Sach Ki Awaz

جذبہ ایمانی کی نادر مثال

دبئی کے دست کار ماہرین نے 10 سال قبل قرآن کریم کے قدیم نسخہ کی تزئین کاری کی تھی۔ اس ضمن میں انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے کتنی دلچسپی اور چابکدستی کے ساتھ اس قدیم ترین اور سائز میں سب سے بڑے قرآن کریم کے اس نسخہ کو سنوارا تھا، جوکہ نہایت جانفشانی کے ساتھ پرانے شام کے شہر حلب سے موصول ہوا تھا۔ اس قدیم ترین نسخہ کو دیکھ کر سبھی ماہرین حیرت زدہ تھے لیکن اس کی خستہ حالی سے سبھی لوگ فکر مندی میں مبتلا ہو گئے تھے چونکہ یہ نسخہ نوادرات میں شمار کیا جا چکا تھا، اس لئے ماہرین نے اس کی تزئین کاری اصل نسخہ کے مطابق کرنے پر غور کیا تھا۔

150 سال قبل آخری مرتبہ تزئین کاری کے بعد ہجری کلنڈر کی آٹھویں اور نویں صدی میں مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور اقتدار سے منسوب قرآن کریم کا یہ 650 سالہ قدیم نسخہ نہایت خستہ حالت میں وہ گیا تھا۔ مقدس قرآن کا یہ نسخہ، جوکہ 434 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا سائز 52×72 سینٹی میٹر ہے وہ حلب Aleppo کی وقف لائبریری میں محفوظ تھا۔ دبئی میں بحالی اور تزئین کاری کے شعبہ کے سربراہ محمد ندال قواس (Mohammed Nidal Kawas) نے کہا تھا کہ دس ماہرین نے تقریباً تین ماہ تک اس مقدس کتاب کی دست کاری /تزئین کاری کے لئے اپنی خدمات انجام دی تھیں۔ دھول مٹی اور نمی کی وجہ سے اس قرآن کریم کے صفحات نہ صرف بوسیدہ ہو گئے تھے بلکہ کچھ صفحات پر اس کے کچھ حروف بھی پھیکے پڑ گئے تھے۔ لہذا 150 سال قبل ماہرین کی ایک ٹیم نے اس قرآن کریم کے صفحات کو نہ صرف صاف کرنے کا کام شروع کر دیا تھا بلکہ نہایت احتیاط کے ساتھ ان پر کوٹنگ (Coating) بھی کی تھی۔ اس بات کی وضاحت القواس نے متحدہ عرب امارات کے ایک روزنامہ کے صحافی سے کی تھی۔ چونکہ قرآن مقدس کے کچھ اصل صفحات حاصل نہیں ہو سکے تھے لہذا ایسے کاغذ کی تلاش تھی، جن کا رنگ اور کاغذ کی موٹائی اصل مسودہ کے مطابق ہو۔ لہذا اس خصوصیت کو برقرار رکھنے کے لئے دبئی میں ہی بادام کے پتوں سے اسی طرح کا کاغذ تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’بکری کی کھال استعمال کرکے ہاتھوں سے ایک نیا کور (Cover) تیار کیا گیا تھا اور صفحات کی سلائی بالکل اسی انداز سے کی گئی تھی، جس طرح سے اصل سلائی کی گئی تھی۔‘‘ اس کا کور (cover12) سطور میں ستاروں کے ساتھ اسی ڈیزائن میں تیار کیا گیا تھا جو کہ مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور اقتدار میں تھا۔ اس کے بعد ایک ایسا بکس (Box) تیار کیا گیا تھا تاکہ اس مقدس کتاب کو مزید کسی دیگر نقصان سے محفوظ کیا جا سکے۔

جمعہ الماجد سینٹر (Juma Al Majid Centre) کے ماہرین وقف لائبریری کے اسٹاف کو گزشتہ برسوں سے شہر میں ملنے والے قرآن کریم کے نہایت قدیم نسخوں کی بحالی اور تزئین کاری کی تربیت دے رہے ہیں۔ اب یہ لائبریری دیگر وسیع ترین علاقے میں منتقل ہو گئی ہے جو کہ حلب کی امیہ مسجد سے وابستہ ہے۔ موجودہ دور میں اب یہ ایک ایسا مقام ہے، جسے ثقافتی مضامین کے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بڑے سائز کے اس قرآن کریم کو دوبارہ پڑھنے کے لئے تمام حکام کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو گئی تھی. اس لئے وہ جلد از جلد اس کی بحالی اور تزئین کاری کا بے تابی سے انتطار کرنے لگے تھے۔ اس لئے اس کام کی ذمہ داری انہوں نے دبئی کے ماہر دستکاروں کو سونپ دی تھی۔ اس تعلق سے لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ال مصری نے کہا تھا کہ ’’اگر ہمارے اسٹاف کو ہی یہ کام کرنا ہے تو اس نسخہ کی حالت درست کرنے میں کم از کم 6ماہ لگ جائیں گے اور اس کے بعد آئندہ دو ماہ میں ہم اسے لائبریری میں دوبارہ تلاوت کے لئے پیش کر دیں گے۔‘‘ اس سے پہلے القواس نے یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ قرآن مقدس کا یہ نسخہ نہایت خستہ حالت میں ہے۔ لہزا نہایت نازک انداز میں اس پر کام کیا جائے گا۔ ذراسی چوک سے اس قدیم نسخہ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بنا رہے گا۔مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور میں جب یہ نسخہ تیار کیا گیا ہوگا تو اس کی شان وشوکت قابل دید ہو گی اسی شان وشوکت کی آبیاری کے لئے اسے نہایت باریک بینی سے سنوارنا ہوگا۔

اسی بات پر عمیق غور کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن مقدس کے اوراق پر گرم پانی لگایا گیا تھا اور اس کی کوٹنگ ہٹانے کے لئے ایک سرجیکل بلیڈ (Scalpel) کا استعمال کیا گیا تھا محمد ندال قواس نے اس بات کا انکشاف یو اے ای ڈیلی (UAE daily) سے کیا تھا، جمعہ الماجد سینٹر کے ماہرین نے وقف لائبریری کے جن اسٹاف کو قرآن کریم کے قدیم نسخوں کو سنوارنے کی تربیت دی تھی۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ کے تحت پورے شہر سے قرآن کریم کے نادر اور بیش قیمت 40نسخہ حاصل کر لئے تھے اور نہایت احتیاط کے ساتھ ان کو سنوارنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ چونکہ یہ تمام نسخہ مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور میں تیار کئے گئے تھے اس لئے ان صفحات کے نہ صرف خستہ حالی ہو گئے تھے بلکہ کچھ صفحات دستیاب نہیں ہو سکے تھے۔ماہرین اور دستکاروں کے سامنے یہ ایک مشکل ترین مرحلہ تھا کہ اصل صفحات اور ان کے رنگ کی مطابقت سے نئے صفحات کے لئے کاغذ کی فراہمی کس طرح سے کی جائے لیکن ایمانی حرارت نے ماہرین اور دستکاروں کی یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ نہایت جفاکشی کے بعد انہوں نے قرآن کریم کے اصل صفحات کے کاغذ کی مماثلت سے کاغذ تیار کر لیا تھا اور اس کے بعد مقدس کتابوں کو سنوارنے اور ان کی تزئین کاری کا عمل شروع کر دیا تھا۔ یہ عمل اتنی ذہانت اور چابکدستی کے ساتھ انجام دیا گیا تھا کہ ان قدیم نسخوں کو دیکھنے کے بعد لوگ محو حیرت ہو گئے تھے کیونکہ قرآن مقدس کے قدیم نسخے اصل حالت میں نظر آ رہے تھے۔

اس ضمن میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر داکٹر ال مصری(Dr. Al -Misri) نے کہا تھا کہ ’’قرآن کریم کی قدیم جلدوں اور دیگر نادر کتابوں سے گزشتہ صدیوں کے دوران ہماری اسلامی تہذیب سے وابستہ ہمارے ترقیاتی کارناموں اور حصولیابیوں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ قدیم ترین قرآن کریم کے نسخوں
اور دیگر علمیات کی کتابوں کو محفوظ رکھنا ہماری اسلامی شناخت کو محفوظ رکھنے کا ہی ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات کی بھی جانکاری دی تھی کہ دبئی میں واقع جمعہ الماجد سینٹر فار کلچر اینڈ ہیریٹیج کی پورے عرب اور مسلم ممالک میں تقریباً 40شاخیں ہیں، جن میں ترکی، عمان اور جارڈن کی شاخیں اہیمت کی حامل ہیں۔ ان سینٹروں میں اسلامی تشخص، تہذیب وتمدن وثقافت اور علمی نوادارت کا خزینہ موجود ہے، جوکہ پوری دنیا کو فیض یاب کرنے کے نظریہ سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں دبئی میں انجام دیا گیا یہ ایک ایسا مثالی اور غیر معمولی کارنامہ تھا، جس کا ذکر سعودی عرب کی ایک معروف ترین میگزین نے بھی اپنے اوراق میں کیا تھا۔

(syedfaisalali2001@yahoo.com)