Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلامی تہذیب و تاریخ کا تحفظ

مکہ معظمہ عالم اسلام کے لئے اعلی ترین مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے، جہاں سے اسلام کا سورج طلوع ہوکر پوری دنیا میں اسلام کی روشنی پھیلا چکا ہے۔ اسلام جوکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے باعث رحمت ہے تو ہمارے حضور اکرم ؐ کی تعلیمات انسانی زندگی کو صالح بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ قرآنی تعلیمات، اسلامی پیغامات اور ہمارے رسولؐ کی سیرت دنیا کے لئے ایک ایسی مثال ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ تو وقت کا المیہ ہے کہ اسلام اور مسلمان آج معتوب زمانہ ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کو ممعتوبیت کے کٹہرے سے نکالنے کے لئے قدرت بھی حرکت میں ہے۔ جس ملک سے اسلام کی روشنی پھیلی تھی، اب اسی ملک سے ازسر نو اسلام کی معنویت اس کی اہمیت، قرآنی تعلیمات، اسلامی تاریخ کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔ سعودی عرب کا ویژن 2030 اس میں سب سے اہم رول ادا کر رہا ہے۔ مملکت سعودی عربیہ کا ویژن 2030 جہاں سعودی عرب کو دنیا کے مقابلہ کھڑا ہونے کے لئے نئے نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور خادمین حرمین و شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مشن 2030 کے تحت پوری مملکت میں ترقیاتی کام کرا رہے ہیں، وہیں اس بات کا بھی خیال رکھا جا رہا ہے کہ مکہ معظمہ کے مقدس شہر میں اسلام کی روایتی شان وشوکت کا جلوہ برقرار رہے اور اسی منصوبہ کا حصہ ہے کہ مکہ معظمہ اور اطراف میں اسلام کے روایتی طرز تعمیر اور تاریخ کو ہرحال میں محفوظ رکھنے کا عزم کیا گیا ہے۔ اس عزم کے تحت مکہ مکرمہ کے اطراف میں تمام عمارتوں کی تعمیر اسلامی روایت کے زیر سایہ کر دی گئی ہے لیکن یہاں یہ بھی خیال رکھا گیا ہے کہ اسلامی تعمیر عالمی سطح کے مطابق ہو۔ سڑکوں کے نام بھی اب تاریخ کی روشنی میں رکھے جا رہے ہیں، مکہ معظمہ کے علاقے، مقامات اس سرزمین کی عظمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قدیم روایت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ قدیم تاریخی حوالوں اور روایتی شناخت کی طرف دوبارہ توجہ دی جا رہی ہے۔ مملکت نے اب نئے عزم کے ساتھ قدیم اسلامی روایات، آثار قدیمہ اور اسلامی طرز تعمیر کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا ہے۔ جدید سعودی عرب میں مشن 2030 کے تحت اسلامی تشخص، قدیم روایات اور عالمی معیار کے مطابق جو نئے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں وہ اسلام کی سابقہ عظمت اور تاریخ کا گواہ بنتے جا رہے ہیں۔ مشن 2030 کے تحت آثار قدیمہ اور تاریخ کے قدیم باقیات کو نہایت توجہ کے ساتھ تحفظ دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ روایتی طرز تعمیر پر جدید ترقیاتی تعمیر بھی دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ آثار قدیمہ مکہ معظمہ اور اطراف کے تاریخی مقامات اور باقیات کے تحفظ کے لئے جو قدم اٹھائے جا رہے ہیں، اس سے پوری دنیا سے آنے والے عازمین اور سیاحوں کو اسلامی عظمت اور اسلامی تہذیب و تاریخ سے آگہی ملے گی۔ زیرنظر مضمون اسلام کی عظمت کو مزید روشن کرنے والی سعودی عرب کے مشن 2030 پر محیط ہے:

حالانکہ سعودی عرب میں خادمین حرمین وشریفین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور اقتدار میں مشن 2030 کے تحت پوری مملکت میں ترقیاتی کام کرائے جا رہے ہیں، جن میں سے بہت سے پروجیکٹ پائے تکمیل کو پہنچ چکے ہیں اور دیگر پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ یہ تمام ترقیاتی کام عازمین حج اور زائرین عمرہ کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرانے کے نظریہ سے کئے جا رہے ہیں لیکن تمام ترقیاتی کام کرانے میں اس بات کا خیال رکھا جارہا ہے کہ مکہ معظمہ کے مقدس شہر میں اسلام کی روایتی شان وشوکت برقرار رہے۔ چنانچہ مملکت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مکہ معظمہ اور اطراف میں اسلام کے روایتی طرز تعمیر کو ہر حال میں محفوظ رکھا جائے گا۔

8سال قبل بھی مکہ کے گورنر شہزادہ خالد ال فیصل نے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ مکہ معظمہ کے دائرے یا اطراف میں تمام عمارتوں کا نہ صرف طرز تعمیر اسلامی روایت کے مطابق ہونا چاہیے بلکہ جدید تعمیرات کا معیار بھی بین الاقوامی سطح کے مطابق ہونا چاہیے۔ سعودی کمیشن برائے سیاحت اور آثار قدیمہ (Saudi Commission for Tourism and Antiquities) کے ریجنل سربراہ کے مطابق گورنر کے فرمان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ مکہ معظمہ کی اسلامی شناخت اور طرز تعمیر کو ہر حالت میں محفوظ رکھا جائے۔ اس پورے علاقے کو اتنا فرحت بخش اور دلکش بنا دیا جائے تاکہ یہ مقام روحانیت کے جذبہ سے سرشار ہو جائے۔ چنانچہ ریجنل سربراہ محمد ال عمری (Mohammed Al-Amri) نے مزید کہا تھا کہ ’’ہمہ وقت تمام تر حفاظتی اقدامات اور دیگر ضروریات کے اعتبار سے تمام شرائط کو پورا کرنا نہایت ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مکہ معظمہ کے قدیم تاریخی ادوار کی یاد تازہ کرنے کے لئے یہ فرمان تمام رہائشی اور تجارتی عمارتوں اور ٹاوربلاکوں کی اندرونی اور باہری آرائش کے تعلق سے بھی نافذ ہوگا۔

چنانچہ مکہ معظمہ میں واقع عمارات کی دیواروں کی دھلائی کرنے کے لئے اور مقامی باشندوں کی شکایت پر دیگر بلڈنگوں کی دیواروں کی پیوند کاری کے لئے 2 ہفتہ کی ایک اسکیم کے تحت رضاکاروں نے اپنی خدمات انجام دی تھیں۔ سب سے پہلے یہ کام ال عطبیہ (Al -Otabia) ضلع میں شروع کیا گیا تھا۔ جن عوامی مقامات کی جانب اکثر توجہ نہیں دی گئی تھی ان کو سنوارنے میں ہر عمر کے افراد نے اپنا تعاون دیا تھا، اس مہم کے تحت وہاں پر واقع تمام مکانات اور عمارتوں کی دیواروں کو صاف کیا گیا تھا۔ ایک رضا کار نے عربی روزنامہ ال وطن (Al- Watan) کو ایک دلچسپ بات بھی بتائی تھی۔ اس نے اخبار کو بتایا تھا کہ صفائی کی اس مہم کے دوران ایک شخص نے اپنی یہ زبردست خواہش ظاہر کی تھی کہ مختلف سائز اور مختلف رنگوں میں ضلع کے تمام مقامات میں اس کی کار کا رجسٹریشن نمبر Q-F-S لکھ دیا جائے۔ ایک دیگر شخص نے بھی اسی طرح کی خواہش ظاہر کی تھی تمام علاقے کی دیواروں پر وہ ایک عبارت لکھوانا چاہتا تھا۔ چنانچہ رضاکار نے کہا تھا کہ ’’ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مکہ ایک مقدس شہر ہے، اس لئے عازمین حج کو حقیقی مذہبی اور پرسکون ماحول فراہم کرنے کے لئے یہاں پر شائستگی اور نفاست کو یقینی بنانا نہایت ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’جو لوگ کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو وہ خوشخط انداز میں کسی کاغذ یا نوٹ بک میں بھی لکھ سکتے ہیں۔ ان لوگوں کو عمارتوں کی دیواروں پر نہیں لکھنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو جس جگہ پر ہم رہتے ہیں وہاں کی دلکشی مسدود ہو جائے گی بلکہ وراثتی طرز تعمیر اور اس کی ساخت بھی اثر انداز ہو جائے گی۔ اس اسکیم کے روح رواں طلال ابوال نور (Talal Abu Al-Nour) نے پیوند کاری یا مرمت کو اس لئے بھی ضروری قرار دیا تھا کیونکہ اگر ان کی مرمت نہیں کی گئی تو دوسری عمارتوں کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب کسی بھی جائیداد میں کوئی نقصان ہو جاتا ہے یا دراڑ پڑ جاتی ہے تو اس کو درست کرانا یا رنگ روغن کرانا جائیداد کے مالک کے لئے مہنگا پڑتا ہے۔‘‘ اس اسکیم کے تحت نہ صرف دیواروں سے غیر مناسب عبارتوں کو مٹایا جائے گا بلکہ ان کے نقائص بھی دور کئے جائیں گے۔ لہذا ایک مرتبہ جب ان دیواروں پر سفیدی کر دی جائے گی تو ان کی قرآنی آیات اور سماجی اعتبار سے قابل قبول فنکارانہ مصوری سے آرائش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس قدم سے نہ صرف لوگوں کو مناسب برتاؤ کی ترغیب ملے گی بلکہ نوجوان بھی ناقص عادات کو ترک کر دیں گے۔‘‘ جروال پولیس کے افسر نے اپنا خیال پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس پروگرام کے توسط سے نہ صرف پیوند کاری یا مرمت کرنے میں مدد ملے گی بلکہ لوگوں کے غیر ضروری برتاؤ کو درست کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ہم سب یہ کام کرنے کے لئے آگے آگئے ہیں اور کثیر تعداد میں نوجوان طبقہ دیواروں کی صفائی ستھرائی میں تعاون دے رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دیگر لوگوں کی املاک قابل دید ہو جائیں گی اور ان کے اندر اس علاقہ سے منسوب ہونے کا جذبہ مزید قوی ہو جائے گا۔ اس لئے اپنے اس علاقے کو مزید بہتر رکھنے کے لئے انہیں ترغیب ملتی رہے گی۔‘‘

علاوہ ازیں مکہ معظمہ کے میئر نے اس مقدس شہر کی سڑکوں کا نام رکھنے کے لئے ریفارم کمیٹی کی ایک میٹنگ طلب کی تھی، جس میں انہوں نے نہ صرف تبادلۂ خیال کیا تھا بلکہ مشورے بھی طلب کئے تھے۔ ان میں سے کچھ مشورے ایسے بھی تھے، جو شہر کی پاکیزگی کی مناسبت سے غیر مناسب تھے۔ اس سلسلے میں مکہ کے میئر اوسامہ ال بار نے سڑکوں کے نام رکھنے والی اور نمبرنگ کرنے والی کمیٹی سے تبادلۂ خیال کیا تھا اور ان کے خیالات اور تجاویز پر غور وخوض کیا تھا۔ اس کے بعد میونسپل اور شہری امور کی اصلاح جاتی کمیٹی کے وزیر کے ذریعہ فیصلہ لئے جانے کے بعد یہ اسکیم وضع کی گئی تھی کہ کس طرح سے سڑکوں کو ناموں سے منسوب کیا جائے اور جائیدادوں کو نمبروں سے وابستہ کیا جائے۔ اس کام کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی وہ بہت سے معروف تاریخ دانوں اور ماہرین پر مشتمل تھی اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ کمیٹی مکہ معظمہ کے میئر کی انتظامیہ کے اشتراک سے یہ کام انجام دے گی۔ میئر کی انتظامیہ کے ایک افسر نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ کچھ سڑکوں کے نام ’’غیر مناسب‘‘ ہیں جو کہ میئر کی انتظامیہ یا وزارت کی جانب سے منسوب نہیں کئے گئے تھے۔ یہ نام ان علاقوں میں رہنے والے باشندوں کے درمیان عمومی طور پر استعمال کئے جانے والے ناموں سے منسوب کئے گئے تھے اور جن کی تسنیم میئر انتظامیہ کی جانب سے نہیں کی گئی تھی۔ سڑکوں کو ناموں سے منسوب کرنے والی کمیٹی کے ذرائع کے مطابق ابھی تک یہ بتایا گیا ہے کہ کمیٹی نے اب تک 1,161 سڑکوں کو پیغمبر حضرت محمد ؐ کے صحابہ اکرام ؓکے ناموں سے منسوب کر دیا ہے اور جغرافیائی انفارمیشن سینٹر کے تعاون سے میئر انتظامیہ کی ویب سائٹ پرانہیں پوسٹ کرکے شہر کے نقشہ میں ان کا اندراج کر دیا ہے۔

ام القراء یونیورسٹی میوزیم کے سپر وائزر اور سابقہ کمیٹی کے رکن فواز ال دہاس کے مطابق ’’اس کمیٹی نے کام کرنے کا طریقہ ٔ کار مکمل کر لیا تھا کہ مکہ معظمہ کی سڑکوں کا نام رکھنے کا عمل کس طرح شروع کیا جائے۔ ہر ایک شہری ضلع میں سڑکوں کا نام رکھنے کی بنیاد اس دور سے وابستہ تھی، جس دور میں وہ سڑک تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس کام کے لئے پیغمبر حضرت محمدؐ کے عہد سے لے کر موجودہ دور تک روشنی ڈالی گئی تھی۔ ہم نے ان معروف شخصیات کے نام تلاش کئے، جوکہ ان علاقوں میں رہائش پذیر تھے اور جنہوں نے اسلام کے فروغ میں غیر معمولی تعاون دیا تھا۔ ہم نے مکہ معظمہ کی تاریخ میں ان مشاہیر ناموں کا ایک رجسٹر تیار کرکے کمیٹی کے سپرد بھی کیا تھا، جس میں پیغمبر حضرت محمدؐ کے صحابہ کرام ؓ ، اسکالر، شعراء اور ماہرین تاریخ کے نام نامی درج کئے گئے تھے لیکن کئی وجوہات سے یہ کام مکمل نہیں ہو سکا تھا۔ اسی لئے ال دہاس نے یہ مشورہ دیا تھا کہ نئی کمیٹی کو اپنے پیشروؤں کے کاموں کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔ انہیں سابقہ کمیٹی کے کاموں سے بہت سے بہتر طریق کار اختیار کرنے چاہیئں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مکہ معظمہ کے تمام ادوار سے تعلق رکھنے والے اسکالروں اور دانشوروں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان مشاہیر نے غیر معمولی مذہبی اور ثقافتی کارنامے انجام دیئے تھے۔‘‘ ال دہاس کا خیال ہے کہ بغیر سوچے سمجھے تاریخ، شاعری اور ادب کی نامور شخصیات کے اسماء سے منسوب کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے ذریعہ انجام دیئے گئے کارہائے نمایاں کا ذکر بھی کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ ’’جن سڑکوں کے نام جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے یا تجارتی حیثیت حاصل ہو جانے کی وجہ سے یا پھر اچانک دیگر اسباب کی وجہ سے معروف ہو گئے ہیں، انہیں بھی ’’درست‘‘ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے ا س نکتہ پر مزید زور دیا تھا کہ سڑکوں کے ایسے نام جو کہ جگہ/مقام کی مناسبت اور مکہ مکرمہ کی عظمت کی مناسبت سے نہیں ہیں، ان کا نام مکہ مکرمہ کی عظمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوبارہ منسوب کیا جانا چاہیے کیونکہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ ان سڑکوں کے ناموں کا تلفظ بگڑ گیا ہے، جن کو درست کرکے نئی شکل میں قدیم روایت کے مطابق واپس لانا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ ’’مکہ شہر کی وراثت کی نہایت احترام اور احتیاط کے ساتھ نہ صرف دیکھ بھال کرنی چاہیے بلکہ اس سے وابستہ تمام اوصاف کا تحفظ کیا جانا چاہیے، جہاں تک ان قدیم سڑکوں کے ناموں کا تعلق ہے جو کہ قدیم تاریخی حوالوں سے وابستہ ہیں، ان کی مذہبی اور روایتی شناخت دوبالا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

بہر کیف یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مملکت سعودی عربیہ نے ہمیشہ اس جانب توجہ دی ہے کہ قدیم اسلامی روایات، آثار قدیمہ اور طرز تعمیرات کی دیکھ بھال کی جائے اور ان کو تحفظ فراہم کرایا جائے۔ 8سال قبل سعودی عرب کے حکام نے جو تجاویز پیش کی تھیں اور ان کے مطابق عمل درآمد بھی ہوا تھا۔ آج وہ سعودی عرب کے مشن 2030 میں شامل ہو گیا ہے، جس کے تحت اسلامی تشخص، قدیم روایات اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق نئے ترقیاتی کام کرائے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آثار قدیمہ اور قدیم باقیات کو نہایت توجہ کے ساتھ تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ قابل ستائش بات یہ ہے کہ مملکت میں جہاں روایتی طرز پر جدید ترقیاتی تعمیرات کرائی جا رہی ہیں، وہیں آثار قدیمہ اور دیگر تاریخی مقامات اور باقیات کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور ہمہ وقت پوری دنیا سے آنے والے عازمین، زائرین اور سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close