Connect with us

دلی این سی آر

جامعہ ملیہ میں بین علومی ریفریشر کورس اختتام پذیر

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی :مالویہ مشن ٹیچر ٹریننگ سینٹر(ایم ایم ٹی ٹی سی)جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’سماجی شمولیت اور اشتمالی پالیسی:مساوات اور شمولیت کی اور‘ کے موضوع پر دوہفتے کا بین علومی ریفریشر کورس 14جولائی تا 26 جولائی کامیابی سے اختتام پذیرہوا۔پروگرام میں سینٹرل اور صوبائی اداروں اور ڈیمڈ یونیورسٹیوں سمیت اڑتالیس علوم کے ایک سو چھبیس فیکلٹی اراکین نے سرگرم شرکت کی۔پروگرام میں مختلف علوم کے نقطہ ہائے نظر سے سیشن ہوئے۔
ریفریشر کورس کا افتتاح شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر مظہر آصف کے دست مبارک سے ہوا۔آغاز میں ایم ایم ٹی ٹی سی کی اعزازی ڈائریکٹر پروفیسر کلوندر کور نے شرکا کا پرجوش خیر مقدم کیا اور پروگرام کے مہمان خصوصی پروفیسر مظہر آصف اور پروگرام کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر اروند کمار سینٹر فار اسٹڈی آف سوشل انکلوژن،جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سامعین کے سامنے تعارف پیش کیا۔
افتتاحی تقریر میں پروفیسر کور نے ’شمولیت کے خیال اور تصور‘ کے موضوع پر کورس کی تیاری کے پس پردہ وژن کو سامعین سے ساجھا کیا۔انھوں نے تشخص کے مختلف محوروں میں تاریخی اور جاری علاحدگی کو تنقیدی نقطہ نظر سے جانچنے اور لچک دار اورشمولیت والے کلاس روم کے فروغ کے لیے معلمین کو بااختیار بنانے کے پروگرام کے مقصد پر زور دیا۔
شیخ الجامعہ نے اپنے صدارتی خطاب میں ہندوستان کو قدیم ترین تہذیب و ثقافت میں شمار کرتے ہوئے بتایاکہ اس نے کیسے سماجی تنوع اور تکثیریت کے نصب العین کے لیے جدو جہد کی ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیاکہ ذات پات،مذہب یا نسل کی بنیادی پہچان اور شناختیں سماجی طورپر بُنی جاتی ہیں اور ہم ان اثرات سے آزاد پیدا ہوتے ہیں۔
پروفیسر آصف نے اعلیٰ تعلیم سے متعلق کل ہند سروے(اے آئی ایس ایچ ای) کی رپورٹ دوہزار اکیس اور بائیس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں مجموعی اندراج تناسب(جی ای آر) پسماندہ طبقات جیسے پسماندہ ذات(ایس سی) درج قبائل(ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات(او بی سی) کے طلبہ کی بڑھتی نمائندگی اس کا مظہر ہے۔انھوں نے مختلف مذہبی اقلیتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کی نمائندگی سے متعلق بھی اعدا د و شمار سامعین سے ساجھا کیے۔کبیر،نانک دادو،رائیداس جیسے سنتوں اور مہاتما گاندھی،ساویتری پھولے اور ڈاکٹر امبیڈکر جیسے سماجی انقلابیوں کے کردار پر بھی اظہار خیال کیا کہ پسماندہ پس منظروں سے آنے کے باوجود انھوں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ پروفیسر آصف نے اس بات پر زور دیاکہ این ای پی دوہزار بیس آئین ہند کی دفعات چودہ، پندرہ،سولہ اور چھیالیس میں شامل شمولیت کے وژن کو آگے لے جانے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔اپنی تقریرکے اختتام پر انھوں نے مرزا غالب کا شعر پڑھا ؎:بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا۔
اس کے بعدکورس کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر اروند کمار نے کورس کے خاکے کی تفصیل بتائی جو تین اجزا پر مشتمل تھی۔(اول) نظری و تعلیمی انٹروینشن؛(دوم) ذات پات، جینڈر، نسل اور زبان وغیرہ کے مسائل و موضوعات کے تئیں حساسیت بخشی اور (سوم)شمولیتی پالیسی کی عمل آوری والی ایجنسیوں کی طرف سے کاروائی سے بھرپور کام۔
پروگرام کے خطبات میں شمولیت کے نظری و عملی پہلوؤں پر پروفیسر فرحت نسرین،شعبہ تاریخ و ثقافت،جامعہ ملیہ اسلامیہ،پروفیسر نشی کانت کولگے،مانو،پروفیسر راجیش گل، شعبہ سماجیات، پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر گومتی بودرا ہیم بروم،شعبہ سماجیات،ڈاکٹر ویبھوتی نایک، سی ایس ایس ایس،کولکتہ، پروفیسر نانی میکالائی،ڈائریکٹر سینٹر فار وومین اینڈ ڈولپمنٹ اسٹڈیز، ڈاکٹر پرشانت نیگی،پروفیسر رضی الدین عقیل،شعبہ تاریخ،دہلی یونیورسٹی اور پروفیسر چارو گپتا کے لیکچرز شامل تھے۔
حساسیت بخشی والے حصے میں پروفیسر ارچنا دسی، اینٹی ڈسکریمی نیشن آفیسر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،پروفیسر نشاط زیدی، اعزازی ڈائریکٹر سروجنی نائیڈو سینٹر فار وومین اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، ڈاکٹر نتن تگاڑے، حیدر آباد یونیورسٹی، پروفیسر سنتوش سنگھ،امبیڈ کر یونیورسٹی،پروفیسر چنا راؤ سی ایس ایس آئی،جے این یو،ڈاکٹر کے۔کولہو سینٹر فار نارتھ ایسٹ اسٹڈیز اینڈ پالیسی رسرچ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،ڈاکٹر کورسی ڈ۔کھرشنگ،پروفیسر رمیش بائیری،آئی آئی ٹی بمبئی کے خطبات تھے۔
ایکشن اورینٹیڈ اپروچ والے حصے میں ڈاکٹر دھروپ کمار سنگھ شعبہ تاریخ،بی ایچ یو،پروفیسر نثار احمد خان، ڈپارٹمنٹ آف آرکی ٹیکچر،جامعہ ملیہ اسلامیہ، ڈاکٹر دپتی مولگند، شیو نادار یونیورسٹی، ڈاکٹر پرادیومن باگ،شعبہ معاشیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر روی کانت،سی ایس ڈی ایس اور پروفیسر ویشال چوہان کے لیکچر ز شامل تھے۔
اس پروگرام میں چند اور ممتاز علمی شخصیات نے حصہ لیا ان میں ڈاکٹر روی کانت مشرا،(جوائنٹ ڈائریکٹر، پرائم منسٹر س میموریل میوزیم اینڈ لائبریری)،ابھے کمار،آئی ایف ایس،(ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آف انڈین کونسل آف کلچرل ریلیشنز) نول کشور رام (کمشنر،پونے ایند ایکس ڈائریکٹر،پی ایم یو،ایکس۔جوائنٹ سیکریٹری،وزارت مالیات) اور چترنجن ترپاٹھی،ڈائریکٹر نیشنل اسکول آف ڈراما بھی شامل ہیں۔
یوجی سی مینڈیٹ کے حساب سے شرکا کے آموزشی ماحصل کی جانچ کے لیے ایک اسیسمنٹ ایکسرسائز بھی کرائی گئی۔اس میں ایم سی قیو ٹسٹ، مساوات اور عدل کے متعلق سوالات کے ارد گردگروپ پرزینٹشین شامل ہیں۔ پروگرام کے سلسلے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے شرکا نے کورس کے تصوراتی خاکے اور اس کی عمل آوری کے نقطہ ئ نظر سے اسے منفرد بتایا۔ انھوں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ یہاں انھوں نے جو کچھ بھی سیکھا ہے اس سے شمولیت والے کلاس روم کے سلسلے میں ان کی کافی معاونت ہوگی۔

دلی این سی آر

نتیش کمار کی شرمناک حرکت کی عام آدمی پارٹی نے کی سخت مذمت

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی :بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے مبینہ طور پر ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کا حجاب اتارنے کی کوشش کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد عام آدمی پارٹی (اے اے پی) اور کانگریس نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ واقعہ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں 1,283 آیوش ڈاکٹروں کو تقرری خطوط تقسیم کرنے کی تقریب کے دوران پیش آیا۔
اے اے پی کی ترجمان پرینکا ککڑ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، “اگر اقتدار میں کوئی مرد عورت کا پردہ ہٹا سکتا ہے تو کل کون فیصلہ کرے گا کہ کیا میرے ڈھکے ہوئے ہاتھ اسے ناراض کرتے ہیں؟”پرینکا ککڑ نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، “اگر آج اقتدار میں کوئی مرد عورت کا پردہ ہٹا سکتا ہے تو کل کون فیصلہ کرے گا کہ میرے ڈھکے ہوئے ہاتھ اسے ناراض کرتے ہیں؟ کنٹرول کبھی کپڑے کے ٹکڑے پر نہیں رکتا۔ مساوات کا مطلب ہے رضامندی۔ ہمیشہ۔” کانگریس پارٹی نے ایک آفیشل x بھی پوسٹ کیا، جس میں اس واقعے کو شرمناک” قرار دیا اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
کانگریس پارٹی کی پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ “یہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہیں۔ ایک خاتون ڈاکٹر ان کا تقرری لیٹر لینے آئی اور نتیش کمار نے اس کا حجاب اتار دیا۔ بہار میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کھلم کھلا اس طرح کی گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کر رہا ہے۔ تصور کریں کہ ریاست میں خواتین کتنی محفوظ ہوں گی؟ نتیش کمار کو اس نفرت انگیز حرکت کے لیے فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔”یہ واقعہ وزیر اعلی کے سکریٹریٹ سمواد میں پیش آیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں 1000 سے زیادہ آیوش ڈاکٹروں کو تقرری خط تقسیم کیے جا رہے تھے۔
اس واقعے کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔چیف منسٹر آفس (سی ایم او) کے مطابق جن ڈاکٹروں کو تقرری کے خطوط ملے ان میں 685 آیوروید ڈاکٹر، 393 ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور 205 یونی ڈاکٹر شامل ہیں۔ ان میں سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ذاتی طور پر 10 مقرر ڈاکٹروں کو ملازمت کے خطوط دیے، جبکہ باقی ڈاکٹروں نے انہیں آن لائن وصول کیا۔ جب نصرت پروین نامی ڈاکٹر کی باری آئی جس نے حجاب اوڑھ کر چہرہ ڈھانپ رکھا تھا تو 75 سالہ وزیر اعلیٰ نے ابرو اٹھا کر حیرت سے پوچھا یہ کیا ہے؟ سٹیج پر کھڑے ہو کر وزیر اعلیٰ نے جھک کر اپنا حجاب اتار دیا۔

Continue Reading

دلی این سی آر

آلودگی پر سرسا نے دہلی کےعوام سےمانگی معافی

Published

on

(پی این این )
نئی دہلی :دہلی حکومت کے وزیر ماحولیات نے دہلی میں آلودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکامی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت کے لیے 8-9 ماہ میں ایسا کرنا ناممکن ہے۔ سرسا نے اس بیماری کے لیے عام آدمی پارٹی کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کانگریس کو بھی نشانہ بنایا۔ دہلی حکومت کے وزیر نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان کی حکومت آلودگی کو کم کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے اور اس میں بہتری آئی ہے۔
دہلی حکومت کے وزیر ماحولیات منجندر سنگھ سرسا نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آلودگی کو کم کرنے کے لیے کئی اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔ ان میں صرف BS-6 گاڑیوں کو ہی دارالحکومت میں جانے کی اجازت دینا اور پی یو سی سرٹیفکیٹ کے بغیر ایندھن پر پابندی لگانا شامل ہے۔ سرسا نے دہلی کے لوگوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ہر روز AQI میں کمی کو حاصل کر رہی ہے، لیکن اسے اتنی جلدی ختم کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ناممکن ہے۔سرسا نے کہا، “میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم ہر ماہ بہتری لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دہلی کے لوگوں سے معافی مانگتے ہوئے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی حکومت کے لیے 9-10 مہینوں میں آلودگی کو مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن ہے۔” لیکن میں دہلی کے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے عام آدمی پارٹی کی حکومت سے بہتر کام کیا ہے، جس نے ہمیں دھوکہ دیا ہے، اور ہم نے روزانہ AQI کو کم کیا ہے۔ اگر ہم اسے ہر روز کم کرتے رہیں، تب ہی دہلی کو صاف ہوا فراہم کرنا ممکن ہوگا۔
سرسا نے کہا، “اے اے پی اور کانگریس کی وجہ سے بیماری۔” سرسا نے کہا کہ دہلی میں آلودگی کا مسئلہ سابقہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی حکومتوں کا نتیجہ ہے۔ بیک وقت دونوں پارٹیوں پر نشانہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہا، “یہ 10-11 سال سے عام آدمی پارٹی کی بیماری ہے۔ اور 15 سال کی کانگریس کی بیماری ہے۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی جو ماسک پہن کر بات کر رہے ہیں، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پچھلے سال آپ کے ماسک کہاں تھے؟ پچھلے سال، اس دن سے بھی زیادہ آلودگی تھی، اس سال، اس دن سے بھی زیادہ گندگی تھی۔ AQI 380 تھا۔ لیکن آپ نے راہل گاندھی کو نہیں دیکھا، کیونکہ یہ لوگ عام آدمی پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ میں تھے، آلودگی کی بیماری بچوں کی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔” لیکن یہ بیماری عام آدمی پارٹی نے دی ہے جس کا علاج ہم کر رہے ہیں۔

Continue Reading

دلی این سی آر

این سی ای آر ٹی کی کتاب میں نفرت بھری تبدیلیاں افسوسناک : ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد

Published

on

(پی این این )
نئی دہلی:شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی مفکر ملت مولانا ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے جمعہ کی نماز سے قبل خطاب میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ نفرت اور تعصب کا جواب اخلاق حسنہ سے دیں اور صبر و تحمل پر عمل کریں انشاء اللہ حالات خود ہی بہتر ہو جائیں گے ۔
مفتی مکرم نے کہا کہ یہ بات قابل مذمت ہے کہ این سی ای آر ٹی نے کلاس 7 کی سوشل سائنس کی جو نئی کتاب جاری کی ہے اس میں غزنوی کے حملوں کو گزشتہ نصابی کتاب کے مقابلے میں بہت زیادہ جگہ دی گئی ہے۔ اس حصے میں محمود غزنوی کے ذریعے تباہی، لوٹ مار اور غیر مسلم علاقوں میں اسلام کی دعوت و تبلیغ پر وسیع بحث کی گئی ہے۔ نصاب کی پرانی کتاب میں محمود غزنوی پر صرف ایک پیراگراف تھا جبکہ نئی نصابی کتاب میں تقریبا چھ صفحات پر محیط ایک مکمل سیکشن ہے جس میں تصاویر اور باکس شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے طالب علموں کو سب کچھ پڑھایا جانا چاہیے لیکن اس کا لحاظ رہنا چاہیے کہ اس سے طلبہ کا ذہن خراب نہ ہواور نصاب کی تیاری میں ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے۔ مفتی مکرم نے کہا کہ ہر مذہب کی تعلیمات میں اخلاقیات سے متعلق جو ہدایات ہیں انہیں نصاب کی کتابوں میں ضرور جگہ دی جانی چاہیے نوجوانوں کو آج سب سے زیادہ اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے، نفرت و بد امنی پیدا کرنے والے مضامین کو نصاب سے دورہی رکھنا چاہیے۔
مفتی مکرم نے کہا کہ پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں ایک نئی مسجد کی تعمیر کی گئی ہے جس کا نام مدینہ مسجد رکھا گیا ہے یہ مسرت کی بات ہے۔ انسانیت نوازی اور بھائی چارے کی مثال قائم کرتے ہوئے سکھ بھائیوں نے عمر پور گاؤں کے لوگوں کے لیے چھ ایکڑ زمین اور پانچ لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا اس گاؤں میں مسلمانوں کے کئی گھر ہیں مگر یہاں کوئی مسجد نہیں تھی مسلمان نماز ادا کرنے کے لیے دوسرے گاؤں میں جاتے تھے اس ضرورت کو سکھ بھائیوں نے محسوس کیا اور اپنی جانب سے اس نیک کام کے لیے پہل کی۔ مفتی مکرم نے کہا کہ اس محبت بھرے عطیہ پر پوری قوم ان کی شکر گزار ہے۔ انہوں نے کہا مرشد آباد کی مسجد کا نام بھی مدینہ مسجد رکھا جانا چاہیے کوئی ایسا نام نہ رکھا جائے جس سے فرقہ پرستوں کو شرانگیزی کا موقع مل جائے مسجد پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network