Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا اندولن 18دنوں سے جاری ہے، اس اندولن کی گونج نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی سنائی دے رہی ہے۔ برطانیہ سے لے کر کئی مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اورکناڈا میں کسانوں کی حمایت میں زبردست احتجاجات ہوئے ہیں۔ کناڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے تو کھل کر کسانوں کی حمایت کی ہے۔ برٹش پارلیمنٹ میں بھی ہندوستانی کسانوں کی حمایت میں آواز اٹھائی گئی ہے۔ یہی نہیں کسانوں کے اندولن اور ان کے حالات پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، مگر ڈھاک کے تین پات، نہ سرکار جھکنے کو تیار ہے اور نہ ہی کسان۔ حکومت نے دو ٹوک کہا ہے کہ قانون واپس نہیں ہوگا، البتہ کچھ ترامیم کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ کسانوں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ قانون واپسی سے ہی بنے گی بات، لیکن بات بنتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

سرکار کے لئے بھی قانون واپسی انا کا معاملہ ہے تو کسانوں کے لئے بھی ان کی بقا کا سوال ہے۔ کسانوں کو تشویش ہے کہ یہ زرعی قانون ایک ایسا میٹھا زہر ہے، جو کسانوں کے وجود کو چاٹ جائے گا اور زراعت کا پورا نظام سرمایہ داروں کے اشاروں کا محتاج ہو جائے گا۔ ان کی زمین چھن جائے گی، وہ اپنے ہی کھیت میں مزدور بن جائیں گے، زرعی پروڈکٹس کارپوریٹ نظام اور بڑے بڑے مالس کی زینت بن جائیں گے، جس سے اشیائے خوردنی کی مہنگائی آسمان کو چھولے گی۔ دراصل کسانوں کی تشویش ایم ایس پی یعنی مینمم سپورٹ پرائز کو لے کر ہے، جس کے تحت کسانوں کو آج تک ان کی فصل کی واجب قیمت نہیں ملی نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہندوستانی کسان کی حالت جوں کی توں ہے۔ اب جو نیا قانون آیا ہے، اس میں ایم ایس پی کے علاوہ غلہ خریداری کی سرکاری منڈیاں بھی غائب دکھائی دیتی ہیں۔ ایم ایس پی کے خاتمہ اور منڈیوں کے ہٹائے جانے سے کسان سیٹھ ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کو منمانی قیمت پر اپنی فصل بیچنے پر مجبور ہوں گے اور یہی استحصال انہیں سڑکوں پر لا دے گا۔ لہذا آج کسان کل کے بھیانک دور کے خدشے کے تحت سڑکوں پر دھرنا دے رہا ہے۔ نئے قانون کے تحت زراعت کی تجارت آزاد ہو جائے گی، جس میں مارکیٹ کے لائسنس کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، بلکہ ہر کوئی کہیں بھی غلہ کی تجارت کر سکتا ہے۔ مگر یہی آزادی جہاں کسانوں کی آزادی چھینے گی تو سیٹھ ساہو کاروں کی تجوریاں بھرنے میں بھی معاون ہوگی، غلہ منڈیوں کے خاتمہ سے چھوٹے کسان منمانی قیمت پر اپنی فصل بیچنے کے لئے مجبور ہوں گے اور ایک دن نوبت یہ آئے گی کہ غریب کسان کی زمین بھی معاہدہ کی نذر ہو جائے گی اور وہ بندھوا مزدور بن جائے گا۔ یہی تشویش کسانوں کو آخری دم تک لڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔

ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ کسان جیسا کل تھا، اب وہ اس سے بھی برے دور سے گزر رہا ہے۔ ایم ایس پی کے سبز باغ کے باوجود اس کی فصل کی واجب قیمت کبھی نہیں ملی، آج بھی اس کے غلط اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں، چنانچہ کسان ایم ایس پی کو قانونی دائرے میں لانے کی جو ضد کر رہا ہے، وہ ضد جائز ہے۔ ہندوستانی معیشت کا یہ کیسا بدترین منظرنامہ ہے کہ 1970 سے اب تک 45 برسوں میں ٹیچروں کی تنخواہیں 350 گنا بڑھ چکی ہیں، ہرشعبہ میں سیلری بڑھی ہے، جبکہ 1790 میں دھان کی جو قیمت تھی، اس میں آج بہ مشکل 39 فیصد کا اضافہ دکھائی دے رہا ہے، حالانکہ۔ سرکاری یا پرائیویٹ ادارے ہوں وہاں کے لوگوں کو سیلری کے علاوہ ڈی اے اور ٹی اے، ہاؤس الاؤنسز و دیگر سہولیات بھی دستیاب کرائی جاتی ہیں، انہیں چھٹیاں بھی ملتی ہیں، لیکن کسانوں کے کاسۂ غربت میں ایم ایس پی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ایم ایس پی پر قانون بناے کے بجائے بدحال کسانوں کو بڑی بے حسی سے ایسی ٹھنڈ میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ جبکہ اسی بدحالی کے دور میں ہزاروں کے صرفہ سے نئی پارلیمنٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے اور اس بے جا عمل پر قومی فخر کا اظہار بھی ہو رہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ نے نئی پارلیمنٹ کے بے جاصرفہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعمیراتی کام پر پابندی لگا دی ہے۔

آج کسان زرعی قانون کے شکنجے سے نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے، اپنے وجود کو بچانے کے لئے مندرجہ ذیل تینوں قوانین کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پہلا زرعی قانون دی فارمرس پروڈیوز ٹریڈاینڈ کامرس، یعنی پرموشن اینڈ فیلی سٹیشن ہے، جس کے تحت سرکاری منڈیوں کے بجائے کسان ملک میں کہیں بھی اپنی فصل بیچ سکتا ہے، اب کون سمجھائے کہ چند بیگھے کا کسان اتنا اہل ہے کہ وہ مناسب قیمت کے حصول کے لئے مہاراشٹر، پنجاب کی منڈیوں کا رخ کرے؟ اور پھر وہاں بھی تو وہی ہوگا جو سیٹھ ساہوکار چاہیں گے۔ دوسرا قانون فارمرس ایگریمنٹ آن پرائز انشورینس اینڈ فامرس سروس ایکٹ 2020 ہے، یعنی امپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن قانون کے مطابق کسان معاہدے کے تحت کاشتکاری کر سکتے ہیں، اپنی زمین سیٹھ جی کو دے کر فصل کا معاوضہ بھی حاصل کر سکتے ہیں، یعنی زمین کسان کی اور فصل سیٹھ کی۔ تیسرا قانون ایسنشیل کموڈیٹیز (ترمیم) ایکٹ ہے۔ اس میں پیدوار کی ذخیرہ اندوزی کی کھلی اجازت ہے۔ یعنی پرائیویٹ ادارے جی بھر کے اپنے اپنے گودام بھر سکتے ہیں، ایسے قانون کا مطلب سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسانوں نے امبانی اڈانی کی اشیا، ان کے بڑے بڑے مالس، خاص کر جیو اور ریلائنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی ایک سچائی ہی ہے کہ ابھی اس قانون کو پاس ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ اس سے قبل ہی ملک کی کئی ریاستوں میں بڑی بڑی اراضیاں خریدی گئی ہیں، جہاں گودام بنائے جائیں گے جہاں اناج کی ذخیرہ اندوزی ہوگی۔ چنانچہ کسان لاکھ ناخواندہ ہو مگر اب وہ بیدار ہو چکا ہے، حکومت کی منشا کو سمجھ چکا ہے، اپنے گلے سے زرعی قوانین کے طوق کو نکالنے کے لئے دلی کی ناکہ بندی کر چکا ہے، آرپار کی لڑائی کی رفتار دن بہ دن تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ دلی کا محاصرہ تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ کسانوں نے جہاں 8 دسمبر کو ملک گیر مظاہرہ کرکے حکومت وقت کو ہلا دیا، وہیں 12دسمبر کو ملک کے سیکڑوں ٹول پلازے بھی کسان تحریک کی زد میں آئے، جہاں ٹول فری کرائے گئے اور اب 14 دسمبر کو ملک کے تمام ضلع ہیڈکوارٹر اور بی جے پی لیڈران کا گھیراؤ کا پروگرام بھی کسان اندولن کے غم وغصے کا ایک حصہ ہے۔

دلی کا محاصرہ اور سرکار سے پانچ دور کے مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں، زرعی قانون پر 20 صفحات پر مشتمل سرکاری تجاویز کو مسترد کرکے کسانوں نے یہی پیغام دیا ہے کہ اگر پی ایم نہیں مانے تو ملک بھر میں ریل چکّہ جام ہوگا اور پورا ملک ٹھپ ہوگا۔ کسانوں کا حوصلہ دیکھئے کہ وہ دلی کی سرحدوں پر نہ صرف مہینوں کا راشن پانی لے کر دھرنا دے رہے ہیں، بلکہ قومی شاہراہوں پر دھرنوں کے ارد گرد کاشتکاری بھی ہو رہی ہے۔ بہادر گڑھ ہائی وے کے طویل ڈیوائیڈر پر کسانوں نے سبزیاں لگانی شروع کر دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہماری لڑائی طویل ہے، یہی سبزیاں ہمارے کام آئیں گی۔ بلاشبہ کسانوں کا یہ حوصلہ قابل ستائش ہے، اسی حوصلے کو دیکھتے ہوئے مجھے سی اے اے کے خلاف شاہین باغ دلی کی خواتین کی تحریک یاد آتی ہے، جس نے پورے ملک کو ہلادیا تھا۔ حالانکہ اس تحریک کو سپوتاز کرنے کیلئے میڈیا کی زہر افشانی اور بی جے پی کے لیڈروں کی شعلہ بیانی کے تیر پر تیر چلے۔ جامعہ کے طلباء پر فائرنگ ہوئی، تحریک کار دہشت گرد ٹھہرائے گئے، ٹھیک اسی طرح آج میڈیا نے ایک بار پھر اپنا گندہ چہرہ دکھا دیا ہے، کسانوں کے خلاف وہی غلط تشہیر اور غلط تصویر پیش کی جا رہی ہے، انہیں کبھی اپوزیشن کا مہرہ، کبھی کانگریسی تحریک، کبھی خالصتانی اور کبھی غدار کہا جا رہا ہے، اس تحریک کو اینٹی نیشنل اور پاکستان-چین کی سازش بھی بتایا جا رہا ہے، لیکن ان تمام باتوں سے بے نیاز کسان اپنے دھن میں مگن ہیں، ان کی تحریک عوامی تحریک بنتی جا رہی ہے، تمام اپوزیشن جماعتیں کسانوں کے درد میں شامل ہیں اور یہ ملک کی تہذیب کا حسین منظرنامہ بھی ہے کہ کسان اندولن کی جگہ دن میں ہوں، دوپہر میں گروبانی اوررات میں اجتماعی نماز اور دعا کا اہتمام بھی جاری ہے اور ہندوستانی کسان حکومت وقت پر بھروسہ کے بجائے اوپر والے سے آس لگائے اپنے عزم اور موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور اب اپنا معاملہ کو سپریم کورٹ بھی لے گیا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا کسانوں کو انصاف ملے گا؟ اب تک 11 کسانوں کی جان جا چکی ہے۔ راہل گاندھی نے سوال کیا ہے کہ اس ٹھنڈ میں کسانوں کو اور کتنی قربانیاں دینی پڑیں گی، کب تک وہ سڑکوں پر رہے گا، مگر اس سوال سے قطع نظر ایک منظرنامہ ضرور ابھر رہا ہے کہ کسان اندولن جس طرح جڑیں پکڑ رہا ہے اور ملک گیر بنتا جا رہا ہے، وہ یقینا سرکار کے غرور کی جڑیں ہلا دے گا۔ بقول بسمل عظیم آبادی:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close