Connect with us

دلی این سی آر

اردو اکادمی ،دہلی کے زیر اہتمام 4 روزہ’’جشن اردو‘‘ کا آغاز

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:اردو زبان میں جو مٹھاس ہے، وہ دنیا کی دیگر زبانوں میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جس نے محبتوں کی خوشبو اور تہذیبوں کے رنگ لیے ہوئے دنیا کے ہر خطے میں اپنی پہچان مستحکم کی ہے۔ اردو کی یہی حلاوت غیر اردو داں طبقے کو اردو زبان و ادب سے قریب کرتی ہے اور اس کی چاشنی سے ہر کوئی سرشار ہونا چاہتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ عہد میں اردو زبان و ادب کے فروغ و ترقی کے سلسلے میں اردو اکادمی، دہلی کی کوششیں لافانی و لاثانی رہی ہیں۔ اکادمی نے گزشتہ کچھ سالوں سے اردو کو اس کے ورثے اور ثقافتی قدروں کے ساتھ ادبی محفلوں کے ذریعے نئی نسل تک پہنچانے کی کامیاب اور مؤثر کوشش کی ہے۔چنانچہ ہر سال کی طرح امسال بھی اردو اکادمی، دہلی نے وزارتِ فن، ثقافت و السنہ، حکومتِ دہلی کے زیرِ اہتمام چار روزہ عظیم الشان ’’جشنِ اردو‘‘ کا انعقاد سندر نرسری (عظیم باغ) میں کیا۔ یہ جشن 30 اکتوبر سے شروع ہو کر 2 نومبر تک ہمایوں کے مقبرے کے قریب سندر نرسری کے ایمفی تھیٹر میں جاری ہے۔اس جشن کے تحت روزانہ دوپہر بارہ بجے سے رات آٹھ بجے تک مختلف پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں، جن میں عالمی شہرت یافتہ فنکاروں کو سننے اور طلبہ کے ادبی مقابلوں کو دیکھنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔
اس وراثتی میلے میں اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے پروگراموں کے علاوہ کتابوں، کیلی گرافی، پینٹنگز، ہاتھ کی دستکاری اور دیگر اشیاء کے اسٹالز بھی لگائے گئے ہیں۔پہلے دن کا پہلا پروگرام ’’غزل سرائی‘‘ کے مقابلے کا تھا، جس میں دہلی کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات نے معروف شعرا کی منتخب غزلوں کو اپنی مترنم آواز میں پیش کیا۔ ججوں کی حیثیت سے پروفیسر ابوبکر عباد اور ڈاکٹر شعیب رضا خاں وارثی شامل تھے۔ انھوں نے اس مقابلے میں ہارون رشید (جامعہ ملیہ اسلامیہ) کو اول، زینب اشفاق (دہلی یونیورسٹی) کو دوم، رفیق طلحہ (دہلی یونیورسٹی) کو سوم، جبکہ اریبہ خانم (دہلی یونیورسٹی) کو اعزازی انعام کا حقدار قرار دیا۔اس پروگرام سے لے کر آخری پروگرام تک نظامت کی ذمہ داری ریشما فاروقی، اطہر سعید اور سلمان سعید نے بخوبی نبھائی۔غزل سرائی کے بعد دوسرا پروگرام ’’صوفی نغمے‘‘ کے عنوان سے تھا، جس میں دہلی گھرانے کی معروف فنکارہ ناز وارثی نے مختلف نغموں کو بڑے خوبصورت اور مترنم انداز میں پیش کیا۔ انھوں نے ’’دل دیا ہے سرور بھی دے دیا، آنکھ دیا ہے تو نور بھی دے دیا‘‘ سے محفل کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انھوں نے کئی معروف قوالیاں اور روحانی نغمے پیش کیے۔صوفی نغموں کے بعد ’’بہارِ غزل‘‘ کے موضوع پر تیسری محفل سجائی گئی، جس میں دہلی کی معروف فنکارہ ڈاکٹر اوشین بھاٹیہ نے جدید و قدیم غزلوں کو اپنی مترنم آواز میں پیش کیا۔
انھوں نے اپنے پروگرام کا آغاز معروف شاعر ناصر کاظمی کی غزل ’’وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں، مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں‘‘ سے کیا۔ ان کی مخمور و مسحور آواز نے سامعین کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ علاوہ ازیں انھوں نے احمد فراز کی غزل ’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ‘‘ اور امیر خسرو کی مشہور غزل ’’چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملا کے‘‘ بھی پیش کیں۔غزل کے بعد ’’صوفی محفل‘‘ کے عنوان سے چوتھے پروگرام کا اہتمام کیا گیا، جس میں دہلی گھرانے کے معروف قوال گروپ ایم ایس نظامی برادران نے مشہور زمانہ قوالیاں اور نغمات گا کر سماں باندھ دیا۔ انھوں نے پروگرام کا آغاز معروف قوالی ’’بھر دو جھولی میری یا محمدؐ، لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی‘‘ سے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مختلف کلام پیش کر کے سامعین کو محظوظ و مسحور کر دیا۔شام ڈھلتے ہی سامعین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا۔ اسی دوران بالی وُڈ کے معروف گلوکار سریش واڈیکر کی فنکاری میں پانچویں پروگرام ’’سرمئی شام‘‘ کا آغاز ہوا۔ سریش واڈیکر نے اپنی مخملی اور پر کیف آواز میں نہایت خوبصورت غزلیں اور نغمات پیش کیے۔ ان کی پیشکش عمدہ اور آواز مخمور و مسحور تھی، جس نے سامعین کو آخر تک محوِ توجہ رکھا۔سریش واڈیکر کے بعد شام کی محفلِ ساز و آہنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’صوفیانہ کلام‘‘ کے عنوان سے چھٹی محفل کا آغاز کیا گیا، جس میں ممبئی سے تشریف لائے کیرانہ گھرانے کے معروف نوجوان فنکار رئیس انیس صابری نے قوالیاں اور نغمے پیش کیے، جنہیں سامعین نے بے حد پسند کیا۔رات آٹھ بجے پہلے دن کی آخری محفل ’’عالمِ کیف‘‘ کا اہتمام کیا گیا، جس کے روحِ رواں ممبئی کے معروف گلوکار سلمان علی تھے۔ اس وقت تک سامعین کی تعداد کافی بڑھ چکی تھی؛ بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور پیر رکھنے کے لیے زمین بھی کم پڑ چکی تھی، لیکن ہر کوئی ان لمحات سے پوری طرح لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔
سلمان علی کا پروگرام پہلے دن کا سب سے کامیاب اور مؤثر پروگرام رہا۔ انھوں نے اپنے پروگرام کا آغاز پرنم الہ آبادی کی مشہور غزل ’’تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی، محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو‘‘ سے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک صوفیانہ کلام گا کر شرکاء کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ پروگرام میں جہاں نوجوان جذب و مستی میں نظر آئے، وہیں بوڑھے اور بچے بھی موسیقی پر تھرکتے دکھائی دیے۔ یہ آخری پروگرام رات دس بجے تک جاری رہا۔

دلی این سی آر

ریکھا گپتا نے دہلی کو AI پر مبنی اختراعی مرکز بنانے کیلئے پروگرام کاکیا آغاز

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:دہلی کی وزیراعلیٰ ریکھا گپتا نے ہندوستان کا پہلا شہر پر مبنی AI انجن – دہلی AI گرائنڈ لانچ کیا تاکہ شہر کے نوجوانوں کو حقیقی دنیا کے مسائل کے لیےAIپر مبنی حل تیار کرنے کے لیے بااختیار بنایا جا سکے۔آئی اے ایف کے کیپٹن شبھانشو شکلا کے ساتھ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دہلی اے آئی گرائنڈ ہندوستان کا پہلا شہر پر مبنیAIاختراعی انجن ہے۔”اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا پروگرام چھ ماہ تک چلے گا۔ اس کا مقصد دہلی میں اسکولوں، کمیونٹیز اور صنعتوں کو ایک ساتھ لانا ہے تاکہ حقیقی چیلنجوں کا حل تیار کیا جا سکے۔ یہ قدم دہلی کو AI پر مبنی جدت طرازی کے مرکز کے طور پر آگے بڑھانے کی طرف ایک بڑی کوشش ہے،” انہوں نے کہا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ٹیکنالوجی اب عام شہری کی پہنچ میں ہے اور نوجوانوں کے لیے لامحدود امکانات کے دروازے کھل گئے ہیں۔یہ دہلی کے نوجوانوں کو حقیقی دنیا کے مسائل کے لیے AI پر مبنی حل تیار کرنے کے لیے بااختیار بنائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کلاس رومز اختراعی لیبارٹریوں میں تبدیل ہو جائیں گے، طلباء تبدیلی کرنے والے بنیں گے، اور دہلی علم اور AI اختراعات کے دارالحکومت کے طور پر ابھرنے کی طرف بڑھے گا۔پر ایک پیغام میں طلباء سے ایک اپیل میں، وزیر اعلیٰ نے کہا، "آپ کی تخیل دہلی کے کل کو تشکیل دے گی۔ مسلسل تجربہ کرتے رہیں، بے خوف ہو کر سوچیں، غلطیوں سے سیکھیں، اور نئے حل نکالیں۔”اس نے کہاوزیر اعلیٰ نے قومی راجدھانی کو اے آئی اور ٹکنالوجی کا مرکز بننے کے راستے پر لے جانے کی مرکز کی خواہش کے پیش نظر اے آئی انجن – دہلی اے آئی گرائنڈ پروگرام کو تصور کرنے کے لئے وزیر تعلیم آشیش سود کی تعریف کی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

محلہ کلینک بند کرنے کی سازش کر رہی ہے بی جے پی:بھاردواج

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی :دہلی میں 200 محلہ کلینک کے بند ہونے کے بعد 95 مزید بند ہونے والے ہیں۔ دہلی حکومت کے اس فیصلے سے عام آدمی پارٹی ناراض ہوگئی ہے۔ پارٹی نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ریکھا گپتا حکومت اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک کہ وہ دہلی کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو تباہ نہیں کر دیتی۔ سابق وزیر صحت سوربھ بھردواج نے کہا کہ میٹرو اسٹیشنوں اور مالز میں پریمیم شراب کے شو روم کھولنے کا منصوبہ ہے، اور محلہ کلینک بند کردیئے جائیں گے۔
عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے ریکھا گپتا حکومت پر حملہ کرتے ہوئے لکھا کہ ریکھا گپتا حکومت اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک کہ وہ دہلی کے بہترین صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو تباہ نہیں کر دیتی۔ یہ پہلے ہی 200 سے زیادہ محلہ کلینک بند کر چکا ہے اور اب مزید 95 کو بند کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نہیں چاہتی کہ کسی کو مفت علاج اور دوائی ملے، لوگوں کو پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرانے پر مجبور کیا جائے اور بی جے پی کے پسندیدہ صحت مافیا کو فائدہ پہنچے۔ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی قیادت والی دہلی حکومت اروند کیجریوال حکومت کے دوران قائم کیے گئے مزید 95 محلہ کلینک بند کرنے جا رہی ہے، جبکہ میٹرو اسٹیشنوں اور مالز میں پریمیم شراب کے شو روم کھولنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ AAP کی دہلی یونٹ کے صدر سوربھ بھردواج نے سوال کیا کہ جو مریض ان کلینکس پر انحصار کرتے تھے وہ اب علاج اور ادویات کے لیے کہاں جائیں گے۔
بھاردواج نے دعویٰ کیا، "حکومت نے پہلے کرائے کے احاطے میں چلنے والے کلینک کو بند کر دیا، پھر وہ دیگر صحت کی سہولیات کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں اور بعد میں 1.6 کلومیٹر کے دائرے میں رہنے والے، محلہ کلینک کو مکمل طور پر ختم کرنے کے اپنے ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دریں اثنا، وہ میٹرو اسٹیشن میں بڑے، چمکدار شراب کے شو رومز کو فروغ دے رہے ہیں۔”انہوں نے مزید کہا، "حکومت کو شراب نوشی کرنے والوں کی فکر ہے۔
وہ ہر جگہ شراب کی دکانیں اور شوروم چاہتے ہیں، یہاں تک کہ ہر میٹرو اسٹیشن اور مال میں بھی، شراب کے استعمال کرنے والوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن غریب اور بزرگ لوگ جو محلہ کلینک سے شوگر، ذیابیطس، امراض قلب، اور بلڈ پریشر کی دوائیں باقاعدگی سے لیتے ہیں، انہیں اب میٹرو اسٹیشن پر کس کلو میٹر پیدل چلنا پڑے گا۔ یہ ایسی حکومت ہے جو اپنے عوام کا درد کیوں نہیں سمجھ سکتی؟
سوربھ بھاردواج نے بتایا کہ 2022 میں جب نئے ایل جی وی کے سکسینہ آئے تو انہوں نے زبردستی حکومت کے اچھے کاموں کو روکنا شروع کر دیا، جس سے عوام کو بھاری تکلیف اور نقصان اٹھانا پڑا۔ سیاسی مقاصد کے لیے انہوں نے 2022 کے بعد ہاسپٹل مینیجرز کی خدمات بند کروا دیں، کوئی برطرفی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ ان کی تنخواہیں روک دی گئیں اور پوری سسٹم کو تباہ کر دیا گیا۔

Continue Reading

دلی این سی آر

شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے موضوع پر توسیعی لکچر

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں آج ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت اہم توسیعی لیکچر منعقد ہوا جس میں عروض اور فنِ شعر کی باریکیوں کے ماہر پروفیسر احمد محفوظ (شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے اپنا پرمغز لیکچر دیا۔ پروگرام کی صدارت شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر محمد نعمان خان نے کی۔ اس سے قبل شعبۂ عربی میں توسیعی لیکچر کی روایت کا تذکرہ اور مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے صدرِ شعبہ پروفیسر سید حسنین اختر نے کہا کہ شاعری دراصل خیالات کو مؤثر اور خوبصورت موسیقیت کے سانچے میں پیش کرنے کا نام ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق ساتویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے عربی زبان کے مشہور عالم خلیل بن احمد فَرّاہیدی نے اس فن کے اصول و ضوابط مرتب کیے۔ فنِ عروض ایک مشکل فن ہے اور ہندوستان میں پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اساتذہ میں ہیں جو اس فن کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اس موضوع پر ان سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ لکچر شعبہ کے طلبہ اور اسکالرز کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے لیکچر میں فنِ عروض کے تاریخی پس منظر، بنیادی اصولوں اور وزن و بحور کی ساخت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’عروض‘‘ شعر کی موزونیت اور آہنگ کو جاننے کا فن ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شاعری کے لیے اس فن کا جاننا ضروری نہیں، چنانچہ اس فن کے اصول مرتب کیے جانے سے قبل بھی عربی شاعری کا بڑا ذخیرہ ہمارے درمیان موجود ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ شعرا اپنی داخلی و فطری موسیقیت کا سہارا لیتے ہوئے موزون شاعری کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس علم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اشعار کی صحیح تقطیع اور ان کے فنی تجزیے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ہمیں اشعار کی موسیقیت و موزونیت کے ادراک میں دقت آتی ہے اور نغمگی کے احساس میں تردد ہوتا ہے، ایسے میں اس علم کی فنی نزاکتیں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وتد، سبب، زحاف اور عروض کی ابجدیات اور اشعار کی تقطیع کے اصول فنکارانہ اور پرلطف انداز میں مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ و اسکالرز میں اس فن کے لیے دلچسپی پیدا کی اور سوالات کے جوابات دیے۔
پروفیسر محمد نعمان خان نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران عروض کو ایک عملی فن قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاعری داخلی استعداد کا بیرونی اظہار ہے، اسی وجہ سے اسے الہامی کہا جاتا ہے۔ مہمان مقرر کے لیکچر کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موضوع کے تناظر میں پروفیسر احمد محفوظ کا انتخاب نہایت عمدہ ہے اور انہوں نے اس خشک موضوع کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ بانیٔ فن کی علمی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیل فَرّاہیدی نے عربی زبان و ادب میں بےحد اہم کام کیے ہیں اور یہ فن ضرورت کی پیداوار ہے۔ البتہ موجودہ دور میں نثری شاعری کا رواج بھی عام ہے اور محض موسیقیت کی بنیاد پر شاعری کی جارہی ہے۔ عربی و سنسکرت کے درمیان مماثلت کا ضمنی تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں زبانوں کی فیملی جدا ہیں اور اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں کہ خلیل فَرّاہیدی نے یہ فن سنسکرت سے اخذ کیا تھا۔
قبل ازیں پروگرام کے کنوینر و نقیب ڈاکٹر مجیب اختر نے مقرر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اہلِ علم میں شامل ہیں جنہوں نے اردو کے نامور ادیب و ناقد پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی سے کسبِ فیض کیا ہے، اور آج اردو ادب میں ایک مستند و معتبر نام ہیں۔ پروگرام میں شعبۂ عربی کے سابق صدر پروفیسر نعیم الحسن، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر اصغر محمود، پروفیسر علیم اشرف، پروفیسر ابوبکر عباد، پروفیسر مشتاق عالم قادری، پروفیسر احمد امتیاز، ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر مہتاب جہان، ڈاکٹر زین العبا، ڈاکٹر عارف اشتیاق، ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر ابو تراب، ڈاکٹر محمد مشتاق اور ڈاکٹر غیاث الاسلام کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ، اسکالرز اور جامعہ ملیہ اسلامیہ و دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network