دیش

اے ایم یو میں مدرسۃ العلوم کے 150ویں یوم تاسیس کی یادگاری تقریب منعقد

Published

on

(پی این این)
علی گڑھ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے مدرسۃ العلوم کے 150ویں یوم تاسیس کو شایانِ شان طریقے سے منایا۔ یہ وہ اولین ادارہ ہے جسے 1875 میں سر سید احمد خاں نے قائم کیا تھا، جس نے بعد میں 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج اور بالآخر 1920 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔ سر سید اکیڈمی میں منعقدہ اس تقریب میں ادارے کے بانی کے وِژن کو شایان شان خراجِ عقیدت پیش کیا گیا اور بصیرت افروز خطبات کے ذریعہ تعلیم کے فروغ کے بنیادی نظریہ کی تجدید عہد کی گئی۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی، اے ایم یو کے سابق طالبعلم جناب فیض احمد قدوائی آئی اے ایس، ڈائریکٹر جنرل، شہری ہوابازی (ڈی جی سی اے)، حکومت ہند نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انہوں نے مدرسۃ العلوم سے ایم اے او کالج اور پھر اے ایم یو میں تبدیلی کے سفر کو بڑی خوبی اور تفصیل سے بیان کیا۔
انہوں نے کہا ”ہم اس ادارے کی تاریخی اہمیت کو تبھی مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں جب ہم اس ابتدائی مدرسے کو پہچانیں جس نے اس سفر کی بنیاد رکھی۔ ان اولین طلبہ و اساتذہ کی ہمت کے بغیر ایم اے او کالج اور بعد میں اے ایم یو کا وجود ممکن نہ ہوتا۔ یہ کسی سفر کا اختتام نہیں بلکہ کئی نئے سفر کی شروعات تھی۔“
انہوں نے ایم اے او کالج کی تعلیمی شان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کی جامع تعلیمی فضا نے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے اداروں کے ممتاز اساتذہ کو اپنی جانب متوجہ کیا، جس سے علمی و ثقافتی تبادلے کو فروغ ملا۔
قدوائی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سر سید کا مشن محض تعلیم تک محدود نہ تھا، بلکہ یہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد کے سماجی و سیاسی حالات کا ردعمل بھی تھا۔ انہوں نے فارسی زبان کی سرکاری حیثیت کے خاتمے، روایتی تعلیم کے زوال اور سرکاری و عوامی زندگی میں مسلمانوں کی نمائندگی کی کمی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ”سر سید نے محسوس کیا کہ جدید تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس سے مسلمانوں کی عزت، ان کا وقار اور قومی زندگی میں شرکت بحال ہو سکتی ہے“۔
انہوں نے سر سید کی تعلیمی اور اصلاحی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے شروع کردہ لائل محمڈن آف انڈیا (1860)، علیگڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ (1866)، تہذیب الاخلاق (1870) اور سائنٹفک سوسائٹی (1864) اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس (1886) جیسے اداروں کا تذکرہ کیا جو مسلم معاشرے کی بیداری کا محرک بنے۔ تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مدرسۃ العلوم کی شروعات، جو قومی احیاء کی جانب پہلا قدم تھا،اسے آج بھی مکمل طور پر سراہا نہیں گیاہے۔
تقریب کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہا کہ 24 مئی 1875 کو مدرسۃ العلوم کا قیام 1857 کے بعد ایک کمزور قوم کو بااختیار بنانے کی جرأتمندانہ کوشش تھی۔ انہوں نے کہا ”سر سید نے تعلیمی و ثقافتی بیداری کے بیج بوئے۔ ان کا خواب ایک ایسا ادارہ تھا جو مشرقی دانائی اور مغربی عقل کو یکجا کرے“۔
انہوں نے مدرسے سے یونیورسٹی کے سفر کو ایک علمی نشاۃِ ثانیہ قرار دیا جس سے عزتِ نفس اور خودداری کا حصول ممکن ہوا۔ انہوں نے سر سید کے مشہور قول ’مہد سے لحد تک علم حاصل کرو‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سر سید تعلیم کو ایک اخلاقی اوردانشورانہ ذمہ داری سمجھتے تھے۔
وائس چانسلر نے سر سید علیہ الرحمہ کے کنبہ سے تعلق رکھنے والی معزز خواتین شہرزاد مسعود اور شہرنار مسعود کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے بانی درسگاہ کے ذاتی اشیاء یونیورسٹی کو تحفے میں پیش کیں۔ انہوں نے کہا ”ان کا یہ پرخلوص قدم ہمیں سر سید کی فکری اور ذاتی وراثت سے جوڑتا ہے۔ ان اشیاء کو محفوظ رکھا جائے گا۔“

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network