دلی این سی آر
شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے موضوع پر توسیعی لکچر
(پی این این)
نئی دہلی:شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں آج ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت اہم توسیعی لیکچر منعقد ہوا جس میں عروض اور فنِ شعر کی باریکیوں کے ماہر پروفیسر احمد محفوظ (شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے اپنا پرمغز لیکچر دیا۔ پروگرام کی صدارت شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر محمد نعمان خان نے کی۔ اس سے قبل شعبۂ عربی میں توسیعی لیکچر کی روایت کا تذکرہ اور مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے صدرِ شعبہ پروفیسر سید حسنین اختر نے کہا کہ شاعری دراصل خیالات کو مؤثر اور خوبصورت موسیقیت کے سانچے میں پیش کرنے کا نام ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق ساتویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے عربی زبان کے مشہور عالم خلیل بن احمد فَرّاہیدی نے اس فن کے اصول و ضوابط مرتب کیے۔ فنِ عروض ایک مشکل فن ہے اور ہندوستان میں پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اساتذہ میں ہیں جو اس فن کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اس موضوع پر ان سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ لکچر شعبہ کے طلبہ اور اسکالرز کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے لیکچر میں فنِ عروض کے تاریخی پس منظر، بنیادی اصولوں اور وزن و بحور کی ساخت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’عروض‘‘ شعر کی موزونیت اور آہنگ کو جاننے کا فن ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شاعری کے لیے اس فن کا جاننا ضروری نہیں، چنانچہ اس فن کے اصول مرتب کیے جانے سے قبل بھی عربی شاعری کا بڑا ذخیرہ ہمارے درمیان موجود ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ شعرا اپنی داخلی و فطری موسیقیت کا سہارا لیتے ہوئے موزون شاعری کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس علم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اشعار کی صحیح تقطیع اور ان کے فنی تجزیے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ہمیں اشعار کی موسیقیت و موزونیت کے ادراک میں دقت آتی ہے اور نغمگی کے احساس میں تردد ہوتا ہے، ایسے میں اس علم کی فنی نزاکتیں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وتد، سبب، زحاف اور عروض کی ابجدیات اور اشعار کی تقطیع کے اصول فنکارانہ اور پرلطف انداز میں مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ و اسکالرز میں اس فن کے لیے دلچسپی پیدا کی اور سوالات کے جوابات دیے۔
پروفیسر محمد نعمان خان نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران عروض کو ایک عملی فن قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاعری داخلی استعداد کا بیرونی اظہار ہے، اسی وجہ سے اسے الہامی کہا جاتا ہے۔ مہمان مقرر کے لیکچر کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موضوع کے تناظر میں پروفیسر احمد محفوظ کا انتخاب نہایت عمدہ ہے اور انہوں نے اس خشک موضوع کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ بانیٔ فن کی علمی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیل فَرّاہیدی نے عربی زبان و ادب میں بےحد اہم کام کیے ہیں اور یہ فن ضرورت کی پیداوار ہے۔ البتہ موجودہ دور میں نثری شاعری کا رواج بھی عام ہے اور محض موسیقیت کی بنیاد پر شاعری کی جارہی ہے۔ عربی و سنسکرت کے درمیان مماثلت کا ضمنی تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں زبانوں کی فیملی جدا ہیں اور اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں کہ خلیل فَرّاہیدی نے یہ فن سنسکرت سے اخذ کیا تھا۔
قبل ازیں پروگرام کے کنوینر و نقیب ڈاکٹر مجیب اختر نے مقرر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اہلِ علم میں شامل ہیں جنہوں نے اردو کے نامور ادیب و ناقد پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی سے کسبِ فیض کیا ہے، اور آج اردو ادب میں ایک مستند و معتبر نام ہیں۔ پروگرام میں شعبۂ عربی کے سابق صدر پروفیسر نعیم الحسن، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر اصغر محمود، پروفیسر علیم اشرف، پروفیسر ابوبکر عباد، پروفیسر مشتاق عالم قادری، پروفیسر احمد امتیاز، ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر مہتاب جہان، ڈاکٹر زین العبا، ڈاکٹر عارف اشتیاق، ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر ابو تراب، ڈاکٹر محمد مشتاق اور ڈاکٹر غیاث الاسلام کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ، اسکالرز اور جامعہ ملیہ اسلامیہ و دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔
دلی این سی آر
نتیش کمار کی شرمناک حرکت کی عام آدمی پارٹی نے کی سخت مذمت
(پی این این)
نئی دہلی :بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے مبینہ طور پر ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کا حجاب اتارنے کی کوشش کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد عام آدمی پارٹی (اے اے پی) اور کانگریس نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ واقعہ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں 1,283 آیوش ڈاکٹروں کو تقرری خطوط تقسیم کرنے کی تقریب کے دوران پیش آیا۔
اے اے پی کی ترجمان پرینکا ککڑ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، “اگر اقتدار میں کوئی مرد عورت کا پردہ ہٹا سکتا ہے تو کل کون فیصلہ کرے گا کہ کیا میرے ڈھکے ہوئے ہاتھ اسے ناراض کرتے ہیں؟”پرینکا ککڑ نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، “اگر آج اقتدار میں کوئی مرد عورت کا پردہ ہٹا سکتا ہے تو کل کون فیصلہ کرے گا کہ میرے ڈھکے ہوئے ہاتھ اسے ناراض کرتے ہیں؟ کنٹرول کبھی کپڑے کے ٹکڑے پر نہیں رکتا۔ مساوات کا مطلب ہے رضامندی۔ ہمیشہ۔” کانگریس پارٹی نے ایک آفیشل x بھی پوسٹ کیا، جس میں اس واقعے کو شرمناک” قرار دیا اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
کانگریس پارٹی کی پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ “یہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہیں۔ ایک خاتون ڈاکٹر ان کا تقرری لیٹر لینے آئی اور نتیش کمار نے اس کا حجاب اتار دیا۔ بہار میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کھلم کھلا اس طرح کی گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کر رہا ہے۔ تصور کریں کہ ریاست میں خواتین کتنی محفوظ ہوں گی؟ نتیش کمار کو اس نفرت انگیز حرکت کے لیے فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔”یہ واقعہ وزیر اعلی کے سکریٹریٹ سمواد میں پیش آیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں 1000 سے زیادہ آیوش ڈاکٹروں کو تقرری خط تقسیم کیے جا رہے تھے۔
اس واقعے کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔چیف منسٹر آفس (سی ایم او) کے مطابق جن ڈاکٹروں کو تقرری کے خطوط ملے ان میں 685 آیوروید ڈاکٹر، 393 ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور 205 یونی ڈاکٹر شامل ہیں۔ ان میں سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ذاتی طور پر 10 مقرر ڈاکٹروں کو ملازمت کے خطوط دیے، جبکہ باقی ڈاکٹروں نے انہیں آن لائن وصول کیا۔ جب نصرت پروین نامی ڈاکٹر کی باری آئی جس نے حجاب اوڑھ کر چہرہ ڈھانپ رکھا تھا تو 75 سالہ وزیر اعلیٰ نے ابرو اٹھا کر حیرت سے پوچھا یہ کیا ہے؟ سٹیج پر کھڑے ہو کر وزیر اعلیٰ نے جھک کر اپنا حجاب اتار دیا۔
دلی این سی آر
آلودگی پر سرسا نے دہلی کےعوام سےمانگی معافی
(پی این این )
نئی دہلی :دہلی حکومت کے وزیر ماحولیات نے دہلی میں آلودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکامی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت کے لیے 8-9 ماہ میں ایسا کرنا ناممکن ہے۔ سرسا نے اس بیماری کے لیے عام آدمی پارٹی کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کانگریس کو بھی نشانہ بنایا۔ دہلی حکومت کے وزیر نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان کی حکومت آلودگی کو کم کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے اور اس میں بہتری آئی ہے۔
دہلی حکومت کے وزیر ماحولیات منجندر سنگھ سرسا نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آلودگی کو کم کرنے کے لیے کئی اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔ ان میں صرف BS-6 گاڑیوں کو ہی دارالحکومت میں جانے کی اجازت دینا اور پی یو سی سرٹیفکیٹ کے بغیر ایندھن پر پابندی لگانا شامل ہے۔ سرسا نے دہلی کے لوگوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ہر روز AQI میں کمی کو حاصل کر رہی ہے، لیکن اسے اتنی جلدی ختم کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ناممکن ہے۔سرسا نے کہا، “میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم ہر ماہ بہتری لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دہلی کے لوگوں سے معافی مانگتے ہوئے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی حکومت کے لیے 9-10 مہینوں میں آلودگی کو مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن ہے۔” لیکن میں دہلی کے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے عام آدمی پارٹی کی حکومت سے بہتر کام کیا ہے، جس نے ہمیں دھوکہ دیا ہے، اور ہم نے روزانہ AQI کو کم کیا ہے۔ اگر ہم اسے ہر روز کم کرتے رہیں، تب ہی دہلی کو صاف ہوا فراہم کرنا ممکن ہوگا۔
سرسا نے کہا، “اے اے پی اور کانگریس کی وجہ سے بیماری۔” سرسا نے کہا کہ دہلی میں آلودگی کا مسئلہ سابقہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی حکومتوں کا نتیجہ ہے۔ بیک وقت دونوں پارٹیوں پر نشانہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہا، “یہ 10-11 سال سے عام آدمی پارٹی کی بیماری ہے۔ اور 15 سال کی کانگریس کی بیماری ہے۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی جو ماسک پہن کر بات کر رہے ہیں، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پچھلے سال آپ کے ماسک کہاں تھے؟ پچھلے سال، اس دن سے بھی زیادہ آلودگی تھی، اس سال، اس دن سے بھی زیادہ گندگی تھی۔ AQI 380 تھا۔ لیکن آپ نے راہل گاندھی کو نہیں دیکھا، کیونکہ یہ لوگ عام آدمی پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ میں تھے، آلودگی کی بیماری بچوں کی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔” لیکن یہ بیماری عام آدمی پارٹی نے دی ہے جس کا علاج ہم کر رہے ہیں۔
دلی این سی آر
این سی ای آر ٹی کی کتاب میں نفرت بھری تبدیلیاں افسوسناک : ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد
(پی این این )
نئی دہلی:شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی مفکر ملت مولانا ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے جمعہ کی نماز سے قبل خطاب میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ نفرت اور تعصب کا جواب اخلاق حسنہ سے دیں اور صبر و تحمل پر عمل کریں انشاء اللہ حالات خود ہی بہتر ہو جائیں گے ۔
مفتی مکرم نے کہا کہ یہ بات قابل مذمت ہے کہ این سی ای آر ٹی نے کلاس 7 کی سوشل سائنس کی جو نئی کتاب جاری کی ہے اس میں غزنوی کے حملوں کو گزشتہ نصابی کتاب کے مقابلے میں بہت زیادہ جگہ دی گئی ہے۔ اس حصے میں محمود غزنوی کے ذریعے تباہی، لوٹ مار اور غیر مسلم علاقوں میں اسلام کی دعوت و تبلیغ پر وسیع بحث کی گئی ہے۔ نصاب کی پرانی کتاب میں محمود غزنوی پر صرف ایک پیراگراف تھا جبکہ نئی نصابی کتاب میں تقریبا چھ صفحات پر محیط ایک مکمل سیکشن ہے جس میں تصاویر اور باکس شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے طالب علموں کو سب کچھ پڑھایا جانا چاہیے لیکن اس کا لحاظ رہنا چاہیے کہ اس سے طلبہ کا ذہن خراب نہ ہواور نصاب کی تیاری میں ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے۔ مفتی مکرم نے کہا کہ ہر مذہب کی تعلیمات میں اخلاقیات سے متعلق جو ہدایات ہیں انہیں نصاب کی کتابوں میں ضرور جگہ دی جانی چاہیے نوجوانوں کو آج سب سے زیادہ اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے، نفرت و بد امنی پیدا کرنے والے مضامین کو نصاب سے دورہی رکھنا چاہیے۔
مفتی مکرم نے کہا کہ پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں ایک نئی مسجد کی تعمیر کی گئی ہے جس کا نام مدینہ مسجد رکھا گیا ہے یہ مسرت کی بات ہے۔ انسانیت نوازی اور بھائی چارے کی مثال قائم کرتے ہوئے سکھ بھائیوں نے عمر پور گاؤں کے لوگوں کے لیے چھ ایکڑ زمین اور پانچ لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا اس گاؤں میں مسلمانوں کے کئی گھر ہیں مگر یہاں کوئی مسجد نہیں تھی مسلمان نماز ادا کرنے کے لیے دوسرے گاؤں میں جاتے تھے اس ضرورت کو سکھ بھائیوں نے محسوس کیا اور اپنی جانب سے اس نیک کام کے لیے پہل کی۔ مفتی مکرم نے کہا کہ اس محبت بھرے عطیہ پر پوری قوم ان کی شکر گزار ہے۔ انہوں نے کہا مرشد آباد کی مسجد کا نام بھی مدینہ مسجد رکھا جانا چاہیے کوئی ایسا نام نہ رکھا جائے جس سے فرقہ پرستوں کو شرانگیزی کا موقع مل جائے مسجد پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔
-
دلی این سی آر11 months agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر11 months agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر12 months agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر11 months agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر12 months agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ1 year agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار7 months agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ1 year agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
