Khabar Mantra
محاسبہ

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

محاسبہ...........................سید فیصل علی

کانگریس کے منشور پر بی جے پی کی بوکھلاہٹ قابل دید ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے بی جے پی کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی پارٹی کے انتخابی منشور پر زبردست گھمسان مچا ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ سے لے کر ٹی وی چینلوں تک کانگریس کے منشور میں کئے گئے خصوصی وعدوں پر بحث ومباحثہ کا بازار گرم ہے۔ حالانکہ انتخابی منشو ر میں کئے گئے وعدے انتخابی جلسوں کے اعلانات پر اب عوام زیادہ دھیان نہیں دیتے۔ 15 لاکھ اکائونٹ میں آنے، ہر سال 2 کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے، کسانوں کا قرض معاف کرنے کا حشر دیکھنے کے بعد منشور کی معتبریت ختم ہو چکی ہے، مگر ان تمام تر باتوں کے باوجود بی جے پی چراغ پا ہے۔ مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو جھوٹ کا پلندہ کہا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام تر غیر معتبر ماحول کے باوجود کانگریس کے منشور نے ملک کی تیرگی میں امید کی ایک کرن ضرور پیدا کر دی ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بے روزگاری، معاشی بدحالی سے دوچار لوگوں کو راحت کا احساس ضرور کرا دیا ہے۔ خاص طور سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو آلودہ ہونے سے پریشان اور ہندوتو کے نام پر ماب لنچنگ کے خونیں واقعات سے خوفزدہ اقلیتوں اور دلتوں کو ایک تقویت ضرور ملی ہے۔

بی جے پی کی بوکھلاہٹ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر کانگریس کے منشور پر ملک کے عوام نے توجہ دی تو پھر اس کے دیش بھکتی، راشٹر واد ہندو احیا پرستی کے تمام ایشوز پس پشت چلے جائیں گے۔ بی جے پی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کانگریس کے منشور میں جس طرح مودی کے پانچ سالہ بدنام اور ناکام دور کا جائزہ لیا گیا ہے، اگر یہ جائزہ عوام کے دلوں کو بھا گیا تو پھر اس کا بیڑا غرق ہے۔ لہذا، وہ بڑی شدت کے ساتھ مذہبی جنون، دیش بھکتی اور ہندو اتحاد کا طوفان کھڑا کرکے ملک کی سب سے بڑی اکثریت کو اپنی سمت موڑنا چاہتی ہے۔ جبکہ کانگریس خاص طور سے راہل گاندھی عوام میں اپنی ایک مضبوط شناخت بنا چکے ہیں، ان میں ملک کو ایک متبادل نظر آ رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس پورے منصوبے اور حوصلہ کے ساتھ بی جے پی کو شکست دینے کی تیاری کر رہی ہے۔ کانگریس کے انتخابی جلسوں میں ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ لگوانا راہل گاندھی کا مودی پر ایک ایسا وار ہے، جس کے اثرات پارلیمانی انتخاب پر پڑیں گے۔ راہل گاندھی کا یہ نعرہ بھی عوام کو بھا رہا ہے کہ ’’امیروں سے لیں گے اور غریبوں کو دیں گے‘‘۔ حالانکہ نعروں، اعلانات، اچھے دنوں کے آنے کے سپنے کا زخم کھائے عوام اب مزید دھوکہ نہیں کھانا چاہتے، کسی پر اعتماد نہیں کرنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار کانگریس پارٹی نے جو منشور جاری کیا ہے، اس کا عنوان بھی اس نے دے دیا ہے کہ ہم نبھائیں گے۔ یہ عنوان بھی بی جے پی حکومت کے پانچ سالہ ناکام دور اور اس کے جھوٹے وعدوں کو آئینہ بھی دکھاتا ہے اور دوسروں کو بھروسہ کرنے کی یقنی دہانی بھی کرتا ہے۔

54 صفحات اور 52 نکات پر مشتمل کانگریس کے انتخابی منشور میں بڑے مدلل اور سلجھے ہوئے انداز میں مودی حکومت کی ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ گو کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے ذریعہ پچھلی حکومت کو نشانے پر لاتی ہیں اور اعلانات کے حسین محلات کھڑے کرتی ہیں، انتخاب کے موقع پر تو قومی لیڈر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں بڑے بڑے ایشوز کو چند جملوں میں پرو کر اس کے حل کا خواب دکھاتے ہیں اور اکثر ایسے ایشوز کی طرف بھی عوام کا رخ موڑتے ہیں، جس کا حل آئین اور عدالت کے پاس بھی نہیں ہوتا، چنانچہ لیڈروں کے اس بڑ بولے پن کے بجائے کانگریس نے انتخابی منشور میں بڑے متاثرکن ڈھنگ سے عوام کے درد کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ گو کہ منشور میں کانگریس نے انتخاب کے بعد گٹھ بندھن کا دروازہ پوری طرح کھلا رکھا ہے، اس نے کسی خاص پارٹی کا نام بھی نہیں لیا ہے۔ ایک طرح سے کانگریس کے منشور کا سارا دارو مدار بی جے پی کی کمیوں پر وار کرتا نظر آ رہا ہے۔ منشور میں سارے اعلانات کے تمام نشانے سرکاری وغیرسرکاری کارکردگی پر ہیں، جس کے اثرات سے ملک دو چار ہے۔ کانگریس کے اس منشور کی خوبی یہ بھی ہے کہ کانگریس نے مودی حکومت کی ناقص کارکردگی کو درست کرنے کے بھی طریقے سجھائے ہیں اور اپنی پالیسی کو بھی واضح کیا ہے۔

اس منشور کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ کانگریس نے ملک کے نوجوانوں خاص طور سے نئی نسل کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے، جس پر 2014 میں مودی نے تکیہ کیا تھا اور ان کی آنکھوں میں’’ اچھے دن آئیں گے‘‘ کا سپنا ڈال دیا تھا۔ مودی کے ذریعہ ہر سال 2کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ آج کانگریس کے لئے سب سے بڑا محاذ بن چکا ہے۔ وہ روزگار کے محاذ سے ملک کے نوجوانوں کا اعتماد جیتنا چاہتی ہے۔ ملک میں بے روزگاری ایک ایسا محاذ ہے، جسے خود بی جے پی کے رہنما پارٹی کی دُکھتی رگ سمجھ رہے ہیں۔ اس موضوع پر ان کے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہے۔چنانچہ کانگریس نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی انتخابی بساط بچھائی ہے اور بڑے حوصلہ کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ وہ ریاستوں میں خالی پڑے عہدوں کے لئے 20 لاکھ لوگوں کو روزگار مہیا کرانے کا دباؤ ڈالے گی۔ کانگریس نے مرکز کے تئیں سرکاری یونٹوں، عدلیہ اور پارلیمنٹ میں خالی 4 لاکھ عہدوں کو بھی بھرنے کا وعدہ کیا ہے، اس کے علاوہ مرکزی حکومت کی اسکیموں کا فائدہ عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے 10 لاکھ سیوا متر بحال کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ گویا کانگریس نے مجموعی طور پر 34 لاکھ روزگار مہیا کرانے کے لئے 20 مارچ 2020 تک کا وقت لیا ہے۔ یہ ٹائم فیکٹر کانگریس کا اعلان بی جے پی کے لئے طوفان سے کم نہیں ہے۔ کانگریس کے مطابق ملک میں 3.1 کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں۔ ان کے لئے روزگار کے موقع استوار کرنا کانگریس کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ کانگریس نے ہندوستان کو عالمی سطح پر تعمیری مرکز بنانے کا اعلان کیا ہے، یہ ایک طرح سے مودی کے اسمارٹ سٹی کا جواب ہے۔ اس وعدے کے تحت شہری ترقیات کے لئے ایک مربوط منصوبے کے تحت نئے باب کھولے جائیں گے۔ تیسرا اہم وعدہ بھی کم دھماکہ خیز نہیں ہے۔ خط افلاس سے نیچے رہنے والے ملک کے پچیس کروڑ افراد کو 72 ہزار سالانہ دینے کا وعدہ مودی کے ذریعہ کسانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ کا جواب ہے۔ نیائے منصوبے کے تحت انتہائی غریب طبقہ کو 6 ہزار روپے ماہانہ کا وظیفہ گو کہ تنقید کے نشانے پر ہے لیکن راہل گاندھی نے اس کے لئے بلیو پرنٹ بھی تیار کر لیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ امیروں کا پیسہ ہم غریبوں کو دیں گے۔ اس پر 3 لاکھ 60 ہزار کروڑ صرفہ آئے گا۔ کانگریس نے کسانوں کے لئے بھی الگ سے بجٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ تعلیمی میدان کے فروغ کے لئے بجٹ کا 6 فیصد خرچ کرنے کا اعلان، دیہی ترقیات کے لئے منصوبہ منریگا کے ایام 150 دن کر دیئے گئے ہیں۔ بے گھروں کو مکان، فوجیوں کو ایک رینک ایک پینشن اور صحت کے بجٹ کو دگنا کرنے کا اعلان کانگریس کی نئی سوچ کا مظہر ہے۔

حالانکہ کانگریس نے انتخابی منشور میں بی جے پی شدت پسند ہندوتو کا جواب نرم ہندوتو سے دینے کا بھی خیال رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار مذہبی، لسانی اقلیت کی بات بھی منشور میں کہی گئی ہے۔ 2014 میں کانگریس نے سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ کا بھی وعدہ کیا تھا مگر اس بار اس نے ملک کی گنگا جمنی تہذیب وسیکولرازم کی بقا کے لئے بھی کئی وعدے کئے ہیں اور اقلیتوں کو راحت دینے کی کوشش کی ہے مگر کانگریس کے انتخابی ترکش میں’ نیائے‘ اور ’روزگار‘ کے دو بڑے ایسے تیر ہیں، جس سے وہ چناوی مہا بھارت کو فتح کرنا چاہتی ہے لیکن مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کے پاس تمام تر ایشوز ہونے کے باوجود بی جے پی کے پاس ہندوتو کا ایسا تیر بھی ہے جو تمام تر ایشوز کو سپو تاژ کر دے گا۔مودی کی شعلہ بیانی ماحول کو بدل دے گی۔ ہندومسلم کارڈ تمام ایشوز پر حاوی ہو جائے گا مگر خود بی جے پی اس کارڈ پر زیادہ بھروسہ نہیں کر رہی ہے، وہ گٹھ بندھن کی سیاست سے بھی خوفزدہ ہے اور کانگریس کی بڑھتی قوت سے بھی ہراساں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کا آنے والا منشور ہندوتو پر مبنی ہوتا ہے یا وکاس پر۔ وہ کس طرح عوام کو اپنی طرف موڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ بقول محشر بدایونی ؔ:

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close