Sach Ki Awaz

سود کے زہر کا تریاق…..اسلامی بینکنگ

دنیا میں رقومات کا لین دین ایک نا گزیر عمل ہے لیکن اسلام میں کسی بھی لین دین میں رقومات پر سود لینا یا دینا دونوں حرام ہیں، جس کی قرآن کریم اور حدیث مبارک میں بار بار تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ اسلامی معیشت کے تعلق سے گزشتہ 40 برسوں سے جو تحقیقات اور ریسرچ ورک ہوا ہے، اس سے اس بات کا انکشاف ہو گیا ہے کہ اس وقت بنی نوع انسان جن بہت سے اقتصادی مسائل کا سامنا کر رہا ہے ان کے ازالہ کے لئے اسلامک بینکنگ ایک اکسیر اعظم ہے۔

اقتصادیات میں جس طرح سے ڈرامائی انداز میں ترقی ہوئی ہے، اس کی تصدیق مصر کے شرم الشیخ میں منعقد ہوئے ورلڈ اکونومک فورم کی کانفرنس سے ہو گئی تھی۔ جرمنی کے سب سے بڑے بینک ڈوٹشے بینک (Duetsche Bank) نے اس وقت بحرین کے اثمار بینک (Ithmaar Bank) اور دبئی کے ابراج (Abraj) کیپٹل نے 2بلین ڈالر شریعت کے مطابق اقتصادی فنڈ کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ ان بینکوں کا کہنا تھاکہ ان کا نظریہ مشرق وسطیٰ میں تعلیم، میڈیا، توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے شعبوں کو فروغ دینا ہے۔ زیادہ سے زیادہ روایتی بین الاقوامی بینکوں جیسے سٹی بینک (City Bank)، ایچ ایس بی سی بینک (HSBC Bank) اور یو ایس بی بینک (USB Bank) وغیرہ بلا سود اسلامی اقتصادی ماڈل کو متعارف کرانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق بین الاقوامی سطح پر اسلامک بینکنگ کی وسعت 200 بلین ڈالر سے بڑھ کر 500 بلین ڈالر ہو گئی ہے۔ ورلڈ اکونومک فورم کے بہت سے بینک تو اس فروغ افزا بینکنگ خدمات کی کامیاب اسٹوری سے اتنے حوصلہ مند ہوگئے ہیں کہ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی امور کو سنبھالنے کے لئے اسلامی بینکنگ ہی سب سے اعلی ترین اور سب سے زیادہ اچھا اخلاقی طریق کار یا متبادل ہے۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک ہیں اسلامک معیشت کے ڈسپلن کو تسلیم کر لیا گیا ہے جس کی افادیت انفرادی نوعیت کی ہے۔ آج ہمیں جس چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے وسیع پیمانے پر اس کے توسط سے خصوصی طور پر مسلم معاشرہ اور عمومی طور پر پوری انسانیت اس سے استفادہ کرتی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ (Institute of Islamic Research) کے محقق اور آئی ڈی بی میں ٹریننگ سینٹر کے سر براہ ڈاکٹر عمر چاپرا (Dr. Umar Chapra) جوکہ کنگ فیصل انٹر نیشنل ایوارڈ سے نوازے گئے تھے، انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ”اسلامک معیشت کے اس نظام سے اخلاقی اور انسانی دائرہ کار کافی مختلف اور وسیع ترین ہو جائے گا اور لوگوں کو بھی زیادہ پسند آئے گا کیونکہ اس میں انسانی بہبود مضمر ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا تھاکہ ”بنی نوع انسان کے لئے اسلام کا یہ ایک نادر تحفہ ہے بلکہ اس کے توسط سے اقتصادی مسائل حل کرنا اس کے اہم مقاصد ہیں“ انہوں نے مزید کہا تھاکہ بڑے پیمانہ پر رہن رکھ کر خسارہ پہنچانے والے نکات پر غور کئے بغیر خطیر رقم قرض دینے کی وجہ سے امریکہ میں اقتصادی مسائل پیدا ہو گئے تھے۔

جس طرح سے مغربی ممالک کے روایتی بینکرس کسی بھی چیز کا احتیاط کے ساتھ تخمینہ لگائے بغیر خوشی خوشی قرض دیتے ہیں۔ وہیں اسلامک بینکنگ میں لین دین جوکہ اسلامی ضابطوں کے تحت ہوتا ہے وہ سود لینے اور دینے دونوں پر پابندی عائد کرتا ہے، اس لئے بینکنگ کا یہ نظام مقبولیت کی منازل طے کر رہا ہے۔ کچھ ماہرین نے تو یہ قیاس آرائی کی ہے کہ اس میں ہر سال 15 فیصد کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس سلسلے میں انتظامی امور کی کمپنی میک کنسے اینڈ کمپنی (MCkinsey & Co) کے ذریعہ تو یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ اسلامک بینکنگ کا اثاثہ 2010 تک ایک ٹرلین ڈالر تک پہنچ جا ئے گا اور آج اس کی پیش گوئی حقیقت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ شرح سود سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اسلامک بینکنگ خسارہ اور منافع میں شرکت کرنے کے اسلامی ضابطوں کے تحت لین دین کرتے ہیں چاہے وہ انفرادی نوعیت کے ہوں یا پھر تجارتی نوعیت کے ہوں۔ مثال کے طور پر مُربحہ (Murabaha) جوکہ ایک قسم کا اسلامی بانڈ ہوتا ہے، اس کے توسط سے اگر کوئی شخص کار خریدتا ہے اور اس کے بعد وہ کسی دیگر صارف کو طے شدہ نفع کے ساتھ فروخت کر دیتا ہے تو تناسب کے اعتبار سے اس منافع کی رقم بینک کو ادا کرنی ہوگی ورنہ ادائیگی نہ ہونے پر اس رقم کو روک دیا جاتا ہے۔

مشرق وسطیٰ ِخلیج، پاکستان، ایشیا اور مغربی ممالک میں اسلامک بینکنگ اور اس کے توسط سے اقتصادی امور ترقی کی جانب گامزن ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مستقبل میں اسلامک بینکنگ کی مقبولیت کے روشن امکانات ہیں۔ گلوبل بینکنگ کارپوریشن کے چیف ایگزیکیٹو مارک ہینسن کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ”35سے 40فیصد کے درمیان تخمیناً ترقی کے ساتھ بینکنگ انڈسٹری میں تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والا یہ ایک سیکٹر ہے۔“ انہوں نے مزید کہاکہ ” 500 بلین ڈالر سے زیادہ کُل اثاثہ کے ساتھ اسی وقت سے ملیشیا میں اسلامک بینکنگ انڈسٹری ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور اسے دنیا کا اولین اسلامک معاشی انسٹی ٹیوشن ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے۔“

انہوں نے کہاکہ بوسٹن (Boston) سے بحرین تک 60 سے زائد ممالک میں تقریباً 350 اسلامک بینکنگ نظام اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ ”اسلامک بینکنگ کی مقبولیت کا دائرہ کار وسیع ہو گیا ہے۔“ اس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ تقریباً ایک چوتھائی غیر مسلم اپنا تجارتی لین دین اسلامک بینکنگ کے توسط سے کر رہے ہیں۔ ایشیا میں بھی اسلامک بینکنگ انڈسٹری قائم ہوگئی ہے اور ہانگ کانگ، چین، سنگاپور اور ملیشیا نے طویل مدتی سرمایہ کاری کی پُرکشش پیش کش کی ہے کیونکہ اسلامک بینکنگ مارکیٹ میں قابل قبول لین دین کی سیکورٹی فراہم کرتی ہے، جس میں سکوک (Sukuk) کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے۔ امریکہ کی وزارت خزانہ اقتصادی امور میں اسلامک بینکوں سے اسلامک بانڈ جیسے سکوک بڑے پیمانے پر جاری کرانے کے لئے صلاح و مشورہ کر رہی ہے۔ اس ضمن میں مارکیٹ کے ماہرین کے مطابق اس طرح اسلامک بانڈ جاری کرنے سے لوگ سرمایہ کاری کی جانب متوجہ ہو جائیں گے۔

انگلینڈ کے ذریعہ آزادانہ اولین سکوک جاری کرنے کا اثر عالمی اسلامک کیپٹل مارکیٹ کے لئے نہایت ہی اہم ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لندن مارکیٹ کو ہمیشہ قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے کیونکہ اس کی باضابطہ اور ایک روایتی مارکیٹ ہے۔ چنانچہ انگلینڈ کے ذریعہ جاری کئے گئے سکوک سے دیگر مارکیٹوں کو بھی اس جانب متوجہ ہونے کی تحریک ملے گی اور اس سے اسلامک کیپٹل مارکیٹ کی مزید ترقی کرنے میں بھی معاونت ملے گی۔ ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ”دنیا کو لندن شہر کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اقتصادی طور پر معیشت کو منظم کرنے میں اسے مہارت حاصل ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی یہ اہمیت کا حامل ایک شہر ہے۔ انگلینڈ میں زبردست طریقہ سے اصولوں، نفاست اور قابل قدر انداز میں اقتصادی کار گزاریاں انجام دی جاتی ہیں۔ چنانچہ انگلینڈ کے ذریعہ جاری کئے گئے سکوک ترقی کی جانب ایک بڑا قدم ہو جائے گا اور اس کی وجہ سے یورو سکوک (Euro Sukuk) کی مارکیٹ میں اچھال آجائے گا، جس سے دیگر مارکیٹوں کو اسی طرح سے لین دین کرنے کا حوصلہ مل جائے گا اور سرمایہ کار بھی اسی طرح سے اپنی اقتصادی کار گزاریاں انجام دینے لگیں گے۔

چنانچہ لندن میں واقع بینک جیسے لائڈز ٹی ایس بی (LloydsTSB) رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ (Royal Bank of Scotland) اسلامک بینک آف برٹین (Islamic Bank of Britain)، اے بی سی انٹرنیشنل بینک (ABC International Bank)، یونائیٹڈ نیشنل بینک (United National Bank) اور ایچ ایس بی سی امانہ بینک (HSBCAmanah Bank) یہ تمام بینک شریعت کے مطابق بانڈ جاری کرنے لگے ہیں، جن میں اسلامی طریقہ سے رہن (Mortage) رکھنا بھی شامل ہے۔ اے بی سی انٹرنیشنل بینک جوکہ بحرین (Bahrain) میں واقع عرب بینکنگ کارپوریشن (اے بی سی) گروپ (Arab Banking Corporation (ABC) Group) مکمل طور پر ایک تابع شاخ ہے کے ابرق ڈویژن کے سربراہ کیتھ لیچ (Keith Leach) کے مطابق بینک نے 2004 کے آخر میں ہی رہائشی رہن رکھنے کے کاروبار کے لئے 100 ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ کی رقم منظور کر دی تھی، اس طرح سے اسلامک بینکنگ کے نظام کا اسی وقت سے آغاز ہو گیا تھا۔ اب اے بی سی کو امید قوی ہے کہ چند برسوں کے اندر ہی اس بزنس میں ثابت قدمی کے ساتھ مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اے بی سی کی تو سیحی حکمت کے تحت خوردہ اسلامک بینکنگ کار گزاریاں بہت جلد ہی جی سی سی (GCC) ممالک میں بھی دستیاب ہونے لگیں گی کیونکہ انگلینڈ میں اسلامی طریقہ سے رہن رکھنے کے شعبہ میں درحقیقت ابرق ان تمام بینکوں کے درمیان ایک نقیب کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ برسوں میں عالمی اسلامک بینکنگ اور اقتصادی سیکٹر میں اس نظام کو زبردست فروغ حاصل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سال در سال اسلامی بینکنگ سیکٹر میں 15 فیصد سے 20 فیصد تک ترقی ہو رہی ہے۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ منتخب شدہ انفرادی اسلامک اقتصادی انسٹی ٹیوشنوں (Islamic Financial Institutions) میں بہت سی شاخیں، جن کے گوشواروں (Balance Sheet) اور ڈپازٹ رقومات سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں 25 فیصد سے 40 فیصد تک ترقی ہو رہی ہے۔

سکوک (Islami Bond) نہ صرف تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہا ہے کیونکہ یہ زبردست طریقہ سے مارکیٹ کے لئے فائدہ مند ہے۔ اسی لئے عالمی روایتی بینک شریعت کے مطابق لین دین کرنے کے نظام کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ روایتی بانڈز سے مسلمانوں کو الگ رکھا گیا ہے کیونکہ ان میں ان ہی لوگوں کو سود دیا جاتا ہے جوکہ ان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن سکوک نے اس منظر نامہ کو تبدیل کر دیا ہے کیونکہ سکوک کے توسط سے کسی بھی منصوبہ کی رقومات سے سود کے بجائے حصص (Share) کی رقم ادا کی جاتی ہے۔ شرعی بینکنگ نظام کئی دہائیوں سے ایک قائد کا رول ادا کر رہا ہے۔اسلامی بینکنگ میں بحرین کی اقتصادی ایجنسی (Bahrain Monetary Agency) ایک نقیب کی حیثیت رکھتی ہے۔

قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کے فرمودات کے مطابق سود لینا یا دینا دونوں حرام کے زمرے میں آتے ہیں۔ روایتی بینکوں سے جب لین دین کیا جاتا ہے تو جمع رقم (Deposit) پر سود دیا جاتا ہے اور لون (Loan) لینے پر سود دیا جاتا ہے، جس سے اجتناب کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ اسی لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اسلامی بینکنگ نظام رائج کیا گیا یہ نظام نہ صرف مسلمانوں کے لئے ایک عطیہ ہے بلکہ غیر مسلم بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں کیوکہ منافع کی رقم سے انہیں سود نہیں بلکہ حصص (Share) دیا جاتا ہے۔ اسی لئے اسلامی بینکنگ کا نظام پوری دنیا میں مقبولیت کی منازل طے کر رہا ہے۔

(syedfaisalali2001@yahoo.com)