Uncategorized
دہلی ایک شہر ہی نہیں،بلکہ تہذیب و تمدن ،زبان و بیان اور طرز و اسلوب کا حسین مرقع
(پی این این)
نئی دہلی:دہلی صرف ایک شہر ہی نہیں،بلکہ تہذیب و تمدن ،زبان و بیان اور طرز و اسلوب کا حسین مرقع ہے۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ اردو اکادمی،دہلی نے اسی تہذیب و تمدن ،اسلوب و طرز اور دہلی کی بجھتی شمعوں کو روشن کرنے کی پہل کی ہے۔اس موقع پر میں اپنی اس مسرت کابھی اظہار کرتا ہوں کہ اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام یہ اپنی نوعیت کاپانچویں سیمینار ہے جس میں دہلی اور دہلویت کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔اس طرح سے ہم نہ صرف قدیم دہلی،دہلویت اور زبان و اسلوب سے واقف ہوتے ہیں بلکہ وہ کردار بھی ہمارے سامنے زندہ ہوجاتے ہیں جو اِن تحریروں میں آگئے ہیں اور اُن سے دہلویت کی تشکیل و تعمیر ہوئی ہے۔ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اِن روایات کی پاسبانی کریں اور انھیں آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔ مذکورہ خیالات کااظہار دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام ، بیسویں صدی میں دہلوی اردو نثر کے عنوان سے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر خالدمحمود نے کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اچھا مقالہ لکھنے کے لیے اچھا پڑھنے اور اچھا مطالعہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ بغیر اس کے نہ تو ہم کامیاب مقالہ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سامعین پر کوئی اچھا و مثبت تاثر قائم کر سکتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے طلبا سے کہتا ہوں کہ آپ سیمینارز اور علمی اور پروگرامس میں شرکت کیا کریں ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ سوسے زائدکتابوں کا مطالعہ ان مخصوص نشستوں میں کرسکتے ہیں۔ بعدازاں انھوں نے تمام مقالوں پر فرداً فرداً اظہار خیال کیا۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر غلام یحییٰ انجم نے تمام مقالوںپر فرداً فرداً تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ تمام ہی مقالے بہترین تھے یعنی جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ دہلوی نثر کا مطلب ہے دہلوی تہذیب کی بازیافت اور ان کرداروں و زمانوں کی یاددہانی جنھیں وقت کی گردش کے سبب ہم فراموش کرچکے ہیں یا وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔اردو اکادمی کا یہ اقدام احسن اقدام ہے۔
جس نے اس بازیافت و تلاش میں ہماری معاونت کی ہے۔ اس اجلاس میں کل چھ مقالے پڑھے گئے جن میںڈاکٹر محمدفیروز دہلوی(میر ناصر علی کی نثر نگاری)پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی(اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری)ڈاکٹر امتیاز احمد (”اجڑادیار“ کا نثری اسلوب)جناب خالد سیف اللہ (خلیق انجم کی خاکہ نگاری )ڈاکٹر محمد احسن ایوبی(راشد الخیری کی افسانہ نگاری) ڈاکٹر یوسف رام پوری(اخلاق احمد دہلوی کی نثر)شامل ہیں۔اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرمان چودھری نے نہایت عالمانہ اور محققانہ انداز میں انجام دیے۔
سمینار کا دوسرا اجلاس پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی اور پروفیسر ابوبکر عباد کی صدارت میں دوپہر ڈھائی بجے شروع ہواجس کی نظامت کے فرائض شہباز ریحان نے انجام دیے۔اس اجلاس میں کل پانچ مقالے پڑھے گئے جن میںپروفیسرکوثرمظہری(خلیقی دہلوی کی کتاب’ادبستان‘کا رومانوی اسلوب) ڈاکٹرفیاض احمد فیضی (دہلوی نثر کا مزاحیہ اسلوب:ظریف دہلوی )جناب دوست محمد نبی خان(دہلی کا کرخنداری اسلوب:نرالی اردو)ڈاکٹرشبانہ نذیر (کتاب’دلّی کا سنبھالا اور خواجہ محمد شفیع‘ )ڈاکٹر عارف اشتیاق(سید ضمیرحسن دہلوی کی افسانہ نگاری ) شامل ہیں۔
اجلاس کے صدارتی خطبے میں پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے کہا کہ دہلوی اردو نثر کا مطالعہ دراصل دہلی کی بازیافت کی کوشش ہے۔مجھے خوشی ہے کہ اس سیمینار کے ذریعے یہ کامیاب ترین کوشش کی گئی ہے جس کے آنے والے دنوں میں نہایت عمدہ اور کارآمد اثرات واقع ہوں گے ۔دہلی تہذیب وتمدن کا گہوارہ اور مرقع ہے اسی طرح ایک وراثت بھی ہے جس کاتحفظ لازم بھی ہے اور اس کا فروغ بھی بطورمشن ہماری ذمے داری ہونا چاہیے۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر ابوبکر عباد نے صدراول کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے دہلوی زبان و محاوروں اور اسلوبیات و تہذیب کے متعلق تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ آج کے دلّی کے طلبا و طالبات کی زبان میڈیازدہ ہے اس طرح نہایت تیزی سے ان کی روایت،اسلوب اور ان کی تہذیب ختم ہوتی جارہی ہے جس کو بچانا نہایت ضروری ہے۔بعدازاں انھوں نے فرداً فرداً تمام مقالوں پر اظہار خیال کیا اور ان کی اہمیت و معنویت اور افادیت سے سامعین کو روشناس کریا۔ اجلاس میں کثیر تعداد میں طلبا و طالبات اور معززین شہر نے شرکت کی۔
نئی دہلی:دہلی صرف ایک شہر ہی نہیں،بلکہ تہذیب و تمدن ،زبان و بیان اور طرز و اسلوب کا حسین مرقع ہے۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ اردو اکادمی،دہلی نے اسی تہذیب و تمدن ،اسلوب و طرز اور دہلی کی بجھتی شمعوں کو روشن کرنے کی پہل کی ہے۔اس موقع پر میں اپنی اس مسرت کابھی اظہار کرتا ہوں کہ اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام یہ اپنی نوعیت کاپانچویں سیمینار ہے جس میں دہلی اور دہلویت کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔اس طرح سے ہم نہ صرف قدیم دہلی،دہلویت اور زبان و اسلوب سے واقف ہوتے ہیں بلکہ وہ کردار بھی ہمارے سامنے زندہ ہوجاتے ہیں جو اِن تحریروں میں آگئے ہیں اور اُن سے دہلویت کی تشکیل و تعمیر ہوئی ہے۔ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اِن روایات کی پاسبانی کریں اور انھیں آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔ مذکورہ خیالات کااظہار دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام ، بیسویں صدی میں دہلوی اردو نثر کے عنوان سے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر خالدمحمود نے کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اچھا مقالہ لکھنے کے لیے اچھا پڑھنے اور اچھا مطالعہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ بغیر اس کے نہ تو ہم کامیاب مقالہ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سامعین پر کوئی اچھا و مثبت تاثر قائم کر سکتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے طلبا سے کہتا ہوں کہ آپ سیمینارز اور علمی اور پروگرامس میں شرکت کیا کریں ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ سوسے زائدکتابوں کا مطالعہ ان مخصوص نشستوں میں کرسکتے ہیں۔ بعدازاں انھوں نے تمام مقالوں پر فرداً فرداً اظہار خیال کیا۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر غلام یحییٰ انجم نے تمام مقالوںپر فرداً فرداً تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ تمام ہی مقالے بہترین تھے یعنی جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ دہلوی نثر کا مطلب ہے دہلوی تہذیب کی بازیافت اور ان کرداروں و زمانوں کی یاددہانی جنھیں وقت کی گردش کے سبب ہم فراموش کرچکے ہیں یا وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔اردو اکادمی کا یہ اقدام احسن اقدام ہے۔
جس نے اس بازیافت و تلاش میں ہماری معاونت کی ہے۔ اس اجلاس میں کل چھ مقالے پڑھے گئے جن میںڈاکٹر محمدفیروز دہلوی(میر ناصر علی کی نثر نگاری)پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی(اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری)ڈاکٹر امتیاز احمد (”اجڑادیار“ کا نثری اسلوب)جناب خالد سیف اللہ (خلیق انجم کی خاکہ نگاری )ڈاکٹر محمد احسن ایوبی(راشد الخیری کی افسانہ نگاری) ڈاکٹر یوسف رام پوری(اخلاق احمد دہلوی کی نثر)شامل ہیں۔اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرمان چودھری نے نہایت عالمانہ اور محققانہ انداز میں انجام دیے۔
سمینار کا دوسرا اجلاس پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی اور پروفیسر ابوبکر عباد کی صدارت میں دوپہر ڈھائی بجے شروع ہواجس کی نظامت کے فرائض شہباز ریحان نے انجام دیے۔اس اجلاس میں کل پانچ مقالے پڑھے گئے جن میںپروفیسرکوثرمظہری(خلیقی دہلوی کی کتاب’ادبستان‘کا رومانوی اسلوب) ڈاکٹرفیاض احمد فیضی (دہلوی نثر کا مزاحیہ اسلوب:ظریف دہلوی )جناب دوست محمد نبی خان(دہلی کا کرخنداری اسلوب:نرالی اردو)ڈاکٹرشبانہ نذیر (کتاب’دلّی کا سنبھالا اور خواجہ محمد شفیع‘ )ڈاکٹر عارف اشتیاق(سید ضمیرحسن دہلوی کی افسانہ نگاری ) شامل ہیں۔
اجلاس کے صدارتی خطبے میں پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے کہا کہ دہلوی اردو نثر کا مطالعہ دراصل دہلی کی بازیافت کی کوشش ہے۔مجھے خوشی ہے کہ اس سیمینار کے ذریعے یہ کامیاب ترین کوشش کی گئی ہے جس کے آنے والے دنوں میں نہایت عمدہ اور کارآمد اثرات واقع ہوں گے ۔دہلی تہذیب وتمدن کا گہوارہ اور مرقع ہے اسی طرح ایک وراثت بھی ہے جس کاتحفظ لازم بھی ہے اور اس کا فروغ بھی بطورمشن ہماری ذمے داری ہونا چاہیے۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر ابوبکر عباد نے صدراول کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے دہلوی زبان و محاوروں اور اسلوبیات و تہذیب کے متعلق تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ آج کے دلّی کے طلبا و طالبات کی زبان میڈیازدہ ہے اس طرح نہایت تیزی سے ان کی روایت،اسلوب اور ان کی تہذیب ختم ہوتی جارہی ہے جس کو بچانا نہایت ضروری ہے۔بعدازاں انھوں نے فرداً فرداً تمام مقالوں پر اظہار خیال کیا اور ان کی اہمیت و معنویت اور افادیت سے سامعین کو روشناس کریا۔ اجلاس میں کثیر تعداد میں طلبا و طالبات اور معززین شہر نے شرکت کی۔