دیش

اردو یونیورسٹی میں قومی سمینار کا آغاز

Published

on

(پی این این)
حیدرآباد: علاقہ محض جغرافیائی اکائی نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے اور اس کو سمجھنے میں تاریخ کا بنیادی کردار ہے۔ ان خیالات کا اظہار پرپروفیسر رادھیکا سیشن نے کیا۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہی تھیں۔ مانو میں دو روزہ قومی سمینار کا ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، حیدرآباد کے اشتراک سے آغاز ہوا۔ یہ سمینار 4 اور 5 نومبر کو ہو رہا ہے۔ سمینار کا عنوان "ہندوستانی تاریخ میں علاقہ” ہے۔ اس سمینار میں ملک بھر سے ممتاز مورخین، محققین اور اسکالرز شرکت کر رہے ہیں اور علاقائی تاریخ کے مطالعے کے مختلف زاویوں پر گفتگو کر رہے ہیں۔
پروفیسر رادھیکا نے اپنے کلیدی خطبہ میں علاقائی مطالعات کی تاریخ نویسی کے ارتقاءپر مفصل روشنی ڈالی۔ انہوں نے وقت اور مکان (Time and Space) کے باہمی تعلق کو تاریخ فہمی کے لیے ناگزیر قرار دیا اور اپنے خطاب میں ہجرت، ثقافت اور سمندری تجارت جیسے پہلوؤں پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے آخر میں علاقائی مطالعات کے لیے بین اللسانی و بین العلوم (inter-disciplinary) نقطۂ نظر اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر ، مانو، نے صدارت کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی وراثت کے تحفظ میں علاقائی تاریخوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے تاریخی متون جیسے "حدود العالم من المشرق الی المغرب” اور "ابھی گیان شکنتلم” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علاقہ وہ مقام ہے جہاں شناختیں تشکیل پاتی اور مستحکم ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نوع کے علمی مباحث نہ صرف تاریخی تحقیق کو تقویت دیتے ہیں بلکہ جامعہ کے فکری و علمی مشن کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔
ابتداءمیں پروفیسر رفیع اللہ اعظمی ، صدر شعبۂ تاریخ نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ انہوں نے وہ اپنے خطاب میں علاقائی مطالعات کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ایسے مطالعات ہندوستان کی تاریخی و ثقافتی تکثیریت کو ازسرِنو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ سمینار کے مہمانِ خصوصی، پروفیسر محمد گلریز، سابق قائم مقام وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علاقائی تاریخ کے مطالعے میں فکری اور ادارہ جاتی چیلنجز پر گفتگو کی۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ علاقائی مطالعات تاریخ کے سیاسی یا سلطنتی زاویے تک محدود نہیں ہونے چاہیں بلکہ ان کے سماجی و ثقافتی پہلوؤں پر بھی توجہ ضروری ہے۔
اس موقع پر پروفیسر ایس کے اشتیاق احمد، رجسٹرار مانو اور پروفیسر پریتی شرما، صدر شعبۂ تاریخ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، نے بحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ پروفیسر اشتیاق احمد نے ہندوستانی آزادی کی جدوجہد میں علاقائی رہنماؤں کے کردار کو اجاگر کیا ہے، جس کا مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔ پروفیسر پریتی شرما نے اپنے خطاب میں "علاقہ” کے تصور کی معرفتی تفہیم پر گفتگو کی اور یہ سوال اٹھایا کہ علاقائی مطالعات کو کس زاویے سے دیکھا جانا چاہیے اور آخر کیا چیز کسی خطے کی بنیادی پہچان متعین کرتی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network