دیش

نفرت کی آگ بھڑکانے والوں کی ملک میں کوئی جگہ نہیں :مولانا محمود مدنی

Published

on

(پی این این)
گوہاٹی:جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے آج آسام کی راجدھانی گوہاٹی کے ہوٹل آر کے ڈی میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےریاست میں حالیہ کارروائیوں پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ اقدامات نہ صرف انسانی بنیادوں کے خلاف ہیں بلکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی بھی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کل ہم نے آسام کے کئی مقامات کا دورہ کیا ۔ اپنی آنکھوں سے افسوسناک مناظر دیکھے جہاں لوگوں کے چہرے سے بے بسی اور مایوسی جھلک رہی تھی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ زیادہ تشویشناک مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے اور ایک مخصوص شناخت رکھنے والی قوم کے خلاف ’میاں‘ اور ’ڈاؤٹ فل‘ جیسے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں جو انہدام سے زیادہ تکلیف دہ اور ذلت آمیز ہیں۔
مولا مدنی نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر کوئی غیر ملکی یہاں پایا جائے تو انہیں باہر کیا جائے، ہماری ہمدردی ان کے ساتھ نہیں ہے لیکن جو بھارت کے شہری اجاڑے گئے ہیں ان کو دوبارہ بسایا جائے۔ جہاں پر انخلا ناگزیر ہو ، وہاں سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق کارروائی کی جائے اور انسانی ہمدردی کو مقدم رکھا جائے ۔
انھوں نے بتایا کہ دو ہفتہ قبل جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ عاملہ نے آسام میں جاری ظلم و جبر پر وزیر اعلیٰ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا جو ہمارا آئینی حق ہے۔البتہ افسوس اس بات پر ہے کہ وزیر اعلیٰ جیسے اعلیٰ منصب پر فائز شخص یہ کہتا ہے کہ وہ ’مجھے بنگلہ دیش بھیج دیں گے‘۔ میں کل سے آسام میں ہوں، اگر وہ چاہیں تو مجھے بنگلہ دیش بھیج سکتے ہیں۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب میرے جیسے شخص، جس کے آبا ءو اجداد نے آزادی کی جنگ میں چھ مختلف جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں اور دہائیوں پر مشتمل قربانیاں دیں، اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے تو عام مسلمانوں کے بارے میں ان کا رویہ کیسا ہوگا؟
وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر کہ وہ ڈرتے نہیں ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ وہ ایک ریاست کے سربرا ہ ہیں، انہیں ڈرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ میں بس ایک عام شہری ہوں، ان کے بقول میں ’زیرو‘ ہوں، لیکن مجھے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ ملک میں نفرت پھیلانے والوں کو کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جو لوگ نفرت ودشمنی کی آگ بھڑکاتے ہیں، ان کے لیے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندوستان کی ہزاروں سالہ پرانی عظیم تہذیب ہے۔ جو لوگ اس کو مسخ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی نفرتی سوچ کے ذریعہ اس دھرتی پر کالک ملنے کا کام کر رہے ہیں، انہیں اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ایسے عناصر کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔
مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ مقامی لوگوں کی یہ شکایت بھی اہم ہے کہ ’نام گھر‘ کی زمینیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نام گھر اور مسجد دونوں آسام کی ثقافت کا لازمی حصہ ہیں۔ آسام نہایت سرسبز، شاداب اور پُرسکون ریاست ہے، یہ مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔اس کی تعمیر میں شنکر دیو اور اذان فقیرجیسی شحصیات کا مشترکہ کردار رہا ہے۔ لہٰذا اگر نام گھر کو نقصان پہنچے گا تو مسجد بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اس لیے ان کے تحفظ کی ذمہ داری ہم سب پر برابر عائد ہوتی ہے۔
مولانا مدنی نے پریس کانفرنس کے شروع میں جمعیۃ علماء ہند کی صد سالہ تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ آزادی کی جنگ میں نمایاں کردار ادا کرنے والی جماعت ہے۔ جب ٹو نیشن تھیوری پیش کی گئی تو یہ ملک کی واحد مسلم تنظیم تھی جس نے مذہب کی بنیاد پر بھارت کی تقسیم کی مخالفت کی۔ یہ تنظیم آج بھی قومی تعمیرکے مسائل کو خالص اصولوں کی بنیاد پر اُٹھاتی ہے۔ اس کا نقطۂ نظر ہمیشہ واضح رہا ہے کہ ملک کی خدمت مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک وسیع قومی اور انسان دوست جذبے کے ساتھ ہونی چاہیے۔
پریس کانفرنس میں صدر جمعیۃعلماء ہند کے علاوہ مولانا محمد حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند ، مولانا محبوب حسن سکریٹری جمعیۃ علماآسام ، مولانا عبدالقادر سکریٹری جمعیۃ علماء آسام ، مولانا فضل الکریم سکریٹری جمعیۃ علماء آسام، مفتی سعد الدین گوال پارا، مولانا ابوالہاشم کوکراجھار وغیرہ بھی موجود تھے ۔ اس موقع پر مولانا عبدالقادر نے بتایا کہ جمعیۃ علماء کی طرف سے تین سو متاثرہ خاندانوں کو کل لکھی گنج ڈھوبری آسام میںضروریات زندگی پر مشتمل سامان تقسیم کیا گیا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network