دلی این سی آر
دہلی میں ہواکے معیار میں معمولی بہتری
(پی این این)
نئی دہلی :دارالحکومت دہلی میں آج صبح ہوا کے معیار میں معمولی بہتری دیکھی گئی، لیکن یہ اب بھی انتہائی خراب زمرے میں رہا۔ ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) آج صبح 8 بجے 345 پر ریکارڈ کیا گیا، جو اتوار کو 391 ریکارڈ کیا گیا تھا۔مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کے مطابق، آنند وہار میں 379، علی پور میں 360، اشوک وہار میں 367، بوانا میں 412، بروری کراسنگ میں 389، چاندنی چوک میں 360، دوارکا سیکٹر-8 میں 356، آئی ٹی او آئی میں 367، جے پور میں اے کیو آئی 338 ریکارڈ کیا گیا۔ منڈکا میں 368، نریلا میں 368، اوکھلا فیز 2 میں 348، پتپر گنج میں 376، پنجابی باغ میں 324، آر کے پورم میں 363، روہنی میں 390، اور سونیا وہار میں 369۔
راہل نامی ایک شخص نے کہا، شہر میں واقعی بہت زیادہ آلودگی ہے، یہ دھند نہیں ہے، یہ آلودگی ہے۔ ہمیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے اور ہماری آنکھیں جل رہی ہیں۔ حکومت کو اسے روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پٹاخے پھوٹے گئے، اور پراٹھا جلانے کا دھواں بھی دہلی تک پہنچتا ہے۔
واضح ہوکہ دہلی میں ہوا کا معیاراتوار کوانتہائی خراب زمرے میں چلا گیا تھا، جس کا مجموعی AQI 391 صبح 7 بجے ریکارڈ کیا گیا تھا۔دوسری طرف دہلی پولیس نے اتوار کی رات انڈیا گیٹ پر مظاہرین کو حراست میں لے لیا جو حکومت سے قومی دارالحکومت کے علاقے میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے پالیسی بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
دلی این سی آر
اردو اکادمی کے زیر اہتمام ڈراما فیسٹول کے تیسرے روز منٹو کی کہانی ’’جیب کترا‘‘ کی متاثر کن پیشکش
(پی این این)
نئی دہلی:سعادت حسن منٹو کا شمار اردو افسانے کے اُن چند نادر تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور معاشرتی برائیوں کو بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کیا۔انھوں نے اپنے قلم کے زور سے سماج کے دوہرے چہروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ ان کا فن زندگی کی کڑوی حقیقتوں، انسانی کمزوریوں اور معاشرتی تضادات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر حقیقت پسندانہ ہے، جس میں طنز و مزاح کے پہلو بھی نمایاں ہیں۔ منٹو کے فن کی یہی خوبیاں انھیںاردو فکشن کا ایک منفرد اور لازوال افسانہ نگار بناتی ہیں۔
اردو اکادمی ،دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ’’اردو ڈراما فیسٹول‘‘ کے تیسرے دن منٹو کی یہی فنی و فکری خوبیاں ناظرین کے دل و دماغ پر اثرانداز رہیں۔ آج شام شری رام سینٹر میں اداکار تھیٹر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام منٹو کے معروف افسانے ’’جیب کترا‘‘ کو اسٹیج پر پیش کیا گیا، جس کی ہدایت کاری معروف تھیٹر فنکار جناب ہمت سنگھ نیگی نے کی۔ڈرامے کی پیشکش سے قبل ناظمِ محفل جناب مالک اشتر نے منٹو کے فکر و فن اور تھیٹر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی، جس کے بعد کہانی کی پیشکش نے ناظرین کو گہرے تاثرات میں ڈبو دیا۔
یہ کہانی ایک جیب کترے ’’کاشی‘‘ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو حالات کے جبر کے تحت چوری پر مجبور ہے۔ ایک دن بازار میں وہ ’’بملا‘‘ نامی عورت کا بٹوہ چرالیتا ہے، مگر اس میں موجود ایک خط کی افسردہ تحریر اسے پشیمان کردیتی ہے۔ اسے بملا کی زندگی میں غم اور مایوسی کے ایسے آثار نظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ انکشاف کاشی کے دل میں ندامت اور انسانیت دونوں کو بیدار کردیتا ہے۔ وہ بملا سے اپنے جرم کی معافی مانگتا ہے اور اس کی زندگی میں دم توڑتی امید کو پھر سے جلا بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔بدلے میں بملا وعدہ کرتی ہے کہ وہ کاشی کو ایک بہتر انسان بننے میں مدد کرے گی، مگر برسوں کی چوری نے کاشی کو ’’کلیپٹو مینیا‘‘ جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا کردیا تھا، جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ کہانی کا کلائمکس اس وقت آتا ہے جب بملا اپنی مجبوریوں کے باعث کاشی سے دوبارہ چوری کرنے کو کہتی ہے، لیکن اس بار کاشی انکار کردیتا ہے کیونکہ وہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ عزم کرچکا ہوتا ہے۔ کہانی کا اختتام علامتی اور فکرانگیز انداز میں ہوتا ہے، جو ناظرین کے ذہنوں پر یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ کیا کاشی اپنی نئی راہ پر قائم رہ پائے گا یا حالات اسے دوبارہ جرم کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔
یہ ڈراما کل اٹھارہ کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں دو مرکزی، دو معاون اور چودہ ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی سات بنیادی اور تین ضمنی مناظر پر مشتمل تھی۔ فنکاروں نے اپنی بے مثال اداکاری اور جذباتی گہرائی کے ساتھ منٹو کی سادہ زبان کو اس طرح مجسم کیا کہ ناظرین کے لیے افسانوی کردار اور تھیٹر اداکار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ معاون و ضمنی فنکاروں نے بھی اپنے دلچسپ مکالموں، گہرے تاثرات اور مزاحیہ حرکات کے ذریعے کہانی کے جذباتی توازن کو آخر تک برقرار رکھا۔مختصر یہ کہ یہ ڈراما نہ صرف فنِ اداکاری کے اعتبار سے کامیاب رہا بلکہ اپنے جامع و مؤثر اسکرپٹ، اثرانگیز مکالموں اور فنی پیشکش کے باعث ناظرین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔
ڈرامے کے اختتام پر اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار جناب ہمت سنگھ نیگی کو مومینٹو اور گلدستہ پیش کر کے ان کی شاندار پیشکش کو سراہا۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبا کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔
دلی این سی آر
اردو اکادمی کے زیر اہتمام35واں اردو ڈراما فیسٹول کا آغاز
(پی این این)
نئی دہلی:ڈراما ادب کی وہ صنف ہے جس میں زندگی کے حقائق، احساسات اور مظاہر کو کرداروں اور مکالموں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ معروف فلسفی و نقاد ارسطو کے مطابق ڈراما انسانی اعمال کی تقلید ہے، یعنی یہ انسانی زندگی کو پیش کرنے کا دلچسپ اور مؤثر ذریعہ ہے۔اردو ڈرامے کی ایک اہم شاخ اسٹیج ڈراما ہے، جس میں اداکاری کے ذریعے کسی کہانی یا واقعے کو براہِ راست ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے اسٹیج پرفارمنس نہ صرف تفریح کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور فکری شعور کو بھی بیدار کرتے ہیں۔
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو اکادمی، دہلی گذشتہ۳۵برسوں سے مسلسل اردو ڈراما فیسٹول کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ اس فیسٹول کا مقصد محض ناظرین کے ذوق کی تسکین ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ثقافت کے فروغ اور عصری مسائل کے فنی اظہار کو بھی اجاگر کرنا ہے۔اس سال بھی اردو اکادمی، دہلی نے محکمہ فن، ثقافت و السنہ، حکومتِ دہلی کے زیر اہتمام چھ روزہ ۳۵واں اردو ڈراما فیسٹول منعقد کیا ہے۔ یہ فیسٹول 10 نومبر سے شروع ہوکر 15 نومبر تک سری رام سینٹر، منڈی ہاؤس میں جاری رہے گا، جہاں ہر روز شام ساڑھے چھ بجے ایک نیا اسٹیج ڈراما پیش کیا جارہا ہے۔
افتتاحی نظامت میں اطہر سعید نے نہایت دل کش انداز میں اردو ڈرامے اور پارسی تھیٹر کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اسٹیج ڈراموں کی ادبی و ثقافتی اہمیت پر گفتگو کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر رمیش ایس لعل (لنک آفیسر، اردو اکادمی، دہلی) نے اپنے استقبالیہ خطاب میں اس فیسٹول کو تھیٹر سے وابستہ فنکاروں کے لیے ایک مثبت اور با مقصد پلیٹ فارم قرار دیا۔فیسٹول کے پہلے دن پریتی پریرنا فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام پیش کیے گئے ڈرامے ’’بدھا اور غالب سے ملاقات‘‘ نے اپنے منفرد موضوع، مکالموں اور اداکاری کے ذریعے ناظرین کو مسحور کردیا۔ ڈراما ایک نوجوان شاعر کی خود شناسی کی کہانی ہے جو مرزا غالب کے کلام اور گوتم بدھ کے افکار سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ ایک طرف وہ غالب کے اشعار کے ذریعے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری جانب بدھ کی تعلیمات اسے روحانی بصیرت عطا کرتی ہیں۔ڈرامے میں فلسفیانہ اور ادبی دونوں جہتیں اس خوبی سے یکجا کی گئی ہیں کہ ناظرین خود کو کرداروں کے احساسات میں شریک محسوس کرتے ہیں۔ جناب اشوک لال کی تحریر اور آشیش شرما کی ہدایت نے اس پیشکش کو مزید دلکش بنا دیا۔دھرمیندر، وکرم آدتیہ، پریرنا کشیپ اور دیگر فنکاروں نے اپنے کرداروں کو بھرپور انداز میں نبھایا، جبکہ مکالمے، اسکرپٹ اور منظرنامہ نہایت بامعنی اور مؤثر رہے۔
ڈرامے کےاختتام پر اردو اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیرحسن قدوسی نے ہدایت کار آشیش شرما کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے ان کی کاوشوں کو سراہا۔تقریب میں اکادمی کے سابق سکریٹری انیس اعظمی، ڈاکٹر شبانہ نذیر، ایڈوکیٹ عبدالرحمٰن، شیخ علیم الدین اسعدی، پروفیسر خالد علوی، پروفیسر رحمان مصور، فرحت احساس سمیت علمی و ادبی شخصیات اور تھیٹر کے شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔
دلی این سی آر
جامعہ میں اینٹی مائیکروبائیل ریسسٹینس کے موضوع پر قومی کانفرنس کا انعقاد
(پی این این)
نئی دہلی :سینٹر فار انٹر ڈسپلنری ریسرچ ان بیسک سائنس (سی آئی آر بی ایس سی)فیکلٹی آف لائف سائنس،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ’فرنٹیئرس ان اینٹی مائیکروبائیل ریسسٹینس (اے ایم آر)رسرچ،پالیسی اینڈ پریکٹس‘ کے موضوع پر دوروزہ قومی کانفرنس منعقد کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک سو پانچویں یوم تاسیس تقریبات کے حصے کے طورپر ہوا تھا۔
اینٹی مائیکروبائیل ریسسٹینس یا اے ایم آر اکیسویں صدی کے سب سے خطرناک عالمی صحت چیلنجز میں سے ایک ہے۔مزاحم روگ دائی میں خطرناک حد تک اضافے نے دہائیوں کی طبی پیش رفت کو ناکافی بتانے کا اشارہ ہے اور عوامی صحت،زراعت اور ماحولیایت کے لیے یکساں طورپر بڑا خطرہ ہے۔یہ کانفرنس دانشورانہ مذاکرات اور اشتراکی لین دین کے لیے ایک پلیٹ فارم کا م کررہی ہے جس میں محققین، معالجین،سائنس داں، علمی ہستیاں،پالیسی ساز اور متعلقین ایک ساتھ اے ایم آر رسرچ، معائنہ،عمل اور اہم پالیسی تیاری کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے ہیں۔کانفرنس کا افتتاحی پروگرام چھ نومبر دوہزار پچیس کو منعقد ہوا۔کانفرنس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا جس کے بعد جامعہ کا ترانہ پیش کیا گیا۔بعد ازاں معزز اور باوقار مہمانان کی خدمت میں بطور تہنیت مومینٹو اور شال پیش کی گئی۔پروفیسر مظہر آصف (شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی،(مسجل،جامعہ ملیہ اسلامیہ) پروگرام میں شریک ہوئے، مہمان خصوصی(پروفیسر آر۔سی کوہاد،وائس چانسلر،سوامی وویکانند یونیورسٹی، ککراجھار، آسام) مہمان اعزازی (پروفیسر ایس۔کے سریواستو،وائس چانسلر،بابو بنارسی داس یونیورسٹی، لکھنؤ، اتر پردیش) اور کلیدی خطبہ کے مقرر (پروفیسر راجیو سود،وائس چانسلر بابا فرید یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس،فرید کوٹ، پنجاب) شریک ہوئے۔پروفیسر زاہد اشرف (ڈین،فیکلٹی آف لائف سائنسس) پروفیسر رنجن پٹیل،(چیئر مین و ڈائریکٹر سی آئی آر بی ایس سی) پروفیسر تنوجا (ڈین،اکیڈمک افیئرز،جامعہ ملیہ اسلامیہ و کانفرنس کنوینر)پروفیسر شمع پروین (منتظم سیکریٹری)فیکلٹی اراکین اوررسرچ اسکالروں اور شرکا افتتاحی اجلاس میں موجود تھے۔ ایسے اہم پروگرام کے انعقاد کے لیے مندوبین نے منتظمہ کمیٹی کی تعریف کی۔
افتتاحی اجلاس میں پروفیسر شمع پروین نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بتائے۔پروفیسر رنجن پٹیل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور سی آئی آر بی ایس سی میں جاری بین علومی تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔پروفیسر زاہد اشرف نے اے ایم آر اور تحقیق پر مبنی فیکلٹی آف لائف سائنس کی دیگر حصولیابیوں سے سامعین و حاضرین کو آگاہ کرایا۔ پروفیسر تنوجا نے تعلیمی افضلیت اور برادری پر مبنی تعلیم کے فروغ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کردار پر زور دیا۔پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی نے سامعین سے خطاب کیا اور بامعنی تعلیمی پلیٹ فارم تیار کرنے کے لیے منتظمہ کمیٹی کی کوششوں کو سراہا۔نیز انہو ں نے اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کانفرنس سے در آمد اہم باتیں اور تحقیقی ماحصل عوامی بیداری اور تعلیمی حصولیابی میں معاون و مددگار ثابت ہوں کانفرنس کے دوران زیر بحث آئی بصیر ت افروز باتوں کو زیادہ لوگوں تک پہنچانے اور انہیں عام کرنے کی اہمیت بتائی۔پروفیسر مظہر آصف،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے اے ایم آر سے نمٹنے کے لیے موثر تحقیق اور اختراعیت کو فروغ دینے کے سلسلے میں تعلیمی اداروں کی اہمیت اجاگر کی۔ انہو ں نے اے ایم آر سے نمٹنے کے لیے کمیونیٹی بیداری اور اشتراکی سائنسی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔نیز انہو ں نے انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے اور اے ایم آر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صحت مند طرز زندگی کے بطور تدارکی تدبیر اختیار کرنے کی بات کہی۔پروفیسر کوہاد نے اشتراکی تحقیق، عوامی بیداری،معقول اینٹی بایوٹک استعمال اور فعال پالیسی میکانزم کے ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے دنیا بھر میں اینٹی مائیکروبائل ریسسٹینس کے بڑھتے خطرے کو اجاگرکیا۔ پورے ملک میں علمی معلومات کی موثر ترویج کے لیے قومی تعلیمی پالیسی دوہزار بیس کے نفاذ پر توجہ مرکوز رکھی۔
پروگرام میں پروفیسر ایس۔کے۔سریواستو کا بھی استقبال کیا گیا جنہوں نے اے ایم آر کو پھیلنے سے روکنے کے لیے تدارکی تدابیر اور بین ادارہ جاتی تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔پروفیسر راجیو سود نے اے ایم آر کے طبی مضمرات، مریضوں کی نگہ داشت کے چیلنجز اور قومی و ادارہ جاتی سطحوں پر اینٹی مائیکروبائل ایسٹورڈشپ پروگرام کو مضبو ط کرنے سے متعلق کلیدی خطبہ دیا۔ اس موقع پر پروفیسر مظہر آصف نے آئی آئی ٹی روپرکے ممتاز سائنس داں اور مشہور ماہر مامونیات پروفیسر جاوید اگریوالا کاشال پوشی کرکے ان کا خیر مقدم اور استقبال کیا۔
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر10 مہینے agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر11 مہینے agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر11 مہینے agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ11 مہینے agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار6 مہینے agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ11 مہینے agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
