اتر پردیش
رامپور سی آر پی ایف کیمپ حملہ معاملہ:4ملزمین کی پھانسی اور عمر قید کی سزائیں ختم،الہ آباد ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ
(پی این این)
پریاگ راج:سی آر پی ایف رامپور مقدمہ میں نچلی عدالت سے چار ملزمین کو ملنے والی پھانسی کی سزا کو آج الہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے ختم کردیا، عدالت نے ایک ملزم کو ملنے والی عمر قید کی سزا کو بھی تبدیل کردیا۔ یو اے پی اے (دہشت گردانہ معاملے) کے تحت سیشن عدالت سے ملنے والی پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں ختم کردیا البتہ ہتھیار رکھنے کے الزام کے تحت دس سال کی سزا سنائی ہے، ملزمین دس سال سے زائد عرصہ جیل میں گذارچکے ہیں لہذا تمام ملزمین کی جیل سے رہائی کی امید ہے۔تقریباً آٹھ ماہ قبل فریقین کے وکلاء کی بحث بعد عدالت فیصلہ محفوظ کرلیاتھاجسے آج ظاہر کیا گیا۔ ملزمین کو قانونی امدا د جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے دی۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ نچلی عدالت نے تین لوگوں کو پھانسی کی سزادیدی تھی اورایک شخص کے لئے عمرقید کی سزاتجویز کی تھی، مگر اب اپنے فیصلے میں الہ آبادہائی کورٹ نے صاف صاف کہاہے کہ ان لوگوں کے خلاف دہشت گردی کا معاملہ ہی نہیں بنتا، چنانچہ نچلی عدالت کے فیصلوں کو ہائی کورٹ نے مستردکردیا البتہ ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں انہیں دس برس قید کی سزاسنائی ہے۔
مولانا مدنی نیکہا کہ آج جو لوگ دہشت گردی کے الزام سے بری ہوئے ہیں ان کے اہل خانہ کے لئے یہ ایک بڑادن ہے، کیونکہ اس کے لئے انہیں اٹھارہ برس تک انتظارکرناپڑا، یہ اٹھارہ برس انہوں نے امید اورناامیدی کی جس اندوہناک اذیت میں گزارہوں گے، ہم اس کا تصوربھی نہیں کرسکتے، انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء مہاراشٹرا کے لیگل سیل کی ایک اور کامیابی ہے، کہ اس کے قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں 4 ایسے لوگوں کو رہائی مل جائے گی، جن میں 3لوگوں کو پھانسی اور1 کو عمر قید کی سزاہوچکی تھی اس کے لئے ہم اپنے وکلاء کا شکریہ اداکرتے ہیں کہ انہوں نے عدالت میں ایسی مدلل بحث کی کہ دہشت گردی کے الزام کا ساراجھوٹ بے نقاب ہوگیا۔مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلہ میں اگرچہ ان کو آرمس ایکٹ کے تحت دس سال کی سزا دی گئی ہے لیکن چوں کہ ان کو جیل میں اٹھارہ سال ہوچکے ہیں اس لئے یہ سب لوگ رہا ہوں گے لیکن ہم ان اس دس سال کی سزا والے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے ہمیں یقین ہے کہ اور مقدمات کی طرح سپریم کورٹ سے انصاف ملے گا اور ان کے اوپر سے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا الزام بھی ختم ہوجائے گا ان شاء اللہ۔
31 دسمبر 2007کی شب رام پور میں واقع سینٹرل ریزروپولس فورس کیمپ پر ہوئے حملہ کے الزام میں نچلی عدالت نے ملزمین عمران شہزاد،محمد فاروق صباح الدین اور محمد شریف کو سزائے موت،جبکہ جنگ بہادر کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
ملزمین کے دفاع میں ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے بحث کی جبکہ ان کی معاونت ایڈوکیٹ انیل باجپائی اور ایڈوکیٹ سکندر خان نے کی۔ اپیل داخل کرنے سے لیکر فیصلہ محفوظ کیئے جانے تک الہ آباد ہائی کورٹ میں کل 39/ سماعتیں ہوئیں، دہلی سے الہ آباد جاکر ایم ایس خان نے متعدد تاریخوں پر بحث کی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس رام منوہر نارائن مشراء فیصلہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملزمین کو خلاف دہشت گردی کی جو دفعات کے تحت پھانسی اور عمر قید کی سزا نچلی عدالت نے دی ہے وہ غلط ہے، سیشن عدالت نے جن ثبوتوں کو بنیاد بناکر فیصلہ دیا ہے وہ پھانسی کی سزا اور عمر قید کی سزا دینے کے لیئے ناکافی ہے۔عدالت نے مزید زبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملزمین کے قبضوں سے کچھ ہتھیار ملے ہیں جس کی ان کو دس سال کی سزا دی جاتی ہے اور ایک لاکھ روپیہ جرمانہ عائد کیا جاتاہے۔ ملزمین سال 2007/ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہیں لہذا ملزمین دس سال کی سزا ملنے کے باوجود جیل سے رہا ہوجائیں گے۔
دوران سماعت جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ مقامی پولس اور سی آر پی ایف جوانوں کے بیانات میں تضاد ہے اسی طرح ریلوے افسران کی گواہی میں بھی واضح تضاد ہے نیز پولس اور سی آر پی ایف کیجانب سے 98/ راؤنڈ فائرنگ کے باوجود ایک بھی ملزم کو گولی نہیں لگی جس کی وجہ سے استغاثہ کے دعوی کی قلعی کھل جاتی ہے کہ ملزمین کو حادثہ کے مقام سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔اسی طرح ملزمین کے قبضوں سے مبینہ طور پر ضبط کیئے گئے آتش گیر مادے عدالت کی اجازت کے بغیر ضائع کردیئے گئے لہذا آتش گیر مادے کی ضبطی مشکوک ہوجاتی ہے۔ایم ایس خان نے عدالت کو مزید بتایا کہ یو اے پی اے قانون، آرمس ایکٹ، آتش گیر مادہ کے قانون کے اطلاق کے لیئے حاصل کیا گیا ضروری اجازت نامہ غیر قانونی ہے، اجازت نامہ میں خامیاں ہیں اور یہ ایسی خامیاں ہیں جس کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیاجائے تو پورا مقدمہ ہی غیر قانونی ہوجائے گا کیونکہ لیگل سینکشن کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلائی گئی۔سنگین مقدمات میں ٹرائل چلانے کے لیئے اتھاریٹی سے خصوصی اجازت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس مقدمہ میں ایسا نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ رامپور کی نچلی عدالت نے ایک جانب جہاں تین ملزمین کو ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پردہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا تھا وہیں بقیہ پانچ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا اور انہیں پھانسی اور رعمر قید کی سزا دی تھی۔ نچلی عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ ملزمین محمد کوثر، گلاب خان اور فہیم انصاری کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں اوردہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات نہیں ملے ہیں لہذا انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نچلی عدالت سے کررہی ہے۔