اتر پردیش
غذا ایک قیمتی وسیلہ ، اس کے ضیاع کاروکنا ہر شہری کی ذمہ داری: ڈاکٹر نلنی مشرا
خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں خوراک کے ضیاع کے انتظام پر بیداری مہم پروگرام کا انعقاد
(پی این این)
لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں ہاسٹل کےطلبہ کے درمیان پرتھوی انوویشنز کے تعاون سے ماحولیاتی شعور اور پائیدار طرزِ زندگی کو فروغ دینے کے مقصد سے ’’خوراک کے ضیاع کے انتظام (Food Waste Management)‘‘ کے موضوع پر ایک بیداری مہم اور شجرکاری پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔جس کا مقصد نوجوانوں کو غذاکے ذمہ دارانہ استعمال اور ماحولیاتی تحفظ کی سمت بیدار کرنا تھا۔اس موقع پر طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نلنی مشرا نے کہا کہ غذا ایک قیمتی قدرتی وسیلہ ہےجو صرف ہماری ذاتی ضرورت نہیں بلکہ انسانی بقا اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ غذا کا ضیاع صرف سماجی یا معاشی نقصان نہیں بلکہ ماحولیات کے لیے ایک سنگین خطرہ ہےلہذا اس کے ضیاع کا روکنا طلبہ کے ساتھ ہر شہری کی بھی ذمہ داری ہے ۔
ڈاکٹر نلنی مشرا نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں غذاکے مؤثر استعمال کو عادت بنائیں، کھانے کے وقت ضرورت سے زیادہ مقدار نہ لیں اور ضائع ہونے والی خوراک کو نامیاتی کھاد یا کمپوسٹ کے طور پر استعمال کریں۔انھوںنے کہا کہ لینگویج یونیورسٹی کا مقصد طلبہ کو صرف علمی میدان میں آگے بڑھانا نہیں بلکہ انہیں ماحولیاتی طور پر حساس اور ذمہ دار شہری بنانا بھی ہے۔اس موقع پرمہمان مقرر انورادھا گپتا نے خوراک کے سائنسی، سماجی اور عملی نظم و نسق کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انھوںنے بتایا کہ اگر غذا کی باقیات کو منظم طریقے سے استعمال کیا جائے تو اسے نامیاتی کھاد یا توانائی کے متبادل ذرائع کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پرلینگویج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے غذاکے ضیاع کے انتظام (Food Waste Management) پر منعقدہ بیداری مہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غذا صرف جسمانی ضرورت نہیں بلکہ قدرت کا انمول تحفہ اور ایک قیمتی وسیلہ ہے۔ اس کا احترام اور درست استعمال ایک تہذیبی رویہ ہے۔ کھانےکا ضیاع نہ صرف اخلاقی کمی کی علامت ہے بلکہ یہ ماحولیاتی اور معاشی توازن کو بھی متاثر کرتا ہے۔انھوںنے اس بات پر زور دیا کہ آج کے دور میںجب دنیا کے مختلف حصوں میں لاکھوں افراد غذائی قلت کا شکار ہیں، وہیں کچھ ممالک میں روزانہ لاکھوں ٹن غذائیں ضائع کر دی جاتی ہے۔یہ تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسانیت کو اپنے رویّوں پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر اجے تنیجا نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی اصل پہچان صرف علمی ترقی سے نہیں بلکہ اس کے طلبہ کے شعور، حساسیت اور ذمہ داری کے احساس سے ہوتی ہے۔ ہم اپنے طلبہ کو صرف نصابی تعلیم تک محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ ان کے اندر سماجی ذمہ داری، ماحولیاتی شعور اور اخلاقی خود احتسابی کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے اجتماعی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہر طالب علم اپنی روزمرہ زندگی میں خوراک کے استعمال کے وقت "ضرورت کے مطابق” اصول پر عمل کرے تو اس عادت سے ایک بڑا سماجی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔اسی جذبے کے تحت بیداری مہم کے بعدانمول واٹیکا کے نام سے شجر کاری کی گئی جس کے تحت ایک سو ایک پھل دار پودے لگائے گئے۔اس موقع پر ڈاکٹر اودھم سنگھ،ڈاکٹر منیش کماراور ڈاکٹر کوشلیندر شاہ کے علاوہ ہاسٹل کے دیگر طلبہ بھی موجود تھے۔