Connect with us

دلی این سی آر

ڈی ایم آر سی نےکیامرنے والے خاندان کو مالی ا مدد کا اعلان

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی :ڈی ایم آر سی نے دہلی عمارت حادثے میں ہلاک ہونے والے شخص کے لیے مالی مدد کا اعلان کیا، اتنے لاکھ روپے دیں گے۔جمعہ کی صبح شمالی دہلی کے لوہیا چوک علاقے میں پل مٹھائی کے قریب ایک تین منزلہ عمارت کے گرنے سے ملبے تلے دب کر ایک شخص کی موت ہو گئی۔ اب اس معاملے میں، دہلی میٹرو ریل کارپوریشن (DMRC) نے مرنے والوں کے قریبی رشتہ داروں کے لیے 5 لاکھ روپے معاوضہ کی رقم کا اعلان کیا ہے۔ دراصل اس علاقے میں میٹرو ٹنل کا کام چل رہا تھا اور اسے بھی حادثے کی ایک وجہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈی ایم آر سی نے مالی مدد کا اعلان کیا۔متوفی کی شناخت 45 سالہ منوج شرما عرف پپو کے نام سے ہوئی ہے جو عمارت میں گلشن مہاجن کی دکان نمبر 7A میں ملازم تھا اور وہاں گزشتہ 30 سال سے کام کر رہا تھا۔ حادثے کے وقت وہ رات کو دکان میں سو رہا تھا۔ اس واقعے میں عمارت کے سامنے کھڑا ایک ٹرک بھی بری طرح تباہ ہو گیا۔
اس واقعے کے بارے میں، ڈی ایم آر سی نے کہا کہ عمارت کو غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا اور میٹرو کے جنک پوری ویسٹ-آر کے آشرم مارگ راہداری پر عمارت کے ارد گرد سرنگ کی تعمیر کا کام شروع ہونے سے قبل گزشتہ ماہ اسے خالی کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد بھی عمارت میں تین دکانیں اور ایک گودام چلتا رہا جہاں رننگ بیگز اور کینوس کا کپڑا رکھا گیا تھا۔ تینوں دکانیں گراؤنڈ فلور پر تھیں۔
اور پہلی منزل کو گودام کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔بارہ ہندو راؤ کے علاقے میں پل مٹھائی کے ٹوکری والا میں واقع منہدم ہونے والی عمارت میں گراؤنڈ فلور پر تین دکانیں اور پہلی منزل پر ایک گودام تھا۔ کیس کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ) راجہ بنتھیا نے کہا،یہ دکانیں آزاد مارکیٹ کے قریب ہیں اور ان میں زیادہ تر تھیلے اور ترپالیں فروخت ہوتی ہیں۔ ڈی سی پی نے مزید کہامقتول منوج شرما وہاں تقریباً 30 سال سے کام کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی اور کی موت کی کوئی خبر نہیں ہے۔
ڈی ایم آر سی نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے 12 جون 2025 کو عمارت کے مالکان کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ عمارتیں بہت خراب حالت میں ہیں اور حفاظتی اقدام کے طور پر انہیں خالی کر دیا جانا چاہیے۔ جس کی وجہ سے عمارتوں کو خالی کرا لیا گیا۔ سرنگ کی تعمیر کے دوران خطرے کو کم کرنے کے لیے، ڈی ایم آر سی نے سائٹ پر مٹی کی سطح کی گراؤٹنگ اور بیرونی مدد بھی شامل کی تھی۔ تاہم ان احتیاطوں کے باوجود رات کو عمارتیں گر گئیں۔
پولیس نے بتایا کہ حادثے کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف) اور دہلی پولیس کی مدد سے فوری طور پر بچاؤ اور ملبہ ہٹانے کا کام شروع کر دیا گیا اور علاقے کو حفاظت کے لیے بند کر دیا گیا۔ جائے وقوعہ پر ٹنل کی تعمیر کا کام میسرز افکونز کر رہا ہے۔ڈی ایم آر سی نے واقعہ کی تفصیلی تحقیقات کرانے کا یقین دلایا ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے پولیس نے انڈین جسٹس کوڈ (بی این ایس) کی متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی ہے اور کہا ہے کہ عمارت گرنے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری رکھی جائیں گی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دلی این سی آر

اردو اکادمی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز کےایل سیگل کو پیش کیاگیا خراجِ عقیدت

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:دہلی کے ادبی و ثقافتی حلقوں میں آج شام اردو اکادمی، دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز اُس وقت خاصی رونق دیکھی گئی جب پیروٹس ٹروپ نے اپنے نئے اسٹیج ڈرامے’’ترا راہ گزر یاد آیا (کے۔ایل۔سیگل)‘‘ کی شاندار پیشکش کی۔ ڈاکٹر سعید عالم کی تحریر و ہدایت میں تیار یہ منفرد اسٹیج ڈراما ایک میوزیکل فکشن ہے جس میں حقائق اور تخیل کو بڑی خوبصورتی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے تاکہ ملک کے معروف گلوکار کے۔ایل۔سیگل کی زندگی کے مختلف پہلو نمایاں ہوسکیں۔
ڈرامے کا عنوان مرزا غالبؔ کی غزل’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ کے پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے سے ماخوذ ہے، جسے سیگل نے اپنی مترنم آواز میں گایا تھا۔ اس پیشکش کی خاص بات متعدد فنی و تکنیکی تجربات رہے۔ کہانی کو راوی کے ذریعے آگے بڑھانا اور اہم و بنیادی مناظر کو فلیش بیک تکنیک کے ساتھ پیش کرنا ایسے عناصر تھے جنہوں نے ڈرامے کی دلکشی میں اضافہ کیا۔ڈرامے میں جہاں سیگل کی زندگی کے ابتدائی مراحل ،ایک معمولی سیلزمین سے شہرت یافتہ گلوکار بننے تک،بڑے دلکش انداز میں دکھائے گئے، وہیں ان کی گائیکی کے مختلف ادوار، مشہور نغمات اور فنی جدوجہد کو بھی نہایت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا۔ زبان و بیان کے حوالے سے ڈرامے کی نمایاں خوبی یہ رہی کہ ہر کردار اپنے زمان و مکان کے عین مطابق مکالمے ادا کرتا نظر آیا۔کلکتہ کے مناظر میں بنگلہ لب و لہجے کی لطافت اور چاشنی جھلکتی ہے، جبکہ مرادآباد اور کانپور کے مشاعراتی ماحول میں وہاں کا مخصوص اندازِ گفتگو پوری طرح برقرار رکھا گیا۔ اسی طرح دہلی اور ممبئی سے متعلق مناظر میں ان شہروں کی ثقافتی زبان اور مقامی لہجہ فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس سے ڈرامے کی حقیقت نگاری اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوا۔ کہانی میں مختلف کرداروں کے مکالموں کے ذریعے سیگل کے عہد کی اہم شخصیات اور اُس دور کے بنگلہ و ہندی فنکاروں کے فنی اثرات کو بھی مؤثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ڈرامے کا سب سے دلکش و نمایاں پہلو معروف تھیٹر اداکار یش راج ملک کی شخصیت اور ان کی اداکاری رہی، جنہوں نے سیگل کا کردار بخوبی نبھایا۔ وہ نہ صرف سیگل کے مشابہ دکھائی دیے بلکہ ان کے مقبول نغموں، غزلوں اور بھجنوں کو براہِ راست اسی انداز میں پیش کرکے پورے آڈیٹوریم میں سیگل کے زمانے کی یاد تازہ کردی۔
یہ ڈراما کل چوبیس کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں ایک مرکزی، چار معاون اور بیس ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی کی تشکیل سترہ مناظر پر کی گئی تھی، جن میں دو مناظر فلیش بیک تکنیک کے تحت پیش کیے گئے۔ ہدایت کار نے ڈرامے کا اختتام بھی نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، جہاں سیگل کے آخری لمحات کو بے بسی اور درد کے ساتھ دکھایا گیا۔ڈراما مجروح سلطان پوری کی غزل پر مبنی اس مشہور نغمے’’جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں‘‘ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، جسے سیگل نے اپنی آواز میں گایا تھا۔
آڈیٹوریم میں شریک ناظرین کا خیال تھا کہ یہ ڈراما نہ صرف ایک فن کار کو خراجِ عقیدت ہے بلکہ ہندوستانی فلمی و موسیقی کی تاریخ کے ایک سنہرے باب کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش بھی ہے۔ ڈرامے کے اختتام پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور ناظرین نے پیروٹس ٹروپ کی اس کامیاب پیشکش کو بھرپور سراہا۔
آخر میں اکادمی کے سینئر کارکن محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار ڈاکٹر سعید عالم کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے اس پیشکش کی قدردانی کی۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

اردو اکادمی کے زیر اہتمام ڈراما فیسٹول کے تیسرے روز منٹو کی کہانی ’’جیب کترا‘‘ کی متاثر کن پیشکش

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:سعادت حسن منٹو کا شمار اردو افسانے کے اُن چند نادر تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور معاشرتی برائیوں کو بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کیا۔انھوں نے اپنے قلم کے زور سے سماج کے دوہرے چہروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ ان کا فن زندگی کی کڑوی حقیقتوں، انسانی کمزوریوں اور معاشرتی تضادات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر حقیقت پسندانہ ہے، جس میں طنز و مزاح کے پہلو بھی نمایاں ہیں۔ منٹو کے فن کی یہی خوبیاں انھیںاردو فکشن کا ایک منفرد اور لازوال افسانہ نگار بناتی ہیں۔
اردو اکادمی ،دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ’’اردو ڈراما فیسٹول‘‘ کے تیسرے دن منٹو کی یہی فنی و فکری خوبیاں ناظرین کے دل و دماغ پر اثرانداز رہیں۔ آج شام شری رام سینٹر میں اداکار تھیٹر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام منٹو کے معروف افسانے ’’جیب کترا‘‘ کو اسٹیج پر پیش کیا گیا، جس کی ہدایت کاری معروف تھیٹر فنکار جناب ہمت سنگھ نیگی نے کی۔ڈرامے کی پیشکش سے قبل ناظمِ محفل جناب مالک اشتر نے منٹو کے فکر و فن اور تھیٹر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی، جس کے بعد کہانی کی پیشکش نے ناظرین کو گہرے تاثرات میں ڈبو دیا۔
یہ کہانی ایک جیب کترے ’’کاشی‘‘ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو حالات کے جبر کے تحت چوری پر مجبور ہے۔ ایک دن بازار میں وہ ’’بملا‘‘ نامی عورت کا بٹوہ چرالیتا ہے، مگر اس میں موجود ایک خط کی افسردہ تحریر اسے پشیمان کردیتی ہے۔ اسے بملا کی زندگی میں غم اور مایوسی کے ایسے آثار نظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ انکشاف کاشی کے دل میں ندامت اور انسانیت دونوں کو بیدار کردیتا ہے۔ وہ بملا سے اپنے جرم کی معافی مانگتا ہے اور اس کی زندگی میں دم توڑتی امید کو پھر سے جلا بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔بدلے میں بملا وعدہ کرتی ہے کہ وہ کاشی کو ایک بہتر انسان بننے میں مدد کرے گی، مگر برسوں کی چوری نے کاشی کو ’’کلیپٹو مینیا‘‘ جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا کردیا تھا، جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ کہانی کا کلائمکس اس وقت آتا ہے جب بملا اپنی مجبوریوں کے باعث کاشی سے دوبارہ چوری کرنے کو کہتی ہے، لیکن اس بار کاشی انکار کردیتا ہے کیونکہ وہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ عزم کرچکا ہوتا ہے۔ کہانی کا اختتام علامتی اور فکرانگیز انداز میں ہوتا ہے، جو ناظرین کے ذہنوں پر یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ کیا کاشی اپنی نئی راہ پر قائم رہ پائے گا یا حالات اسے دوبارہ جرم کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔
یہ ڈراما کل اٹھارہ کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں دو مرکزی، دو معاون اور چودہ ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی سات بنیادی اور تین ضمنی مناظر پر مشتمل تھی۔ فنکاروں نے اپنی بے مثال اداکاری اور جذباتی گہرائی کے ساتھ منٹو کی سادہ زبان کو اس طرح مجسم کیا کہ ناظرین کے لیے افسانوی کردار اور تھیٹر اداکار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ معاون و ضمنی فنکاروں نے بھی اپنے دلچسپ مکالموں، گہرے تاثرات اور مزاحیہ حرکات کے ذریعے کہانی کے جذباتی توازن کو آخر تک برقرار رکھا۔مختصر یہ کہ یہ ڈراما نہ صرف فنِ اداکاری کے اعتبار سے کامیاب رہا بلکہ اپنے جامع و مؤثر اسکرپٹ، اثرانگیز مکالموں اور فنی پیشکش کے باعث ناظرین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔
ڈرامے کے اختتام پر اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار جناب ہمت سنگھ نیگی کو مومینٹو اور گلدستہ پیش کر کے ان کی شاندار پیشکش کو سراہا۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبا کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

اردو اکادمی کے زیر اہتمام35واں اردو ڈراما فیسٹول کا آغاز

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:ڈراما ادب کی وہ صنف ہے جس میں زندگی کے حقائق، احساسات اور مظاہر کو کرداروں اور مکالموں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ معروف فلسفی و نقاد ارسطو کے مطابق ڈراما انسانی اعمال کی تقلید ہے، یعنی یہ انسانی زندگی کو پیش کرنے کا دلچسپ اور مؤثر ذریعہ ہے۔اردو ڈرامے کی ایک اہم شاخ اسٹیج ڈراما ہے، جس میں اداکاری کے ذریعے کسی کہانی یا واقعے کو براہِ راست ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے اسٹیج پرفارمنس نہ صرف تفریح کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور فکری شعور کو بھی بیدار کرتے ہیں۔
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو اکادمی، دہلی گذشتہ۳۵برسوں سے مسلسل اردو ڈراما فیسٹول کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ اس فیسٹول کا مقصد محض ناظرین کے ذوق کی تسکین ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ثقافت کے فروغ اور عصری مسائل کے فنی اظہار کو بھی اجاگر کرنا ہے۔اس سال بھی اردو اکادمی، دہلی نے محکمہ فن، ثقافت و السنہ، حکومتِ دہلی کے زیر اہتمام چھ روزہ ۳۵واں اردو ڈراما فیسٹول منعقد کیا ہے۔ یہ فیسٹول 10 نومبر سے شروع ہوکر 15 نومبر تک سری رام سینٹر، منڈی ہاؤس میں جاری رہے گا، جہاں ہر روز شام ساڑھے چھ بجے ایک نیا اسٹیج ڈراما پیش کیا جارہا ہے۔
افتتاحی نظامت میں اطہر سعید نے نہایت دل کش انداز میں اردو ڈرامے اور پارسی تھیٹر کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اسٹیج ڈراموں کی ادبی و ثقافتی اہمیت پر گفتگو کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر رمیش ایس لعل (لنک آفیسر، اردو اکادمی، دہلی) نے اپنے استقبالیہ خطاب میں اس فیسٹول کو تھیٹر سے وابستہ فنکاروں کے لیے ایک مثبت اور با مقصد پلیٹ فارم قرار دیا۔فیسٹول کے پہلے دن پریتی پریرنا فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام پیش کیے گئے ڈرامے ’’بدھا اور غالب سے ملاقات‘‘ نے اپنے منفرد موضوع، مکالموں اور اداکاری کے ذریعے ناظرین کو مسحور کردیا۔ ڈراما ایک نوجوان شاعر کی خود شناسی کی کہانی ہے جو مرزا غالب کے کلام اور گوتم بدھ کے افکار سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ ایک طرف وہ غالب کے اشعار کے ذریعے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری جانب بدھ کی تعلیمات اسے روحانی بصیرت عطا کرتی ہیں۔ڈرامے میں فلسفیانہ اور ادبی دونوں جہتیں اس خوبی سے یکجا کی گئی ہیں کہ ناظرین خود کو کرداروں کے احساسات میں شریک محسوس کرتے ہیں۔ جناب اشوک لال کی تحریر اور آشیش شرما کی ہدایت نے اس پیشکش کو مزید دلکش بنا دیا۔دھرمیندر، وکرم آدتیہ، پریرنا کشیپ اور دیگر فنکاروں نے اپنے کرداروں کو بھرپور انداز میں نبھایا، جبکہ مکالمے، اسکرپٹ اور منظرنامہ نہایت بامعنی اور مؤثر رہے۔
ڈرامے کےاختتام پر اردو اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیرحسن قدوسی نے ہدایت کار آشیش شرما کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے ان کی کاوشوں کو سراہا۔تقریب میں اکادمی کے سابق سکریٹری انیس اعظمی، ڈاکٹر شبانہ نذیر، ایڈوکیٹ عبدالرحمٰن، شیخ علیم الدین اسعدی، پروفیسر خالد علوی، پروفیسر رحمان مصور، فرحت احساس سمیت علمی و ادبی شخصیات اور تھیٹر کے شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network