Connect with us

اتر پردیش

قانون کی تعلیم کا بنیادی مقصد انصاف، سچائی اور ضمیر کی بیداری کو فروغ دینا : پروفیسر اجے تنیجا

Published

on

لینگویج یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لا اسٹڈیز میں اورینٹیشن پروگرام کا کا انعقاد
(پی این این)
لکھنؤ: خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ کی فیکلٹی آف لا اسٹڈیز میں نئے تعلیمی سیشن 2025-26 کے آغاز پر اورینٹیشن پروگرام کا کامیاب انعقاد کیا گیا۔ اس اہم تعلیمی پروگرام کا مقصد نئے داخل ہونے والے طلبہ کو یونیورسٹی کی علمی و انتظامی ساخت، اخلاقی اقدار اور پیشہ ورانہ رویے سے روشناس کرانا تھا۔اس پروگرام کی صدارت یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے کی اور انھوں نے اپنی صارتی تقریر میں طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی تعلیم کا بنیادی مقصد انصاف، سچائی اور ضمیر کی بیداری کو فروغ دینا ہے۔ اس لیے طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی اخلاقی اقدار کی تعمیر پر خاص توجہ دیں۔ ایک اچھا وکیل یا جج بننے سے پہلے ایک باکردار، سچا اور دیانت دار انسان بننا اولین شرط ہے، کیونکہ قانون کی دنیا میں ہر فیصلہ کسی کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس تناظر میں اخلاقی استحکام اور انصاف پسندی کو عملی زندگی کا حصہ بنانا از حد ضروری ہے۔طلباء کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت نہایت اہم ہے۔ موٹ کورٹ، لیگل ایڈ کلینک، مباحثے، سیمینار اور انٹرن شپس جیسے مواقع نہ صرف طلبہ کی عملی تربیت کو بہتر بناتے ہیں بلکہ ان میں خود اعتمادی، قائدانہ صلاحیت، اور پیشہ ورانہ وقار بھی پیدا کرتے ہیں۔ ایسے تجربات قانون کے نظری علم کو عملی جہت عطا کرتے ہیں۔
اس پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر پدم شری ڈاکٹر ارونیما سنہانے شرکت کی۔پدم شری ڈاکٹر ارونیما سنہا طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زندگی میں کامیابیاں صرف سازگار حالات پرحاصل نہیں ہوتی ہیں بلکہ ہمارے خیالات ،رویے اور جذبۂ عمل بھی انسان کی کامیابیوں اور کامرانیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی طلبہ کو نظم و ضبط ،خود اعتمادی اور مثبت فکر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کے طلباء کے لیے تعلیمی سفر محض کتابی علم حاصل کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک ہمہ جہت تربیت کا عمل ہے جس میں سنجیدگی، ذمے داری اور دیانت داری کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ طلباء کو چاہیے کہ وہ نہ صرف کلاس میں فعال شرکت کریں، وقت کی پابندی اختیار کریں بلکہ سیکھنے کے جذبے کے ساتھ علمی مباحث میں حصہ لیں۔ ایک اچھے قانون دان کے لیے تنقیدی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور مکالمے کی تربیت نہایت ضروری اوزار ہیں جو قانونی شعبے میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
دوسرے اہم اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر سنیل کمار یادو نے کہا کہ قانون کی تعلیم کو صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ زندگی کی حقیقی تیاری کا حصہ سمجھا جائے۔ کیریئر پلاننگ، انٹرن شپ، نیٹ ورکنگ، اور وقت کے مؤثر استعمال سے طلباء اپنے پیشہ ورانہ اہداف کی طرف کامیابی سے بڑھ سکتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ صحت، خاندان، اور سماجی خدمات کے درمیان توازن قائم رکھنا زندگی کی کامیابی کا اصل راز ہے۔آخر میں لیگل اسٹڈیز کے صدر ڈاکٹر پیوش کمار نےکہا کہ قانونی تعلیم بسا اوقات دباؤ اور ذہنی تناؤ کا باعث بن سکتی ہےاس لیے طلبہ کو جذباتی توازن، سکون اور خوش مزاجی برقرار رکھنے کے طریقے سیکھنے چاہئیں۔ یونیورسٹی میں دستیاب کونسلنگ سہولیات اور سپورٹ سسٹم سے فائدہ اٹھا کر وہ خود کو ذہنی طور پر مضبوط بنا سکتے ہیں۔ شکرگزاری، خوش اخلاقی اور حوصلے کے ساتھ تعلیم کا سفر جاری رکھنا کامیابی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
اس پروگرام کی نظامت تانیہ ساگر اور زینب خان نے کی اور شکریے کے کلمات ڈاکٹر پیوش کمار ترویدی نے ادا کئے۔اس پروگرام میں فیکلٹی آف لا کے ڈین پروفیسر مسعود عالم ،رجسٹرار ڈاکٹر مہیش کمار،ڈپٹی رجسٹرار محمد ساحل ،ڈاکٹر کرشنا گپتا ،ڈاکٹر شویتا تریویدی ،ڈاختر دکشا مشرا،ڈاکٹر پرشانت ورون ،انشل شاہ،اور بھانو پرتاپ کے علاوہ شعبے کے بیشتر طلبہ موجود تھے۔

اتر پردیش

عبداللہ اعظم کو جھٹکا،2پاسپورٹ معاملےمیں 7سال کی سزا

Published

on

(پی این این)
رام پور:سابق ایم ایل اے عبداللہ اعظم دو پین کارڈ کیس میں سات سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان کو پاسپورٹ کے دو معاملات میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ سماعت کے دوران عبداللہ اعظم ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔سٹی ایم ایل اے آکاش سکسینہ نے 2019 میں سول لائن پولیس تھانے میں ایس پی لیڈر اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم کے خلاف دو پاسپورٹ کا مقدمہ درج کرایاتھا۔
انہوں نے الزام لگایاتھا کہ عبداللہ اعظم کے پاس دو پاسپورٹ ہیں۔ انہوں نے ان میں سے ایک پاسپورٹ غیر ملکی سفر کے لیے استعمال کیا تھا۔یہ معاملہ ایم پی ایم ایل اے مجسٹریٹ کورٹ میں زیر التوا تھا۔ عبداللہ اعظم نے اس معاملے میں دائر کیس کو منسوخ کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا لیکن وہاں سے انہیں راحت نہیں ملی۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔جمعہ کو رام پور کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سماعت کے لیے سابق ایم ایل اے عبداللہ اعظم کو وی سی کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے عبداللہ اعظم کو مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ایم ایل اے آکاش سکسینہ نے 2019 میں سول لائن تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
ایف آئی آر میں ایم ایل اے نے کہا کہ عبداللہ اعظم نے جھوٹے اور من گھڑت دستاویزات اور تفصیلات کی بنیاد پر پاسپورٹ حاصل کیا تھااور وہ اسے استعمال کر رہے تھے۔ پاسپورٹ نمبر Z4307442 کی تاریخ 10 جنوری 2018 ہے۔عبداللہ اعظم خان کی تاریخ پیدائش ان کے تعلیمی سرٹیفکیٹس (ہائی اسکول، بی ٹیک اور ایم ٹیک) میں یکم جنوری 1993 درج ہے۔ پاسپورٹ نمبر Z4307442 ان کی تاریخ پیدائش 30 ستمبر 1990 ظاہر ہورہی ہے۔ پاسپورٹ کو مالی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔کاروباری اور پیشہ ورانہ بیرون ملک سفر، مختلف اداروں کے شناختی کارڈ کے طور پر اور مختلف عہدوں کے لیے درخواست دینے کے لیے اس کو استعمال کیا گیاہے۔نیز تعلیمی سرٹیفکیٹس کو مالی فائدے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں سے ایکریڈیشن اور شناختی کارڈ بھی شامل ہے۔
عبداللہ اعظم کے تعلیمی سرٹیفکیٹس اور پاسپورٹ میں تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش متضاد ہیں۔اس کے باوجود عبداللہ جان بوجھ کر تمام دستاویزات کو ضرورت کے مطابق ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عبداللہ اعظم نے پاسپورٹ نمبر Z 4307442 حاصل کیا تھا جس میں جھوٹی تفصیلات موجود تھیں جس کا غلط استعمال تعزیرات ہند کی دفعہ 420، 467، 468، 471 اور پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 12(1) AK کے تحت قابل سزا ہے۔

Continue Reading

اتر پردیش

خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے پی ایچ ڈی مقالہ نگاروں کے لیے جامع اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد

Published

on

(پی این این)
لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے داخلہ یافتہ پی ایچ ڈی تحقیق کاروں کے لیے ایک مربوط، منظم اور معلوماتی اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد اٹل ہال میں کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد تحقیق کاروں کو جامعہ کی پالیسیوں، تحقیقی ڈھانچے، علمی وسائل اور قوانین سے واقف کرانا تھا، تاکہ وہ اپنی تحقیقی زندگی کا آغاز باشعور اور منظم انداز میں کرسکیں۔
اس پروگرام کے آغاز میں ریسرچ کوارڈینیٹر پروفیسر چندنا ڈے نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس موضوع کی اہمیت و معنی خیزیت اور ضرورت پر اظہار خیال کیا۔ مختصر استقبالیہ کلمات کے بعد یونیورسٹی کےوائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں اس پروگرام کو تحقیق کے نئے سفر کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ابتدائی مرحلہ تحقیق کاروں کو علمی دنیا کے بنیادی اصولوں، تحقیقی عمل کی باریکیوں اور اس شعبے کی مخصوص ذمہ داریوں سے روشناس کراتا ہے۔پروفیسر اجےتنیجا نے واضح کیا کہ تحقیق کسی بھی شعبے کی ترقی کا بنیادی ستون ہے اور محققین ہی مستقبل کی سمت متعین کرنے والے ’’سنگِ میل‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ انھوںنے نئے اسکالرز کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے تحقیقی موضوعات کا انتخاب کریں جو بدلتی ہوئی سماجی ضروریات اور جدید صنعتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
اس اورینٹیشن پروگرام کے مہمان خصوصی اورلکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم کے صدر پروفیسر دنیش کمار نے اپنے خطاب میں ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی تحقیقی مقالے کے موضوع کے تعین سے پہلے نہ صرف اپنی دلچسپی کے مضامین کا مطالعہ ضروری ہے بلکہ تازہ ریسرچ جرنلز، میگزینز اور ڈیجیٹل رپوزیٹریز کا باقاعدہ جائزہ بھی انتہائی اہم ہے۔ ان کے مطابق ایک اچھی تحقیق کی بنیاد اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب طالبِ علم یہ سمجھ سکے کہ اس موضوع پر پہلے سے کتنا کام ہو چکا ہے اور موجودہ عہد کے مطابق کون سا پہلو نیا یا قابلِ تحقیق ہے۔
انھوں نےطلبہ کو تفصیلی رہنمائی دیتے ہوئے کہا کہ موضوع کی ابتدا بہتر طور پر کلیدی الفاظ طے کرنے سے ہونی چاہیے۔ ان ہی الفاظ کی مدد سے شعبہ جاتی ڈیٹابیسز میں ابتدائی تلاش کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی موضوع پر متعدد تازہ تحقیقات ملتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس پر خاصا کام موجود ہےتاہم طالب علم انھیں مطالعات کے اندر موجود خلا کو تحقیق کے ذریعے اپنا نیا زاویہ طے کر سکتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ریسرچ اسکالرز کو لٹریچر ریویو کے دورا ن قدیم و جدید حوالہ جات، پی ایچ ڈی تھیسسز اور کانفرنس پروسیڈنگز کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیےجس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موضوع کن جہات سے مکمل ہے اور کہاں مزید تحقیق کی گنجائش باقی ہے۔تبدیل ہو تے وقت اور ڈیجیٹل عہد کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مشورہ دیا کہ طلبہ اپنے موضوع کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ٹیکنالوجیکل، سماجی یا انڈسٹری بیسڈ پہلو شامل کریں۔اساتذہ نے مزید کہا کہ اگر کسی موضوع پر پہلے سے بہت زیادہ کام موجود ہو تو طلبہ اسکوب کو محدود کر کے (مثلاً مخصوص علاقے، گروہ یا ٹیکنالوجی تک)، نئی میتھوڈولوجی اختیار کر کے یا تقابلی مطالعہ شامل کر کے اپنے مقالے کو منفرد بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کرنا ضروری ہےجو یہ بتائے کہ طالب علم کا مطالعہ کیوں منفرد اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگ ہے۔
آخر میں انھوں اس بات پربھی زور دیا کہ موضوع طے کرنے کے فوراً بعد طلبہ کو اپنے سپروائزر کے ساتھ ابتدائی نتائج، تلاش شدہ حوالہ جات اور ممکنہ تحقیقی مسائل شیئر کرنا چاہیے تاکہ مقالے کی سمت درست رکھی جا سکے۔ان کے مطابق ایک کامیاب ریسرچ وہی ہے جو موجودہ علمی مباحث، سماجی ضرورت اور نئے فنی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔اس پروگرام کی نظامت اور شکریے کے الفاظ ڈاکٹر روچیتا سجائے نے ادا کیا۔اس موقع پر اساتذہ کے علاوہ سبھی شعبہ جات کے ریسرچ اسکالرس موجود رہے اور ان ریسرچ اسکالرس نےپروفیسر دنیش کمار سے بہت سے سولات بھی کئے جس کاانھوں نے تشفی بخش جوابات دیا۔

Continue Reading

اتر پردیش

پروفیسر نعیمہ خاتون نے جے این میڈیکل کالج میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا کیاافتتاح

Published

on

(پی این این)
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) میں ڈی بی ٹی–نِدان کیندر کا افتتاح کیا اور بچوں کے امراض اور امراضِ نسواں و زچگی کے شعبوں کے اشتراک سے منعقدہ کنٹینیونگ میڈیکل ایجوکیشن (سی ایم ای) پروگرام کے دوران امراض سے متعلق آگہی مہم کا آغاز کیا۔ حکومتِ ہند کے محکمہ بایو ٹکنالوجی سے تعاون یافتہ یہ اقدام مغربی اتر پردیش میں جینیاتی تشخیص اور زچہ و بچہ صحت کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔تنظیمی سربراہان پروفیسر تمکین خان (امراضِ نسواں و زچگی) اور پروفیسر زیبا ذکاء الرّب (شعبہ امراض اطفال) نے مندوبین کا خیرمقدم کیا۔
اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے نِدان کیندر کے قیام کو تحقیق پر مبنی کلینیکل خدمات، کمیونٹی آؤٹ ریچ اور بیماریوں کی بروقت تشخیص کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔ مالیاتی مرحلے کے دوران کلیدی تعاون فراہم کرنے پر پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد محسن خان کو بھی سراہا گیا، جس کی بدولت اہم لیبارٹری آلات کی بروقت خریداری ممکن ہو سکی۔تقریب میں مہمانِ اعزازی پروفیسر سیما کپور (ڈائریکٹر، ڈپارٹمنٹ آف میڈیکل جینیٹکس، ایم اے ایم سی) کے علاوہ پروفیسر مدھولیکا کابرا (سائنس داں ایمرٹس، آئی سی ایم آر) اور پروفیسر کوشک منڈل (ایس جی پی جی آئی)بطور خاص شریک ہوئے۔
ڈی بی ٹی کے 2.12 کروڑ روپے کے گرانٹ سے قائم اُمّید-نِدان کیندر میں مختلف خدمات فراہم کی جائیں گی، جن میں قبل از پیدائش تھیلیسیمیا جانچ، پیدائشی نقائص کی اسکریننگ، نوزائیدہ بچوں کی پانچ بیماریوں کی جانچ اور جینیاتی ٹیسٹنگ اور مشاورت شامل ہیں۔ یہ تمام خدمات بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہیں، اور یہ مرکز ہر کام کے دن میں صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک کھلا رہے گا۔انٹرڈسپلینری ٹیم کی قیادت پروجیکٹ کوآرڈینیٹر اور پرنسپل انویسٹی گیٹر پروفیسر تمکین خان کر رہی ہیں، جبکہ ڈاکٹر عائشہ احمد اور ڈاکٹر گلنار نادری (شعبہ امراض اطفال)، پروفیسر حامد اشرف (اینڈوکرائنولوجی)، ڈاکٹر مہدی حیات شاہی (آئی بی آر سی)، پروفیسر افضل (زولوجی) اور ڈاکٹر احمد فراز (فزیالوجی) بھی اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر زہرہ محسن (چیئرپرسن، امراض نسواں و زچگی) کے تعاون کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا۔اپنی جدید سہولیات کے ساتھ، ڈی بی ٹی–نِدان کیندر، خطے میں جینیاتی بیماریوں کے لیے ایک امتیازی مرکزکے طور پر ابھرنے کے لیے تیار ہے۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network