Connect with us

دلی این سی آر

3 مہینے میں ہی تعلیمی مافیا حاوی، پانی اور بجلی کا نظام درہم برہم:منیش سسودیا

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا، دہلی ریاستی صدر سوربھ بھاردواج اور قائدِ حزب اختلاف آتشی نے بدھ کے روز دہلی کے تمام "آپ” ایم ایل ایز سے ملاقات کی۔ اس دوران دہلی کی موجودہ صورتِ حال پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔
ایم ایل ایز نے بتایا کہ دہلی کے کئی علاقوں میں صاف پانی کی شدید قلت ہے۔ ہر اسمبلی حلقے میں پانی کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سال دہلی میں کہیں بھی نئی پانی کی پائپ لائن نہیں بچھائی گئی۔ بجلی کی فراہمی بھی بدترین صورت حال سے دوچار ہے اور طویل پاور کٹس سے عوام پریشان ہیں۔ اس موقع پر یہ طے کیا گیا کہ آپ کے ایم ایل ایز کا ایک وفد جلد ہی دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا سے ملاقات کرے گا اور پانی و بجلی کے مسائل پر ان سے بات کرے گا۔ سوربھ بھاردواج نے کہا کہ دہلی کے متعدد علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے، اس لیے وزیر اعلیٰ سے ملاقات اب ناگزیر ہو گئی ہے۔بدھ کو منعقدہ اس ملاقات میں گفتگو کا محور بی جے پی کی چار انجن والی حکومت کے گزشتہ تین مہینوں میں بند کیے گئے ترقیاتی و فلاحی منصوبے اور بی جے پی کی جانب سے کیے گئے وعدوں کی ناکامی رہی۔ تمام ایم ایل ایز نے اپنے اپنے حلقوں میں رکے ہوئے ترقیاتی کاموں اور عوامی مسائل پر تفصیلی رپورٹ دی۔منیش سسودیا نے کہا کہ بی جے پی کی آفت زدہ حکومت کی وجہ سے دہلی کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ صرف تین مہینے میں تعلیمی مافیا کو کھلی چھوٹ مل گئی، اور پانی و بجلی کا نظام تباہ ہو گیا۔ بی جے پی جھوٹے وعدوں کے سہارے اقتدار میں آئی، اور ایک بھی وعدے پر عمل نہ کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ "آپ” کے ایم ایل ایز عوام کے درمیان رہیں، ان کے دکھ درد میں شریک ہوں اور ان کے مسائل کا حل نکالیں۔ایم ایل ایز نے کہا کہ گزشتہ تین مہینوں میں بی جے پی حکومت گورننس کے میدان میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
دہلی کے عوام نے 27 سال بعد بی جے پی کو موقع دیا، لیکن اقتدار میں آتے ہی عوام کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ انہوں نے بتایا کہ پورے دہلی میں غیر متوقع بجلی کٹوتی ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے عوام شدید گرمی میں پریشان ہیں اور انورٹر لگانے پر مجبور ہیں۔ بی جے پی نے صاف پینے کے پانی کا وعدہ کیا تھا، لیکن آج دہلی کے کئی علاقوں میں گندہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ پانی کے ٹینکر کے لیے لوگوں کو لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے۔ سیور اور نالوں کے جام ہونے کی وجہ سے بھی عوام پریشان ہیں۔ جگہ جگہ گندہ پانی سڑکوں پر بہہ رہا ہے اور کچرے کی صفائی نہ ہونے کے سبب عوام میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔منیش سسودیا نے کہا کہ بی جے پی نے عوام سے جھوٹ بول کر ووٹ حاصل کیے اور تین مہینے میں ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ایسے میں "آپ” پارٹی کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ دہلی کے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو اور پانی، بجلی، سیور اور دیگر بنیادی مسائل پر آواز اٹھائے۔ انہوں نے ایم ایل ایز سے کہا کہ وہ اپنے حلقے کے عوام سے مسلسل رابطے میں رہیں، ان کے مسائل سنیں، اور ان کا حل کریں۔ عوام کو یقین دلائیں کہ عام آدمی پارٹی اقتدار سے باہر رہ کر بھی ان کے حق کی لڑائی لڑ رہی ہے۔عام آدمی پارٹی کے دہلی صدر سوربھ بھاردواج نے کہا کہ پانی کے بحران کے حوالے سے آپ کا نمائندہ وفد جلد وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا سے ملاقات کرے گا۔ آتشی: عوام چار انجن والی بی جے پی حکومت سے تنگ آ چکی ہے، کیجریوال حکومت کو یاد کر رہی ہے۔
. قائد حزب اختلاف آتشی نے کہا کہ دہلی کی عوام بی جے پی کی چار انجن حکومت سے بیزار ہو چکی ہے اور وہ کیجریوال حکومت کو یاد کر رہی ہے جو حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کے حل پر یقین رکھتی تھی۔

دلی این سی آر

شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے موضوع پر توسیعی لکچر

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں آج ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت اہم توسیعی لیکچر منعقد ہوا جس میں عروض اور فنِ شعر کی باریکیوں کے ماہر پروفیسر احمد محفوظ (شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے اپنا پرمغز لیکچر دیا۔ پروگرام کی صدارت شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر محمد نعمان خان نے کی۔ اس سے قبل شعبۂ عربی میں توسیعی لیکچر کی روایت کا تذکرہ اور مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے صدرِ شعبہ پروفیسر سید حسنین اختر نے کہا کہ شاعری دراصل خیالات کو مؤثر اور خوبصورت موسیقیت کے سانچے میں پیش کرنے کا نام ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق ساتویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے عربی زبان کے مشہور عالم خلیل بن احمد فَرّاہیدی نے اس فن کے اصول و ضوابط مرتب کیے۔ فنِ عروض ایک مشکل فن ہے اور ہندوستان میں پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اساتذہ میں ہیں جو اس فن کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اس موضوع پر ان سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ لکچر شعبہ کے طلبہ اور اسکالرز کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے لیکچر میں فنِ عروض کے تاریخی پس منظر، بنیادی اصولوں اور وزن و بحور کی ساخت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’عروض‘‘ شعر کی موزونیت اور آہنگ کو جاننے کا فن ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شاعری کے لیے اس فن کا جاننا ضروری نہیں، چنانچہ اس فن کے اصول مرتب کیے جانے سے قبل بھی عربی شاعری کا بڑا ذخیرہ ہمارے درمیان موجود ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ شعرا اپنی داخلی و فطری موسیقیت کا سہارا لیتے ہوئے موزون شاعری کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس علم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اشعار کی صحیح تقطیع اور ان کے فنی تجزیے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ہمیں اشعار کی موسیقیت و موزونیت کے ادراک میں دقت آتی ہے اور نغمگی کے احساس میں تردد ہوتا ہے، ایسے میں اس علم کی فنی نزاکتیں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وتد، سبب، زحاف اور عروض کی ابجدیات اور اشعار کی تقطیع کے اصول فنکارانہ اور پرلطف انداز میں مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ و اسکالرز میں اس فن کے لیے دلچسپی پیدا کی اور سوالات کے جوابات دیے۔
پروفیسر محمد نعمان خان نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران عروض کو ایک عملی فن قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاعری داخلی استعداد کا بیرونی اظہار ہے، اسی وجہ سے اسے الہامی کہا جاتا ہے۔ مہمان مقرر کے لیکچر کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موضوع کے تناظر میں پروفیسر احمد محفوظ کا انتخاب نہایت عمدہ ہے اور انہوں نے اس خشک موضوع کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ بانیٔ فن کی علمی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیل فَرّاہیدی نے عربی زبان و ادب میں بےحد اہم کام کیے ہیں اور یہ فن ضرورت کی پیداوار ہے۔ البتہ موجودہ دور میں نثری شاعری کا رواج بھی عام ہے اور محض موسیقیت کی بنیاد پر شاعری کی جارہی ہے۔ عربی و سنسکرت کے درمیان مماثلت کا ضمنی تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں زبانوں کی فیملی جدا ہیں اور اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں کہ خلیل فَرّاہیدی نے یہ فن سنسکرت سے اخذ کیا تھا۔
قبل ازیں پروگرام کے کنوینر و نقیب ڈاکٹر مجیب اختر نے مقرر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اہلِ علم میں شامل ہیں جنہوں نے اردو کے نامور ادیب و ناقد پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی سے کسبِ فیض کیا ہے، اور آج اردو ادب میں ایک مستند و معتبر نام ہیں۔ پروگرام میں شعبۂ عربی کے سابق صدر پروفیسر نعیم الحسن، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر اصغر محمود، پروفیسر علیم اشرف، پروفیسر ابوبکر عباد، پروفیسر مشتاق عالم قادری، پروفیسر احمد امتیاز، ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر مہتاب جہان، ڈاکٹر زین العبا، ڈاکٹر عارف اشتیاق، ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر ابو تراب، ڈاکٹر محمد مشتاق اور ڈاکٹر غیاث الاسلام کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ، اسکالرز اور جامعہ ملیہ اسلامیہ و دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

اردو اکادمی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز کےایل سیگل کو پیش کیاگیا خراجِ عقیدت

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:دہلی کے ادبی و ثقافتی حلقوں میں آج شام اردو اکادمی، دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز اُس وقت خاصی رونق دیکھی گئی جب پیروٹس ٹروپ نے اپنے نئے اسٹیج ڈرامے’’ترا راہ گزر یاد آیا (کے۔ایل۔سیگل)‘‘ کی شاندار پیشکش کی۔ ڈاکٹر سعید عالم کی تحریر و ہدایت میں تیار یہ منفرد اسٹیج ڈراما ایک میوزیکل فکشن ہے جس میں حقائق اور تخیل کو بڑی خوبصورتی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے تاکہ ملک کے معروف گلوکار کے۔ایل۔سیگل کی زندگی کے مختلف پہلو نمایاں ہوسکیں۔
ڈرامے کا عنوان مرزا غالبؔ کی غزل’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ کے پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے سے ماخوذ ہے، جسے سیگل نے اپنی مترنم آواز میں گایا تھا۔ اس پیشکش کی خاص بات متعدد فنی و تکنیکی تجربات رہے۔ کہانی کو راوی کے ذریعے آگے بڑھانا اور اہم و بنیادی مناظر کو فلیش بیک تکنیک کے ساتھ پیش کرنا ایسے عناصر تھے جنہوں نے ڈرامے کی دلکشی میں اضافہ کیا۔ڈرامے میں جہاں سیگل کی زندگی کے ابتدائی مراحل ،ایک معمولی سیلزمین سے شہرت یافتہ گلوکار بننے تک،بڑے دلکش انداز میں دکھائے گئے، وہیں ان کی گائیکی کے مختلف ادوار، مشہور نغمات اور فنی جدوجہد کو بھی نہایت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا۔ زبان و بیان کے حوالے سے ڈرامے کی نمایاں خوبی یہ رہی کہ ہر کردار اپنے زمان و مکان کے عین مطابق مکالمے ادا کرتا نظر آیا۔کلکتہ کے مناظر میں بنگلہ لب و لہجے کی لطافت اور چاشنی جھلکتی ہے، جبکہ مرادآباد اور کانپور کے مشاعراتی ماحول میں وہاں کا مخصوص اندازِ گفتگو پوری طرح برقرار رکھا گیا۔ اسی طرح دہلی اور ممبئی سے متعلق مناظر میں ان شہروں کی ثقافتی زبان اور مقامی لہجہ فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس سے ڈرامے کی حقیقت نگاری اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوا۔ کہانی میں مختلف کرداروں کے مکالموں کے ذریعے سیگل کے عہد کی اہم شخصیات اور اُس دور کے بنگلہ و ہندی فنکاروں کے فنی اثرات کو بھی مؤثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ڈرامے کا سب سے دلکش و نمایاں پہلو معروف تھیٹر اداکار یش راج ملک کی شخصیت اور ان کی اداکاری رہی، جنہوں نے سیگل کا کردار بخوبی نبھایا۔ وہ نہ صرف سیگل کے مشابہ دکھائی دیے بلکہ ان کے مقبول نغموں، غزلوں اور بھجنوں کو براہِ راست اسی انداز میں پیش کرکے پورے آڈیٹوریم میں سیگل کے زمانے کی یاد تازہ کردی۔
یہ ڈراما کل چوبیس کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں ایک مرکزی، چار معاون اور بیس ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی کی تشکیل سترہ مناظر پر کی گئی تھی، جن میں دو مناظر فلیش بیک تکنیک کے تحت پیش کیے گئے۔ ہدایت کار نے ڈرامے کا اختتام بھی نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، جہاں سیگل کے آخری لمحات کو بے بسی اور درد کے ساتھ دکھایا گیا۔ڈراما مجروح سلطان پوری کی غزل پر مبنی اس مشہور نغمے’’جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں‘‘ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، جسے سیگل نے اپنی آواز میں گایا تھا۔
آڈیٹوریم میں شریک ناظرین کا خیال تھا کہ یہ ڈراما نہ صرف ایک فن کار کو خراجِ عقیدت ہے بلکہ ہندوستانی فلمی و موسیقی کی تاریخ کے ایک سنہرے باب کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش بھی ہے۔ ڈرامے کے اختتام پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور ناظرین نے پیروٹس ٹروپ کی اس کامیاب پیشکش کو بھرپور سراہا۔
آخر میں اکادمی کے سینئر کارکن محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار ڈاکٹر سعید عالم کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے اس پیشکش کی قدردانی کی۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

اردو اکادمی کے زیر اہتمام ڈراما فیسٹول کے تیسرے روز منٹو کی کہانی ’’جیب کترا‘‘ کی متاثر کن پیشکش

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:سعادت حسن منٹو کا شمار اردو افسانے کے اُن چند نادر تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور معاشرتی برائیوں کو بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کیا۔انھوں نے اپنے قلم کے زور سے سماج کے دوہرے چہروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ ان کا فن زندگی کی کڑوی حقیقتوں، انسانی کمزوریوں اور معاشرتی تضادات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر حقیقت پسندانہ ہے، جس میں طنز و مزاح کے پہلو بھی نمایاں ہیں۔ منٹو کے فن کی یہی خوبیاں انھیںاردو فکشن کا ایک منفرد اور لازوال افسانہ نگار بناتی ہیں۔
اردو اکادمی ،دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ’’اردو ڈراما فیسٹول‘‘ کے تیسرے دن منٹو کی یہی فنی و فکری خوبیاں ناظرین کے دل و دماغ پر اثرانداز رہیں۔ آج شام شری رام سینٹر میں اداکار تھیٹر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام منٹو کے معروف افسانے ’’جیب کترا‘‘ کو اسٹیج پر پیش کیا گیا، جس کی ہدایت کاری معروف تھیٹر فنکار جناب ہمت سنگھ نیگی نے کی۔ڈرامے کی پیشکش سے قبل ناظمِ محفل جناب مالک اشتر نے منٹو کے فکر و فن اور تھیٹر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی، جس کے بعد کہانی کی پیشکش نے ناظرین کو گہرے تاثرات میں ڈبو دیا۔
یہ کہانی ایک جیب کترے ’’کاشی‘‘ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو حالات کے جبر کے تحت چوری پر مجبور ہے۔ ایک دن بازار میں وہ ’’بملا‘‘ نامی عورت کا بٹوہ چرالیتا ہے، مگر اس میں موجود ایک خط کی افسردہ تحریر اسے پشیمان کردیتی ہے۔ اسے بملا کی زندگی میں غم اور مایوسی کے ایسے آثار نظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ انکشاف کاشی کے دل میں ندامت اور انسانیت دونوں کو بیدار کردیتا ہے۔ وہ بملا سے اپنے جرم کی معافی مانگتا ہے اور اس کی زندگی میں دم توڑتی امید کو پھر سے جلا بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔بدلے میں بملا وعدہ کرتی ہے کہ وہ کاشی کو ایک بہتر انسان بننے میں مدد کرے گی، مگر برسوں کی چوری نے کاشی کو ’’کلیپٹو مینیا‘‘ جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا کردیا تھا، جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ کہانی کا کلائمکس اس وقت آتا ہے جب بملا اپنی مجبوریوں کے باعث کاشی سے دوبارہ چوری کرنے کو کہتی ہے، لیکن اس بار کاشی انکار کردیتا ہے کیونکہ وہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ عزم کرچکا ہوتا ہے۔ کہانی کا اختتام علامتی اور فکرانگیز انداز میں ہوتا ہے، جو ناظرین کے ذہنوں پر یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ کیا کاشی اپنی نئی راہ پر قائم رہ پائے گا یا حالات اسے دوبارہ جرم کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔
یہ ڈراما کل اٹھارہ کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں دو مرکزی، دو معاون اور چودہ ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی سات بنیادی اور تین ضمنی مناظر پر مشتمل تھی۔ فنکاروں نے اپنی بے مثال اداکاری اور جذباتی گہرائی کے ساتھ منٹو کی سادہ زبان کو اس طرح مجسم کیا کہ ناظرین کے لیے افسانوی کردار اور تھیٹر اداکار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ معاون و ضمنی فنکاروں نے بھی اپنے دلچسپ مکالموں، گہرے تاثرات اور مزاحیہ حرکات کے ذریعے کہانی کے جذباتی توازن کو آخر تک برقرار رکھا۔مختصر یہ کہ یہ ڈراما نہ صرف فنِ اداکاری کے اعتبار سے کامیاب رہا بلکہ اپنے جامع و مؤثر اسکرپٹ، اثرانگیز مکالموں اور فنی پیشکش کے باعث ناظرین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔
ڈرامے کے اختتام پر اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار جناب ہمت سنگھ نیگی کو مومینٹو اور گلدستہ پیش کر کے ان کی شاندار پیشکش کو سراہا۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبا کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network