Khabar Mantra
محاسبہ

ہمارے پاؤں کاکانٹاہمیں سے نکلے گا

محاسبہ....سیدفیصل علی

کووڈ19-سے جا ن گنوانے والوں کے گھروالوں کومعاوضہ دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ قابل ستائش ہے اورامید کی ایک کرن بھی ہے۔ کورونا کے معاملے میں حکومت کے تمام تر حیلے حوالے ،تاویلات اور دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کورونا سے ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو معاوضہ دینے کا حکم دیا اورحکومت وقت کی بے حسی کو جھنجھوڑتے ہوئے سرزنش کی اورکہا کہ کورونا کے مارے ہوئے مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنا حکومت کا آئینی فریضہ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مرکزی سرکار کو حکم دیا ہے کہ وہ چھ ہفتوں کے اندر کورونا سے مرنے والوں کے لئے معاوضہ کا عمل شروع کرے۔ 

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس دور میں آیاہے جہاں ملک کا ہرآئینی ادارہ ایک پوشیدہ دباؤ کے شکنجے میں ہے۔ خاص کر چند برسوں میں بڑی عدالتوں کے کئی ایسے فیصلے آئے ہیں جس سے عوامی اعتماد اور عدل وقانون پر بھروسہ بری طرح متزلزل ہوا ہے، گوکہ یہ فیصلے اس بات کاغمازبھی ہیں کہ عدل وقانون بے بسی کے کس نہج پرہیں؟ حالانکہ ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً نصف درجن جج صاحبان نوازے بھی گئے،کچھ نئے آئینی اداروں کی زینت بنائے گئے،کوئی گورنر بنا، کسی کے حصہ میں ٹریبونل کے چیئرمین کی کرسی آئی، ایک صاحب تو ریٹائرمنٹ کے باجوود مہینوں سے سرکاری بنگلہ میں براجمان ہیں اورسرکاری نوازش کے انتظار میں ہیں اورایک صاحب تو حکومت وقت کے ایسے منظور نظربنے کہ راجیہ سبھا پہنچادیئے گئے۔ ایک جج صاحب کو تو اپنی خدمت گزاری کے تحت اجودھیا ٹرسٹ میں شامل کیاگیا ۔ عرضیکہ آج کے عدل وقانون کا کٹھ پتلی بننے کا تماشہ سب دیکھ رہے ہیں، حتیٰ کہ جس جج نے مخالف فیصلہ سنایا راتوں رات اس کا ٹرانسفر کردیا گیا اورایک جج کی پراسرار موت آج بھی ایوان عدل وقانون سے جانچ اورانصاف کی فریاد کررہی ہے۔ بلاشبہ آج کے دور میں صحیح انصاف ملنا ہی ایک چمتکار سے کم نہیں ہے۔

کورونا مہلوکین کو معاوضہ دینے کا فیصلہ بلاشبہ عدلیہ کی جرأت و انصاف کا ایسا آئینہ ہے جس میں ہرمظلوم کو امید کاروشن چہرہ نظرآسکتا ہے اورعدلیہ پر سے گرتے ہوئے اعتماد کو بھی استحکام مل سکتا ہے اوریہ سپریم کورٹ ہی تھا جس نے ایک ماہ قبل ملک میں ویکسین کی ناقص تقسیم ، جوانوں کے بجائے بوڑھوں کی ٹیکہ کاری اور ملک میں ویکسین کی دوقیمتوں کو لے کر حکومت کی پالیسی کی لعن طعن کی تھی،اسی کا نتیجہ تھا کہ راتوں رات مودی نے پالیسی تبدیل کی ، 21جون سے سبھی کے لئے مفت کورونا کی ٹیکہ کاری کا اعلان کیا اور خودساختہ مسیحابن بیٹھے۔

دراحقیت مودی حکومت کورونا کے تعلق سے کسی معاوضہ کے حق میں قطعی نہیں تھی، اس نے عدالت میں ایک طرح سے ہاتھ کھڑے لئے تھے، طرح طرح کی تاویلیں دی تھیں، یہاں تک کہا تھا کہ حکومت کے لئے معاوضہ دینا ممکن نہیں ہے، کیونکہ جتنی بڑی تعداد میں لوگ مرے ہیں ،ایسے میں معاوضہ دینے سے قومی خزانے پر کاری ضرب پڑے گاجس سے معیشت کی ترقی کی راہیں مسدود ہوجائیں گی، مگر کورٹ نے اس کے برعکس فیصلہ سنایا اوریہاں تک کہہ دیا کہ مرکز معاوضہ کے سلسلے میں 6ہفتوں کے اندر کارروائی شروع کرے۔ حالانکہ کورٹ نے اپنی جانب سے معاوضے کی کوئی خاص رقم مختص نہیں کی، بلکہ ذمہ داری  محکمہ ڈیزاسٹرمینجمنٹâمحکمہ آفاتá پر ڈال دی۔ اب محکمہ کوطے کرنا ہے کہ معاوضہ کی رقم کتنی ہوگی۔ حالانکہ حکومت بہار پہلے ہی کورونا مہلوکین کے لئے 4لاکھ کامعاوضہ دینے کا اعلان کرچکی ہے، لیکن شرط یہ بھی ہے کہ کورونا سے مرنے والے بہارکے ہی ہوں اوربہارمیں ہی مرے ہوں۔ظاہر ہے کہ مرکز کو معاوضہ کی رقم بہار سے زیادہ کرنی چاہیے، کیونکہ بہار تو ایک چھوٹی ریاست ہے، جب وہ 4لاکھ دے سکتی ہے تو مرکز کو اس سے زیادہ دینی چاہیے، کیونکہ کورونا کی مار سے مڈل کلاس زیادہ تباہ ہوا ہے۔ کسی مریض کے علاج کے لئے 20-20لاکھ روپے تک خرچ ہوئے ہیں، کورونا مریض کو بچانے کے لئے آکسیجن، ریمڈیسور ودیگر ادویہ کے ساتھ ساتھ اسپتال، بیڈ، ایمبولینس وغیرہ تک کے لئے جو پریشانیاں جھیلنی پڑی ہیں اورجس مہنگے دور کا سامنا کرناپڑا ہے وہ گھروالے ہی جانتے ہیں۔ متعدد گھرانے تو مفلسی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں،اسپتالوں کی دوڑلگاتے لگاتے ان کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے، وہ لاکھوں کے صرفہ کے باوجود اپنے مریض کی جان نہیں بچاپائے، ان پر کورونا کے علاج کی وجہ سے قرض کا جوبوجھ بڑھا ہے، اسے اب نسلیں ہی چکائیں گی۔ ایسے میں 4لاکھ کامعاوضہ بھی کم ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ معاوضہ دینے سے مسلسل انکار کرنے والی سرکار کیامعاوضہ کے معاملے میںمخلص ہوگی؟یاکاغذات، ڈیتھ سرٹیفکیٹ، مقامیت وغیرہ کی پالیسی کے تحت معاوضہ کے عمل کو التوائ میں ڈال دے گی۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ معاوضہ کی رقم ایمانداری اورانصاف کے ساتھ بلاتفریق ودھرم ومذہب سب کو یکساں دی جانی چاہیے۔ مگر حکومت کا جورویہ رہا ہے اس  کے تحت معاوضہ کے معاملے میں بہانے بناکر متاثرین کومحروم کرنے کا اندیشہ بھی ہے۔ بہار حکومت نے 4 لاکھ کے معاوضہ کا اعلان توکردیا ہے، مگر شرط بھی لگادی ہے کہ مرنے والا بہار کا ہو اور بہار میں ہی مراہو۔کیایہ عمل انصاف اور سیکولرزم کے خلاف نہیں ہے؟ اگر یہی اصول ملک میں چلنے لگاتو نوئیڈا، غازی آباد، گڑگاؤں اوردلی میں علاج کے دوران اموات کا معاوضہ کیسے ملے گا؟بہار اوریوپی کے زیادہ تر لوگ دلی آتے ہیں، اگر وہ دلی میں مرگئے تو سرٹیفکیٹ کہاں کاملے گا۔ سرٹیفکیٹ کی بناپر ہی معاوضہ کی پالیسی بنے گی۔ بہار سے کورونا مریضوں کا علاج سلی گوڑی، اورگورکھپور میں بھی کیاگیا ہے، بے شمارلوگ اپنے آبائی وطن سے دور دوسری ریاستوں میں کورونا سے مرے ہیں، ان کے اہل خانہ کو معاوضہ کیسے ملے گا، ہونا تو یہ چاہیے کہ جہاں موت ہوئی ہو وہیں سے معاوضہ بھی ملے، خاص کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ جہاں کی ہو معاوضہ کی ادائےگی بھی وہیں سے ہو۔ اپنی ریاست میں مرنے کی لازمیت اورمقامی ہونے کی شرط معاوضہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگی اورانصاف کا قتل بھی ہوگا۔ 

بہرحال 4جولائی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اشوک بھوشن ریٹائر ہوچکے ہیں، لیکن جاتے جاتے انہوں نے انصاف کی بے حس رگوں کوکورامین بھی دیا ہے اوران بے شمار لوگوں کی دعائیں بھی لے گئے، جنہوں نے اپنے پیاروں کو بچانے کے لئے کیاکیاجتن نہیں کئے،مگر لاکھوں کے صرفہ کے باوجود وہ انہیں بچانہیں سکے اورمعاشی طورپر برباد بھی ہوگئے۔ ایسے عالم میں سپریم کورٹ نے انسانیت اورآئینی حقوق کو بچانے کے لئے جوفیصلہ دیا ہے بھلے ہی اس کے عمل درآمد میں کچھ مسئلے کھڑے کئے جائیں ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ ،مقامی اورغیرمقامی کاسوال اٹھایاجائے، لیکن اتنا تو طے ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے آنے والے دور میں ہی سہی متاثرین کو کچھ نہ کچھ راحت ضرورت ملے گی، سپریم کورٹ کے فیصلہ سے حوصلہ لیتے ہوئے  وہ اپنے معاوضہ کے لئے خود حکومت کے آگے سینہ سپر ہوں گے ۔بقول شاعر:

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

[email protected]

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close