Connect with us

دلی این سی آر

جمعیۃ علمائے ہندکے مدنی ہال میں میگا جاب فیئر کا شاندار انعقاد

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی: راجدھانی کے قلب میں واقع جمعیۃ علمائے ہند کے مدنی ہال میں ایک شاندار ’میگا جاب فیئر‘کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں مختلف تعلیمی پس منظر اور شعبوں سے وابستہ سینکڑوں نوجوانوں نے شرکت کی۔یہ روزگارمیلہ ہمدرد لرننگ اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنلز، ورکنگ جرنلسٹ کلب اور جامعہ ہمدرد کے اشتراک اور تعاون سے منعقد کیا گیا۔ فیئر میں داخلہ مکمل طور پر مفت تھا اور اسے تمام مذاہب و طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کیلئے کھولا گیا تھا، جسے شرکاء نے بیحد سراہا۔دراصل میگاجاب فیئر میں مختلف قومی اور مقامی کمپنیوں نے شرکت کی، جنہوں نے انجینئرنگ، ٹیلی کمیونیکیشن،ہاسپیٹیلٹی،بی پی او، لاجسٹکس و دیگر شعبوں میں انٹری لیول اور تجربہ کار عہدوں کیلئے بھرتی کا عمل انجام دیا۔ امیدواروں سے براہ راست انٹرویوز لیے گئے اور موقع پر ہی ابتدائی شارٹ لسٹنگ کی گئی۔
بتادیں کہ یہ جاب ڈرائیودسویں سے لیکر پوسٹ گریجویٹ تک کے امیدواروں کیلئے تھی جس میں بڑی تعداد میں کمپنیوں نے حصہ لیا۔ اس جاب ڈرائیو کی خاصیت یہ تھی کہ یہاں نوکری دینے والے اورنوکری حاصل کرنے والوں کوروبروبیٹھادیاگیا تھا،وہیں انٹرویو ہوا اور اسی وقت تقرر بھی ہوا۔ اس جاب ڈرائیوکاافتتاح آج جمعیۃ علمائے ہند کے سیکریٹری جنرل مولانا محمد حکیم الدین قاسمی ودیگرمعزز مہمانوں کے ہاتھوں کیاگیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ مولانا حکیم الدین قاسمی نے کہاکہ یہ جاب فیئرنوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے اور انہیں خود کفیل بنانے کی سمت ایک اہم قدم ہے، ہم بھی آگے ایسے جاب ڈرائیو کا انعقاد کریں گے۔مولانا حکیم الدین نے جاب فیئر میں شامل کمپنیوں سے بھی بات چیت کی،نوکریوں، تنخواہ اورسہولیات کے بارے میں بھی دریافت کیا۔
حکیم الدین قاسمی نے یہ بھی کہاکہ جمعیۃ کے تاریخی ہال میں منعقد ہوا یہ میگا جاب فیئر، نہ صرف روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا بلکہ نوجوانوں کیلئے ایک عملی تربیت گاہ بھی بنا، جہاں انہوں نے پروفیشنل ماحول میں خود کو آزمایا، اس طرح کے اقدامات نہ صرف بیروزگاری کے خلاف جنگ میں مددگار ہیں بلکہ نوجوانوں میں اعتماداورخود انحصاری پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ہمدرد کے ایگزیکیٹو سکریٹری شوکت مفتی نے تفصیل سے بتایا کہ ہمدردکے بانی مرحوم حکیم عبدالحمید نے 1972میں بی ای بی کی تشکیل دی تھی،جسکا مقصد تھا کہ جو لوگ بیروزگا ر ہیں، انھیں ٹریننگ دیکرروزگار سے جوڑاجائے اور ہم لوگ حکیم صاحب کے اسی مشن پرکام کرتے آرہے ہیں اور اس مشن میں ہمیں جامعہ ہمدرد کے چانسلرحماداحمد،حامداحمدمتولی ساجداحمدکابھرپورتعاون حاصل رہا ہے اورانہیں کی گائڈ لائن کے مطابق ہم کام کررہے ہیں، لہذا اب یہ تنظیم ہمدردلرننگ اینڈویلفیئر سوسائٹی ہوگئی ہے۔ انھوں نے بتایاکہ میگا جاب فیئر کا انعقادکیا گیا تھا،آگے بھی ملک کے کئی حصوں میں بھی منعقد کریں گے،لہذا ہماری کوشش ہے کہ ملک کے نوجوانوں کوروزگار فراہم کرکے انہیں خود مختار بنایا جائے۔ وہیں اے ایم پی کے سینئر رہنما فاروق احمدصدیقی نے کہاکہ ہماری جانب سے پہلے سے رجسٹرڈ امیدواروں کیلئے مفت ایمپلائبیلٹی ٹریننگ پروگرام بھی منعقد کیا گیا، جسکا مقصد نوجوانوں کو ملازمت کے انٹرویوز، سی وی کی تیاری اور کمیونیکیشن اسکلزکے حوالے سے تربیت دینا تھا۔فاروق صدیقی نے مزیدکہاکہ ہمارا مقصد صرف ملازمت فراہم کرنا نہیں بلکہ نوجوانوں کو عملی زندگی کیلئے تیار کرنا بھی ہے،لہذا ہم چاہتے ہیں کہ ہرہنرمند نوجوان کو اسکی صلاحیتوں کے مطابق روزگار ملے،باقی مستقبل میں راجدھانی کے دیگر مقامات پر بھی ایسے روزگارمیلوں کاانعقاد کیا جائیگا۔
مٹیا محل حلقہ سے ایم ایل اے حاجی آل محمد اقبال نے ہمدرد اور اے ایم پی کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ایک قابل تقلید اور وقت کی اہم ضرورت ہے،ساتھ ہی انہوں نے آگے پرانی دہلی میں بھی فیئرمنعقدکرنے کی کایقین دلایا۔جوب فیئر میں شرکت کرنے والے کئی نوجوانوں نے بتایا کہ انہیں نہ صرف نوکری کے مواقع ملے بلکہ انکی رہنمائی بھی کی گئی، جو انکے مستقبل کیلئے نہایت مفید ثابت ہوگی۔فیئر میں شریک کئی نوجوانوں نے اس موقع کواپنے لیے ’زندگی بدلنے والاتجربہ‘قرار دیا۔ امیدوار محمد وسیم اور فرحان جو کہ گریجویٹ ہیں، نے کہاکہ اتنے بڑے پیمانے پر کمپنیوں سے براہ راست ملنا اور انٹرویودیناہماریلیے ایک نادر موقع تھا،میں سبھی رفاہی تنظیموں کا شکر گزار ہوں۔ پروفیسرمنجوچھگانی نے بتایا کہ 2400بچوں کو فوری نوکریاں دے دی گئیں ہیں اور قریب1500سے زائدنوجوان جنہوں نے انٹرویو دے دئے ہیں، لیکن وہ لسٹڈ ہیں،انہیں جلدہی اطلاع دے دی جائیگی۔ اس دوران مولانا غیور احمد قاسمی، مصطفی قریشی، مولانا عظیم اللہ قاسمی،مولاناکلیم صدیقی، فرزان قریشی، غفران آفریدی،امیر احمد راجہ بھائی،زران قریشی وغیرہ کلب کے ذمہ دار موجود تھے۔

دلی این سی آر

نتیش کمار کی شرمناک حرکت کی عام آدمی پارٹی نے کی سخت مذمت

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی :بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے مبینہ طور پر ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کا حجاب اتارنے کی کوشش کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد عام آدمی پارٹی (اے اے پی) اور کانگریس نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ واقعہ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں 1,283 آیوش ڈاکٹروں کو تقرری خطوط تقسیم کرنے کی تقریب کے دوران پیش آیا۔
اے اے پی کی ترجمان پرینکا ککڑ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، “اگر اقتدار میں کوئی مرد عورت کا پردہ ہٹا سکتا ہے تو کل کون فیصلہ کرے گا کہ کیا میرے ڈھکے ہوئے ہاتھ اسے ناراض کرتے ہیں؟”پرینکا ککڑ نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، “اگر آج اقتدار میں کوئی مرد عورت کا پردہ ہٹا سکتا ہے تو کل کون فیصلہ کرے گا کہ میرے ڈھکے ہوئے ہاتھ اسے ناراض کرتے ہیں؟ کنٹرول کبھی کپڑے کے ٹکڑے پر نہیں رکتا۔ مساوات کا مطلب ہے رضامندی۔ ہمیشہ۔” کانگریس پارٹی نے ایک آفیشل x بھی پوسٹ کیا، جس میں اس واقعے کو شرمناک” قرار دیا اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
کانگریس پارٹی کی پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ “یہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہیں۔ ایک خاتون ڈاکٹر ان کا تقرری لیٹر لینے آئی اور نتیش کمار نے اس کا حجاب اتار دیا۔ بہار میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کھلم کھلا اس طرح کی گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کر رہا ہے۔ تصور کریں کہ ریاست میں خواتین کتنی محفوظ ہوں گی؟ نتیش کمار کو اس نفرت انگیز حرکت کے لیے فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔”یہ واقعہ وزیر اعلی کے سکریٹریٹ سمواد میں پیش آیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں 1000 سے زیادہ آیوش ڈاکٹروں کو تقرری خط تقسیم کیے جا رہے تھے۔
اس واقعے کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔چیف منسٹر آفس (سی ایم او) کے مطابق جن ڈاکٹروں کو تقرری کے خطوط ملے ان میں 685 آیوروید ڈاکٹر، 393 ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور 205 یونی ڈاکٹر شامل ہیں۔ ان میں سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ذاتی طور پر 10 مقرر ڈاکٹروں کو ملازمت کے خطوط دیے، جبکہ باقی ڈاکٹروں نے انہیں آن لائن وصول کیا۔ جب نصرت پروین نامی ڈاکٹر کی باری آئی جس نے حجاب اوڑھ کر چہرہ ڈھانپ رکھا تھا تو 75 سالہ وزیر اعلیٰ نے ابرو اٹھا کر حیرت سے پوچھا یہ کیا ہے؟ سٹیج پر کھڑے ہو کر وزیر اعلیٰ نے جھک کر اپنا حجاب اتار دیا۔

Continue Reading

دلی این سی آر

آلودگی پر سرسا نے دہلی کےعوام سےمانگی معافی

Published

on

(پی این این )
نئی دہلی :دہلی حکومت کے وزیر ماحولیات نے دہلی میں آلودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکامی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت کے لیے 8-9 ماہ میں ایسا کرنا ناممکن ہے۔ سرسا نے اس بیماری کے لیے عام آدمی پارٹی کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کانگریس کو بھی نشانہ بنایا۔ دہلی حکومت کے وزیر نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان کی حکومت آلودگی کو کم کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے اور اس میں بہتری آئی ہے۔
دہلی حکومت کے وزیر ماحولیات منجندر سنگھ سرسا نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آلودگی کو کم کرنے کے لیے کئی اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔ ان میں صرف BS-6 گاڑیوں کو ہی دارالحکومت میں جانے کی اجازت دینا اور پی یو سی سرٹیفکیٹ کے بغیر ایندھن پر پابندی لگانا شامل ہے۔ سرسا نے دہلی کے لوگوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ہر روز AQI میں کمی کو حاصل کر رہی ہے، لیکن اسے اتنی جلدی ختم کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ناممکن ہے۔سرسا نے کہا، “میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم ہر ماہ بہتری لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دہلی کے لوگوں سے معافی مانگتے ہوئے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی حکومت کے لیے 9-10 مہینوں میں آلودگی کو مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن ہے۔” لیکن میں دہلی کے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے عام آدمی پارٹی کی حکومت سے بہتر کام کیا ہے، جس نے ہمیں دھوکہ دیا ہے، اور ہم نے روزانہ AQI کو کم کیا ہے۔ اگر ہم اسے ہر روز کم کرتے رہیں، تب ہی دہلی کو صاف ہوا فراہم کرنا ممکن ہوگا۔
سرسا نے کہا، “اے اے پی اور کانگریس کی وجہ سے بیماری۔” سرسا نے کہا کہ دہلی میں آلودگی کا مسئلہ سابقہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی حکومتوں کا نتیجہ ہے۔ بیک وقت دونوں پارٹیوں پر نشانہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہا، “یہ 10-11 سال سے عام آدمی پارٹی کی بیماری ہے۔ اور 15 سال کی کانگریس کی بیماری ہے۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی جو ماسک پہن کر بات کر رہے ہیں، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پچھلے سال آپ کے ماسک کہاں تھے؟ پچھلے سال، اس دن سے بھی زیادہ آلودگی تھی، اس سال، اس دن سے بھی زیادہ گندگی تھی۔ AQI 380 تھا۔ لیکن آپ نے راہل گاندھی کو نہیں دیکھا، کیونکہ یہ لوگ عام آدمی پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ میں تھے، آلودگی کی بیماری بچوں کی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔” لیکن یہ بیماری عام آدمی پارٹی نے دی ہے جس کا علاج ہم کر رہے ہیں۔

Continue Reading

دلی این سی آر

این سی ای آر ٹی کی کتاب میں نفرت بھری تبدیلیاں افسوسناک : ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد

Published

on

(پی این این )
نئی دہلی:شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی مفکر ملت مولانا ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے جمعہ کی نماز سے قبل خطاب میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ نفرت اور تعصب کا جواب اخلاق حسنہ سے دیں اور صبر و تحمل پر عمل کریں انشاء اللہ حالات خود ہی بہتر ہو جائیں گے ۔
مفتی مکرم نے کہا کہ یہ بات قابل مذمت ہے کہ این سی ای آر ٹی نے کلاس 7 کی سوشل سائنس کی جو نئی کتاب جاری کی ہے اس میں غزنوی کے حملوں کو گزشتہ نصابی کتاب کے مقابلے میں بہت زیادہ جگہ دی گئی ہے۔ اس حصے میں محمود غزنوی کے ذریعے تباہی، لوٹ مار اور غیر مسلم علاقوں میں اسلام کی دعوت و تبلیغ پر وسیع بحث کی گئی ہے۔ نصاب کی پرانی کتاب میں محمود غزنوی پر صرف ایک پیراگراف تھا جبکہ نئی نصابی کتاب میں تقریبا چھ صفحات پر محیط ایک مکمل سیکشن ہے جس میں تصاویر اور باکس شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے طالب علموں کو سب کچھ پڑھایا جانا چاہیے لیکن اس کا لحاظ رہنا چاہیے کہ اس سے طلبہ کا ذہن خراب نہ ہواور نصاب کی تیاری میں ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے۔ مفتی مکرم نے کہا کہ ہر مذہب کی تعلیمات میں اخلاقیات سے متعلق جو ہدایات ہیں انہیں نصاب کی کتابوں میں ضرور جگہ دی جانی چاہیے نوجوانوں کو آج سب سے زیادہ اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے، نفرت و بد امنی پیدا کرنے والے مضامین کو نصاب سے دورہی رکھنا چاہیے۔
مفتی مکرم نے کہا کہ پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں ایک نئی مسجد کی تعمیر کی گئی ہے جس کا نام مدینہ مسجد رکھا گیا ہے یہ مسرت کی بات ہے۔ انسانیت نوازی اور بھائی چارے کی مثال قائم کرتے ہوئے سکھ بھائیوں نے عمر پور گاؤں کے لوگوں کے لیے چھ ایکڑ زمین اور پانچ لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا اس گاؤں میں مسلمانوں کے کئی گھر ہیں مگر یہاں کوئی مسجد نہیں تھی مسلمان نماز ادا کرنے کے لیے دوسرے گاؤں میں جاتے تھے اس ضرورت کو سکھ بھائیوں نے محسوس کیا اور اپنی جانب سے اس نیک کام کے لیے پہل کی۔ مفتی مکرم نے کہا کہ اس محبت بھرے عطیہ پر پوری قوم ان کی شکر گزار ہے۔ انہوں نے کہا مرشد آباد کی مسجد کا نام بھی مدینہ مسجد رکھا جانا چاہیے کوئی ایسا نام نہ رکھا جائے جس سے فرقہ پرستوں کو شرانگیزی کا موقع مل جائے مسجد پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network