Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

نئے برس میں نئے امتحان ہونے ہیں

محاسبہ…………….سید فیصل علی

کیا بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اپنے 15 سالہ اقتدار و سیاست کے آخری دور سے گزر رہے ہیں؟ کیا بہار کا تاج ان کے لئے کانٹوں کا تاج بن گیا ہے؟ کیا نتیش کمار ایک کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گے، کیا بی جے پی نتیش کمار کے قد کو چھوٹا کرکے خود کو بڑا کرنے میں کامیاب ہوگی؟ یا پھر نتیش کمار سیاسی ماحول کو بھانپتے ہوئے بی جے پی کی بساط الٹ دیں گے اور حسب تاریخ و روایت پالا بدل لیں گے۔

سیاسی و سماجی گلیاروں میں یہی چرچا ہے کہ جے ڈی یو اور بی جے پی گٹھ بندھن میں دراڑ پڑ چکی ہے ہر سمت یہی شہرہ ہے کہ سرکار بننے کے پہلے ہی دن سے نتیش کمار حکومت کی الٹی گنتی جاری ہے، سیاسی مبصرین بہار حکومت کے ایکسپائری ڈیٹ کا اندازہ لگا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جس طرح اروناچل میں جنتا دل یو کے 6 ممبران اسمبلی کو بی جے پی میں ضم کیا گیا اسی طرح کا کھیل بہار میں بھی ہو سکتا ہے دوسری طرف یہ بھی خبر گرم ہے کہ بی جے پی سے پریشان جے ڈی یو ممبران اسمبلی این ڈی اے میں جانے کے بجائے آر جے ڈی میں جانا زیادہ پسند کریں گے یہی ان کو سوٹ کرے گا۔ مگر ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ نتیش کمار ضرور وزیر اعلیٰ بنا دیئے گئے ہیں لیکن بی جے پی نے ان کی نکیل بھی کس رکھی ہے، وہ دہلی اعلیٰ کمان کے ابروئے ہدایت کے بغیر ایک قدم چلنے سے بھی مجبور ہیں۔ بی جے پی کے چھٹ بھیا لیڈروں سے لیکر بڑے لیڈروں تک کے جو تیور ہیں اور جو دباؤ ہے کہ نتیش کمار اپنی کابینہ کی توسیع کرنے سے بھی بے بس ہیں۔ اب بی جے پی کے سینئر لیڈروں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ وزارت داخلہ چھوڑ دیں۔ بی جے پی خیمہ کی طرف سے نتیش کمار کی کارکردگی پر مسلسل انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، ان کے بلند سیاسی قد کو بونا بنانے کا کھیل دہلی سے پٹنہ تک جاری ہے۔ یہ منظرنامہ نتیش کمار کے لئے ایک ایسا تازیانہ عبرت ہے جس پر نہ صرف اہل بہار کے اذہان میں سوال اٹھ رہے ہیں بلکہ قومی سیاست کی آنکھوں میں بھی حیرانی ہے کہ کل تک ملک میں گجرات ماڈل کے مقابلے نتیش ماڈل کو پیش کرنے والی جے ڈی یو اور اس کے مکھیا نتیش کمار جسے پی ایم کے طور پر ابھارا جاتا رہا ہے، آج وہ اچانک اتنا بے بس، اتنا کمزور اور اتنا بے وقعت کیسے ہو گیا؟

ستم سیاست تو یہ ہے کہ نتیش کمار کے پر کترنے کے لئے ان کے دیرینہ دوست اور بی جے پی کے سینئر لیڈر سشیل مودی کو دہلی کا راستہ دکھا دیا گیا اور ان کی جگہ دو ایسے نائب وزرائے اعلیٰ مسلط کر دیئے گئے جنہیں نہ تو وزارت کا کوئی تجربہ ہے اور نا کوئی شناخت ہے۔ مگر یہ پیراسایٹ کی طرح نتیش کمار کے سیکولر راہوں کو کترنے میں لگے ہوئے ہیں، بی جے پی ان دونوں کے سہارے نتیش کمار کو ہندوتو کی سمت لے جانا چاہتی ہے جو بی جے پی کی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ بہار میں رام مندر کے لئے چندہ مہم سے لے کر گاؤں گاؤں میں کسان اندولن کی مخالفت، سی اے اے کے نفاذ و دیگر اقلیت مخالف نظریات کو فروغ دینے کا مقصد لئے بی جے پی نتیش کمار کو ایک کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے مگر وقت کے نباض، موسم گیانی، نتیش کمار کیا کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بن کر رہ سکتے ہیں یہ ایک بڑا سوال ہے۔

مجھے نتیش کمار کی بے بسی پر تأسف ہوتا ہے اور اٹھارہویں صدی کے مغل دور کے زوال کی تاریخ بھی ذہن میں دستک دینے لگتی ہے، 1707 میں اورنگ زیب کی موت کے بعد مغلیہ حکومت ڈھلان پر آگئی، حالات نے سید برادران کو مغل فرمارواؤں پر ایسا مسلط کردیا کہ مغل بادشاہ خود کٹھ پتلی بن کر رہ گیا وہ ان دو بھائیوں کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ دو بھائی سید عبداللہ اور سید حسین اتنے بارسوخ اور لال قلعہ کے معاملے میں اتنے دخیل ہو گئے تھے کہ ان کی حیثیت بادشاہ گر کی طرح ہو گئی تھی۔ کون تخت نشین ہوگا کس کو بادشاہ بنانا ہے یہ سب ان دو بھائیوں کے اشاروں کا کھیل تھا۔ 1719 سے لے کر 1722 تک تین برس سید برادران کے عروج کا دور تھا، کئی بادشاہ آئے کئی قتل کئے گئے، سید برادران یعنی عبداللہ جو الہ آباد کا ڈپٹی گورنر اور چھوٹا بھائی حسین جو پٹنہ کا ڈپٹی گورنر تھا کیسے دہلی آئے اور کس طرح انھوں نے لال قلعہ کے اندر اپنا رسوخ قائم کیا یہ ایک طویل دستان ہے۔ لیکن 1722 میں جب محمد شاہ رنگیلے تخت نشین تھا تو وہ کٹھ پتلی بننے پر تیار نہیں ہوا۔ بالآخر محمد شاہ کی حکمت عملی کے تحت حسین علی قتل ہوا اور عبداللہ کو جیل میں بند کرکے زہر دے دیا گیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نتیش کمار اپنے بادشاہ گروں سے لوہا لینے کی جسارت کر سکتے ہیں، کیونکہ بہار میں جس طرح اسمبلی الیکشن ہوئے تیجسوی کی آندھی چلی، مگر اس آندھی میں بھی بی جے پی نے جو تگڑم اپنایا اور مہاگٹھ بندھن کو اقتدار سے دور کیا، نتیش کمار وزیر اعلیٰ بنائے گئے یہ سب ملک دیکھ رہا ہے اور آج منظرنامہ یہ ہے کہ نتیش کمار خود اقرار کر رہے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ نہیں بننا چاہتے تھے انھیں دباؤ دے کر وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ ان کا یہ درد بلاشبہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ کس طرح گزارا کر رہے ہیں؟

وقت کا یہ بھی المیہ ہے کہ جو شخص کبھی قومی سیاست کے صف اول کے لیڈروں میں شمار ہوتا تھا، وزارت عظمیٰ کا بڑا دعویدار تھا آج اس کی سیاست و قیادت، امیج اور کردار سب کچھ ڈھلان پر ہے۔ خدشہ تو یہ بھی ہے کہ نتیش کمار کہیں جنتا دل یو کے آخری مغل نہ بن جائیں۔ اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور اپنے اعلیٰ کردار و سنسکار کا مظاہرہ کریں۔ بہار میں تیجسوی کو جیت ملی ہے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے رائے عامہ کا احترام کریں، اقتدار تیجسوی کو سونپ دیں اور خود کو قومی سیاست کے لئے وقف کریں۔ اس سے ان کا قد بھی بلند ہوگا ان کی ایمیج بھی برقرار رہے گی، ورنہ بی جے پی ان کو ایسا بے بس کرے گی کہ وہ وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے بھی کہیں کے نہیں رہیں گے۔

نتیش کمار ایک دور اندیش انتہائی تجربہ کار سیاست داں ہیں یقینا انھیں انداہ ہوگا کہ عوام ان کے خلاف ہیں انھیں یہ پتہ ہوگا کہ ان مقبولیت کا گراف کل کہاں تھا آج کہاں ہے۔ کیا وہ اپنی سماجوادی فکر کو زعفرانی رنگ میں ڈھلتے ہوئے دیکھ سکیں گے، مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ بڑے بھائی سمان اور دوست کہنے والے لالو یادو کے بیٹے تیجسوی یادو کے بارے میں ایسے کلمات استعمال کریں گے جو ان جیسا شائستہ شخص کی زبان وبیان سے مختلف ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مایوس ہو چکے ہیں اور اس مایوسی نے ان کی شائستگی کو بھی آلودہ کردیا ہے جو افسوس کی بات ہے۔ تیجسوی یادو کی سیٹیں بھلے ہی کم آئی ہیں لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ بہار نے ایک ایسا لیڈر حاصل کرلیا ہے جس سے یہاں کے عوام نے اپنی امیدیں وابستہ کرلی ہیں اور آج نہیں تو کل یہ امیدیں حقیقت کا روپ اختیار کریں گی تیجسوی یادو وزیر اعلیٰ بنیں گے، ممکن ہے کہ جنتا دل یو کے ہی ممبران اسمبلی نتیش کمار کے بجائے تیجسوی کی قیادت قبول کرلیں، جیسا کہ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے، بہرحال نتیش کمار کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ کل کا زمانہ ان کا تھا، لیکن آج کا دور ان کے دوست اور بڑے بھائی سمان لالو یاد کے بیٹے تیجسوی یادو کا ہے۔ بقول عادل بستوی:

نئے برس میں نئے امتحان ہونے ہیں
نئی ہے دھوپ نئے سائبان ہونے ہیں

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close