Sach Ki Awaz

دنیا کا پہلا الیکٹرانک قرآن کریم

سائنس اور جدید سائنسی اختراعات کی دوڑ میں آج بھی اسلام کا ایک منفرد مقام ہے۔ پوری دنیا اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ ماضی میں سائنس کے شعبہ میں اسلام نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے، ان کی بنیاد پر اہل مغرب نے نہ صرف تحقیق کی بلکہ بے شمار ایجادات کو اپنے ہی نام سے منسوب کر لیا لیکن اسلام کو اتنی آفاقی فضیلت حاصل ہے کہ وہ آج بھی جدید اختراعات میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ قرآن کریم تمام علوم و تعلیمات کا سرچشمہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں علم کا ایک ایسا نایاب خزینہ پوشیدہ کر دیا ہے کہ روز اول سے لے کر روز آخر تک بنی نوع انسان اس سے استفادہ کرتا رہے گا۔ آج سائنس کی جو ایجادات ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔ ماہرین سائنس اس بات پر حیرت زدہ اور انگشت بہ دنداں ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل ہی ان سب باتوں کا ذکر قرآن کریم میں کیسے کر دیا گیا تھا؟

یہاں یہ بات بھی قابل افتخار ہے کہ سلطنت عمان نے شائع شدہ قرا ٓن کریم کے نسخہ کا 10 سال قبل اپنا اولین الیکٹرانک ایڈیشن لانچ کیا تھا۔ مسقط کی بو شیر ولایت (گورنرکے ذریعہ مقرر کئے گئے ولی کے زیر انتظام علاقہ) میں واقع قبوس (Quboos) جامع مسجد میں ایک افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جس کی صدارت وزیر برائے آثار قدیمہ اور ثقافتی امور سیدہثیم بن طارق ال سعید نے کی تھی۔ اس وقت میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے وزارت برائے اوقاف اور مذہبی امور نیز اسلامک گائیڈینس کے ڈائریکٹر جنرل داکٹر سلیم بن ہلال الخروسی نے کہاتھا کہ خصوصی طور پر ماہ رمضان کے موقع پر قرآن کریم، مذہبی دستاویزات، خطاطی اور دیگر اسلامی امور کی جانب وازارت ترجیحی طور پر زبردست طریقہ سے توجہ دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک عمان کے شائع شدہ قرآن مقدس کے اولین ایڈیشن کا تعلق ہے تو اس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اپنی انفرادی عمانی شناخت کے ساتھ اہل عمان نے ایک خوبصورت ترین ایڈیشن تیار کرنے میں جانفشانی سے اپنا کارنامہ انجام دینے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ الخروسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کتابت، انتظام، پروڈکشن، خطاطی اور تزئین کاری کے اعتبار سے عمان نے صدق دل سے اپنی خدمات انجام دی ہیں جس کی وجہ سے قرآن کریم کا یہ نیا ایڈیشن ہمارے سامنے آیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ عمان عربک کیلی گرافی انسٹی ٹیوٹ (Oman Arabic Caligraphy Institute) میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے والے عمر کمال القدوسی جو کہ معروف مصری خطاط ہیں اور’ او اے سی آئی‘ کے ڈائریکٹر سلیم بن خلفان بن سلیمان ال بلوشی نے نہ صرف اس مقدس کتاب کی کتابت میں تعاون دیا تھا بلکہ تکنیکی اور انتظامی نگرانی بھی کی تھی اور اس کے حاشیے عمان کے محمد بن قاسم القاسمی نے تیار کئے تھے۔ مقدس قرآن کریم کا یہ نیا ایڈیشن مصر کی الازہر یونیورسٹی کی خصوصی کمیٹی کی نگرانی میں (Oman Arabic Caligraphy Institute او اے سی آئی) اور عمان کی وزارت برائے اوقاف اور مذہبی امور نے مشترکہ تعاون سے تیار کیا تھا۔ اس لئے ایڈیشن کو مکمل کرنے میں 12 سال لگے تھے، جس کا وزن 30 کلو گرام اور اس کا سائز 75cmx55cm تھا علاوہ ازیں اس کا کور (cover) غزال (چھوٹا ہرن) کی کھال سے تیار کیا گیا تھا۔

الخروسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکٹرونک قرآن کریم کی لانچنگ جدید تکنیکی ترقیات کے مطابق ہے کیونکہ اس سے قرآن کریم کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں دیگر جانکاریاں حاصل کرنے میں اسکالروں کو زبردست فائدہ حاصل ہوگا۔ انہوں نے سلطنت میں اس ایڈیشن کو اولین نوعیت کا حامل قرار دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’یہ ایڈیشن وزارت کی ویب سائٹ پر تمام لوگوں کے لئے دستیاب ہوگا تاکہ سائنس، کلچر، تحقیق، تعلیم کے اس خزانہ سے ہر کوئی استفادہ کر سکے۔‘‘ اس الیکٹرونک قرآن کریم کا ڈیزائن ڈیکوٹائپ (Deco Type)، لسانی ماہرین اور کمپیوٹر کی مدد سے طباعت کرنے والے ماہرین کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا اور اس کے پریزیڈینٹ تھامس ملیو نے اسے افتتاحی تقریب میں پیش کیا تھا۔ کمپیوٹر چِپ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی انٹیل کارپوریشن (.Intel Corp) نے سعودی عرب کی دو سافٹ ویئر کمپنیوں کی شراکت سے نہ صرف قرآن کریم کا الیکٹرانک ورژن ڈیولپ کیا تھا بلکہ حکومت سے منظور شدہ اسکول کے نصاب میں اساتذہ کو کمپیوٹر کی تربیت دینے کا کورس شروع کیا تھا۔

انٹیل (Intel) کے چیئر مین کریگ بریٹ (Craig Barett)، جنہوں نے مملکت میں اس پروڈکٹ کو لانچ کرنے کی تقریب میں شرکت کی تھی کہا تھا کہ قاہرہ میں واقع انٹیل ڈیولپمنٹ سینٹر نے سعودی عرب کے پروجیکٹوں کے لئے ہارڈ ویئر (Hardware) تیار کئے تھے۔ وائر لیس انٹرنیٹ کی رسائی (Access) کے ساتھ ای۔قرآن (e-Quran) ایک ایسا چھوٹا سا کمپیوٹر ہے، جس میں نہ صرف قرآن کریم کی آیات مقدسہ ہیں بلکہ مختلف 40 زبانوں میں تلاوت کے علاوہ تشریحات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ انٹیل کمپنی کا کہنا تھا کہ اس نے ایک سافٹ ویئر کمپنی دارلرسم ال عثمانی، جو کہ مذہبی امور پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے، کے ساتھ شراکت داری کی تھی اور ایک دیگر باہری کمپنی کے ساتھ مل کر اس ڈوائس (Device) کو تیار کیا تھا اور خطاطی کے تعلق سے خیال ہمارے ذہن میں اس وقت آیا تھا، جب قرآن کریم کے تعلق سے گفت وشنید شروع ہوئی تھی تاکہ تحریر و کتابت کو مکمل طور پر دیدہ زیب بنایا جا سکے واضح رہے کہ خطاطی فن کی ایک ایسی صنف ہے جو کہ ہاتھ کی تحریر اور کتابت کو نئی شکل دیتی ہے۔

’خطاطی‘ لفظ یونانی الفاظ کیلوس(Kellos) بمعنی خوبصورتی اور گراف (Graphe) یعنی’تحریر‘ سے وجود میں آیا ہے۔ جدید اصطلاح میں خطاطی کا مطلب عملی طور پر کسی تحریر کو ماہرانہ صلاحیت کے ساتھ دلکش اور نفیس انداز میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے فرمایا تھا کہ ’’خوبصورت تحریر سے سچائی نسبتاً زیادہ واضح ہو جاتی ہے، خوبصورت تحریر اختیار کرو کیونکہ یہ کفاف کی کلید ہے۔‘‘ جبکہ حضرت عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا تھا کہ ’’خطاطی ہاتھوں کی زبان ہے۔‘‘ شاید اسی تصور کے تحت عربوں نے خطاطی میں کمال حاصل کرلیا تھا، جس کے مبارک اثرات آج تک نمو دار ہو رہے ہیں۔

مکہ معظمہ میں عرب کے باشندے جو اسکرپٹ لکھا کرتے تھے اسے ’مکن‘ (Meccan) کے نام سے منسوب کیا گیا تھا جوکہ نباطین اسکرپٹ کی ہی ایک شاخ تھی۔ جب پیغمبر حضرت محمدؐ نے مدینہ منورہ میں ہجرت کی تو اسکرپٹ کو مدینین (Mediinian) نام سے منسوب کیا گیا تھا جو کہ ’مکن اسکرپٹ‘ سے مختلف تھی۔ 16ہجری میں کوفہ شہر آباد ہونے کے بعد ’کوفی اسکرپٹ‘ نمو دار ہوئی تھی۔ اسکرپٹ کی تاریخ میں اس سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا اور اس میں بہت سی اصطلاحات اور تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقبول ہونے کے ساتھ ہی تمام مفتوح ممالک میں اس اسکرپٹ کو فروغ حاصل ہو گیا تھا۔ کچھ اسکرپٹ ایسی بھی سامنے آئی تھیں جن کو سلسلۂ سلاطین جیسے فاطمی، ایوبی اور مملوک وغیرہ سے منسوب کیا گیا تھا لیکن تمام ترتبدیلیوں کے باوجود 10ویں صدی تک مصاحف قرآن کی کوفی اسکرپٹ ہی رہی تھی۔ ایک مرتبہ پھر اسکرپٹ میں تبدیلی اس وقت رونما ہوئی تھی جب ابن مقلہ اور ابن البواب سامنے آئے تھے اور انہوں نے مصاحف کو نسخی خط میں تحریر کرنا شروع کیا تھا اور کوفی اسکرپٹ مساجد کی آرائش کرنے تک ہی محدود ہو گئی تھا لیکن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اسکرپٹ کے جدید اور زیادہ ڈیولپ اسٹائل جیسے نسخ روقعہ(Ruqa) الثلث، دیوانی اور طالق وجود میں آ گئے تھے۔ اس میں ایران اور ترکی دونوں نے بعد میں غیر معمولی دسترس حاصل کر لی تھی۔ اسکرپٹ کے خزینہ کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں نے نہ صرف بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے بلکہ لاکھوں مصاحف تحریر کئے تھے۔ کسی بھی قدیم تہذیب میں اتنے زبردست طریقہ سے کارنامے انجام نہیں دیئے گئے تھے جتنے کہ عرب کی تہذیب میں سر انجام دیئے گئے تھے۔ اسی طرح یونان، شام اور روم میں بھی کثیر تعداد میں کارنامے انجام دیئے گئے تھے۔ خطاطی کا اسلام میں ایک اعلی مقام ہی نہیں ہے بلکہ معاشرے میں اس نے ایک اہم ترین رول بھی ادا کیا تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلام نے آغاز سے ہی پڑھنے اور لکھنے کی ترغیب دی ہے۔ خطاطی معاشرہ اور ثقافت کے تمام شعبوں پر غالب ہو گئی تھی، اسی لئے قرآن کریم کے علاوہ سائنس، مذہب اور ادب سے تعلق رکھنے والے کاموں کو نہایت خوبصورت انداز میں خطاطی کے توسط سے تحریر کیا گیا تھا۔ مساجد، محلات، قالین، تکیوں کے غلاف، شمشیروں، ہیلمیٹ اور سائنسی آلہ جات، اسطرلاب (Astrolabes)،گلوب وغیرہ کو خطاطی سے آراستہ کیا جاتا تھا۔ طباعت میں خطاطی کا بہت سے مختلف انداز استعمال کیا گیا جس میں کلاسیکل اور نان کلاسیکل طباعت (Typography) شامل ہوا کرتی تھی، جس کا انحصار فنکار کی سوچ پر ہوا کرتا تھا۔

بہت سے پیشہ وارانہ خطاط ایسے بھی ہیں، جو اپنے فن کی تکمیلیت میں یقین رکھتے ہیں، ایسے فنکاروں کے فن پاروں سے نوجوان خطاطوں کو تحریک اور ترغیب ملتی ہے۔ چونکہ خطاطی ایک ایسا فن ہے، جس میں صبرو استقلال کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ فنکارانہ طریقہ سے قرطاس ابیض پر اپنا تخیل پیش کرتا ہے۔ فن خطاطی میں مختلف حروف مختلف فنکارانہ انداز میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس میں بہت سے اسٹائل ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ فن کار کے اپنے تصور سے وجود میں آتے ہیں۔ خطاطی کے کچھ نہایت خوبصورت فن پارہ عفوفیت (Spontaneity) پر منحصر ہوتے ہیں یعنی بے ساختہ ایک تصور خطاط کے ذہن میں آجاتا ہے اور ایک شاہکار وجود میں آ جاتا ہے۔

آج کے دور میں خطاط کے ہاتھوں میں کاغذ اور قلم دینے کے بجائے پوری دنیا میں خطاطی نے اب ویب سائٹ پر ایک منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔ سلطنت عمان میں قرآن کریم کا جو ای ایڈیشن (e-edition) لانچ کیا گیا تھا، اس میں بھی خطاطی کا استعمال کیا گیا تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت، تجوید و تعلیمات کے علاوہ اس منی کمپیوٹر یعنی ای ایڈیشن میں ایک ایسا پروگرام بھی شامل کر دیا گیا ہے، جس کے توسط سے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ خطاطی کس طرح سے کی جائے۔ یہ کام آج بھی جاری ہے اور اس کے تعلق سے تمام متبادلات کھلے ہوئے ہیں۔ اسلام میں قدیم خطاطی، طرز نگارش اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس قدیم فن کی اسلامی تاریخ میں کتنی زبردست اہمیت ہے جو کہ اسلام کے آغاز سے آج تک ارتقاء پذیر ہے۔

(syedfaisalali2001@yahoo.com)