اتر پردیش
رامپور: ضیاء الرحمن قتل کیس سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کو مزید 2 ہفتے کا وقت دیا
اتر پردیش
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یوم توانائی تحفظ پر بیداری پروگرام کا انعقاد
(پی این این )
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں توانائی کے تحفظ کے دن پر پائیدار توانائی کے طریقوں سے متعلق بیداری بڑھانے اور کیمپس میں ماحولیاتی ذمہ داری کو فروغ دینے کے مقصد سے مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا۔ یونیورسٹی کے شعبہ بجلی نے وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کی رہنمائی میں توانائی کے تحفظ سے متعلق آگہی ہفتہ کا آغاز کیا۔ حلف برداری کی تقریب، آگہی ریلی اور ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جن کا مقصد توانائی کے مؤثر استعمال کو فروغ دینا، توانائی کے زیاں کو کم کرنا اور ایک سرسبز ملک کے قیام میں تعاون کرنا تھا۔
پرو وائس چانسلر پروفیسر ایم محسن خان نے تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے تقریب کی صدارت کی۔ انہوں نے اس اقدام کی بھرپور تائید کی اور کیمپس کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے جاری کوششوں پر روشنی ڈالی، جن میں شمسی توانائی کی سہولیات میں توسیع اور برقی فیڈرز کا استحکام شامل ہے۔
اپنے خطاب میں مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کا تحفظ محض ایک تکنیکی تقاضا نہیں بلکہ ایک مشترکہ سماجی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے طلبہ کو ترغیب دی کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں مؤثر طرزِ عمل اپنائیں تاکہ توانائی کے استعمال میں کمی لائی جا سکے۔
ڈی وی وی این ایل، علی گڑھ کے چیف انجینئر مسٹر پنکج اگروال نے اس موقع پر جدید برقی نظاموں میں توانائی کی افادیت کے کردار پر اپنے قیمتی خیالات پیش کیے، جس سے شرکاء کو توانائی کے ذمہ دارانہ استعمال کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی۔یہ سرگرمیاں ممبر انچارج الیکٹریسٹی پروفیسر سلمان حمید اور ایسوسی ایٹ ممبر انچارج ڈاکٹر شیرازکرمانی کی رہنمائی اور نگرانی میں منعقد کی گئیں، جن کی مربوط کاوشوں سے پروگرام کی کامیاب تکمیل ممکن ہوئی۔
حلف برداری کی تقریب کے دوران طلبہ، اساتذہ اور عملے نے اجتماعی طور پر توانائی کے مؤثراستعمال کے طریقوں کو اپنانے، زیاں کو کم کرنے اور ایک سرسبز کیمپس کی تعمیر میں تعاون کا عہد کیا۔ اس کے بعد پولی ٹیکنک بوائز سے ڈک پوائنٹ تک ایک بیداری ریلی نکالی گئی، جس میں طلبہ، اساتذہ، انرجی مانیٹرز اور عملے کے اراکین نے شرکت کی اور پائیدار توانائی کے استعمال کے حق میں نعروں اور پلے کارڈز کے ذریعے لوگوں کو بیدار کیا۔ پروگرام میں اے ایم یو کے انرجی مانیٹرز کی خدمات کو بھی سراہا گیا، جو کلاس رومز، لیبارٹریز، ہاسٹلز اور دفاتر میں بجلی کے ذمہ دارانہ استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے مسلسل نگرانی کرتے ہیں۔
دریں اثنا، اے ایم یو گرلز اسکول میں بھی قومی توانائی کے تحفظ کا دن پرنسپل محترمہ آمنہ ملک اور وائس پرنسپل محترمہ الکا اگروال کی رہنمائی میں جوش و خروش اور پائیدار ترقی کے مضبوط عزم کے ساتھ منایا گیا۔ شرکاء نے توانائی کے تحفظ کے حلف نامہ پر دستخط کیے اور توانائی بچانے اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا۔ جماعت دہم (ایف) کی طالبہ مس صفت مرزا نے اپنی تقریر میں گھر اور اسکول میں توانائی بچانے کے عملی طریقوں پر روشنی ڈالی۔طالبات اور اساتذہ نے اجتماعی طور سے توانائی کے تحفظ کا حلف پڑھا، جس سے پائیدار طرزِ زندگی اور ماحولیاتی تحفظ کے تئیں مشترکہ ذمہ داری کا احساس اجاگر ہوا۔ پروگرام کو مسٹر رانا حبیب خان اور مس سندس نورالعین نے مربوط کیا
اتر پردیش
عبداللہ اعظم کو جھٹکا،2پاسپورٹ معاملےمیں 7سال کی سزا
(پی این این)
رام پور:سابق ایم ایل اے عبداللہ اعظم دو پین کارڈ کیس میں سات سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان کو پاسپورٹ کے دو معاملات میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ سماعت کے دوران عبداللہ اعظم ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔سٹی ایم ایل اے آکاش سکسینہ نے 2019 میں سول لائن پولیس تھانے میں ایس پی لیڈر اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم کے خلاف دو پاسپورٹ کا مقدمہ درج کرایاتھا۔
انہوں نے الزام لگایاتھا کہ عبداللہ اعظم کے پاس دو پاسپورٹ ہیں۔ انہوں نے ان میں سے ایک پاسپورٹ غیر ملکی سفر کے لیے استعمال کیا تھا۔یہ معاملہ ایم پی ایم ایل اے مجسٹریٹ کورٹ میں زیر التوا تھا۔ عبداللہ اعظم نے اس معاملے میں دائر کیس کو منسوخ کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا لیکن وہاں سے انہیں راحت نہیں ملی۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔جمعہ کو رام پور کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سماعت کے لیے سابق ایم ایل اے عبداللہ اعظم کو وی سی کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے عبداللہ اعظم کو مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ایم ایل اے آکاش سکسینہ نے 2019 میں سول لائن تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
ایف آئی آر میں ایم ایل اے نے کہا کہ عبداللہ اعظم نے جھوٹے اور من گھڑت دستاویزات اور تفصیلات کی بنیاد پر پاسپورٹ حاصل کیا تھااور وہ اسے استعمال کر رہے تھے۔ پاسپورٹ نمبر Z4307442 کی تاریخ 10 جنوری 2018 ہے۔عبداللہ اعظم خان کی تاریخ پیدائش ان کے تعلیمی سرٹیفکیٹس (ہائی اسکول، بی ٹیک اور ایم ٹیک) میں یکم جنوری 1993 درج ہے۔ پاسپورٹ نمبر Z4307442 ان کی تاریخ پیدائش 30 ستمبر 1990 ظاہر ہورہی ہے۔ پاسپورٹ کو مالی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔کاروباری اور پیشہ ورانہ بیرون ملک سفر، مختلف اداروں کے شناختی کارڈ کے طور پر اور مختلف عہدوں کے لیے درخواست دینے کے لیے اس کو استعمال کیا گیاہے۔نیز تعلیمی سرٹیفکیٹس کو مالی فائدے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں سے ایکریڈیشن اور شناختی کارڈ بھی شامل ہے۔
عبداللہ اعظم کے تعلیمی سرٹیفکیٹس اور پاسپورٹ میں تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش متضاد ہیں۔اس کے باوجود عبداللہ جان بوجھ کر تمام دستاویزات کو ضرورت کے مطابق ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عبداللہ اعظم نے پاسپورٹ نمبر Z 4307442 حاصل کیا تھا جس میں جھوٹی تفصیلات موجود تھیں جس کا غلط استعمال تعزیرات ہند کی دفعہ 420، 467، 468، 471 اور پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 12(1) AK کے تحت قابل سزا ہے۔
اتر پردیش
خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے پی ایچ ڈی مقالہ نگاروں کے لیے جامع اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد
(پی این این)
لکھنؤ:خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں نئے داخلہ یافتہ پی ایچ ڈی تحقیق کاروں کے لیے ایک مربوط، منظم اور معلوماتی اوریئنٹیشن پروگرام کا انعقاد اٹل ہال میں کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد تحقیق کاروں کو جامعہ کی پالیسیوں، تحقیقی ڈھانچے، علمی وسائل اور قوانین سے واقف کرانا تھا، تاکہ وہ اپنی تحقیقی زندگی کا آغاز باشعور اور منظم انداز میں کرسکیں۔
اس پروگرام کے آغاز میں ریسرچ کوارڈینیٹر پروفیسر چندنا ڈے نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس موضوع کی اہمیت و معنی خیزیت اور ضرورت پر اظہار خیال کیا۔ مختصر استقبالیہ کلمات کے بعد یونیورسٹی کےوائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں اس پروگرام کو تحقیق کے نئے سفر کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ابتدائی مرحلہ تحقیق کاروں کو علمی دنیا کے بنیادی اصولوں، تحقیقی عمل کی باریکیوں اور اس شعبے کی مخصوص ذمہ داریوں سے روشناس کراتا ہے۔پروفیسر اجےتنیجا نے واضح کیا کہ تحقیق کسی بھی شعبے کی ترقی کا بنیادی ستون ہے اور محققین ہی مستقبل کی سمت متعین کرنے والے ’’سنگِ میل‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ انھوںنے نئے اسکالرز کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے تحقیقی موضوعات کا انتخاب کریں جو بدلتی ہوئی سماجی ضروریات اور جدید صنعتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
اس اورینٹیشن پروگرام کے مہمان خصوصی اورلکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم کے صدر پروفیسر دنیش کمار نے اپنے خطاب میں ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی تحقیقی مقالے کے موضوع کے تعین سے پہلے نہ صرف اپنی دلچسپی کے مضامین کا مطالعہ ضروری ہے بلکہ تازہ ریسرچ جرنلز، میگزینز اور ڈیجیٹل رپوزیٹریز کا باقاعدہ جائزہ بھی انتہائی اہم ہے۔ ان کے مطابق ایک اچھی تحقیق کی بنیاد اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب طالبِ علم یہ سمجھ سکے کہ اس موضوع پر پہلے سے کتنا کام ہو چکا ہے اور موجودہ عہد کے مطابق کون سا پہلو نیا یا قابلِ تحقیق ہے۔
انھوں نےطلبہ کو تفصیلی رہنمائی دیتے ہوئے کہا کہ موضوع کی ابتدا بہتر طور پر کلیدی الفاظ طے کرنے سے ہونی چاہیے۔ ان ہی الفاظ کی مدد سے شعبہ جاتی ڈیٹابیسز میں ابتدائی تلاش کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی موضوع پر متعدد تازہ تحقیقات ملتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس پر خاصا کام موجود ہےتاہم طالب علم انھیں مطالعات کے اندر موجود خلا کو تحقیق کے ذریعے اپنا نیا زاویہ طے کر سکتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ریسرچ اسکالرز کو لٹریچر ریویو کے دورا ن قدیم و جدید حوالہ جات، پی ایچ ڈی تھیسسز اور کانفرنس پروسیڈنگز کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیےجس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موضوع کن جہات سے مکمل ہے اور کہاں مزید تحقیق کی گنجائش باقی ہے۔تبدیل ہو تے وقت اور ڈیجیٹل عہد کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مشورہ دیا کہ طلبہ اپنے موضوع کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ٹیکنالوجیکل، سماجی یا انڈسٹری بیسڈ پہلو شامل کریں۔اساتذہ نے مزید کہا کہ اگر کسی موضوع پر پہلے سے بہت زیادہ کام موجود ہو تو طلبہ اسکوب کو محدود کر کے (مثلاً مخصوص علاقے، گروہ یا ٹیکنالوجی تک)، نئی میتھوڈولوجی اختیار کر کے یا تقابلی مطالعہ شامل کر کے اپنے مقالے کو منفرد بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کرنا ضروری ہےجو یہ بتائے کہ طالب علم کا مطالعہ کیوں منفرد اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگ ہے۔
آخر میں انھوں اس بات پربھی زور دیا کہ موضوع طے کرنے کے فوراً بعد طلبہ کو اپنے سپروائزر کے ساتھ ابتدائی نتائج، تلاش شدہ حوالہ جات اور ممکنہ تحقیقی مسائل شیئر کرنا چاہیے تاکہ مقالے کی سمت درست رکھی جا سکے۔ان کے مطابق ایک کامیاب ریسرچ وہی ہے جو موجودہ علمی مباحث، سماجی ضرورت اور نئے فنی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔اس پروگرام کی نظامت اور شکریے کے الفاظ ڈاکٹر روچیتا سجائے نے ادا کیا۔اس موقع پر اساتذہ کے علاوہ سبھی شعبہ جات کے ریسرچ اسکالرس موجود رہے اور ان ریسرچ اسکالرس نےپروفیسر دنیش کمار سے بہت سے سولات بھی کئے جس کاانھوں نے تشفی بخش جوابات دیا۔
-
دلی این سی آر11 months agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر11 months agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر12 months agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر11 months agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر12 months agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ1 year agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار7 months agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ1 year agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
