Connect with us

بہار

سارن کے ایک ہزار 346 انٹر پاس اقلیتی طالبات کو ملیں گے 15 ہزار روپے

Published

on

(پی این این)
چھپرہ :انٹرمیڈیٹ امتحان میں اول درجہ سے پاس ہونے والی ضلع کی کل ایک ہزار 346 مسلم طالبات کو وزیر اعلیٰ اقلیتی حوصلہ افزائی منصوبہ کے تحت 15-15 ہزار روپے فراہم کئے جائیں گے۔مذکورہ اطلاع ضلع اقلیت فلاح آفیسر روی پرکاش نے دیا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت بہار کی طرف سے سال 2025 کے لیے رقم ضلع کو فراہم کرا دی گئی ہے۔وہیں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہونے والی طالبات کی فہرست بہار اسکول ایگزامینشن بورڈ پٹنہ کی جانب سے دستیاب ہو چکی ہے۔مذکورہ فہرست کے حوالے سے متعلقہ تعلیمی اداروں کو خط لکھا گیا ہے کہ وہ طالبات کے والدین کا اعلانیہ سرٹیفکیٹ پر کرا کر دفتر کو حاصل کرائیں۔وہیں منتخب طالبات کو انٹر میڈیٹ کی مارک شیٹ،ایڈمٹ کارڈ،سرٹیفکیٹ،آدھار سے لنک بینک پاس بک کے علاوہ اپ ٹو ڈیٹ رہائش سند کی کاپی متعلقہ اسکول کے پرنسپل کے معرفت ضلع اقلیتی فلاح کے دفتر میں جمع کرانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حوصلہ افزائی رقم مسلم طلبات کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔اس کے تحت حکومت کی طرف سے 15 ہزار روپے سی ایم ایف کے ذریعے فی طالبہ کے اکاؤنٹ میں بھیجے جائیں گے۔انہوں نے طالبات اور ان کے والدین سے کہا ہے کہ طالبات اپنے بینک اکاؤنٹ کو آدھار کارڈ سے لنک کرانے کے بعد ہی جمع کرائیں۔بصورت دیگر اکاؤنٹ میں رقم نہیں بھیجی جا سکے گی۔ڈی ایم ڈبلو او مسٹر پرکاش نے کہا کہ طالبات اور ان کے گارجین کو پریشانی سے بچانے کے لیے ضلع اقلیت فلاح دفتر میں کاونٹر کھولا گیا ہے۔جہاں طالبات یا گارجین براہ راست اپنے کاغذات جمع کرا سکتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

بہار

فوقانیہ اور مولوی کےامتحانات 19 سے 25 جنوری تک ہوں گے منعقد

Published

on

(پی این این)
سیتامڑھی :بہار کے سیتا مڑحی ضلع میں فوقانیہ اور مولوی امتحانات 2026 کے کامیاب، پرامن، اور دھوکہ دہی سے پاک انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے منگل کو کلکٹریٹ میں اجلاس منعقد ہوئی جس میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر راگھویندر منی ترپاٹھی، ضلع سطح کے عہدیداران، اور ال بہار مدرسہ اسوسی ایشن کے صدر، مولانا مطیع الرحمان قاسمی نے شرکت کی۔
اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ نے کہا کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے بورڈ امتحانات ضلع کی تعلیمی ساکھ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے امتحان مراکز کا انتخاب مکمل شفافیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ تمام مراکز پر منصفانہ امتحانات کو یقینی بنانا انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے تمام عہدیداروں کو واضح طور پر ہدایت دی کہ امتحان کے دوران کسی بھی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ امتحان 19 سے 25 جنوری 2026 تک منعقد ہوگا۔ فوقانیہ اور مولوی امتحانات کے لیے پہلی نشست 8:45 سے 12:00 بجے تک اور دوسری نشست 1:45 سے 5:00 بجے تک منعقد ہوگی۔ فوقانیہ امتحان 2026 کے لیے ضلع میں تیرہ اور مولوی امتحان کے لیے پانچ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ فوقانیہ اور مولوی امتحانات 2026 کے لیے مجوزہ امتحانی مراکز کی فہرست پیش کی گئی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مراکز کے جغرافیائی محل وقوع، نقل و حمل کی سہولیات، کلاس روم کی گنجائش، برقی انتظامات، بیت الخلا کے حالات اور حفاظتی معیارات کا قریب سے جائزہ لیا۔
ضلع مجسٹریٹ نے اجلاس میں کہا کہ امتحان کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے تمام مراکز پر فلائنگ اسکواڈ، مجسٹریٹ اور پولیس کو تعینات کرنا لازمی ہوگا۔ مزید برآں، تمام کلاس روم میں سی سی ٹی وی کیمروں اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ فوقانیہ اور مولوی امتحانات 2026 ضلع میں مثالی انتظامات کے ساتھ منعقد کیے جائیں۔ اجلاس میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر راگھویندر منی ترپاٹھی، ایس ڈی او صدر آنند کمار، ایس ڈی او بیلسنڈ، ڈسٹرکٹ پروگرام آفیسر، آل بہار مدرسہ ٹیچرس اسوسی ایشن کے صدر مولانا مطیع الرحمن قاسمی، سریش کمار، سنجیو چودھری بھی موجود تھے۔

Continue Reading

بہار

اوقاف کی حفاظت مسلمانوں کی ایمانی ذمہ داری:امیرشریعت

Published

on

جو جائیداد یں وقف بورڈ میں پہلے سے رجسٹر ڈ ہیں ا ن کوہی امید پورٹل پر احتجاجی نوٹ کےساتھ اپلوڈ کریں
(پی این این)
پھلواری شریف: اوقاف کی جائدادیں اللہ کی ایک امانت ہیں، ان کی حفاظت کے لئے ہم سبھی لوگ اللہ کی غیبی نصرت وحمایت اوراس کے احکام کی پیروی کے ساتھ اجتماعی قوت سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہرحال میں منشاء واقف کے مطابق اس کے مصارف کوعمل میں لائیں، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ ،جھارکھنڈ ومغربی بنگال کے امیر شریعت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی نے بہار کے متولیان اوقاف کے ایک مشاورتی اجلاس منعقدہ ۲۵؍نومبر ۲۰۲۵ء المعہدالعالی للتدریب فی الافتاء والقضاء کے کانفرنس ہال میں کیا،جس میں ریاست بہار کے متولیان مساجد ومدارس ،قبرستان کے صدور وسکریٹریز نے پانچ سو سےزائد تعداد میں شرکت کی، اس مجمع سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت مدظلہ نے فرمایاکہ وقف کا نیا قانون(وقف ترمیمی ایکٹ 2025) دستور ہند کے بنیادی دفعات ،انسانی حقوق اور سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کے خلاف ہے، اس سے وقف کی جائدادیں محفوظ نہیں رہیں گی، اس لئے اس قانون کی واپسی تک ہماری تحریک جاری رہے گی، حضرت امیر شریعت نے اپنے ایک گھنٹہ کے خطاب میں وقف کی شرعی حیثیت اور موجودہ ایکٹ کے نقائص پر نہایت ہی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے کہاکہ 1850ء سے قبل اوقافی جائدادیں محفوظ تھیں، انگریزوں کے عہدمیں 1923میں ایک قانون بنا جس کو قانون سازوں نے چیریٹی کے دائرہ سے نکال دیا تاکہ زرعی ٹیکس اور مال گذاری کی حصولیابی آسان ہو، حالانکہ یہ کوئی چیریٹی پروپرٹی نہیں ہے، بلکہ وقف عبادت ہے، جب مرکزی حکومت نے نیاقانون وضع کیا تو انگریزوں کے نقطہائے نظر کو پیش نظر رکھا، حالانکہ یہ تصور سراسر شرعی وملکی قانون کے خلاف ہے، اس کی اصلاح ودرستگی کےسلسلہ میں مرحلہ وار تبدیلی ہوتی رہی، تاآنکہ 1995ء میں وقف ایکٹ پاس ہوا جس میں بڑی حد تک واقف کے منشاء کا خیال رکھاگیا اور زبانی وقف کرنے کو بھی وقف سمجھا گیا، اس کے لئے رجسٹریشن کو لازمی نہیں قرار دیا، اب جب کہ نیا قانون نافذ ہونے والاہے، اس میں اوقاف کو رجسٹرڈ کرانے کو لازمی قراردیاگیا ہے، اس نئے قانون نے ملت کو ذہنی الجھن میں ڈال دیاہے کہ وہ شرعی عزیمت کی راہ اختیار کرے یا قانونی رخصت کے طریقہ کار کو اپنائے، اگر عزیمت پر عمل کیاجاتاہے تو قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنی ہوںگی اوراس کے لئے ہم سب کو تیار رہناہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اگرچہ ہم سب اس سیاہ قانون کو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں سمجھتے ؛تاہم حکومت کی طرف سے جاری ہدایت کے پس منظر میں اگر کوئی متولی عزیمت کی راہ اختیار کرے تو وہ کورٹ کی راہ اختیار کرے اور اگر رخصت کی راہ اختیار کرتا ہے تو جائداد جو وقف بورڈ میں پہلے سے رجسٹرڈ ہیں انہیں امید پورٹل پر اپلوڈ کرائیں؛لیکن اس کے ساتھ امارت شرعیہ کی طرف سے جو احتجاجی نوٹ فراہم کرایا جا رہا ہے ،اسے بھی اپلوڈ کرے ؛تاکہ عدم رضا کے اظہار کے ساتھ اللہ کے سامنے کسی قدر جوابدہی سے بچ سکیں ،ان کے علاوہ جو وقف کی جائداد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں ،انہیں سپریم کورٹ کے مکمل فیصلہ آنے سے پہلے رجسٹرڈ کرانے کی ضرورت نہیں ہے ،نیز جو مدارس،مساجد،عیدگاہ ،قبرستان خرید یا گفٹ کی زمین پر واقع ہیں یا ان کے کاغذات دستیاب نہیں ہیں صرف کھتیان ہیں ان کا ذکر ہے ،ایسی جائداد کو بھی رجسٹرڈ نہیں کرانا ہے ،ان شاء اللہ امارت شرعیہ اس سلسلہ میںآئندہ غور خوض کے بعد مزید رہنمائی کرے گی ،جوحضرات رجسٹرڈ شدہ جائداد کو امید پورٹل پر ڈالنا چاہتے ہوں اور انہیں دشواری در پیش ہو تو وہ امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر میں قائم شعبۂ خدمت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ازیں قبل ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ وصدر مفتی محمد سعیدالرحمن قاسمی نے اپنے خیرمقدمی کلمات میںمندوبین کا شکریہ ادا کیا اور اوقاف کی اہمیت وافادیت اور احکام ومسائل کے ذکر کے ساتھ اوقاف کی گرانقدر تاریخ ،ہندوستان کے مختلف ادوار میں اس کے حکومتی قوانین کی خطرناکیوں کو بیان کیا اور اس تعلق سے اکابر امارت شرعیہ کی طرف سے کی جانے والی کاوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اول دن سے موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی بل سے لیکر قانون بننے تک بڑی جدوجہد کرتے رہے، جس کی ایک لمبی تاریخ ہے کہ اس کے قانون کے خلاف سیکڑوں اجتماعات منعقد کئے، ملت کو وقف کی حفاظت کے لئے بیدار کیا، بدقسمتی ایسی کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ نے بھی سبھوں کو مایوس کیا اورجن نکات پر رولنگ دی وہ بھی اطمینان بخش نہیں ہے،ان حالات میں ہم سب کو اجتماعی قوت کے ساتھ مسئلہ کو حل کرنا ہے اورآخری لمحہ تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھنی ہے اور جس طرح آج آپ امارت شرعیہ کی دعوت پر یہاں جمع ہوئے ہیں آئندہ بھی امارت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں تشریف لائیں اور یقین مانیں جو تحریک اجتماعی قوت سے چلتی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
یہ اجلاس مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امیر شریعت بہار اڈیشہ ،جھارکھنڈ و مغربی بنگال کی صدارت میں منعقد ہوا،اجلاس کا آغاز مولانامولانااسعد اللہ قاسمی ،مینیجر نقیب کی تلاوت کلام سے ہوا ، بعدا زاں مولانا مجیب الرحمن قاسمی معاون قاضی شریعت امارت شرعیہ اور مولانا احمد حسین قاسمی مدنی معاون ناظم امارت شرعیہ نے رسالت مآبﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، اجلاس کی نظامت کا فریضہ مولانامفتی محمد سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا، شرکاء نے رجسٹریشن کے تعلق سے کئی خدشات اور اندیشوں کا اظہار کیا جس کا حضرت امیر شریعت نے بہت عمدہ طریقہ سے قانونی انداز میں جواب مرحمت فرمایا جس سے لوگوں کو اطمینان خاطر ہوا، اخیر میں یہ اجلاس حضرت امیر شریعت کی رقت آمیزدعاپر اختتام پذیر ہوا۔

Continue Reading

بہار

مدارس اور سنسکرت اسکولوں کے اساتذہ نظر ثانی شدہ تنخواہ اور مہنگائی الاؤنس کے علاوہ کسی اور مراعات کے حقدار نہیں:محکمہ تعلیم

Published

on

(پی این این)
پٹنہ: غیر سرکاری منظور شدہ مدارس اور سنسکرت اسکولوں کے اساتذہ اور عملہ سرکاری ملازم نہیں ہیں۔ وہ نظر ثانی شدہ تنخواہ اور مہنگائی الاؤنس کے علاوہ کسی اور مراعات کے حقدار نہیں ہیں۔ سنسکرت بورڈ کے ریٹائرڈ اساتذہ اور غیر سرکاری منظور شدہ، امداد یافتہ سنسکرت اسکولوں کے عملے کو کمائی ہوئی چھٹی کے بدلے نقد ادائیگی کرنے کے فیصلے کی روشنی میں، محکمہ تعلیم نے واضح کیا ہے کہ وہ سرکاری ملازم نہیں ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ سنسکرت تعلیمی بورڈ نے مذکورہ اساتذہ اور عملے کو کمائی ہوئی چھٹی کے بدلے نقد رقم ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی روشنی میں ثانوی تعلیم کے ڈائریکٹر سجن آر نے سنسکرت بورڈ کے ساتھ ساتھ ڈی ای او اور ڈی پی او اسٹیبلشمنٹ کو بھیجے گئے ایک مکتوب میں کہا گیا ہے کہ چھٹے نظرثانی شدہ پے اسکیل میں ریاستی حکومت کی طرف سے منظور شدہ 1,128 سے 128 اسکولوں کے ملازمین کو تنخواہوں (تنخواہ اور گریڈ پے) اور مہنگائی الاؤنس کی ادائیگی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اس سے آگے، کوئی الاؤنس/مالی سہولیات متوقع نہیں تھیں۔ ساتویں نظرثانی شدہ پے سکیل میں ملازمین کو مقررہ تنخواہ کے ساتھ صرف منظور شدہ مہنگائی الاؤنس ادا کیا جائے گا۔
وہیں ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے، کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر نے سپریم کورٹ کے LPA-43/2016 کے فیصلے میں کہا، جس میں 13 اگست 2019 کے حکم نامے کی روشنی میں کہا گیا تھا، "ہم ان اسکولوں کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کو ریٹائرمنٹ کے فوائد کی ادائیگی کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیونکہ وہ اسکولوں کے ملازم ہیں، اس لیے انہیں سرکاری، انتظامی کمیٹیوں کے ملازمین نہیں سمجھا جا سکتا”۔
محکمہ نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غیر سرکاری تسلیم شدہ سنسکرت اسکولوں میں کام کرنے والے/ ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور عملہ ریاستی حکومت کے ملازم نہیں ہیں۔ ان کی سروس کی شرائط کے ضوابط نہ تو کمائی ہوئی چھٹی کے بدلے نقد ادائیگی کا بندوبست کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی بجٹ کا انتظام ہے۔ محکمہ نے بورڈ سے نقد ادائیگی کا آرڈر واپس لینے کو کہا ہے۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network