اتر پردیش
خانقاہی نظام سے ہی انسانیت کی بقا: عبید اللہ خاں اعظمی
(پی این این)
رام پور:خانقاہ احمدیہ قادریہ میں عرس مبارک کی آخری پرُ کیف محفل منعقد ہوئی۔ قرآن خوانی ہوئی بعدہ قل شریف پڑھا گیا۔ بعد نماز مغرب محفل وعظ و نصیحت کاآغازقاری محمد مامون خاں فرقانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔خانقاہ کے مہتمم اورنواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمد شعائر اللہ خاں قادری وجیہی نے خانقاہ احمدیہ قادریہ کے بزرگان دین کی حیات و خدمات پر اپنی تعارفی تقریرمیں روشنی ڈالی کہا کہ خانقاہ احمدیہ کی بافیض علمی اور روحانی خانقاہ ہے،اس خانقاہ کے سب سے بڑے بزرگ حضرت سیدنا شاہ احمد علی سلسلۂ عالیہ قادریہ مجددیہ کے عظیم صوفی تھے۔آپ اپنی خانقاہ میں پچیس سال تک گوشہ نشین ہوکر عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔
عرس مبارک کی محفل میں دہلی سے تشریف لائے ہوئے ناظم جلسہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی (کنوینر خسرو فاؤنڈیشن) نے محفل میں پُرجوش خطاب کیا۔انھوں نے کہا کہ رام پور دہلی اور لکھنؤ کے بعد تیسرا دبستان کہلاتا ہے،اس سرزمین کوجہاں مرزا غالب ،ؔداغؔ دہلوی اور امیر مینائیؔ جیسی ہستیوں نے اپنا مسکن بنایا تو وہیں ملّا محمد حسن فرنگی محلیؒ، علّامہ فضل حق خیرآبادیؒ،مفتی ارشاد حسین مجددی ؒ،مولانا سلامت اللہ رام پوریؒ،مولوی عبد الغفار خاںؒ اور بیسویں صدی کی بحر العلوم شخصیت خطیب اعظم مولانا شاہ وجیہ الدین احمد خاں قادری مجددیؒ جیسی باکمال اور بافیض ہستیوں نے اپنے علم و عمل اور زہدوتقویٰ کی دولت سے اہل شہر کو مالا مال فرمایا۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے سابق ممبر پارلیمنٹ علّامہ عبید اللہ خاں اعظمی (نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)کا تعارف کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ الرحمن فرقانی نے کہا کہ مولانا عبید اللہ خاں دور حاضر میں ہندوستان کی مایہ ناز علمی شخصیت ہیں،آپ نے اپنی زندگی مظلوم اور کمزوروں کی آواز بن کر گزاری۔ہندوستان کے ایوان بالا(راجیہ سبھا) میں ملّی مسائل پر کی گئیں آپ کی تقاریر آج بھی یادگار ہیں۔
آخر میں مہمان خصوصی عبید اللہ خاں اعظمی نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خانقاہیں اصل میں راہ بہشت ہمارے لیے آسان کرتی ہیں ان خانقاہوں کی تعلیم شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت و معرفت پر بھی مبنی ہوتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو طریقت ومعرفت کی ایسی راہ دکھائی کہ انسان کو حقیقی انسان بنادیا ایک دوسرے کا دردمن بنادیا۔یہی تعلیم آج بھی ان خانقاہوں میں جاری و ساری ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ حضرات بہت خوش نصیب ہیں کہ خانقاہ احمدیہ کے عرس مبارک میں صوفیائے کاملین کا فیض پانے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔حضرت شاہ احمد علی خاں اور مولانا وجیہ الدین خاںؒ انیسویں اور بیسویں صدی کے عظیم المرتبت صوفی تھے جنہوں نے عوام و خواص کی خدمت کواپنا شعار بنایا ۔ غمخواروں کے غموں کو دور کیا ، زخم زدہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے اور تشنگان علوم کو سیراب کیا۔مولانا عبید اللہ خاں نے کہا کہ رام پور کی خانقاہ قادریہ مجددیہ نے پچھلی دو صدیوں میں اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں عظیم خدمات انجام دیں ہیں، اور حسبِ روایت حقیقی اعتدال کو اس خانقاہ نے آج بھی باقی رکھا ہے۔رام پورہمیشہ سے ہی اعتدال کا حقیقی مسکن رہا ہے جو اعتدال حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی مبارک تعلیمات سے دنیا میں پھیلاوہ آج تک انہی بزرگانِ دین کے ذریعہ سے باقی ہے اور انشاء اللہ تاقیامت باقی رہے گا۔صوفیائے کاملین کے مبارک طریقہ میں ہی ہمارے لئے راہِ نجات ہے۔
مولانا نے کہا کہ کامل ولی وہی ہوتا ہے جو ایک طرف شریعت اسلامی کی تعلیم سے آراستہ ہو اور دوسری طرف تعلیمات عرفانی سے بہرہ مند ہو اسی وقت اس کی مبارک تعلیم سے بہتر معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ جو شخص علم شریعت و طریقت سے واقف نہیں ہے وہ صوفی نہیں ہوسکتا۔مجددی صوفیائے کرام میں طریقت کے چاروں سلاسل مزین رہتے ہیں اور ان کی خانقاہوں میں نقش بندی اور قادری فیضان ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ عصر حاضر میں خانقاہی نظام کا جو پیغام امن ومحبت ہے اس کی نشرواشاعت کی اشد ضرورت ہے تاکہ حقیقی تصوف اور تعلیمات نبوی سماج میں عام ہوسکے اور ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل ہوسکے۔مہمان خصوصی کی ڈیڑھ گھنٹہ کی مدلل تقریر سے ہزاروں سامعین خوب محظوظ ہوئے۔ مولانا موصوف کی تقریر کے بعد نواسۂ خطیب اعظم ڈاکٹر محمدشعائر اللہ خاں وجیہی قادری نے فرمایا کہ ہم مہمان خصوصی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ مولانا موصوف ہماری فرمائش پر تشریف لائے اور پُر مغز خطاب فرمایا۔