Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

حالات نے تو ملک کا نقشہ بدل دیا

محاسبہ…………….سید فیصل علی

بہار کے بعد اب بی جے پی ممتا کے بنگال کو قبضہ کرنے کی فراق میں ہے۔ اس کے لئے وہی ہتھکنڈے، ہندوتو کے وہی آزمودہ حربے استعمال کر رہی ہے جو بہار میں تیجسوی کی آندھی میں بھی کارگر رہے تھے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ بہار کے چناؤ سے غائب رہنے والے امت شاہ آئندہ سال ہونے والے بنگال اسمبلی چناؤ کی کمان خود سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بنگال جیتنے کے لئے ان تمام قومی لیڈروں اور وزراء کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے جنہوں نے بہار اسمبلی چناؤ سے لے کر حیدرآباد کے کارپوریشن انتخاب تک چناوی مہم میں حصہ لیا تھا۔

دراصل بنگال میں فتحیابی بی جے پی کے انا کا سوال بن چکی ہے۔ وہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ملک کی اکثریت سیکولر تہذیب کے بجائے ہندو راشٹر کو قبول کرنے کو تیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت شاہ سے لے کر جے پی نڈا اور وجے ورگیہ تک کا ایک قدم دلی تو دوسرا قدم کولکاتہ ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ ترنمول کانگریس میں توڑ پھوڑ مچی ہوئی ہے۔ ترنمول کے پرانے لیڈر شوبھیندر ادھیکاری سمیت 9 ممبران اسمبلی نے امت شاہ کے سامنے بی جے پی کا دامن تھام لیا ہے۔ اس کے علاوہ ممتا کے وفادار اعلیٰ افسروں پر بھی عتاب کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ریاست کے چیف سیکریٹری اور ڈی جی پی کو وزارت داخلہ کا نوٹس اس بات کا غماز ہے کہ مرکز اور ریاست آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ ٹکراؤ کی یہ نئی صورتحال ممتا بنرجی کو گھیرنے کی چال کہی جا سکتی ہے۔ مگر پارٹی کے تمام انتشار اور مرکز کی چال کے باوجود ممتا بنرجی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کبھی بھگوا قوتوں کے آگے سرنگوں نہیں ہوں گی۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو داغ لگنے نہیں دیں گی۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ آج کے ہندوتو کے ماحول میں کیا ملک کے دیرینہ اقدار وسنسکار میں اتنا دم ہے کہ وہ گنگا جمنی تہذیب کو روندنے والوں کے قدم روک سکے؟ آج ہر ذی شعور تشویش میں مبتلا ہے کہ اگر بنگال سیکولر قوتوں کے ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی راہیں آسان تر ہو جائیں گی۔

بنگال میں ممتا کا قلعہ منہدم کرنے کے لئے بی جے پی کے ایک ادنیٰ ورکر سے لے کر بڑے لیڈروں تک کی جارحانہ مہم جاری ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ سے لے کر ریاستی راج بھون تک سب ممتا حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے وفادار افسروں کی سرزنش کی جا رہی ہے، انہیں دلی طلب کیا جا رہا ہے، مرکز نے 3 آئی پی ایس افسران کا تبادلہ کر دیا ہے۔ یہی نہیں کہ بی جے پی پوری طرح سے ممتا بنرجی کو نہ صرف سیاسی، سماجی، بلکہ ایڈمنسٹر یٹیو سطح پر بے بس کرنے کے کھیل میں مصروف ہے تاکہ وہ افسروں پر حاوی رہے، جس کا فائدہ چناؤ میں مل سکے۔ بی جے پی نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ دفعہ 15 کا نفاذ کیا جائے، جس کے تحت بنگال میں قبل ازوقت ضابطہ اخلاق نافذ ہو سکے، حالانکہ عام طور پر ضابطہ اخلاق کا نفاذ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد کیا جاتا ہے۔ مگر کس کس بات پر سوال اٹھایا جائے۔ آج انتظامیہ، عدلیہ سے لے کر آئینی اداروں تک ایک بے بسی کا عالم ہے۔ اب ایسے دور میں بی جے پی بنگال میں ممتابنرجی کی سیاست کا شکار کرنے میں کامیاب ہوگی یہ بڑا سوال ہے۔ کیونکہ بنگال ملک میں ایک منفرد تہذیبی شناخت رکھتا ہے، یہاں اپنی زبان اور اپنی ثقافت تمام سیاست پر حاوی رہی ہے، یہاں کے ماحول میں پتہ نہیں چلتا ہے کہ کون کس مذہب کا ہے، سب بنگلہ زبان وثقافت کے سانچے میں ڈھلے نظر آتے ہیں، ایک دوسرے کے تہوار اور تقریبات میں شمولیت آج بھی بنگال کی تہذیب کا حصہ ہے، مگر اسی تہذیبی تناظر میں بی جے پی ہندوکارڈ کھیل رہی ہے۔ امت شاہ، رام کشن مشن، سوامی وویکانند، رابندرناتھ ٹیگور، خودی رام بوس تک کی خدمات کا گن گان کر رہے ہیں۔ مدناپور کے مہامایا مندر سے لے کر سدھیشوری دیوی جیسے کئی قدیم مندروں میں جاکر پوجا ارچنا کر رہے ہیں۔ خالص ہندو کی شبیہ پیش کرکے امت شاہ اہل بنگال کو نئی سیاست کا پاٹھ پڑھا رہے ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ ہندی بھاشا میں ان کی تقریر تمام تر شعلہ بیانی کے باوجود بنگالی عوام کے دلوں میں ہندوتو کی آگ نہیں جلا سکتی۔ ممتا بنرجی زمینی لیڈر ہیں، انہیں سب دیدی کے نام سے پکارتے ہیں، ان کا ماں، ماٹی، مانوس یعنی ماں کی عظمت، مٹی سے محبت اور انسان کی خدمت کا نعرہ ان کی سیاست کی بنیاد ہے۔ اس کے آگے بھگوا نعرہ کتنا کامیاب ہوگا یہ بڑا سوال ہے۔ حالانکہ اس کا منظرنامہ ابھرنا شروع ہو گیا ہے۔ امت شاہ کی بنگال آمد پر بھاجپا نے جو پوسٹر لگائے تھے، اس میں روندر ناتھ ٹیگور سے بڑی تصویر امت شاہ کی دکھائی گئی تھی جس نے اہل بنگال کی انا کو ٹھیس پہنچا دیا ہے۔ ٹیگور خاندان نے اس کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے بنگال کی توہین قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ بنگال وہ سرزمین ہے جس نے ٹیگور، امرتیہ سین، ابھیجیت بنرجی جیسی ایسی شخصیات دی ہیں، جنہیں نوبل ایوارڈ سے سرفراز کیا جا چکا ہے، پھر ٹیگور تو وہ عالمی شخصیت ہیں، جنہوں نے ملک کو راشٹرگان دیا۔ ٹیگور سے بڑھ کر امت شاہ کی شخصیت کو اجاگر کرنا بی جے پی کو اسی طرح مہنگی پڑ سکتی ہے، جس طرح حیدرآباد میں نظام کی خدمات کو نشانہ بنانے پر مہنگی پڑی تھی۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ بنگال کی سرزمین اور وہاں کے ماحول میں اپنے کلچر سے محبت جنون کی حد تک دکھائی دیتی ہے، مگر بی جے پی کی بدقسمتی ہے کہ اس کے پاس ایسا کوئی بنگالی لیڈر نہیں ہے، جس کی جڑیں اپنی زمین سے جڑی ہوئی ہوں، چنانچہ بنگال کی مہابھارت کو جیتنے کے لئے بی جے پی ہندوتو کے ساتھ ساتھ بہار والے چکرویوکو بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں اب ایم آئی ایم بھی بنگال کے چناوی میدان میں اترنے کی تال ٹھونک رہی ہے۔ اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ بنگال کا مسلمان کسی کی جاگیر نہیں ہے۔ گویا بنگال میں مسلمانوں کا حصہ بخرا کرنے کا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ بنگال کے تقریباً 40 فیصد مسلمانوں میں 10 فیصد مسلمان ہی اردو زبان و ادب اور ثقافت سے محبت کرتے ہیں، ان پر ایم آئی ایم کا اثر پڑ سکتا ہے۔ بنگال کے مسلمانوں کی 90 فیصد اکثریت ممتا بنرجی کے ساتھ ہے۔ بنگال میں اگر اسدالدین اویسی کی شعلہ فشاں تقریروں سے دوچار فیصد اردو داں مسلمان ادھر سے ادھر ہوئے تو بہار کی طرح بنگال میں بھی بی جے پی کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ اسی طرح جنتادل یو بھی بنگال میں 75 سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کرچکی ہے، حالانکہ جے ڈی یو کے الگ لڑنے سے طرح طرح کی قیاس آرئیاں ہو رہی ہیں، لیکن میرا ماننا ہے کہ بی جے پی کو سرخ روکرنے کے لئے نتیش ممتا کے سامنے کھڑے کئے گئے ہیں۔ بنگال کے 30 لاکھ سے زائد ہندی بولنے والے بہاری ووٹوں پر نتیش کا اثر ہوگا یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا، لیکن ان کا حشر چراغ پاسوان کی طرح ہوگا، جنہیں بی جے پی نے خود اپنی طاقت کو بڑھانے کے لئے کھڑا کیا تھا۔

بہرحال بنگال میں الیکشن ڈکلیئر بھی نہیں ہوا کہ وہاں بی جے پی نے قبل از وقت چناوی بگل بجا دیا ہے۔ ممتا بنرجی اور بی جے پی کا ٹکراؤ بڑھتا جا رہا ہے، اسی ٹکراؤ کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی ریاست میں اور تشدد نفرت کا جارحانہ مہم چلا رہی ہے اور اب الیکشن کے خاص موقع پر سی اے اے کا جن بھی بوتل سے باہر نکل چکا ہے۔ مرکزی لیڈروں کے ذریعہ جنوری سے اس قانون کے نفاذ کا اعلان ہو چکا ہے۔ وجے ورگیہ کا الزام ہے کہ بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو پناہ گزینوں کے ساتھ ممتاحکومت نے انصاف نہیں کیا، چنانچہ اب شہریت قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل ہندوستان آنے والے ہندوپناہ گزینوں کو شہریت ملے گی۔ اسی طرح بنگال میں 8 لاکھ ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس وعدے سے بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مگر اس اعلان سے ان مسلمانوں کی شہریت پر بھی تلوار لٹک جائے گی جن پر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ جنوبی بنگال ممتا بنرجی کا قلعہ سمجھا جاتا ہے، مگر 294 سیٹوں والی بنگال اسمبلی میں 64 سیٹیں اسی حصے سے آتی ہیں، ممتا کے اس قلعہ میں آج تک بی جے پی کو ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ اب بی جے پی اسی قلعہ میں سیندھ لگانے کے لئے ہندو، مسلم کارڈ کھیل رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ 24 پرگنہ کے مسلم علاقوں میں ووٹوں کے بکھراؤ کی بساط بچھا چکی ہے، مگر ممتا بنرجی کا بنگال اپنی انوکھی شناخت رکھتا ہے۔ یہاں کی تہذیب و ثقافت اور زبان ہندوتو کے پیر جمنے نہیں دے گی، مگر ان تمام باتوں سے قطع نظر بی جے پی اپنی پوری فوج، طاقت اور پیسہ بنگال میں جھونکنے کو تیار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ممتا دیدی کی، ماں، ماٹی، مانوس کی پکار کس حد تک ہندوتو کے رتھ کو روکنے میں کامیاب ہوتی ہے یا حالات ان کی سیاست کا رخ بدل دیتے ہیں، بقول شاعر:

لکھنی پڑے گی پھر سے اس ملک کی تاریخ
حالات نے تو ملک کا نقشہ بدل دیا

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close