Connect with us

Uncategorized

گروگرام کے میئر پرانتخابات میں فرضی سرٹیفکیٹ استعمال کرنے کا الزام ,کرسی خطرے میں

Published

on

(پی این این)
گروگرام:گروگرام کے میئر پر انتخابات میں فرضی سرٹیفکیٹ استعمال کرنے کا الزام ہے۔ میئر کی ذات کے سرٹیفکیٹ سے متعلق درخواست پر ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے دھوکہ دہی سے پسماندہ طبقہ اے ذات کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے الیکشن لڑا تھا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو اور جسٹس کمرجیت سنگھ کی بنچ نے گروگرام کے رہائشی یشپال پرجاپتی، بنواری لال، بھیوانی کے پون کمار آنچل اور روہتک کے شانتا کمار آریہ وغیرہ کی عرضی پر نوٹس جاری کیا ہے۔ اس کیس کی اگلی سماعت 22 مئی کو ہوگی۔میئر راجرانی ملہوترا اور ان کے شوہر تلک راج ملہوترا نے اس معاملے میں کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے ابھی تک کوئی نوٹس نہیں ملا ہے اور اسے یقین ہے کہ وہ صحیح ہے۔
اس معاملے کے بارے میں کانگریس امیدوار سیما پاہوجا کا کہنا ہے کہ وہ خود عدالت گئی ہیں اور بی جے پی میئر کا ذات کا سرٹیفکیٹ درست نہیں ہے۔آپ کو بتاتے چلیں کہ اس سے قبل جولائی 2022 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوہنا میونسپل کونسل کی صدر انجو دیوی پر بھی جعلی تعلیمی سرٹیفکیٹ کا استعمال کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد انجو دیوی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس سے اس وقت بھی بی جے پی کی بدنامی ہوئی تھی۔شاب گروگرام کی میئر منتخب ہونے والی راجرانی ملہوترا پر بھی فرضی سرٹیفکیٹ استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ عرضی گزار کا دعویٰ ہے کہ 16 فروری کو اتوار کو اے ڈی سی نے راجرانی ملہوترا کو پسماندہ طبقے-A ذات کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ قواعد کے مطابق اے ڈی سی ایسے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Uncategorized

وزیراعلیٰ ریکھا کپتا نے GPS لگے 1,111 واٹر ٹینکرز کو جھنڈی دکھا کر کیا روانہ

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اور دہلی کے آبی وسائل کے وزیر پرویش صاحب سنگھ ورما نے دہلی جل بورڈ کے 1,111جی پی ایس سے چلنے والے واٹر ٹینکروں کو ہری جھنڈی دکھائی۔

اس دوران دہلی حکومت کے وزراءاور دہلی بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ واٹر بورڈ کے ٹینکرز ڈی ڈی اے گراو ¿نڈ، نرنکاری کالونی، آدرش نگر سے روانہ کیے گئے تھے۔اس موقع پر پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے کہا کہ ہم نے ہر کام میں شفافیت کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ کہیں بھی کرپشن کی لیکیج نہیں ہوگی، نہ پانی کا رساو ¿ ہوگا اور نہ ہی کرپشن کا رساو ہوگا۔ دہلی کی پانی کی فراہمی کو شفاف، منظم اور جوابدہ بنانے کی سمت میں یہ ایک تاریخی پہل ہے۔

وزیر پرویش صاحب سنگھ ورما نے کہا کہ دہلی کی پڑوسی ریاستیں ہمیں وافر مقدار میں پانی فراہم کرتی ہیں، لیکن ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہے۔ آج دہلی کی بی جے پی حکومت پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی سمت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ وزیرآباد بیراج کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو آئندہ ڈیڑھ ماہ میں دوگنا کرنے پر کام جاری ہے۔ دہلی میں پانی ذخیرہ کرنے کی تمام جگہوں کی گنجائش بڑھائی جائے گی۔ حکومت کا مقصد دہلی کے ہر گاو ¿ں اور ہر فرد کو پانی فراہم کرنا ہے۔انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ پانی کو ضائع نہ کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ دہلی بورڈ کے پانی سے اپنی گاڑیاں نہ دھوئیں۔دہلی انتخابات کے دوران ٹینکر مافیا اور ٹینکروں کے ذریعے پانی کی سپلائی میں بے قاعدگیوں کا معاملہ کافی سامنے آیا تھا۔ موجودہ بی جے پی حکومت نے اس معاملے پر اس وقت کی آپ حکومت پر کافی حملہ کیا تھا۔ اسی سلسلے میں آج ریکھا سرکار نے دہلی میں پانی کے 1100 نئے ٹینکروں کو ہری جھنڈی دکھائی۔ یہ واٹر ٹینکرز جی پی ایس کے ساتھ لگائے جائیں گے۔
تاکہ ان کی ہر نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے پانی کی چوری اور غلط استعمال کو روکنا آسان ہو جائے گا۔ دہلی حکومت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ ٹینکرز پورے شہر میں تعینات کیے جائیں گے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پانی کی شدید قلت ہے یا جہاں پائپ لائن کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ تو آئیے جانتے ہیں کہ پانی کے یہ نئے ٹینکر دہلی بھر کے ہر گھر تک پانی کیسے پہنچائیں گے۔ایک سینئر اہلکار نےبتایا کہ ہر ٹینکر جدید GPS ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جو ان کی حقیقی وقت میں نگرانی کے قابل بناتا ہے۔ ٹینکروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ایک جدید ترین کمانڈ سنٹر قائم کیا گیا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پانی مطلوبہ جگہوں پر بروقت اور شفاف طریقے سے پہنچے۔ پانی کے وزیر پرویش ورما نےکو کہا، "ہم وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘سب کے لیے پانی’ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے پوری لگن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

ہم دہلی کو پانی کے بحران سے آزاد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ GPS سے لیس ٹینکروں کی تعیناتی شفافیت، بروقت اور جوابدہی کی علامت ہے۔”انہوں نے کہا، "ہمارا عزم اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دارالحکومت میں کوئی بھی شہری پانی سے محروم نہ رہے۔ حکومت ہر کالونی، بستی اور محلے تک پانی کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔”

Continue Reading

Uncategorized

دہلی ایک شہر ہی نہیں،بلکہ تہذیب و تمدن ،زبان و بیان اور طرز و اسلوب کا حسین مرقع

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:دہلی صرف ایک شہر ہی نہیں،بلکہ تہذیب و تمدن ،زبان و بیان اور طرز و اسلوب کا حسین مرقع ہے۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ اردو اکادمی،دہلی نے اسی تہذیب و تمدن ،اسلوب و طرز اور دہلی کی بجھتی شمعوں کو روشن کرنے کی پہل کی ہے۔اس موقع پر میں اپنی اس مسرت کابھی اظہار کرتا ہوں کہ اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام یہ اپنی نوعیت کاپانچویں سیمینار ہے جس میں دہلی اور دہلویت کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔اس طرح سے ہم نہ صرف قدیم دہلی،دہلویت اور زبان و اسلوب سے واقف ہوتے ہیں بلکہ وہ کردار بھی ہمارے سامنے زندہ ہوجاتے ہیں جو اِن تحریروں میں آگئے ہیں اور اُن سے دہلویت کی تشکیل و تعمیر ہوئی ہے۔ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اِن روایات کی پاسبانی کریں اور انھیں آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔ مذکورہ خیالات کااظہار دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام ، بیسویں صدی میں دہلوی اردو نثر کے عنوان سے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر خالدمحمود نے کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اچھا مقالہ لکھنے کے لیے اچھا پڑھنے اور اچھا مطالعہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ بغیر اس کے نہ تو ہم کامیاب مقالہ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سامعین پر کوئی اچھا و مثبت تاثر قائم کر سکتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے طلبا سے کہتا ہوں کہ آپ سیمینارز اور علمی اور پروگرامس میں شرکت کیا کریں ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ سوسے زائدکتابوں کا مطالعہ ان مخصوص نشستوں میں کرسکتے ہیں۔ بعدازاں انھوں نے تمام مقالوں پر فرداً فرداً اظہار خیال کیا۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر غلام یحییٰ انجم نے تمام مقالوںپر فرداً فرداً تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ تمام ہی مقالے بہترین تھے یعنی جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ دہلوی نثر کا مطلب ہے دہلوی تہذیب کی بازیافت اور ان کرداروں و زمانوں کی یاددہانی جنھیں وقت کی گردش کے سبب ہم فراموش کرچکے ہیں یا وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔اردو اکادمی کا یہ اقدام احسن اقدام ہے۔
جس نے اس بازیافت و تلاش میں ہماری معاونت کی ہے۔ اس اجلاس میں کل چھ مقالے پڑھے گئے جن میںڈاکٹر محمدفیروز دہلوی(میر ناصر علی کی نثر نگاری)پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی(اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری)ڈاکٹر امتیاز احمد (”اجڑادیار“ کا نثری اسلوب)جناب خالد سیف اللہ (خلیق انجم کی خاکہ نگاری )ڈاکٹر محمد احسن ایوبی(راشد الخیری کی افسانہ نگاری) ڈاکٹر یوسف رام پوری(اخلاق احمد دہلوی کی نثر)شامل ہیں۔اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرمان چودھری نے نہایت عالمانہ اور محققانہ انداز میں انجام دیے۔
سمینار کا دوسرا اجلاس پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی اور پروفیسر ابوبکر عباد کی صدارت میں دوپہر ڈھائی بجے شروع ہواجس کی نظامت کے فرائض شہباز ریحان نے انجام دیے۔اس اجلاس میں کل پانچ مقالے پڑھے گئے جن میںپروفیسرکوثرمظہری(خلیقی دہلوی کی کتاب’ادبستان‘کا رومانوی اسلوب) ڈاکٹرفیاض احمد فیضی (دہلوی نثر کا مزاحیہ اسلوب:ظریف دہلوی )جناب دوست محمد نبی خان(دہلی کا کرخنداری اسلوب:نرالی اردو)ڈاکٹرشبانہ نذیر (کتاب’دلّی کا سنبھالا اور خواجہ محمد شفیع‘ )ڈاکٹر عارف اشتیاق(سید ضمیرحسن دہلوی کی افسانہ نگاری ) شامل ہیں۔
اجلاس کے صدارتی خطبے میں پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے کہا کہ دہلوی اردو نثر کا مطالعہ دراصل دہلی کی بازیافت کی کوشش ہے۔مجھے خوشی ہے کہ اس سیمینار کے ذریعے یہ کامیاب ترین کوشش کی گئی ہے جس کے آنے والے دنوں میں نہایت عمدہ اور کارآمد اثرات واقع ہوں گے ۔دہلی تہذیب وتمدن کا گہوارہ اور مرقع ہے اسی طرح ایک وراثت بھی ہے جس کاتحفظ لازم بھی ہے اور اس کا فروغ بھی بطورمشن ہماری ذمے داری ہونا چاہیے۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر ابوبکر عباد نے صدراول کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے دہلوی زبان و محاوروں اور اسلوبیات و تہذیب کے متعلق تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ آج کے دلّی کے طلبا و طالبات کی زبان میڈیازدہ ہے اس طرح نہایت تیزی سے ان کی روایت،اسلوب اور ان کی تہذیب ختم ہوتی جارہی ہے جس کو بچانا نہایت ضروری ہے۔بعدازاں انھوں نے فرداً فرداً تمام مقالوں پر اظہار خیال کیا اور ان کی اہمیت و معنویت اور افادیت سے سامعین کو روشناس کریا۔ اجلاس میں کثیر تعداد میں طلبا و طالبات اور معززین شہر نے شرکت کی۔
Continue Reading

Uncategorized

وقف قانون آئینی حقوق سے دور کرنے کی منصوبہ بند سازش

Published

on

پٹنہ :امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے مرکزی دفتر میں حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی  نے وقف ترمیمی قانون پر ایک جامع پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  کہا کہ یہ قانون صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ مذہبی، تعلیمی، اور تہذیبی شناخت پر ایک زہریلا حملہ ہے۔
امیر شریعت نے کہاکہ “یہ قانون ہماری نسلوں کے ہاتھوں سے اوقاف اور ان کے دستوری حقوق چھین لینے کی ایک منصوبہ بند سازش ہے” اور اگر ہم نے وقت پر اس کے خلاف اجتماعی آواز بلند نہ کی تو آنے والے وقت میں نہ مساجد بچیں گی ، نہ ہی قبرستان ، نہ مدارس اور نہ ہی اوقاف کی زمین پر قائم شدہ اسکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز اور وہ تمام ملی اور رفاہی ادارے جو بلا تفریق مذہب و مشرب مختلف طبی و رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔امیر شریعت  نے تفصیل سے اس بات کی وضاحت کی کہ وقف ترمیمی قانون میں کس طرح انتہائی چالاکی سے چیریٹیبل ٹرسٹ کو وقف کی تعریف سے خارج کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں تقریباً 3900 مدارس وقف کی زمین پر قائم ہیں، جن میں سےہر ایک ٹرسٹ کے تحت کام کر رہے ہیں ۔ اب اس قانون کے مطابق یہ مدارس وقف رہیں گے یا نہیں؟ یہ بات واضح نہیں ہے۔ امیر شریعت نے کہا کہ “ترمیم شدہ قانون کی یہ خاموشی وقف کے وجود پر خطرناک سوال کھڑا کرتی ہے۔”حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے مزید کہا کہ نئے قانون میں واقف کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان “نظر آنے” کی شرط لگا دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایمان کافی نہیں، بلکہ ظاہر داری بھی جانچی جائے گی۔
حضرت نے کہا کہ “یہ صرف غیر مسلموں کو روکنے کا قانون نہیں بلکہ سیدھا مسلمانوں کو مشکوک بنانے کی سازش ہے۔حضرت امیر شریعت نے وقف علی الاولاد کے بارے میں کہا کہ ترمیمی قانون نے واقف کو مشکوک بنا کر ایک عظیم شرعی روایت کو غیر معتبر کر دیا ہے۔ اگر کوئی بھی فرد شک ظاہر کر دے کہ یہ وقف علی الاولاد نہیں ہے تو وہ وقف اپنی حیثیت کھو دے گا، چاہے اس پر ہزار بار شرعی گواہیاں ہوں۔ انہوںنے کہا: “یہ شریعت کی توہین اور فکر اسلامی کی  صریح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے وقف بائی یوزر کے بارے میں  تفصیل سے بتایا کہ اسے واپس لا کر دکھاوے کے لیے شامل تو کیا گیا، مگر اس میں ایسی شرطیں لگا دی گئیں ہیں جو اس کے وجود ہی کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔ اگر حکومت دعویٰ کر دے، یا زمین تھوڑی سی بھی متنازع ہو جائے، تو وہ وقف نہیں رہے گی۔  خلاصہ یہ کہ“یہ سارا ڈھانچہ وقف کے نام پر دھوکہ ہے۔حضرت نے کہا کہ حکومت کو وقف املاک پر من مانے ٹیکس لگانے کا اختیار دینا ملت کے لیے ایک اور زخم ہے۔ حضرت نے سوال کیا: “یہ اختیار حکومت کو کس نے دیا کہ وہ ہمارے مذہبی اثاثوں پر بے انتہا ٹیکس لگا دے؟پریس کانفرنس کے آخر میں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے اس ملک کے تمام دستور پسند شہریوںسے اپیل کی کہ وہ اس قانون کے خلاف آئینی اور جمہوری دائرے میں رہ کر مضبوط آواز اٹھائیں۔ ساتھ ہی انہوں  نے یہ بھی کہا کہ “امارت شرعیہ ملت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، اور ان شاء اللہ وقف کے تحفظ کی یہ جدوجہد آخری سانس تک جاری رہے گی۔”انہوں نے تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ “یہ وقت غفلت کا نہیں، بیداری کا ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو آنے والے کل میں ہماری تاریخ، ہماری زمین، اور ہمارا تشخص صرف کتابوں میں رہ جائے گا۔
Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network