Khabar Mantra
محاسبہ

حاکم وقت نے یہ کیسا ہندوستان کر دیا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

2019 کے چناوی مہا بھارت کی طرف ہم دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ہر روز تشویش کی نئی لہر ہر سیکولر ذہن میں ابھرتی جا رہی ہے ۔ملک کا جو زہریلا ماحول ہے کیا وہ ماحول حاوی رہے گا ۔جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کےعذاب کو لوگ بھول جائیں گے ۔مسلم ۔دلت اتحاد فلاپ ہو جائے گا ،مہا گٹھ بندھن کی حکمت عملی ناکام ثابت ہوگی ۔کیا این آر سی کے نئے ہتھیار سے ہندوئوں کا دل جیتنے کی کوشش ہوگی ؟ اور ملک کیامکمل طور پر ہندوتو کے نرغے میں آ جائے گا؟کیا 2019 کی لڑائی صرف ہندوتو کی بنیاد پر لڑی جائے گی ؟ایسے کئی سوالات ہیں جو آج ہر سیکولرذہن میں گردش کر رہے ہیں ،جس کا جواب بڑا پیچیدہ نظر آ رہا ہے ۔

بی جے پی کے صدر امت شاہ چیلنج کرنے والے انداز میں کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ ایک ایک بنگلہ دیشی در انداز کو ملک سے نکال پھینکیں گے اور بنگلہ دیش ،پاکستان ،افغانستان سے آئے ہندوئوں کو شہریت دیں گے ۔امت شاہ یہیں تک نہیں رکتے بلکہ بہ بانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو این آر سی پورے ملک میں نافذ کریں گے ۔2019کے انتخاب میں بی جے پی 2014کے مقابلہ مزید بڑی جیت حاصل کرے گی ۔اس جیت کے بعد ملک پر سے50 برسوں تک بی جے پی کا اقتدار کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا ۔

امت شاہ کے اس چیلنج کو بھلے ہی ہم نئی جملہ بازی سے منسوب کریں ،لیکن ان کے اس جملہ سے بی جے پی کی شکست خوردہ رگوں میں نئی توانائی ضرور آچکی ہے ۔پارٹی لیڈران کو ہندوئوں کو متحد کرنے کا نیا منتر بھی مل چکا ہے اور اب انہیں دم خم کے ساتھ ملک کی اکثریت کو متحد کرنے کا بھی موقع فراہم ہو چکا ہے ۔این آر سی کے ایشو کو لے کر بی جے پی 2019کے مہابھارت کو جیتنا چاہتی ہے ۔مذہبی جنون ،نام نہاد دیش پریم اور 40 لاکھ بنگلہ دیشیوں کا ایشو لے کر امت شاہ چناوی مہم پر نکل چکے ہیں۔حالانکہ امت شاہ کے رخ اور بی جے پی اعلی کمان کی سیاست کے برعکس آسام بی جے پی این آر سی کے سوال پر دھرم سنکٹ میں ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ این آر سی سے خارج 40لاکھ کی فہرست میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ10لاکھ سے زائد ہندو بھی ہیںاور سونے پہ سہاگہ یہ کہ این آر سی کے تحت آسام کے کئی بڑے لیڈروںاور ان کے اہل خانہ کی شہریت بھی خطرہ میں ہے ۔حتی کہ بی جے پی ایم ایل اے رماکانت دیورا اور ان کے اہل خانہ کے نام بھی این آر سی سے خارج ہیں۔اس کے علاوہ گورکھا اور آسام کے کئی قبائل خاندان کے نام بھی نیشنل رجسٹرلسٹ میں شامل نہیں ہیں جو پچاس کی دہائی میں بنگلہ دیش سے آکر آسام میں مقیم ہوئے ہیں ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آسام میں این آر سی کو لے کر سیاست مفید نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے عوام کی ناراضگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔

حالانکہ اس کے لئے حکومت نے شہریت قانون میں ترمیم کا پانسہ پھینکا ہے ۔امت شاہ نے کہا ہے کہ وہ ہندوئوں کو شہریت دیںگے ،لیکن اس عمل کی خو دآسام بی جے پی میں بھی مخالفت ہو رہی ہے ۔آسام گن پریشد اسے ہندو مسلمان کے طور پر نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ اس کا کہنا ہے کہ غیر ملکی خواہ ہندو ہو یا مسلمان اسے واپس بھیجناچا ہیے، لیکن بی جے پی کو آسام کی فکر نہیں ہے، 2019 کی فکر ہے۔ان کے ترکش میں نفرت کے کئی بڑے بڑے تیر ہیں۔این آر سی کتنا دم دار ہوگا،رام مندر کا وعدہ پورا ہوگا ،یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔بھلے ہی امت شاہ اور بی جے پی اعلی کمان لمبے چوڑے دعوے کر رہا ہے ،ہندوتو کے ہتھیار سے 2019فتح کرنا چاہ رہا ہے لیکن اس کے سامنے ملک کی خطرناک صورت حال بھی ہے، عوام کا غم و غصہ بھی ہے ،پٹرول کی بڑھتی قیمتیں بھی ہیں،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا عذاب بھی ہے اور خاص کر دلت-مسلم دوستی بھی ہے اور سب سے بڑی بات اس کے خلاف مہا گٹھ بندھن کا منظر نامہ بھی ہے ۔

بی جے پی اپنی نفرت کی سیاست کی بندوق دلتوں کے کندھوں پر چلاتی رہی ہے اور مسلمانوں سے انہیں لڑاتی رہی ہے لیکن دلتوں کے خلاف جو نفرت کا ماحول اور تشدد کا ماحول ابھرا ہے اس نے دلتوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بی جے پی کی سیاست کیاہے۔مہاراشٹر،راجستھان ،مدھیہ پردیش سے لے کر اتر پردیش وغیرہ تک دلتوں کے خلاف جس طرح محاذ آرائی ہوئی ہے ۔اس محاذآرائی کے بطن سے دلتوں کا نیا لیڈر چندرشیکھر آزاد عرف راون پیدا ہوا ہے ،جس نے دلت مسلم اتحاد کی نئی بنیاد رکھ کر بی جے پی کی سیاست کو کھلا چیلنج کر دیا ہے ۔گوکہ یوگی سرکار نے راون کو تیرہ ماہ تک جیل میں بند رکھا ۔راون کی یہ اسیری دلتوں کے غم و غصہ میں گھی کا کام کر گئی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی اقتدار نے کل راون کو بلا شرط رہا کرکے دلتوں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کی ،لیکن یہ سیاست بھی فلاپ نظر آ رہی ہے ۔راون نے جیل سے باہر آتے ہی کہا ہے کہ اس کی رہائی ہمدردی کی وجہ سے نہیں بلکہ سرکاری سازش کے تحت ہوئی ہے ۔ہم دلتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی لڑائی لڑتے رہیں گے ۔راون کی بی جے پی کو اس کھلی چنوتی سے یقیناً ایک بڑا جھٹکا لگا ہوگا ۔چنانچہ اب بی جے پی کی نئی حکمت عملی کے تحت 2019کو فتح کرنے کی بساط بچھائی جا رہی ہے ۔نیشنل ہیرالڈ ویب سائٹ کے مطابق بی جے پی اپنے ترکش کا آ ٓخری تیر نکال رہی ہے ۔وہ جانتی ہے کہ اتر پردیش کو فتح کئے بنا وہ اقتدار میں نہیں رہ سکتی ۔امت شاہ ان دنوں بے حد پریشان ہیں۔انہوں نے گورنرسے ملاقات کی ہے اور وہاں یہ بات رکھی ہے کہ اگر کانگریس ،بی ایس پی،ایس پی اور اجت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل کے درمیان گٹھ بندھن ہوتا ہے تو بی جے پی اتر پردیش میں بری طرح ہارے گی اور پارٹی یوپی میں 3-8سیٹوں کے درمیان سمٹ کر رہ جائے گی۔امت شاہ کے اس خیال پر گورنر نے بھی تشویش کا اظہار کیا ااور پوچھا کہ اس کا حل کیا ہے ؟بالآخر بی جے پی نے یوپی جیتنے کا ایک نیا حل تلاش کر لیا ہے ۔خبر یہ ہے کہ یوپی کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جا ئے تاکہ مہا گٹھ بندھن اپنے اپنے علاقوںتک محدود ہو کر رہ جائے۔

اس سلسلہ میں مغربی یوپی کے ایک مرکزی وزیر جو کہ بی جے پی کے ایک ابھرتے ہوئے جاٹ لیڈر ہیں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ یوپی کو چار ٹکڑوں میں بانٹ کر ہی مہا گٹھ بندھن کو قابو میں کیا جا سکتا ہے اور 2019کو فتح کیا جا سکتا ہے ۔1998میں اٹل بہاری واجپئی کی این ڈی اے حکومت نے بھی یہی حربہ استعمال کیا تھا جب ملک میں تین نئی ریاستیں اتراکھنڈ ،چھتیس گڑھ ،جھارکھنڈوجود میں آئیں تھیں اور بی جے پی ان تین ریاستوں میں بڑی طاقت بن کر ابھری ،جس سے بہار میں لالو کمزور ہوئے ،جھارکھنڈ میں شیبوسورین کمزور ہوئے ،تلنگانہ میں چندرا بابو نائیڈو کمزورہوئے ۔حالانکہ مہاگٹھ بندھن سے لڑنے کے لئے یو پی کے ٹکڑے کرنے کا کھیل کامیاب ہو گا یا نہیں،اس پر بھی بی جے پی کے کچھ خاص لیڈروں کو تشویش ہے ۔کہ کہیںیوپی کو توڑنے کا آئیڈیا الٹا نہ پڑ جائے ۔رافیل گھوٹالہ ،جی ایس ٹی نوٹ بندی کا قہر ،دلت ۔مسلمانوں کی بڑھتی دوستی ،جہاںبی جے پی کی سیاست کو فلاپ کر رہی ہے وہیں ،یوپی کی تقسیم کو بھی بے اثر ہو سکتی ہے ۔بی جے پی کا یہ نیا تجربہ پارٹی کے لئے ایک رسک ہے اس سے بہتر ہے کہ بی جے پی ہندوتو کے ہتھیار سے ہی 2019کے مہا بھارت کو فتح کرے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی ایک تشویش کا موضوع ہے۔ بقول شاعر :

حاکم وقت نے یہ کیسا ہندوستان کر دیا
بے جان عمارتوں کو بھی ہندو مسلمان کر دیا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close