Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا

محاسبہ…………….سید فیصل علی

ملک چوطرفہ مسائل سے دوچار ہے، ہند-چین کشیدگی اپنی انتہا پر ہے، لداخ سرحد پر چین اپنی فوجیں مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے، نیپال الگ آنکھیں دکھا رہا ہے، نیا نقشہ بناکر اس نے پتھوراگڑھ، سمیت پانچ شہروں پر اپنا دعویٰ ٹھونک دیا ہے۔ پاکستان سے چھتیس کا آنکڑہ تو شاید بھارت کا مقدر ہے۔ اوپر سے ملک میں کورونا کا قہر اس کی تیز رفتاری، ملک کی قومی معیشت کی کمر پر ضرب پہ ضرب لگا رہی ہے۔ بے روزگاری اور بھکمری انتہا پر ہے، لیکن ان سنگین حالات پر غور کرنے کے بجائے نفرت کی سیاست کا نقارہ بجایا جا رہا ہے۔ ہر مسئلے پر ہندو-مسلم کی پرت چڑھائی جا رہی ہے۔ ہر واقعہ کو ہندو-مسلم عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ یکساں سول کوڈ، لوجہاد، حجاب کھان پان اور لباس وغیرہ تو نام نہاد ہندوتو نشانے پر تھے ہی کہ اب مسلمانوں کی تعلیمی ترقی نے فاشزم کے علم برداروں کو اس حد تک بوکھلا دیا ہے کہ انہوں نے کھلم کھلا مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کا مورچہ کھول دیا ہے۔ جامعہ ملیہ، اے ایم یو، جے این یو کے تعلیمی ماحول پر ضرب پہنچانے کا کوئی موقع چھوڑا ہی نہیں جا رہا ہے اور جس جامعہ کو گاندھی جی کی سرپرستی حاصل تھی وہاں کے طلباء کو دہشت گرد کہا جانے لگا ہے۔

جامعہ ملیہ کو ملک کی نمبرون یونیورسٹی کا درجہ ملا ہے، وہاں کے طلباء نے یو پی ایس سی کے امتحانات میں جس طرح کامیابی کے پرچم لہرائے ہیں، اس سے فسطائی قوتوں کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہے۔ چنانچہ جامعہ کے طلباء کا تعلق دہشت گردوں سے جوڑ کر ’UPSC جہاد‘ کے نام سے سدرشن ٹی وی پر زہریلے ایپی سوڈ کا آغاز کر دیا گیا، جو ایک مہذب سماج اور سیکولر ملک کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ کھوجی صحافت کی آڑ میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو نشانہ بنانے میں اس درجہ شدت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا ہے کہ اس سے ہرذی شعور، ہر سیکولر ذہن تھرّا گیا ہے۔ ایپی سوڈ میں دکھایا گیا ہے کہ سول سروس میں کامیابی کیلئے مسلمان جہاد چلا رہے ہیں۔ آئی اے ایس اور آئی پی ایس میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد ملک کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اس کھلے اظہار پر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ملک توڑنے والا قدم قرار دیا ہے اور ’UPSC جہاد‘ ایپی سوڈ پر فی الحال پابندی لگا دی ہے۔

مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی اس کارستانی پر کئی غیر مسلم سینئر صحافیوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اکانومک پولٹیکل ’ویکلی‘ کے سابق مدیر اجے گوہا کہتے ہیں کہ ’’آج صرف سدرشن ٹی وی پر ہی مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے، بلکہ ایک آدھ کو چھوڑ کر ہر نیوز چینل مسلم دشمنی کی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ خبروں کو توڑ مروڑ کر یا فیک نیوز، فیک ویڈیوز کے بہانے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا دشمن مسلمان ہے‘‘۔ آج ٹی وی چینلوں کے پاس صرف سشانت، ریا اور کنگنارناوت کا موضوع ہے یا پھر ہندو-مسلم پر بحث ہو رہی ہے۔ ملک کی حالت، معیشت، اور بے روزگاری کے ایشو غائب ہو چکے ہیں۔

یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں گھر جانے کے دوران کتنے مزدورں کی جانیں گئیں، اس کا بھی ڈیٹا سرکار کے پاس نہیں ہے اور سرکاری بے حسی تو یہ بھی ہے کہ کتنے انسانی خدمات انجام دینے والے کتنے کورونا واریئرس مرے۔ کورونا متاثرین کا علاج کرنے والے کتنے ڈاکٹروں اور نرسوں نے اپنی جانیں گنوائیں؟ اس کا بھی ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں ہے، لیکن کوئی بھی نیوز چینل اس پر بحث نہیں کراتا۔ حکومت کو آئینہ نہیں دکھاتا۔ ٹی وی پر بنیادی مسائل کے بجائے فروعی مسائل، ہندو-مسلم پر چیخ و پکار ہو رہی ہے۔ ارنب گوسوامی، سدھیر چودھری، امیش دیوگن، دیپک چورسیا، روبیکا لیاقت وغیرہ وغیرہ تو ٹی وی پر دن رات دہاڑ رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام لگاکر اکثریتی طبقہ میں زہر بھر دیا ہے۔ گوکہ بعد میں عدالت نے نفرت کے اس کھیل کی ہوا نکال دی اور کہاکہ جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ان چینلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ کسی چینل نے معافی مانگی۔ حد تو یہ بھی ہے کہ حکومت نے یو پی ایس سی جہاد جیسے زہریلے پروگرام کو نشر کرنے کی ہری جھنڈی بھی دکھا دی۔ لیکن بالآخر سپریم کورٹ حرکت میں آیا اور میڈیا کے خطرناک رول پر سوال اٹھاتے ہوئے اس ٹی وی پروگرام پر پابندی بھی لگا دی۔

سپریم کورٹ نے میڈیا کے رول پر دو ٹوک کہاکہ ملک میں بولنے کی آزادی نفرت کے ایجنڈے میں تبدیل ہو رہی ہے اور نفرت کے ایجنڈے سے ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ یوں تو نیوز چینلوں کو خبر دکھانے کا اختیار ہے، لیکن وہ ایک خاص طبقے کی امیج کو بگاڑ نہیں سکتے۔ کورٹ نے نیوز چینل کو سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ انتظامیہ میں مسلمانوں کا جانا گہری سازش کا حصہ ہے اور پھر آپ اسے آئی ایس آئی ایس سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح آپ مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ میڈیا کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی وضاحت کی کہ ’کھوجی صحافت‘ سے کوئی پریشانی نہیں ہے، لیکن اس کی آڑ میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ مسلمان کسی ایجنڈے کے تحت یو پی ایس سی سروس میں جا رہے ہیں۔ چنانچہ میڈیا میں ہمارا یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے کہ ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ نہیں بنایا جائے، کیونکہ ہمیں مستقبل کے ملک کو دیکھنا ہے، جو متحد ہو، پرامن ہو، کثیرجہت ہو، جہاں انسانی احترام محفوظ رہے۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعہ نفرت کی اس انتہا پسندی پر سپریم کورٹ نے جو چابک چلایا ہے، وہ نفرت کے بازی گروں اور موٹی کھال والے بے ضمیر پترکاروں پر اثر انداز ہوگا؟ مجھے اس میں ذرا تأمل ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ سپریم کورٹ اس میں سیدھے مداخلت کرتا اور پابندی لگاتا۔ کیونکہ وہ خود محسوس کر رہا ہے کہ آج کے میڈیا کی وجہ سے ملک کی سالمیت، اتحاد، گنگا جمنی تہذیب، بھائی چارہ سب خطرے میں ہے۔ تبلیغی جماعت، دلی فساد، جامعہ ملیہ، یو پی ایس سی جہاد وغیرہ پروگرام کے تعلق سے جو نفرت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے، اس پر ملک کے کئی غیر مسلم صحافیوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ’دی وائر‘ ویب پورٹل نے ملک کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ سوال کھڑا کیا ہے کہ کیا آج کے نیوز چینل روانڈا ریڈیو چینل کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جو اس نے 1993-94 میں اختیار کیا تھا۔ اس دور میں ’روانڈاریڈیو‘ کو حکومت، پولیس اور ملک کے اکثریتی طبقہ کی حمایت حاصل تھی۔ روانڈا ریڈیو نے اپنے زہریلے پروگرام اور جھوٹی خبروں کے ذریعہ نفرت کی ایسی آندھی چلائی کہ محض ایک سال کے اندر روانڈا میں قتل عام شروع ہوگیا، جہاں اقلیتی طبقہ کا ایک بڑا حصہ ہی نہیں، بلکہ اکثریتی طبقہ کے وہ لوگ بھی مارے گئے، جو آپسی محبت، یکجہتی، امن آشتی سیکولرزم اور انسانیت کی باتیں کر رہے تھے، کیا ہندوستانی میڈیا پر بھی روانڈا کی تاریخ دہرا رہا ہے اور روانڈا ماڈل اختیار کر رہا ہے یہ بڑا سوال ہے۔

مجھے اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ ہندوستان کو چین یا پاکستان سے نہیں، بلکہ نیوز چینلوں سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ 10-20 چین پاکستان بھی ہندوستان کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا ایک نیوز چینل دس بیس منٹ کی خبروں سے ملک کو پہنچا سکتا ہے۔ آج کورونا وائرس جتنا ملک کو نقصان نہیں پہنچا رہا ہے، اس سے دس گنا زیادہ میڈیا کا وائرس ملک کی ذہنیت کو زہریلا بنا رہا ہے۔ کاش سپریم کورٹ میڈیا کے زہر کا تریاق بن سکے۔ کاش ’زہریلی پترکاریتا‘ کے ناگوں کو پٹارے میں بند کرنے کا کوئی حوصلہ دکھا سکے۔ بقول اختر بستوی:

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا
دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close