Sach Ki Awaz

جرمن زبان میں خطبے کا اہتمام

صرف عربی زبان بولنے والے احمد سامی پندرہ سال قبل بطور امام اپنی خدمات انجام دینے کے لئے مراقش (Morocco) سے جرمنی آئے تھے۔ مغربی جرمنی کی ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے اور نماز ادا کرانے کے دوران انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ بہت سے نمازی ان کے ذریعہ بیان کئے گئے خطبہ کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ 31سالہ امام نے بتایا تھا کہ ’’کم سن اور نابالغ بچے بالکل بھی عربی زبان نہیں بولتے تھے، اس کی مادری زبان جرمن تھی‘‘۔ سامی نے اکتوبر 2010میں اوسنا بروئیک یونیورسٹی (University of Osnabrueck) میں اماموں کو تربیت دینے کے لئے اپنے اہم پروگرام کی شروعات کی تھی۔ اس پروگرام کے تحت انہوں نے جرمن زبان کے توسط سے جانکاریوں کی ترسیل کا کام انجام دیا تھا، کیونکہ وہ خود جرمن زبان سے واقف ہوگئے تھے، اس لئے انہوں نے اسلامی تعلیمات اور تبلیغ کا کام اس طرح شروع کر دیا تھا، جو جرمنی کی تہذیب و اقدار سے نہ صرف مناسبت بھی رکھتا تھا بلکہ مذہبی رواداری کا بھی اس میں درس ہوتا تھا۔

ایک ایسا وقت بھی آیا جب کچھ عرصہ کے بعد کچھ مسلم نوجوانوں کے تعلق سے جرمنی میں اس بات سے تشویش کا اظہار کیا جانے لگا تھاکہ ان کا رجحان جارحانہ ہو تا جا رہا ہے۔ جرمنی میں آباد افغان نژاد شہریوں کی جارحیت کے بارے میں جب اطلاعات موصول ہوتی تھیں تو اکتوبر 2010میں پورے یورپ میں الرٹ جاری کر دیا گیا تھا۔ شمال مغربی جرمنی کے اوسنا بروئیک (Osnabrueck) میں اس پروگرام کے ایک بانی رکن اور اسلامی تعلیمات کے پروفیسر رؤف سیلان (Rauf Ceylan) نے بتایا تھا کہ ’’ہمیں ایسے اماموں کی ضرورت ہے جو کہ سماجی ربط وضبط قائم رکھ سکیں اور جرمنی میں اپنے وطن جیسا سکون قائم رکھ سکیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جرمنی کے مسلمانوں میں مذہبی رواداری کے ایسے اثرات مرتب کریں تاکہ نوجوان مسلمانوں پر ان کے مثبت اثرات غالب آجائیں۔

چنانچہ یوروپ کے دیگر ممالک میں بھی اس طرح کے نئے اقدامات کئے گئے تھے۔ اسی طرح فرانس میں بھی جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 5ملین ہے، کیتھولک یونیورسٹی آف پیرس نے بھی 2008میں فرانسیسی اماموں کو تربیت دینے کے لئے مختلف کو رسسز شروع کئے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں اس طرح کے تعلیمی نصاب کی اشد ضرورت تھی۔ اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ جرمنی میں 2000سے زائد اماموں میں سے تقریباً 90فیصد امام روانی کے ساتھ جرمن زبان بولتے ہیں۔ جرمنی میں زیادہ تر مسلمان ترکی سے آئے تھے اور یہاں چند برسوں تک قیام کرنے کے بعد وہ اپنے وطن واپس چلے گئے تھے۔ جن ممالک نے یہاں پر امام بھیجے تھے، یہاں کی زبان سے واقف نہ ہو نے کی وجہ سے وہ نوجوان طبقہ سے رابطہ کرنے میں قاصر ہو گئے تھے اور وہ اس بات سے بھی واقف نہیں تھے کہ جرمنی میں آباد 4.3ملین مسلمانوں کی آبادی کو روزانہ اسی پریشانی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

جب ان طبقات میں اماموں کو کلیدی حیثیت حاصل تھی، وہ نہ صرف ان کی مذہبی رہنمائی کرتے تھے بلکہ جب ان طبقات کے بچے اسکول میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے تھے تو والدین سب سے پہلے اماموں سے ہی رابطہ کرتے تھے اور ان کی تشویش کا ازالہ کیا کرتے تھے۔ وہ شادی بیاہ کے تعلق سے پیدا ہونے والے تنازعات میں بھی ثالث کے طور پر اپنی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ اگر عیسائی اکثریت والے اس ملک میں کوئی ثقافتی تنازع رونما ہوتا تھا تو امام اس میں ثالث کا رول ادا کیا کرتے تھے تاکہ معاشرے میں رواداری بر قرار رہے۔

چنانچہ فیڈرل حکومت اس بات پر غورو خوض کر رہی تھی کہ جرمنی میں تین یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات کے شعبے قائم کئے جائیں، جن میں نئے پروفیسروں کی تقرری کی جائے گی۔ ان شعبوں کو قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ نئی نسل کے ان اماموں اور اسلامی تعلیمات کے ٹیچروں کو تربیت دی جائے، جو کہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ مغربی اقدار اور اسلامی اقدار کا ایک ساتھ تال میل ہو جائے۔ جرمنی کے باشندوں اور مسلم مہاجرین کے درمیان یکجہتی کو فروغ دینے والے وزیر ایگل اوزکان (Aygul Ozkan) نے اوسنا بروئیک میں منعقد افتتاحی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ہم ایسی مسجدیں چاہتے ہیں جن میں معاملات کی شفافیت ہو تاکہ اعتماد کی فضاقائم ہو جائے۔ ‘‘ایک ترکی مہاجر کی بیٹی اوزکان (Ozkan) نے بذات خود یہ بات کہی تھی کہ شفافیت پیدا کرنے کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ امام جرمن زبان سیکھیں اور جرمن زبان میں ہی تبلیغ کریں۔

جہاں تک سامی کا سوال تھا تو جرمن زبان سیکھنے اور اسی میں تبلیغ کرنا ان کے لئے نہایت دلکش عمل تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اوسنا بروئیک پروگرام کو ریاست اور فیڈرل بینک سے فنڈ فراہم کرایا گیا تھا۔ حالانکہ انہوں نے پہلے ہی اپنے خطاب اور خطبہ کے کچھ حصوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا تھا، تاہم انہوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ انہیں جرمن زبان میں بہتری اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ سامی ان 30طلبا میں سے ایک تھے، جن کا ٹیوشن فری پروگرام میں ایک سال کے لئے داخلہ کیا گیا تھا لیکن وہ آج بھی اس بات کے متمنی ہیں کہ وہ جرمنی کے سیاسی نظام سے متعلق تعلیم حاصل کریں۔ اسی لئے انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’جرمن سوسائیٹی کو سمجھنے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کیونکہ مورکو (Morocco) کے سیاسی نظام سے یہاں کا سیاسی نظام بالکل مختلف ہے۔‘‘

ان کورسوں کے تعلیمی نصاب میں جرمنی میں واقع جرمن پارلیمنٹ کا ایک دورہ، اوسنا بروئیک میں واقع یہودیوں کے ایک عبادت خانہ میں یہودی پیشوائوں کے ساتھ ایک میٹنگ اور عیسائیوں کے مذہبی رہنمائوں کی کلاسوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ لوورسیکسنی (Lower Sexony) میں شوریٰ کے سربراہ ایونی آلٹینر (Avni Altiner) کی سربراہی میں 80طبقات کی ایک ایسوسی ایشن تشکیل دی گئی تھی، جو کہ اس پروگرام کی حمایت کرتی تھی۔ اس ایسوسی ایشن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جرمنی میں زیادہ سے زیادہ جرمن زبان میں تبلیغ کرنے والے مبلغین کی مسجدوں میں ضرورت ہے۔ آلٹینر(Altiner) نے کہا تھا کہ ’’اس ملک میں غیر ملکی انتہا پسند مبلغین کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اس ملک میں جرمن اماموں کی ضرورت ہے۔‘‘ 2013میں اوسنا بروئیک کے اماموں کی تربیت پر 41,800 ڈالر کا عوامی فنڈ خرچ ہو اتھا۔ 2012کے آغاز سے ہی یونیورسٹی نے تین سالہ گریجویٹ ڈگری اماموں کو تفویض کرنے کا پروگرام شروع کر دیا تھا۔ اتنا ہی نہیں یونیورسٹی نے تعلیمی نظام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پروٹیسٹینٹ (Protestant) اور کیتھولک (Catholic) تعلیمی کورسوں کے تعلق سے بھی ہدایات جاری کی تھیں۔

ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ جرمنی میں اماموں کی تعلیم کا مطالبہ وہاں پر ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔ جب اوسنا بروئیک یونیورسٹی نے پہلی مرتبہ اماموں کو تربیت دینے کے منصوبہ کا اعلان کیا تھا، تو اس وقت 90لوگوں نے درخواستیں دی تھیں۔ اس وقت اوسنا بروئیک میں اسلامک اسٹڈی کے ایک دیگر پروفیسر بلینٹ یوکر(Bulent Ucar) نے کہا تھا کہ’’شروعات میں ہم صرف 15طلبا کو داخلہ دینا چاہیے تھے لیکن جب ہم نے یہ دیکھا کہ اس میں لوگوں کی زبردست دلچسپی ہے تو ہم نے طلبا کی تعداد میں دوگنا اضافہ کر دیا تھا۔‘‘ اب جبکہ موجودہ دور میں ان تمام طلبا کو داخل کر لیا گیا ہے، چنانچہ وہ جرمنی میں ہی رہتے ہیں اور یہیں پر کام یا ملازمت کرتے ہیں حالانکہ ان کا پس منظر مختلف ممالک سے ہو تا ہے تاہم وہ معاشرے میں یکجہتی اور اخوت کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر تعداد عربوں، ترکوں اور بوسینیا کے لوگوں کی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ ابھی حال ہی میں جرمنی میں آئے ہیں جبکہ دیگر وہ لوگ ہیں جو کہ جرمنی میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ 30طلبا، جنہوں نے جرمن زبان سیکھنے کے لئے داخلہ لیا تھا ان میں 4خواتین بھی شامل ہیں، جو کہ ملک گیر سطح پر جرمنی کی مسجدوں میں بطور صلاح کار یا یوتھ کارکنوں کے طور پر کا م کر رہی ہے۔

اس طرح مختلف اسلامی ممالک کے مہاجرین جو کہ اس وقت جرمنی میں آباد ہیں وہ نہ صرف جرمن زبان سیکھ کر اسلامی تعلیمات سے نہ صرف اس مغربی ملک کے باشندوں کو روشناس کر ارہے ہیں بلکہ اس غلط فہمی کو بھی ان کی زبان میں دور کر رہے ہیں جو کہ متعصب اذہان کے پروردہ لوگوں نے اسلام کے تعلق سے پھیلا دی تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جرمنی میں غیر ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان نہ صرف رواداری اور اسلامی تشخص کے ساتھ وہاں آباد ہیں بلکہ وہاں کے مذاہب کا احترام اور قانون کی پاسداری بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی سے دین کا کام لیتا ہے تو وہ ایمانی حرارت اور قوت ارادی کو مزید تقویت ادا کر دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غیر ملکی مسلمانوں نے جرمن زبان سیکھ کر وہاں کے غیر مسلم باشندوں کو اسلامی تعلیمات کی جانکاری دینی شروع کر دی تھی۔ چونکہ زبان کسی سرحد کی پابند نہیں ہوتی ہے اس لئے لوگ اپنی مادری زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی دسترس حاصل کر لیتے ہیں جو کہ باہمی روابط کو استوار کر دیتی ہیں۔

(syedfaisalali2001@yahoo.com)