Connect with us

اتر پردیش

کمزور طبقات کے خلاف ہونے والے استحصال کو ختم کیا جائے : سماجوادی پارٹی

Published

on

(پی این این)
دیوبند: سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا کے ممبر رام جی لال سمن کے قافلہ پر کرنی سینا کی جانب سے کئے جانے والے حملہ اور پسماندہ ،دلت ،اقلیتی طبقات اور دیگر کمزور طبقات پر کئے جانے والے ظلم اور استحصال کے خلاف پارٹی کی قومی قیادت کی اپیل پر سماجوادی پارٹی کارکنان نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ¿ہند کے نام ایک میمورنڈم سیٹی مجسٹریٹ کے سپرد کیا ۔سماجوادی پارٹی کے ضلع صدر چودھری عبدالواحد کی قیادت میں پارٹی کارکنان نے حقیقت نگر کے رام لیلا میدان پر جمع ہوکر پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دیا ،ضلع صدر چودھری عبدالواحد نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جس طرح سے پسماندہ ،اقلیتی طبقے اور کمزور طبقے کے لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے اور ان طبقات کے لوگوں کو قتل کئے جانے کے معاملات کو جس طرح دبایا جارہا ہے یہ حکومت کی بدنظمی اور قانونی خلاف ورزی کو ظاہر کرتا ہے ،انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کے خلاف بھی حکومت کی جانب سے قانونی کارروائی کی جارہی ہے ۔
سابق ایم پی حاجی فضل الرحمن اور قومی جنرل سکریٹری چودھری رودرسین ،صوبائی سکریٹری مظاہر رانا نے کہا کہ گذشتہ 27 اپریل کو بلند شہر جانے والے سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور ممبرپارلیمینٹ رام جی لال سمن کے قافلہ پر علی گڈھ میں کرنی سینا کے لوگوں نے حملہ کرکے گاڑیوں کو نقصان پہونچایا تھا ،اس حملہ میں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے تھے ،لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک حملہ آوروں کے خلاف محض خانہ پری کے لئے کارروائی کی گئی ہے جو بے حد شرمناک ہے اور حکومت کی جانب دارانہ پالیسی کو ظاہر کرتی ہے ،سابق ایم ایل اے منوج چودھری ،سابق ایم اے معاویہ علی ،سابق وزیر مملکت ونود تیجیان نے کہا کہ سماجوادی پارٹی آئین کی محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے مسائل اور پریشانیوں کو مضبوطی کے ساتھ اٹھانے کا کام کررہی ہے اور مستقبل میں بھی کرتی رہے گی ،انہو ں نے کہا یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ رام جی لال سمن کے قافلہ پر حملہ کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرنے کی رسمی کارروائی کی گئی
-کیونکہ کچھ ہی دیر کے بعد انہیں چھوڑدیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت کی سوچی سمجھی سازش تھی-
،انہوںنےحکومتسےمطالبہ کیا کہ حملہ آوروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور جن کمزور طبقات اور اقلیتوں کا استحصال کیا
جارہا ہے اس کو فوراً بند کیا جائے ،اس موقع پر شہر صدر حاجی نواب انصاری ،سابق وزیر سرفراز خاں ،صوبائی سکریٹری مانگے رام کشیپ ،ضلع جنرل سکریٹری جتیندر رانا ،ابھےشیک ٹنکو،چودھری سلیم اختر ،فیصل سلمانی ،فرہاد گاڑا ،چودھری عبدالغفور ،روحی انجحم ،ممتاچودھری ،واصل ،مستقیم رانا ،امت گوجڑ ،کاشف علوی ،جمال صابری ،مہ جبیں خاں ،ولاس رانا ،حسین قریشی ،چودھری واصل ،محمد اسلم ،اسرار چودھری ،سدیش گوجڑ ،ارشاد سلمانی ،عرفان علیم ،ندیم قریشی ،محفوظ انصاری ،سندیپ سینی ،راجیش سینی ،راﺅ ثاقب ،کیف قریشی ،چودھری جملہ سنگھ ،وراثت خان ،حنا صدیقی ،زندہ گوجڑ اور ثاقب ایڈوکیٹ وغیرہ موجود رہے ۔
Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اتر پردیش

تعاون اور ہم آہنگی سے ملتی ہےعملی زندگی میں کامیابی: پروفیسر ثوبان سعید

Published

on

لینگویج یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیےاستقبالیہ تقریب
(پی این این)
لکھنؤ: خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کے شعبہ ٔ اردو میں نو وارد طلبہ کے لیے استقبالیہ تقریب کا انعقاد بزم ادب کی جانب سے کیا گیا۔ اس تقریب میں بی اے سال اول اور ایم سال اول کا استقبال کیا گیا ۔ اس استقبالیہ تقریب میںپی ایچ ڈی کے طالب علم اور بزم ادب کے سکریٹری محمد نسیم نے طلبہ اور اساتذہ کا خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ تقریب کچھ تاخیر سے منعقد ہو رہی ہے مگر دیر آید درست آیدکے مصداق یہ ایک خوشگوار موقع ہے۔انھوں نے اپنے اسقبالیہ کلمات میں اردو زبان و ادب میں بی اے اور ایم اے کرنے والے طلبہ ان معنوں میں خوش نصیب ہیں کہ انھیں ادبی نگارشات کے توسط سے حیات و کائنات کے ایسے اسرار سےآگہی ہوتی ہے جو زندگی کے پر پیچ مراحل سے سرخرو گزرنے میں ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔
انھوں نے زبان اور کلچر کے ربط باہم کے تناظر میں اردو پڑھنے کی اہمیت کو بیان کیا اور نووارد طلبہ سے کہا کہ اس شعبے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ کلاس روم کی تدریس کے ساتھ طلبہ کی تعلیمی اور اخلاقی تربیت میں ہر وقت ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔محمد نسیم کے استقبالیہ کلمات کے بعد نو واردریسرچ اسکالرس ،ایم اے سال اول اور بی اے سال اول کے طلبہ نے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ اس یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ ایک ذمہ دار شہری بننے کی کوشش کریں گے تاکہ اپنے سماج اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں تعاون کر سکیں۔ ان طلبہ نے اساتذہ کو یہ یقین دلایا کہ وہ پوری محنت اور دیانت داری کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گے تاکہ زبان اور کلچر کے تحفظ میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
اس استقبالیہ تقریب میں شعبہ ٔ اردو کے صدر پروفیسر ثوبان سعیدپنے اپنے خطاب میں نو وارد طلبہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی زندگی محض کتابی علم تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی شخصیت، سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارنے کا سنہرا دور ہوتا ہے۔ انھوں نے طلبہ کو یقین دلایا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ اور سینئر طلبہ ہر مرحلے پر ان کی رہنمائی، مدد اور حوصلہ افزائی کے لیے موجود رہیں گے تاکہ تعلیمی سفر ان کے لیے آسان اور بامقصد بن سکے۔انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ یونیورسٹی کے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، نظم و ضبط اور وقت کی قدر کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں، خود اعتمادی کو مضبوط رکھیں اور مسلسل سیکھنے کا جذبہ پیدا کریں۔ پروفیسر ثوبان سعید نے اس بات پر زور دیا کہ عملی زندگی میں کامیابی اُسی کو ملتی ہے جو تعاون، ہم آہنگی اور اتفاق کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ آخر میں انھوں نے طلبہ کے روشن، کامیاب اور باوقار مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اس موقع پر پروفیسر فخر عالم نے استقبالیہ تقریب کے کامیاب انعقاد پر بزمِ ادب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ شعبۂ اردو کی یہ روایت نہایت قابلِ قدر ہے کہ وہ ہر سال نو وارد طلبہ کے لیے اس نوعیت کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بزمِ ادب محض ایک ادبی انجمن نہیںبلکہ یہ طلبہ کی فکری تربیت، تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری اور ادبی ذوق کی نشوونما کا اہم پلیٹ فارم ہے۔
پروفیسر فخر عالم نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ایسی تقریبات طلبہ میں اعتماد، بیان کی مہارت، تخلیقی شعور اور علمی وابستگی کے جذبات کو مضبوط کرتی ہیں۔انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ بزمِ ادب کی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کو کلاس روم سے باہر ایک وسیع علمی فضا فراہم کرتے ہیںجہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکتے ہیں اور اپنی شخصیت کو بہتر طور پر نکھار سکتے ہیں۔ اس تقریب میں طلبہ نے غزلیں ،نظمیں ،مزاحیہ تقاریر،ادبی لطائف اور دیگر تخلیقی مظاہرے پیش کئے۔اس کے ساتھ ہی بزم ادب کے زیر اہتمام مقابلہ جاتی نشست منعقد ہوئی جس میں طلبہ نے بھرپور حصہ لیا۔اس تقریب کی نظامت ریسرچ اسکالر حسن اکبر اور شکریے کے کلمات ریسرچ اسکالر عبداللہ نے ادا کئے۔

Continue Reading

اتر پردیش

خانقاہی نظام سے ہی انسانیت کی بقا: عبید اللہ خاں اعظمی

Published

on

(پی این این)
رام پور:خانقاہ احمدیہ قادریہ میں عرس مبارک کی آخری پرُ کیف محفل منعقد ہوئی۔ قرآن خوانی ہوئی بعدہ قل شریف پڑھا گیا۔ بعد نماز مغرب محفل وعظ و نصیحت کاآغازقاری محمد مامون خاں فرقانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔خانقاہ کے مہتمم اورنواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمد شعائر اللہ خاں قادری وجیہی نے خانقاہ احمدیہ قادریہ کے بزرگان دین کی حیات و خدمات پر اپنی تعارفی تقریرمیں روشنی ڈالی کہا کہ خانقاہ احمدیہ کی بافیض علمی اور روحانی خانقاہ ہے،اس خانقاہ کے سب سے بڑے بزرگ حضرت سیدنا شاہ احمد علی سلسلۂ عالیہ قادریہ مجددیہ کے عظیم صوفی تھے۔آپ اپنی خانقاہ میں پچیس سال تک گوشہ نشین ہوکر عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔
عرس مبارک کی محفل میں دہلی سے تشریف لائے ہوئے ناظم جلسہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی (کنوینر خسرو فاؤنڈیشن) نے محفل میں پُرجوش خطاب کیا۔انھوں نے کہا کہ رام پور دہلی اور لکھنؤ کے بعد تیسرا دبستان کہلاتا ہے،اس سرزمین کوجہاں مرزا غالب ،ؔداغؔ دہلوی اور امیر مینائیؔ جیسی ہستیوں نے اپنا مسکن بنایا تو وہیں ملّا محمد حسن فرنگی محلیؒ، علّامہ فضل حق خیرآبادیؒ،مفتی ارشاد حسین مجددی ؒ،مولانا سلامت اللہ رام پوریؒ،مولوی عبد الغفار خاںؒ اور بیسویں صدی کی بحر العلوم شخصیت خطیب اعظم مولانا شاہ وجیہ الدین احمد خاں قادری مجددیؒ جیسی باکمال اور بافیض ہستیوں نے اپنے علم و عمل اور زہدوتقویٰ کی دولت سے اہل شہر کو مالا مال فرمایا۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے سابق ممبر پارلیمنٹ علّامہ عبید اللہ خاں اعظمی (نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)کا تعارف کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی نے کہا کہ مولانا عبید اللہ خاں دور حاضر میں ہندوستان کی مایہ ناز علمی شخصیت ہیں،آپ نے اپنی زندگی مظلوم اور کمزوروں کی آواز بن کر گزاری۔ہندوستان کے ایوان بالا(راجیہ سبھا) میں ملّی مسائل پر کی گئیں آپ کی تقاریر آج بھی یادگار ہیں۔
آخر میں مہمان خصوصی عبید اللہ خاں اعظمی نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خانقاہیں اصل میں راہ بہشت ہمارے لیے آسان کرتی ہیں ان خانقاہوں کی تعلیم شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت و معرفت پر بھی مبنی ہوتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو طریقت ومعرفت کی ایسی راہ دکھائی کہ انسان کو حقیقی انسان بنادیا ایک دوسرے کا دردمن بنادیا۔یہی تعلیم آج بھی ان خانقاہوں میں جاری و ساری ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ حضرات بہت خوش نصیب ہیں کہ خانقاہ احمدیہ کے عرس مبارک میں صوفیائے کاملین کا فیض پانے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔حضرت شاہ احمد علی خاں اور مولانا وجیہ الدین خاںؒ انیسویں اور بیسویں صدی کے عظیم المرتبت صوفی تھے جنہوں نے عوام و خواص کی خدمت کواپنا شعار بنایا ۔ غمخواروں کے غموں کو دور کیا ، زخم زدہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے اور تشنگان علوم کو سیراب کیا۔مولانا عبید اللہ خاں نے کہا کہ رام پور کی خانقاہ قادریہ مجددیہ نے پچھلی دو صدیوں میں اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں عظیم خدمات انجام دیں ہیں، اور حسبِ روایت حقیقی اعتدال کو اس خانقاہ نے آج بھی باقی رکھا ہے۔رام پورہمیشہ سے ہی اعتدال کا حقیقی مسکن رہا ہے جو اعتدال حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی مبارک تعلیمات سے دنیا میں پھیلاوہ آج تک انہی بزرگانِ دین کے ذریعہ سے باقی ہے اور انشاء اللہ تاقیامت باقی رہے گا۔صوفیائے کاملین کے مبارک طریقہ میں ہی ہمارے لئے راہِ نجات ہے۔
مولانا نے کہا کہ کامل ولی وہی ہوتا ہے جو ایک طرف شریعت اسلامی کی تعلیم سے آراستہ ہو اور دوسری طرف تعلیمات عرفانی سے بہرہ مند ہو اسی وقت اس کی مبارک تعلیم سے بہتر معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ جو شخص علم شریعت و طریقت سے واقف نہیں ہے وہ صوفی نہیں ہوسکتا۔مجددی صوفیائے کرام میں طریقت کے چاروں سلاسل مزین رہتے ہیں اور ان کی خانقاہوں میں نقش بندی اور قادری فیضان ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ عصر حاضر میں خانقاہی نظام کا جو پیغام امن ومحبت ہے اس کی نشرواشاعت کی اشد ضرورت ہے تاکہ حقیقی تصوف اور تعلیمات نبوی سماج میں عام ہوسکے اور ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل ہوسکے۔مہمان خصوصی کی ڈیڑھ گھنٹہ کی مدلل تقریر سے ہزاروں سامعین خوب محظوظ ہوئے۔ مولانا موصوف کی تقریر کے بعد نواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمدشعائر اللہ خاں وجیہی قادری نے فرمایا کہ ہم مہمان خصوصی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ مولانا موصوف ہماری فرمائش پر تشریف لائے اور پُر مغز خطاب فرمایا۔

Continue Reading

اتر پردیش

اے ایم یو میں آرٹ کا رنگا رنگ میلہ منعقد

Published

on

(پی این این)
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ فائن آرٹس کی جانب سے ایک روزہ اوپن ایئر آرٹ نمائش اورپینٹنگ ڈسپلے کا اہتمام کیا گیا، جس میں ماسٹر آف ویژول آرٹس (ایم وی اے) کے فرسٹ سیمسٹر کے طلبہ و طالبات کے فن پاروں کو پیش کیا گیا۔ فائن آرٹس شعبہ کے احاطے میں منعقدہ اس نمائش میں طلبہ، اساتذہ اور آرٹ کے شائقین نے بھرپور شرکت کی۔
اوپن کورٹ یارڈ میں سجائی گئی اس نمائش میں اسکیچز، مکسڈ میڈیا کمپوزیشنز، تجریدی آرٹ، لینڈ اسکیپ اسٹڈیز، پورٹریٹس اور مختلف عصری سماجی و ثقافتی موضوعات پر مبنی تخلیقی پینٹنگز شامل تھیں۔ یہ نمائش نوجوان فنکاروں کے ارتقائی اسلوب، تکنیکی مہارتوں اور بصری اظہار کے نئے و تخلیقی طریقوں کی جھلک پیش کر رہی تھی۔
تقریب کا افتتاح شعبہ فائن آرٹس کے چیئرمین ڈاکٹر عابد ہادی نے کیا۔ انہوں نے طلبہ کی محنت، لگن اور ان کے تخلیقی نقطہ نظر کی تعریف کی۔ انہوں نے تجرباتی فنون کے ذریعے سیکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے نو آموز فنکاروں کو آرٹ کی نئی جہتوں کو تلاش کرنے کی ترغیب دی۔
فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر ٹی این ستھیسن نے بھی نمائش کا دورہ کیا۔ انہوں نے فن پاروں کے معیار کو سراہا اور تخلیقی ماحول کو فروغ دینے میں شعبے کی مستقل کوششوں کی تعریف کی۔ دونوں معززین نے طلبہ کی رہنمائی کے لیے اپنی قیمتی رائے بھی پیش کی۔
شعبہ فائن آرٹس کے اساتذہ نے نمائش میں بھرپور شرکت کی، طلبہ کی رہنمائی کی اور ان کے فن کو سراہا۔ طلبہ نے کہا کہ اس نمائش نے ان کا حوصلہ بلند کیا اور تنقیدی آراء حاصل کرنے اور عوامی نمائش کے عملی تجربے کا موقع بھی فراہم کیا،جو ان کے مستقبل کے تخلیقی کریئر کے لیے نہایت اہم ہے۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network