Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

دامن پر کہیں چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

محاسبہ…………….سید فیصل علی

اسے سادہ لوحی کہیں یانفسیاتی کمزوری کہ جب کوئی قومی لیڈر ذرا سی ہمدردی دکھاتا ہے تو مسلمان اپنے سابقہ تلخ تجربات کو بھول کر اپنے آنسوؤں کو پونچھ کر نئے خواب سجانے شروع کر دیتے ہیں، جب کوئی پی ایم، سی ایم انہیں پچکارتا ہے تو اس کے لگائے گئے تمام چرکوں کو بھلاکر اسے مسیحا سمجھنے لگتا ہے اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تو مسلمانوں کی دکھتی رگ ہے۔ جب کوئی اس کی ستائش کرتا ہے تو ان کا سرفخر سے تن جاتا ہے۔ 70 برسوں سے مسلمانان ہند گفتار کے غازیوں کے شکار ہوتے رہے ہیں اور جذباتیت کے بھنور میں اپنی سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی ترقی کی کشتیاں ڈبوتے رہے ہیں۔ پی ایم مودی جنہوں نے کبھی سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچاننے کی بات کہی تھی، ان کے بھکتوں نے اے ایم یو کو منی پاکستان قرار دیا تھا، اب مودی اسی یونیورسٹی کو منی بھارت کہہ رہے ہیں، ملک کا عظیم ورثہ قرار دے رہے ہیں اور اے ایم یو کی تعلیمی اور تہذیبی شناخت کو ہندوستان کا ’گورو‘ بتا رہے ہیں۔

بلاشبہ اے ایم یو سرسید کے تعلیمی مشن کے شاندار مستقبل کی عکاس ہے، یہ یونیورسٹی ایک ایسا زندہ ادارہ ہے، جس کی دھڑکن پوری دنیا محسوس کرتی ہے۔ سرسید کے چمن سے نکلنے پھول دنیا کے کم از کم چالیس ملکوں میں اے ایم یو کی عظمت کی خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کے وقار اور ملک کی شان کی علامت بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس یونیورسٹی نے زمانے کو ایسی ایسی شخصیات دی ہیں جو عالمی اور قومی سطح پر سیاسی و سماجی مرتبت رکھتے ہیں۔ اس یونیورسٹی نے جہاں چار افریقی ممالک کو سربراہ دیئے ہیں، وہیں مالدیپ کے صدر امین حلمی، پاکستان کے صدر فضل الہٰی، وزیر اعظم لیاقت علی خان، بنگلہ دیش کے وزیراعظم منصور علی، پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان سمیت 50 سے زائد عالمی شخصیات نے اسی یونیورسٹی کے دامن میں علم وفن کے موتی چنے ہیں۔ اس کے علاوہ اس یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرکے 11 ملکوں کے طلباء چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچے۔ یہی نہیں اس یونیورسٹی نے ہندوستان کو 19 گورنر اور 18 چیف منسٹر دیئے۔ سپریم کورٹ کے 4 ججوں اور ہائی کورٹ کے 11 چیف جسٹس دیئے۔ اس کے علاوہ صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین سے لے کر دلی کے وزیراعلیٰ صاحب سنگھ ورما، بہار کے وزیراعلیٰ عبدالغفور، آسام کی وزیراعلیٰ انورہ تیمور، مرکزی وزیرداخلہ مفتی سعید، جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ غلام محمد صادق، فاروق عبداللہ سے لے کر سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان بھی اسی ادار ے سے ابھرے اور قومی سیاسی افق پر چھا گئے۔ علاوہ ہر شعبہ حیات میں بے شمار اہم افراد بھی اسی یونیورسٹی نے فراہم کی ہے۔ غرضیکہ یہ یونیورسٹی ہر سطح پر ملک و ملت کا نام دنیا میں روشن کرتی آ رہی ہے، لیکن تمام ترخدمات کے باوجود اے ایم یو کی حب الوطنی، تہذیبی شناخت و روایت فرقہ پرستوں کے نشانے پر رہی ہے۔ یہاں کے طلبا و طالبات پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں، انہیں پاکستان نواز بھی قرار دیا جاتا رہا ہے، جناح کی تصویر کو لے کر واویلا کھڑا ہوتا رہا ہے، کبھی یہاں کیمپس میں سرسوتی کی مورتی نصب کرانے کی دھمکی دی جاتی ہے، اس یونیورسٹی کشمیری طلبا کی بھی کثیر تعداد ہے، اس کو لے کر یونیورسٹی معتوب زمانہ ہوتی رہی ہے۔ اس یونیورسٹی سے شریعت میں مداخلت اور سی اے اے کے خلاف اٹھنے والی آواز سے بھی حکومت وقت کی پیشانی پر بل پڑتے رہے ہیں اور آج بھی یونیورسٹی کا اقلیتی کردار کٹہرے میں ہے، چنانچہ جویونیورسٹی معتوب زمانہ رہی ہے، اسی پارٹی کے لیڈر اور دیش کے مکھیا نے جس طرح یوٹرن لیا اور اے ایم یو کی عظمت کا گن گان کیا، یہ گن گان بے سبب نہیں ہے، اس کے پردے میں بڑی زنگاری ہے۔

22 دسمبر کو اے ایم یو کی صدی تقریبات میں وزیراعظم مودی نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔ انہوں نے ویڈیو کافرنسنگ کے ذریعہ طلباء و طالبات اور اساتذہ اور ملک وبیرون ملک پھیلے لاکھوں ’اولڈبوائز‘ (المنائی) کو خطاب کیا۔ انہوں نے یونیورسٹی کی گراں قدر خدمات کی زبردست ستائش کی اور کہاکہ کورونا کے دور میں بھی یونیورسٹی نے جس طرح سماج کی مدد کی وہ غیرمعمولی ہے۔ ہزاروں لوگوں کا مفت ٹیسٹ، اسپیشل آئیسولیشن وارڈ، بلڈبینک کا قیام اور پی ایم کیئر فنڈ میں ایک خطیر رقم جمع کرانا سماج کے تئیں فرائض کی ادائیگی کا سنجیدہ منظرنامہ ہے۔ پی ایم نے مسلم یونیورسٹی کو ایک چھوٹا ہندوستان قرار دیا اور کہاکہ یہاں کے طلباء دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہندوستان کی عظمت نمائندگی کر رہے ہیں، یہاں کے طلباء نے گزشتہ سو برسوں میں دنیا کے کئی ممالک میں ہندوستان کے رشتے مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وزیراعظم نے یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ اس یونیورسٹی میں اردو فارسی، عربی خاص کر اسلامک لٹریچر میں جو کام ہو رہا ہے، وہ پوری اسلامی دنیا کے ساتھ ہندوستان کی ثقافتی اور تہذیبی رشتوں کو نئی تونائی دیتا ہے۔ انہوں نے طلبائے علی گڑھ سے اپیل کی کہ وہ ایک بالاتر ہندوستان کی تشکیل کے لئے کام کریں، تاکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس جو اس ملک کی بنیاد ہے، اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا اعلان کبھی لال قلعہ کی فصیل سے بھی ابھرا تھا، مگر اب یہ اعلان محض نعرہ بن چکا ہے، بلکہ ایک ایسا کفارہ بھی بن گیا ہے، جسے ملک کی سب سے بڑی اقلیت 5 برسوں سے ادا کرتی آ رہی ہے۔

پی ایم کی تقریر سے نہ ہمیں خوش ہونے کی ضرورت ہے، نہ مخالفت کرنے کی، یہ ایک صد سالہ جشن تھا، پی ایم کی شرکت تھی، جس میں ان کے ذریعہ یونیورسٹی کی مدح سرائی کا مقصد بھی یہی تھاکہ المنائی جو پوری دنیا میں پھیلے ہیں، وہ خوش ہو جائیں، دنیا بھی سمجھے کے بھارت میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ پی ایم نے صدی تقریبات کے موقع پر 90 کروڑ کے گرانٹ کی بات کی تو ان کے اس احسان پر بھی تاسف ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک سال میں نہیں، بلکہ تین سال میں ملے گا۔ 2013-14 میں یو جی سی نے جے این یو کو 243.34 کروڑ کا گرانٹ دیا، مگر اس کے نتاظر میں دنیا کی اس مایہ ناز یونیورسٹی کو کیا ملا؟ مودی اے ایم یو کو منی انڈیا کہتے ہیں، حالانکہ ہر بڑا قومی تعلیمی ادارہ منی انڈیا ہوتا ہے، وہاں پورے ملک کے بچے پڑھتے ہیں۔ اے ایم یو میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ کون سی نئی بات ہے، یہ تو آئین کا حصہ ہے۔ دراصل مودی جی اب اے ایم یو کے ذریعہ مارکیٹنگ کرنا چاہتے ہیں، جس کے خاص محور اے ایم یو کے اولڈ بوائز ہیں۔ جنہیں وہ متاثر کرکے تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ مسلم مخالف نہیں ہیں، وہ اے ایم یو کے ذریعہ دنیا میں سرخ رو ہونا چاہتے ہیں، حالانکہ یہی مودی جی ماب لنچنگ پر بولتے تو کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں۔ پی ایم کے ذریعہ اے ایم یو کی مدح سرائی ان کے بہترین PR کی حکمت عملی ہے۔ وہ صدی تقریبات میں گئے تھے تو یونیورسٹی کے لئے کوئی بڑا اعلان کرتے، مسلمانوں کی تعلیمی شرح بڑھانے کی بات کرتے، وہ اس سمت بھی دیکھتے کہ ملک کی قومی خواندگی جس کا اوسط 70 فیصد ہے، جس میں مسلم شرح خواندگی 59.1 فیصد ہے، چنانچہ وہ مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں قومی سطح پر لانے کے لئے کوئی قدم اٹھاتے، خاص کر علی گڑھ کی تین شاخوں کیلئے کچھ اعلان کرتے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کاسہ میں 90 کروڑ ڈال دیئے جانے کا خوب خوب ڈھول پیٹا جا رہا ہے، حالانکہ تعلیمی معیار کے حوالے سے بھی اور عالمی معیار کے حوالے سے بھی ملک کی یہ مایہ ناز یونیورسٹی اس سے کہیں زیادہ گرانٹ کی مستحق ہے۔ مگر یہاں تو دو رخی سیاست ہے، پی آر کی حکمت عملی ہے، دنیا کی نظروں میں سرخ رو ہونا ہے، ایک طرف ملک کو ہندو راشٹر کی طرف لے جانا بھی مقصود ہے تو دوسری طرف اے ایم یو کو منی انڈیا کا خطاب دینا بھی ہے جسے ان کے ہی بھکت، ان کے ہی وزرا اور بڑے لیڈر منی پاکستان قرار دیتے رہے ہیں۔ یک رنگی تہذیب کے علم بردار اچانک علی گڑھ کی تہذیب کے پرستار کیوں ہوگئے ہیں، ذرا سوچئے! بقول ڈاکٹر کلیم عاجز:

دامن پر کہیں چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close