دیش
گیا کے عوام کا 29 جون کو وقف ترمیمی قانون کے خلاف گاندھی میدان بھرنے کا عزم
(پی این این)
گیا:بہار کے گیا کی فضا اُس وقت نعرۂ حق سے گونج اُٹھی جب امیرِ شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کی صدارت میں "وقف بچاؤ، دستور بچاؤ” کے عنوان سے ایک بڑا اجلاس عام منعقد ہوا۔ یہ اجلاس دراصل 29 جون کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں ہونے والی کانفرنس وقف بچاؤ دستور بچاؤ کی تیاری کا حصہ تھا، جس میں عوام نے گاندھی میدان کو بھرنے کے عزم کا اظہار کیا۔یہ صرف ایک احتجاجی پروگرام نہیں بلکہ عوامی شعور، آئینی بیداری اور قومی غیرت کا زبردست مظاہرہ تھا جس میں ہر آنکھ پرعزم اور ہر دل پُرجوش نظر آیا۔
اجلاس میں گیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ مرد، خواتین، نوجوان، بزرگ، طلبہ اور سماجی کارکنان کا ایسا سیلاب امنڈا کہ گیا کی زمین گواہ بن گئی کہ ہندوستانی عوام اپنی دینی و ملی وراثت اور آئینی حقوق کے تحفط کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے ،اس اجلاس میں نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ ہندو، جین، بودھ، دلت ہرطبقہ اور سماج کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
امیر شریعت نے اس مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ وقف کوئی مذہبی جذبات کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک سماجی، تعلیمی، صحت و فلاحی ڈھانچے کا معاملہ ہے، جس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہمارے غیر مسلم بھائی ہیں۔ حکومت کی طرف سے لائے گئے وقف ترمیمی قانون دراصل اس پورے خدماتی نظام کو منہدم کرنے کی کوشش ہے جو چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جس کا تحفظ صرف مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر انصاف پسند ہندوستانی کی ذمہ داری ہے۔
سیاسی و سماجی حلقوں کی ممتاز شخصیات نے بھی اجلاس سے خطاب کیا اور امیرِ شریعت کی قیادت میں مکمل اتحاد و حمایت کا اعلان کیا۔ ان قائدین کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ وقف کی زمین پر صرف عمارتیں نہیں بلکہ نسلوں کا مستقبل کھڑا ہے، اور حکومت کی چال صرف قانون کی ترمیم نہیں بلکہ قوم کی روح اور 1400 سال پرانی خیر کی تاریخ کی مٹانے کی منظم سازش و منصوبہ بندی ہے۔
اس تاریخی اجلاس میں کئی اہم سماجی و سیاسی شخصیات نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور وقف ترمیمی قانون کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عوام کو متحد ہونے کا پیغام دیا۔ جلسے کی نظامت جناب فیاض حسین نے بحسن و خوبی انجام دی، جبکہ مہمانانِ خصوصی کے طور پر اجلاس میں شریک ڈاکٹر سورندر یادو، رکن پارلیمان جہان آباد (راجد) نے کہا کہ "وقف کی زمینیں صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ پورے سماج کی تعلیمی اور فلاحی ترقی کا ذریعہ ہیں، ان پر حملہ ملک کے آئینی ڈھانچے پر حملہ ہے۔” اے آئی ایس اے کے معروف رہنما طارق عالم نے کہا کہ "یہ قانون صرف اقلیتوں کے خلاف نہیں بلکہ غریبوں کے حق پر ڈاکہ ہے، ہم ہر سطح پر اس کا مقابلہ کریں گے۔” کانگریس کے اقلیتی شعبہ بہار کے صدر عمیر خان نے کہا کہ "وقف اداروں کو ختم کر کے حکومت ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کو مٹانا چاہتی ہے، مگر ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔” راجد رہنما اور سابق بیلا گنج امیدوار وشنو ناتھ یادو نے کہا کہ "وقف ترمیمی قانون آئین کی روح کے خلاف ہے، ہمیں مل کر اس کا راستہ روکنا ہوگا۔” پروفیسر صمدانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ "وقف اللہ کی امانت ہے، اس پر سیاسی حملے کو عوامی اتحاد سے ہی روکا جا سکتا ہے۔” ان تمام مقررین نے 29 جون کو گاندھی میدان، پٹنہ میں بھرپور شرکت کی اپیل کی اور عوام کے جوش و جذبے کو سراہا۔
پٹنہ کی یہ سرزمین اب ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہی ہے، جہاں 29 جون کو وہ قوت جمع ہوگی جو صرف احتجاج کرنے نہیں، بلکہ آئین کو بچانے، وقف کی حفاظت کرنے، اور قوم کی امانت کو محفوظ رکھنے کا عملی اعلان کرے گی۔ اس دن گاندھی میدان محض ایک مقام نہیں، بلکہ ایک تحریک کا مرکز بنے گا، جہاں سے نکلنے والی آواز آنے والی نسلوں کے لیے بیداری، مزاحمت اور قیادت کا مینار ثابت ہوگی۔
دیش
ہلدوانی تشدد:اترا کھنڈ ہائی کورٹ نے مزید ایک ملزم کودی ضمانت
(پی این این)
نینی تال:ہلدوانی تشدد معاملے میں گذشتہ تقریباً دو دسالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک غریب پھل فروش کو ضمانت پر رہا کئے جانے کا ہائی کورٹ نے حکم دیا۔ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحریرکیا ہے کہ ملزم کے خلاف کوئی ڈائرکٹ ثبوت نہیں ہے حالانکہ ملزم سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھائی دے رہا ہے۔ عدالت نے مزید تحریر کیا کہ چونکہ ملزم کا تعلق اسی علاقے سے ہے جہاں پر مبینہ تشدد ہوا تھا لہذا ملزم سی سی ٹی وی فوٹیج میں آگیا ہوگا لیکن ملزم کسی بھی طرح کے تشدد میں شامل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری نے گذشتہ ہفتہ سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کی بحث کے اختتام کے بعد ضمانت عرضداشت پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج سنایا گیا۔سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں ہے اور نہ ہی پولس نے ملزم کے قبضے سے کسی طرح کا ہتھیار ضبط کیا ہے نیز یو اے پی اے قانون کا اطلاق مشکوک ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ ملزمین کو ضمانت سے محروم رکھنے کے لیئے تشدد کے مقدمہ میں دہشت گردی کی روک تھام کرنے والے سخت قانون یو اے پی اے کا اطلاق کیا گیا۔
ہلدوانی تشدد معاملے میں پولس زیادتیوں کے شکار ملزمین کو صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر قانونی امداد فراہم کی جارہی ہے، یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت گرفتار 76/ ملزمین کی ابتک ضمانت منظور ہوچکی ہے۔گذشتہ سماعت پر ملزمین عبدالرحمن،محمد ناظم،ضیاء الرحمن کی ضمانت عرضداشتوں پر سرکاری وکیل کے اعتراض کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے انہیں سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا مشورہ دیا تھا۔عدالت نے کہاتھا کہ دونوں ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں مقررہ وقت میں داخل نہیں کیئے جانے کی وجہ سے ہائی کورٹ سماعت نہیں کرسکتی کیونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ہائی کورٹ کی ہدایت کے مطابق ان دونوں ملزمین کے لیئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہا ہے۔ اسی طرح دیگر چار ملزمین جنید، رئیس احمد انصاری، دانش ملک اور ایاز احمد کی ضمانت عرضداشتوں کو سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے عدالت نے سرکاری وکیل کو اعتراض داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء ہلدوانی صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر کررہی ہے۔ جمعیۃ علماء قانونی امدادکمیٹی کی پیروی کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں 50/ اور دوسرے مرحلے میں 22/ ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت ہائی کورٹ سے منظورہوئی تھی جس میں چھ خواتین کی ڈیفالٹ ضمانتیں بھی شامل ہیں۔ 8/ فروری 2024 / کو اتراکھنڈ کے ہلدوانی شہر کے مسلم اکثریتی علاقے بن بھولپورہ میں اس وقت بد امنی پھیل گئی تھی جب مبینہ طور غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مسجداورمدرسے کا انہدام کرنے کے لیئے پولس پہنچی تھی، انہدامی کارروائی سے قبل پولس اور علاقے کے لوگوں میں جھڑپ ہوگئی جس کے بعد پولس فائرنگ میں پانچ مسلم نوجوانوں کی موت ہوگئی تھی۔اس واقع کے بعد بن بھولپورہ پولس نے 101/ مسلم مر د و خواتین کے خلاف تین مقدمات درج کیئے تھے اور ان پر سخت قانون یو اے پی اے کا اطلاق بھی کیا تھا۔
دیش
اردو یونیورسٹی میں قومی سمینار کا آغاز
(پی این این)
حیدرآباد: علاقہ محض جغرافیائی اکائی نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے اور اس کو سمجھنے میں تاریخ کا بنیادی کردار ہے۔ ان خیالات کا اظہار پرپروفیسر رادھیکا سیشن نے کیا۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہی تھیں۔ مانو میں دو روزہ قومی سمینار کا ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، حیدرآباد کے اشتراک سے آغاز ہوا۔ یہ سمینار 4 اور 5 نومبر کو ہو رہا ہے۔ سمینار کا عنوان "ہندوستانی تاریخ میں علاقہ” ہے۔ اس سمینار میں ملک بھر سے ممتاز مورخین، محققین اور اسکالرز شرکت کر رہے ہیں اور علاقائی تاریخ کے مطالعے کے مختلف زاویوں پر گفتگو کر رہے ہیں۔
پروفیسر رادھیکا نے اپنے کلیدی خطبہ میں علاقائی مطالعات کی تاریخ نویسی کے ارتقاءپر مفصل روشنی ڈالی۔ انہوں نے وقت اور مکان (Time and Space) کے باہمی تعلق کو تاریخ فہمی کے لیے ناگزیر قرار دیا اور اپنے خطاب میں ہجرت، ثقافت اور سمندری تجارت جیسے پہلوؤں پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے آخر میں علاقائی مطالعات کے لیے بین اللسانی و بین العلوم (inter-disciplinary) نقطۂ نظر اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر ، مانو، نے صدارت کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی وراثت کے تحفظ میں علاقائی تاریخوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے تاریخی متون جیسے "حدود العالم من المشرق الی المغرب” اور "ابھی گیان شکنتلم” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علاقہ وہ مقام ہے جہاں شناختیں تشکیل پاتی اور مستحکم ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نوع کے علمی مباحث نہ صرف تاریخی تحقیق کو تقویت دیتے ہیں بلکہ جامعہ کے فکری و علمی مشن کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔
ابتداءمیں پروفیسر رفیع اللہ اعظمی ، صدر شعبۂ تاریخ نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ انہوں نے وہ اپنے خطاب میں علاقائی مطالعات کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ایسے مطالعات ہندوستان کی تاریخی و ثقافتی تکثیریت کو ازسرِنو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ سمینار کے مہمانِ خصوصی، پروفیسر محمد گلریز، سابق قائم مقام وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علاقائی تاریخ کے مطالعے میں فکری اور ادارہ جاتی چیلنجز پر گفتگو کی۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ علاقائی مطالعات تاریخ کے سیاسی یا سلطنتی زاویے تک محدود نہیں ہونے چاہیں بلکہ ان کے سماجی و ثقافتی پہلوؤں پر بھی توجہ ضروری ہے۔
اس موقع پر پروفیسر ایس کے اشتیاق احمد، رجسٹرار مانو اور پروفیسر پریتی شرما، صدر شعبۂ تاریخ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، نے بحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ پروفیسر اشتیاق احمد نے ہندوستانی آزادی کی جدوجہد میں علاقائی رہنماؤں کے کردار کو اجاگر کیا ہے، جس کا مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔ پروفیسر پریتی شرما نے اپنے خطاب میں "علاقہ” کے تصور کی معرفتی تفہیم پر گفتگو کی اور یہ سوال اٹھایا کہ علاقائی مطالعات کو کس زاویے سے دیکھا جانا چاہیے اور آخر کیا چیز کسی خطے کی بنیادی پہچان متعین کرتی ہے۔
دیش
ہندوستان نے افغانستان کیلئےبھیجی16 ٹن سے زائد ادویات کی کھیپ
(پی این این)
نئی دہلی :ہندوستان نے ملیریا، ڈینگی اور لشمانیا جیسے ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے میں مدد کے لیے افغانستان کو 16 ٹن سے زیادہ ادویات فراہم کی ہیں۔طالبان کے ترجمان شرافت زمان نے کہا کہ ادویات اور تشخیصی کٹس افغانستان کے قومی ملیریا اور دیگر ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے پروگرام کو سپورٹ کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی طرف سے بھیجی جانے والی سپلائی افغانستان کی ملیریا، ڈینگی اور لشمانیا جیسی بیماریوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کرے گی ۔ادویات اور تشخیصی کٹس افغانستان کے قومی ملیریا اور دیگر ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے پروگرام کی براہ راست مدد کریں گی۔ سپلائی کا مقصد ملیریا، ڈینگی اور لشمانیاس جیسی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ملک کی صلاحیت کو بڑھانا ہے، جو کہ افغانستان کے کئی خطوں میں صحت عامہ کے سنگین چیلنجز کو لاحق ہیں۔زمان نے کہا کہ افغانستان کی وزارت صحت عامہ نے ہندوستانی حکومت کی بروقت اور قابل قدر امداد کے لیے تعریف کی۔
وزارت نے نوٹ کیا کہ یہ دوائیں اور تشخیصی کٹس صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور بیماریوں کے مؤثر کنٹرول کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتی ہیں، خاص طور پر کمزور اور زیادہ خطرے والی کمیونٹیز میں۔ یہ تازہ ترین عطیہ افغانستان کے لیے ہندوستان کی دیرینہ شراکت داری اور ترقیاتی تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔ ضروری طبی سامان میں حصہ ڈال کر، ہندوستان، صحت اور صحت کے فروغ میں ایک مضبوط شراکت دار کے طور پر اپنے کردار کی توثیق کرتا ہے۔
کابل کو ہندوستان کی طبی امداد اکتوبر میں افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے نئی دہلی کے حالیہ دورے کے بعد آئی ہے۔ 10 اکتوبر کو، انہوں نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی کیونکہ دونوں نے افغانستان کی ترقی، دو طرفہ تجارت، علاقائی سالمیت اور آزادی، عوام سے عوام کے تعلقات اور صلاحیت سازی کے علاوہ کئی دیگر امور پر ہندوستان کی حمایت پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خارجہ جے شنکر نے نوٹ کیا کہ متقی کا دورہ ہندوستان دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے میں ایک "اہم قدم” کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے پانچ ایمبولینسیں افغانستان کے حوالے کرنے کا بھی اعلان کیا۔
-
دلی این سی آر9 مہینے agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر9 مہینے agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر11 مہینے agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر9 مہینے agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر10 مہینے agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ11 مہینے agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار5 مہینے agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ11 مہینے agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
