Uncategorized
وقف قانون آئینی حقوق سے دور کرنے کی منصوبہ بند سازش
پٹنہ :امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے مرکزی دفتر میں حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے وقف ترمیمی قانون پر ایک جامع پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ مذہبی، تعلیمی، اور تہذیبی شناخت پر ایک زہریلا حملہ ہے۔
امیر شریعت نے کہاکہ “یہ قانون ہماری نسلوں کے ہاتھوں سے اوقاف اور ان کے دستوری حقوق چھین لینے کی ایک منصوبہ بند سازش ہے” اور اگر ہم نے وقت پر اس کے خلاف اجتماعی آواز بلند نہ کی تو آنے والے وقت میں نہ مساجد بچیں گی ، نہ ہی قبرستان ، نہ مدارس اور نہ ہی اوقاف کی زمین پر قائم شدہ اسکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز اور وہ تمام ملی اور رفاہی ادارے جو بلا تفریق مذہب و مشرب مختلف طبی و رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔امیر شریعت نے تفصیل سے اس بات کی وضاحت کی کہ وقف ترمیمی قانون میں کس طرح انتہائی چالاکی سے چیریٹیبل ٹرسٹ کو وقف کی تعریف سے خارج کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں تقریباً 3900 مدارس وقف کی زمین پر قائم ہیں، جن میں سےہر ایک ٹرسٹ کے تحت کام کر رہے ہیں ۔ اب اس قانون کے مطابق یہ مدارس وقف رہیں گے یا نہیں؟ یہ بات واضح نہیں ہے۔ امیر شریعت نے کہا کہ “ترمیم شدہ قانون کی یہ خاموشی وقف کے وجود پر خطرناک سوال کھڑا کرتی ہے۔”حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے مزید کہا کہ نئے قانون میں واقف کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان “نظر آنے” کی شرط لگا دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایمان کافی نہیں، بلکہ ظاہر داری بھی جانچی جائے گی۔
حضرت نے کہا کہ “یہ صرف غیر مسلموں کو روکنے کا قانون نہیں بلکہ سیدھا مسلمانوں کو مشکوک بنانے کی سازش ہے۔حضرت امیر شریعت نے وقف علی الاولاد کے بارے میں کہا کہ ترمیمی قانون نے واقف کو مشکوک بنا کر ایک عظیم شرعی روایت کو غیر معتبر کر دیا ہے۔ اگر کوئی بھی فرد شک ظاہر کر دے کہ یہ وقف علی الاولاد نہیں ہے تو وہ وقف اپنی حیثیت کھو دے گا، چاہے اس پر ہزار بار شرعی گواہیاں ہوں۔ انہوںنے کہا: “یہ شریعت کی توہین اور فکر اسلامی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے وقف بائی یوزر کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ اسے واپس لا کر دکھاوے کے لیے شامل تو کیا گیا، مگر اس میں ایسی شرطیں لگا دی گئیں ہیں جو اس کے وجود ہی کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔ اگر حکومت دعویٰ کر دے، یا زمین تھوڑی سی بھی متنازع ہو جائے، تو وہ وقف نہیں رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ“یہ سارا ڈھانچہ وقف کے نام پر دھوکہ ہے۔حضرت نے کہا کہ حکومت کو وقف املاک پر من مانے ٹیکس لگانے کا اختیار دینا ملت کے لیے ایک اور زخم ہے۔ حضرت نے سوال کیا: “یہ اختیار حکومت کو کس نے دیا کہ وہ ہمارے مذہبی اثاثوں پر بے انتہا ٹیکس لگا دے؟پریس کانفرنس کے آخر میں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے اس ملک کے تمام دستور پسند شہریوںسے اپیل کی کہ وہ اس قانون کے خلاف آئینی اور جمہوری دائرے میں رہ کر مضبوط آواز اٹھائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ “امارت شرعیہ ملت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، اور ان شاء اللہ وقف کے تحفظ کی یہ جدوجہد آخری سانس تک جاری رہے گی۔”انہوں نے تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ “یہ وقت غفلت کا نہیں، بیداری کا ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو آنے والے کل میں ہماری تاریخ، ہماری زمین، اور ہمارا تشخص صرف کتابوں میں رہ جائے گا۔
حضرت نے کہا کہ “یہ صرف غیر مسلموں کو روکنے کا قانون نہیں بلکہ سیدھا مسلمانوں کو مشکوک بنانے کی سازش ہے۔حضرت امیر شریعت نے وقف علی الاولاد کے بارے میں کہا کہ ترمیمی قانون نے واقف کو مشکوک بنا کر ایک عظیم شرعی روایت کو غیر معتبر کر دیا ہے۔ اگر کوئی بھی فرد شک ظاہر کر دے کہ یہ وقف علی الاولاد نہیں ہے تو وہ وقف اپنی حیثیت کھو دے گا، چاہے اس پر ہزار بار شرعی گواہیاں ہوں۔ انہوںنے کہا: “یہ شریعت کی توہین اور فکر اسلامی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے وقف بائی یوزر کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ اسے واپس لا کر دکھاوے کے لیے شامل تو کیا گیا، مگر اس میں ایسی شرطیں لگا دی گئیں ہیں جو اس کے وجود ہی کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔ اگر حکومت دعویٰ کر دے، یا زمین تھوڑی سی بھی متنازع ہو جائے، تو وہ وقف نہیں رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ“یہ سارا ڈھانچہ وقف کے نام پر دھوکہ ہے۔حضرت نے کہا کہ حکومت کو وقف املاک پر من مانے ٹیکس لگانے کا اختیار دینا ملت کے لیے ایک اور زخم ہے۔ حضرت نے سوال کیا: “یہ اختیار حکومت کو کس نے دیا کہ وہ ہمارے مذہبی اثاثوں پر بے انتہا ٹیکس لگا دے؟پریس کانفرنس کے آخر میں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے اس ملک کے تمام دستور پسند شہریوںسے اپیل کی کہ وہ اس قانون کے خلاف آئینی اور جمہوری دائرے میں رہ کر مضبوط آواز اٹھائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ “امارت شرعیہ ملت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، اور ان شاء اللہ وقف کے تحفظ کی یہ جدوجہد آخری سانس تک جاری رہے گی۔”انہوں نے تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ “یہ وقت غفلت کا نہیں، بیداری کا ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو آنے والے کل میں ہماری تاریخ، ہماری زمین، اور ہمارا تشخص صرف کتابوں میں رہ جائے گا۔