت ایکسپریس کودکھائی ہری جھنڈی
(پی این این)
وارانسی: وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ کو کہا کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی ترقی میں بنیادی ڈھانچہ ایک اہم عنصر ہے، اور ہندوستان بھی ترقی کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ روحانی سیاحت نے اتر پردیش میں ترقی کی شروعات کی ہے، یاترا کے مقامات پر آنے والے عقیدت مندوں نے ریاست کی معیشت میں ہزاروں کروڑ روپے کا حصہ ڈالا ہے۔وزیر اعظم اپنے لوک سبھا حلقہ وارانسی کے بنارس ریلوے اسٹیشن سے چار نئی وندے بھارت ایکسپریس ٹرینوں کو ہری جھنڈی دکھانے کے بعد بول رہے تھے۔مودی نے کہا، "دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں، اقتصادی ترقی کی سب سے بڑی وجہ ان کا بنیادی ڈھانچہ رہا ہے۔ ہر ملک میں جس نے بڑی ترقی حاصل کی ہے، اس کے پیچھے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "انفراسٹرکچر صرف بڑے پلوں اور شاہراہوں کے بارے میں نہیں ہے۔ جب بھی اس طرح کے نظام کو کہیں بھی تیار کیا جاتا ہے، تو یہ اس خطے کی مجموعی ترقی کو جنم دیتا ہے۔ہندوستان کی تیز رفتار ترقی کی نشاندہی کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا، "بہت ساری وندے بھارت ٹرینوں کے چلنے اور دنیا بھر کے ممالک سے آنے والی پروازوں کے ساتھ، یہ تمام ترقیات اب ترقی سے جڑی ہوئی ہیں۔ آج ہندوستان بھی اس راستے پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔وندے بھارت، نمو بھارت اور امرت بھارت جیسی ٹرینیں ہندوستانی ریلوے کی نئی نسل کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔انہوں نے کہا، ’’وندے بھارت ہندوستانیوں کی ٹرین ہے، جسے ہندوستانیوں نے ہندوستانیوں کے لیے بنایا تھا، جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔‘‘اب تو غیر ملکی مسافر بھی وندے بھارت سے حیران ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ہندوستان نے ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے اپنے وسائل کو بہتر بنانے کی مہم شروع کی ہے اور یہ ٹرینیں اس میں سنگ میل ثابت ہوں گی۔چار نئی ٹرینوں کے اضافے کے ساتھ، مودی نے کہا، اب ملک میں 160 سے زیادہ وندے بھارت ایکسپریس ٹرینیں چل رہی ہیں۔مودی نے مزید کہا کہ روحانی سیاحت آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے اور اس نے اتر پردیش میں ترقی کی شروعات کی ہے۔مودی نے کہا، "ہمارے ملک میں، یاترا کو صدیوں سے قومی شعور کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سفر محض دیوتاؤں کے درشن کے راستے نہیں ہیں، بلکہ ایک مقدس روایت ہے جو ہندوستان کی روح کو جوڑتی ہے۔
دیش
ہلدوانی تشدد:اترا کھنڈ ہائی کورٹ نے مزید ایک ملزم کودی ضمانت
(پی این این)
نینی تال:ہلدوانی تشدد معاملے میں گذشتہ تقریباً دو دسالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک غریب پھل فروش کو ضمانت پر رہا کئے جانے کا ہائی کورٹ نے حکم دیا۔ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحریرکیا ہے کہ ملزم کے خلاف کوئی ڈائرکٹ ثبوت نہیں ہے حالانکہ ملزم سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھائی دے رہا ہے۔ عدالت نے مزید تحریر کیا کہ چونکہ ملزم کا تعلق اسی علاقے سے ہے جہاں پر مبینہ تشدد ہوا تھا لہذا ملزم سی سی ٹی وی فوٹیج میں آگیا ہوگا لیکن ملزم کسی بھی طرح کے تشدد میں شامل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری نے گذشتہ ہفتہ سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کی بحث کے اختتام کے بعد ضمانت عرضداشت پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج سنایا گیا۔سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں ہے اور نہ ہی پولس نے ملزم کے قبضے سے کسی طرح کا ہتھیار ضبط کیا ہے نیز یو اے پی اے قانون کا اطلاق مشکوک ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ ملزمین کو ضمانت سے محروم رکھنے کے لیئے تشدد کے مقدمہ میں دہشت گردی کی روک تھام کرنے والے سخت قانون یو اے پی اے کا اطلاق کیا گیا۔
ہلدوانی تشدد معاملے میں پولس زیادتیوں کے شکار ملزمین کو صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر قانونی امداد فراہم کی جارہی ہے، یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت گرفتار 76/ ملزمین کی ابتک ضمانت منظور ہوچکی ہے۔گذشتہ سماعت پر ملزمین عبدالرحمن،محمد ناظم،ضیاء الرحمن کی ضمانت عرضداشتوں پر سرکاری وکیل کے اعتراض کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے انہیں سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا مشورہ دیا تھا۔عدالت نے کہاتھا کہ دونوں ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں مقررہ وقت میں داخل نہیں کیئے جانے کی وجہ سے ہائی کورٹ سماعت نہیں کرسکتی کیونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ہائی کورٹ کی ہدایت کے مطابق ان دونوں ملزمین کے لیئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہا ہے۔ اسی طرح دیگر چار ملزمین جنید، رئیس احمد انصاری، دانش ملک اور ایاز احمد کی ضمانت عرضداشتوں کو سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے عدالت نے سرکاری وکیل کو اعتراض داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء ہلدوانی صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر کررہی ہے۔ جمعیۃ علماء قانونی امدادکمیٹی کی پیروی کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں 50/ اور دوسرے مرحلے میں 22/ ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت ہائی کورٹ سے منظورہوئی تھی جس میں چھ خواتین کی ڈیفالٹ ضمانتیں بھی شامل ہیں۔ 8/ فروری 2024 / کو اتراکھنڈ کے ہلدوانی شہر کے مسلم اکثریتی علاقے بن بھولپورہ میں اس وقت بد امنی پھیل گئی تھی جب مبینہ طور غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مسجداورمدرسے کا انہدام کرنے کے لیئے پولس پہنچی تھی، انہدامی کارروائی سے قبل پولس اور علاقے کے لوگوں میں جھڑپ ہوگئی جس کے بعد پولس فائرنگ میں پانچ مسلم نوجوانوں کی موت ہوگئی تھی۔اس واقع کے بعد بن بھولپورہ پولس نے 101/ مسلم مر د و خواتین کے خلاف تین مقدمات درج کیئے تھے اور ان پر سخت قانون یو اے پی اے کا اطلاق بھی کیا تھا۔
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر10 مہینے agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر11 مہینے agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر11 مہینے agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ11 مہینے agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار6 مہینے agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ11 مہینے agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
