Connect with us

دیش

اردو یونیورسٹی میں قومی آگاہی ورکشاپ منتھن کا انعقاد

Published

on

(پی این این)
حیدرآباد:دانشورانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو تعلیمی دائرے میں شامل کرنے کے لیے چلائے جانے والے پراجیکٹ منتھن کے تحت آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قومی آگاہی ورکشاپ کا انعقاد عمل میں آیا۔ڈپارٹمنٹ آف سی ایس آئی ٹی کے آج کے ورکشاپ کا وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے افتتاح انجام دیا۔ ورکشاپ میں ہندوستان بھر سے 75 سے زیادہ ماہرین تعلیم، ماہرین اور ادارہ جاتی رہنماو ¿ں نے شرکت کی۔پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے ورکشاپ کا افتتاح کیا۔ انہوںنے تحقیق پر یونیورسٹی کی بڑھتی ہوئی توجہ پر روشنی ڈالی جو معاشرے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بامعنی تبدیلی ایسے حل پیدا کرنے سے آتی ہے جن کی جڑیں خود شناسی میں گہری ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر سنتوش کے پانڈے، ایڈیشنل ڈائریکٹر، حکومت ہند، الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (MeitY) نے ٹیکنالوجی کی قیادت میں شمولیت کے ذریعے معذور افراد کو بااختیار بنانے کے لیے وزارت کے وسیع تر وژن کا اشتراک کیا۔انہوں نے حکومت ہند کے اہم اقدامات کے بارے میں بات کی جن کا مقصد رسائی کو بڑھانا، ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینا اور معاون ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔منتھن کے عنوان پر اظہار خیال کرتے ہوئے، انہوں نے اسے اجتماعی حکمت اور بامعنی حل تلاش کرنے کی کوشش کی علامت کے طور پر بیان کیا۔
ڈاکٹر پانڈے نے اس پروجیکٹ میںمانوکی کوششوں کی ستائش کی۔ انہوں نے مانو کو مہارت کے ایک قومی مرکز کے طور پر دانشورانہ معذوری کے شعبے میں ایک سنٹر آف ایکسیلنس کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ پروجیکٹ فلیگ شپ ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر اقدامات جیسے کہ Aadhaar، UPI، DigiLocker اور ONDC کی صف میں شامل ہو جائے گا۔
پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے اس پراجیکٹ سے جڑے سبھی افراد کی حوصلہ افزائی کی، اور اس پراجیکٹ کو آگے بڑھانے میں انتظامی تعاون کا یقین دلایا۔ابتداءمیں پراجیکٹ کے چیف انویسٹی گیٹر اور اسکول آف ٹیکنالوجی کے ڈین پروفیسر عبدالواحد نے خیرمقدم کیا اور دیویانگ سارتھی اقدام کے ارتقاء کے بارے میں بتایا، جو کہ ایک تصور کے طور پر شروع ہوا تھا اور اس کے بعد سے ایک قومی سطح کے پراجیکٹ کی شکل دے دی گئی ۔ جس میں ٹیکنالوجی، ہمدردی اور تحقیق کا امتزاج ہے۔
ڈاکٹر پنکج مرو، قومی صدر ، PARIVAAR – NCPO نے منتھن جیسے بیداری پیدا کرنے کے کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی کوششیں بااختیار ماسٹر ٹرینرز کا نیٹ ورک بنانے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں جو حقیقی کلاس رومز میں معاون پورٹلز اور ویڈیوز کو مو ر طریقے سے استعمال کر سکیں۔پروفیسر پردیپ کمار، صدر،شعبہ کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے شکریہ ادا کیا۔تکنیکی اجلاس میں ماہرین نے کثیر لسانی، کثیر حسی مواد کو دریافت کیا جو فکری معذوری کے حامل سیکھنے والوں کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دیش

اُردو یونیورسٹی ملک کی تعمیر و ترقی میں ادا کر رہی ہےنمایاں کردار: انجنی کمار آئی پی ایس

Published

on

نئے تعلیمی سال میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لیے تعارفی پروگرام کا آغاز
(پی این این)
حیدرآباد: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ یہاں کشمیر سے کیرالہ تک بیشتر ریاستوں کے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو اس یونیورسٹی کو ایک چھوٹا ہندوستان بناتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انجنی کمار، آئی پی ایس، ڈائرکٹر جنرل جیل و اصلاحی خدمات، آندھرا پردیش نے کیا۔ وہ اردو یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبہ کے تعارفی پروگرام میں بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ اس پروگرام کی پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔
انجنی کمار نے مزید کہا کہ آئی ٹی انقلاب ہماری زندگیوں میں نمایاں تبدیلی کا سبب بناہے۔ ان سہولیات سے فائدہ اٹھانا ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ انجنی کمار نے دیئکشا کے معنی و مفہوم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک آغاز ہے، سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے طلبہ کو کامیابی کے لیے چند اہم نکات سے آگاہ کیا۔ جس میں ہنر (اسکل)، محنت، ہم آہنگی، نتیجہ خیزی، وقت کی پابندی، اچھی صحت، درست ارادہ اور مسلسل خود احتسابی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ بہتری نہ لانے والے پیچھے رہ جاتے ہیں، جیسا کہ نوکیا کمپنی کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے بسمارک کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ "عقلمند وہ ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتا ہے”، اور طلبہ کو تلقین کی کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں۔ دانش مندانہ فیصلے لے کر اپنے کیریئر کو کامیاب بنائیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آج کی مسابقت صرف قومی نہیں بلکہ عالمی ہے، اس لیے عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نئے تعلیمی سال میں داخلہ لینے والے طلبہ کی اس تعارفی تقریب کی صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر سید عین الحسن نے کی، انہوں نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو یونیورسٹی میں داخلہ کے مقاصد واضح رکھنے چاہیے۔ ان کے مطابق کلاس روم، لائبریری، کھیل کود، ثقافتی سرگرمیاں، ہاسٹل کی زندگی اور اساتذہ کے احترام کو طالب علم کی شخصیت سازی کے اہم عناصر ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے طلبہ کو ترغیب دی کہ وہ حصول تعلیم کے ذریعہ عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد ، ڈین سٹوڈنٹ ویلفیئر پروفیسر سید علیم اشرف جائسی اور ڈائرکٹر ایڈمشن پروفیسر ایم ونجا نے خطاب کیا اور طلباءکو یونیورسٹی کی مختلف سرگرمیوں کا تعارف پیش کیا۔ پروفیسر سمیع صدیقی صدرنشین ، طلبہ تعارفی پروگرام نے اظہارِ تشکر پیش کیا جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر جرار احمد، کنوینر، طلبہ تعارفی پروگرام نے انجام دیے۔

Continue Reading

اتر پردیش

اے ایم یو میں ’ایک پیڑ ماں کے نام‘ مہم کے تحت ’ون مہوتسو‘ کا اہتمام

Published

on

درخت ماں کی طرح زندگی دینے والے ہیں، تحفظ کرتے ہیں اور مستقبل سنوارتے ہیں: وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون
(پی این این)
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں وزارت ماحولیات، جنگلات و موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے شروع کی گئی قومی مہم ’ایک پیڑ ماں کے نام‘ کے تحت ’ون مہوتسو‘ کو بھرپور انداز میں مناتے ہوئے شجرکاری مہم منعقد کی گئی۔ یہ پروگرام یونیورسٹی کے یوسف علی ایکواٹک اینڈ اسپورٹس کمپلیکس میں شعبہ اراضی و باغات کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔
مہم کا آغاز وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے ایک پودا لگا کر کیا۔ انہوں نے اسے ایک اہم علامتی سرگرمی قرار دیتے ہوئے کہا ”جو درختوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرت ان کی حفاظت کرتی ہے۔ درخت بھی ماں کی طرح زندگی کی پرورش کرتے ہیں۔ ایک پودا لگا کر ہم فطرت اور ماں کی بے لوث محبت دونوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں“۔
پروفیسر نعیمہ خاتون نے اس مہم کے جذباتی اور ماحولیاتی وژن کو سراہتے ہوئے شعبہ اراضی و باغات کے ممبر انچارج پروفیسر انور شہزاد اور ان کی ٹیم کی خدمات کو سراہا، جنہوں نے مسلسل کوششوں کے ذریعے کیمپس کو سرسبز و شاداب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا ”اے ایم یو کو اس باوقار مہم کی قیادت پر فخر ہے۔ ’ایک پیڑ ماں کے نام‘ صرف شجرکاری مہم نہیں، بلکہ یہ پائیداری، جذباتی وابستگی اور قومی ذمہ داری کا ایک طرزِ عمل ہے“۔
یونیورسٹی کے سینئر عہدیداران، اساتذہ، اور عملے کے اراکین نے اس مہم میں حصہ لیا اور پودے لگاکر ان کی دیکھ بھال کا عہد کیا۔یہ مہم شجرکاری کو ماں کی یاد سے جوڑ کر ماحولیاتی تحفظ کو جذبات کے ساتھ مربوط کرتی ہے، اور ہر پودے کو ایک زندہ یادگار اور ماحولیاتی شعور کی علامت بناتی ہے۔ اے ایم یونے، جو اپنی روایات کے لیے مشہور ہے، کیمپس میں مختلف مقامات پر پائیدار ترقی کے لئے کوششیں تیز کی ہیں اور ”مشن لائف“ اور ”پنچ امرت“جیسے قومی مشنوں سے ہم آہنگ ہو کر گرین انرجی، جنگلات کی افزائش اور آبی تحفظ جیسے اقدامات کو کیمپس میں فروغ دیا جارہا ہے۔
پروفیسر انور شہزاد نے بتایا کہ یہ شجرکاری مہم پورے اگست کے مہینے میں جاری رہے گی۔ اس دوران مختلف اقسام کے ہزاروں پودے لگائے جائیں گے تاکہ کیمپس کے حیاتیاتی تنوع کو بڑھایا جا سکے۔انہوں نے مزید بتایا کہ طبیہ کالج دواخانہ میں یونانی ادویات کی تیاری کی غرض سے ادویاتی پودوں کی شجرکاری پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، اور آج سینکڑوں سہجن کے پودے لگائے گئے، جسے ایک اہم ادویاتی پودا مانا جاتا ہے۔

Continue Reading

اتر پردیش

قانون کی تعلیم کا بنیادی مقصد انصاف، سچائی اور ضمیر کی بیداری کو فروغ دینا : پروفیسر اجے تنیجا

Published

on

لینگویج یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لا اسٹڈیز میں اورینٹیشن پروگرام کا کا انعقاد
(پی این این)
لکھنؤ: خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ کی فیکلٹی آف لا اسٹڈیز میں نئے تعلیمی سیشن 2025-26 کے آغاز پر اورینٹیشن پروگرام کا کامیاب انعقاد کیا گیا۔ اس اہم تعلیمی پروگرام کا مقصد نئے داخل ہونے والے طلبہ کو یونیورسٹی کی علمی و انتظامی ساخت، اخلاقی اقدار اور پیشہ ورانہ رویے سے روشناس کرانا تھا۔اس پروگرام کی صدارت یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجے تنیجا نے کی اور انھوں نے اپنی صارتی تقریر میں طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی تعلیم کا بنیادی مقصد انصاف، سچائی اور ضمیر کی بیداری کو فروغ دینا ہے۔ اس لیے طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی اخلاقی اقدار کی تعمیر پر خاص توجہ دیں۔ ایک اچھا وکیل یا جج بننے سے پہلے ایک باکردار، سچا اور دیانت دار انسان بننا اولین شرط ہے، کیونکہ قانون کی دنیا میں ہر فیصلہ کسی کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس تناظر میں اخلاقی استحکام اور انصاف پسندی کو عملی زندگی کا حصہ بنانا از حد ضروری ہے۔طلباء کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت نہایت اہم ہے۔ موٹ کورٹ، لیگل ایڈ کلینک، مباحثے، سیمینار اور انٹرن شپس جیسے مواقع نہ صرف طلبہ کی عملی تربیت کو بہتر بناتے ہیں بلکہ ان میں خود اعتمادی، قائدانہ صلاحیت، اور پیشہ ورانہ وقار بھی پیدا کرتے ہیں۔ ایسے تجربات قانون کے نظری علم کو عملی جہت عطا کرتے ہیں۔
اس پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر پدم شری ڈاکٹر ارونیما سنہانے شرکت کی۔پدم شری ڈاکٹر ارونیما سنہا طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زندگی میں کامیابیاں صرف سازگار حالات پرحاصل نہیں ہوتی ہیں بلکہ ہمارے خیالات ،رویے اور جذبۂ عمل بھی انسان کی کامیابیوں اور کامرانیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی طلبہ کو نظم و ضبط ،خود اعتمادی اور مثبت فکر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کے طلباء کے لیے تعلیمی سفر محض کتابی علم حاصل کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک ہمہ جہت تربیت کا عمل ہے جس میں سنجیدگی، ذمے داری اور دیانت داری کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ طلباء کو چاہیے کہ وہ نہ صرف کلاس میں فعال شرکت کریں، وقت کی پابندی اختیار کریں بلکہ سیکھنے کے جذبے کے ساتھ علمی مباحث میں حصہ لیں۔ ایک اچھے قانون دان کے لیے تنقیدی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور مکالمے کی تربیت نہایت ضروری اوزار ہیں جو قانونی شعبے میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
دوسرے اہم اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر سنیل کمار یادو نے کہا کہ قانون کی تعلیم کو صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ زندگی کی حقیقی تیاری کا حصہ سمجھا جائے۔ کیریئر پلاننگ، انٹرن شپ، نیٹ ورکنگ، اور وقت کے مؤثر استعمال سے طلباء اپنے پیشہ ورانہ اہداف کی طرف کامیابی سے بڑھ سکتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ صحت، خاندان، اور سماجی خدمات کے درمیان توازن قائم رکھنا زندگی کی کامیابی کا اصل راز ہے۔آخر میں لیگل اسٹڈیز کے صدر ڈاکٹر پیوش کمار نےکہا کہ قانونی تعلیم بسا اوقات دباؤ اور ذہنی تناؤ کا باعث بن سکتی ہےاس لیے طلبہ کو جذباتی توازن، سکون اور خوش مزاجی برقرار رکھنے کے طریقے سیکھنے چاہئیں۔ یونیورسٹی میں دستیاب کونسلنگ سہولیات اور سپورٹ سسٹم سے فائدہ اٹھا کر وہ خود کو ذہنی طور پر مضبوط بنا سکتے ہیں۔ شکرگزاری، خوش اخلاقی اور حوصلے کے ساتھ تعلیم کا سفر جاری رکھنا کامیابی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
اس پروگرام کی نظامت تانیہ ساگر اور زینب خان نے کی اور شکریے کے کلمات ڈاکٹر پیوش کمار ترویدی نے ادا کئے۔اس پروگرام میں فیکلٹی آف لا کے ڈین پروفیسر مسعود عالم ،رجسٹرار ڈاکٹر مہیش کمار،ڈپٹی رجسٹرار محمد ساحل ،ڈاکٹر کرشنا گپتا ،ڈاکٹر شویتا تریویدی ،ڈاختر دکشا مشرا،ڈاکٹر پرشانت ورون ،انشل شاہ،اور بھانو پرتاپ کے علاوہ شعبے کے بیشتر طلبہ موجود تھے۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network