Khabar Mantra
محاسبہ

دنیا سمجھ رہی ہے کہ کشتی بھنور میں ہے

محاسبہ................................سیدفیصل علی

ممتا بنرجی کو اسپتال سے چھٹی مل گئی ہے۔10مارچ کو نندی گرام میں ان پر ہوئے حملے نے بنگال کی سیاست کا رخ ہی موڑ دیا ہے ، وہاں کے عوام میں اتنا شدید غم وغصہ ہے کہ تین دنوں سے بنگال کے کئی علاقوں میں مظاہروں اور احتجاج کا دور جاری ہے۔ کئی شہروں میں بی جے پی اور ٹی ایم سی کارکنان میں خونیں ٹکراؤ بھی ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کہیں بنگال کا چناؤ کسی بڑے خونریزی کا پیش خیمہ نہ بن جائے گرچہ ممتا بنرجی نے اسپتال سے ہی بنگال کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ امن وشانتی برقرار رکھیں۔ میں زخمی ضرور ہوں مگر حوصلہ برقرار ہے میں وہیل چیئر کے ذریعہ ہی انتخابی مہم چلاﺅں گی۔ ملک میں جمہوریت بچانے کے لئے میری لڑائی جاری رہے گی۔

ممتا بنرجی کے بائیں پاﺅں پلاسٹر چڑھا ہوا ہے جسم میں اندرونی چوٹیں بھی ہیں ۔ ڈاکٹر انھیں مکمل آرام کا مشورہ دے چکے ہیں لیکن یہ ممتا بنرجی کا ہی جگرا ہے کہ انھوں نے اس عالم میں بھی وہیل چیئرکے ذریعہ پورے الیکشن کمپین کو سنبھال لیا ہے۔ان کے اس حوصلہ اور عزم کی ملک وبیرون ملک میں ستائش ہورہی ہے ،’ڈیموکریسی آن وہیل چیئر ‘کے تحت ان پر مضامین لکھے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف بی جے پی اسے سیاسی ڈرامہ قرار دے رہی ہے مخالفین اسے سیاست کہہ رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ عوامی ہمدردی حاصل ہوسکے۔ حالانکہ ممتا بنرجی کی جوشکستہ حالت ہے اسے بھی دنیا نے دیکھا ڈاکٹروں نے جس طرح ان کا علاج کیا ان کی جورپورٹیں آئیں وہ مخالفین کے تمام تر الزامات کی نفی کرتی ہیں۔ لیکن عصر حاضر کی سیاست ایسی بے ضمیر ایسی بے حس اور ایسی مفاد پرست ہوگئی ہے کہ اس کے آگے انسانیت ،ہمدردی ،اقداروسنسکار ،رواداری سب بے معنیٰ ہوچکے ہیں۔بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی شاید واحد لیڈر ہیں جنھوں نے فون پر ممتا کا حال چال پوچھا ان کی صحت کی جانکاری لی۔ معروف سوشلسٹ لیڈر رام منوہر لوہیا پنڈت نہرو کے کٹّر سیاسی مخالفین میں تھے ، مگر یہ سیاست دانوں کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ لوہیا کو جتانے کے لئے کانگریس نے کمزور امیدوار کھڑاکیا اور لوہیا پارلیمنٹ پہنچ گئے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی مخالفت ذاتی عناد بن گئی ہے۔ ممتا پر حملہ بھی شاید اسی کا نتیجہ ہے جو تفتیش کا موضوع ہے۔

ممتا بنرجی پر حملہ اس سوچ کی فتنہ گری ہے کہ ممتا کے زخمی ہونے سے ان کے چناوی کمپین میں کمی آئے گی جس کا فائدہ ملے گا ،حالانکہ یہ فکر ہی خام خیالی ہے کیونکہ بنگال انقلاب کی سرزمین ہے ،جہاں اپنی ثقافت ،اپنی زبان ، اپنا لباس او رکھان پان ، اپنی خوراک تک کو ترجیح دی جاتی ہے ، بنگال میں اسی وجہ سے نفرت کی سیاست پنپ نہیں سکی اور حالیہ سروے میں بھی ممتا ریاست کی سب سے مقبول رہنما دکھائی گئی ہیں ۔بی جے پی بنگال کے 294سیٹوں میں 200سے زائد سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کررہی ہے وہ ہر حال میں بنگال کو فتح کرنا چاہتی ہے وہ بہار کی طرح تگڑم اپنا نا چاہتی ہے جہاں تیجسوی کی آندھی میں بھی اس نے اپنی حکومت کا چراغ گل نہیں ہونے دیا۔

ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ بنگال کے چناوی مہابھارت میں بایاں محاذ، کانگریس اور ایک پیر صاحب نے ممتا کے خلاف مورچہ بندی کی ہے تو بی جے پی نے بھی بنگال میں پوری قوت جھونک دی ہے۔ 40وزراء،6وزرائے اعلیٰ جہاں دام درمے ، سخنے کے ساتھ بنگال میں براجمان ہیں مودی ، یوگی اور امت شاہ کے دھواں دھار جلسے ہورہے ہیں۔ بی جے پی جیت کے لئے یوپی فارمولے پر چل رہی ہے۔ جے شری رام کے نعروں کے ساتھ مودی بنگال میں 20سے زائد ریلیاں کریں گے مگر بی جے پی کی ساری توجہ ہندی بلیٹ والے جنوبی بنگال کی طرف ہے جہاں جے شری رام کے نعرے کے ساتھ ممتا کو چیلنج کیا جارہاہے اور ممتا بھی جے شری رام کے مقابلے’ کھیلا ہوبے ’ کے نعرے کے ساتھ میدان میں ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کالی اور درگا بنگال کی ثقافتی ومذہبی علامات کے طور پر جانی جاتی ہیں ان کو شری رام کے مقابلے کمتر درجہ دینا بی جے پی کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ دیدی کا نعرہ جے شری رام بنام’ کھیلا’ہوبےاسی کا عکاس ہے۔

میں اپنے کالم میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بنگال کے 32فیصد مسلم ووٹروں نے بادشاہ گر کا رول ادا کیا ہے۔ کبھی کانگریس کبھی لیفٹ تو بالآخر ممتا کے سر پر بھی بنگال کا تاج رکھنے میں مسلمانوں کا ہی اہم رول ہے مگر اب بنگال میں جے شری رام بنام کھیلا ہوبے کی لڑائی میں 61فیصد والی ہندواکثریت پر ہندوتو کا جادو چل سکے گا یانہیں ؟یہ بڑا سوال ہے ۔حالانکہ2016میں مودی لہر میں بھی بی جے پی بنگال اسمبلی میں 3سیٹوں سے آگے نہیں بڑھی کیا اس بار بی جے پی کا مشن 200+کامیاب ہوگا۔ بی جے پی نے بنگال میں پوری فوج اتاری ہے ہر مرکزی وزیر کو ایک ایک ضلع کی ذمہ داری دی گئی ہے لیکن اصل امید ان 5 کمانڈروں سے ہے جو ترنمول چھوڑ کر بی جے پی میں آئے ہیں۔ کیا شوبھیندو ،مکل رائے ،متھن چکرورتی وغیرہ ترنمول کے ووٹ بی جے پی میں ٹرانسفر کراسکتے ہیں؟۔

بنگال میں چناﺅ کے درمیان بڑے پیمانے پر خونریزی کا خدشہ ہے ، ممتا پر حملہ اس خدشہ کو تقویت دیتاہے تاکہ ٹی ایم سی کی چناوی مہم کمزور ہوجائے۔ ممتا پر حملہ کس نے کرایا گوکہ یہ تفتیش کا موضوع ہے۔ مگر نندی گرام میں ممتا بنرجی پر حملہ کو لیکر ٹی ایم سی نے پورے طور پر الیکشن کمیشن کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔جس نے حکومت بنگال کی پوری مشنری کو سنبھال رکھا ہے جس کی وجہ سے ممتا بنرجی کو نندی گرام میں خاطر خواہ سیکورٹی نہیں دی گئی ۔ ترنمول کا الزام ہے کہ بی جے پی کے اشارے پر بنگال کے ڈی جے پی اور اے ڈی جے لاءاینڈ آرڈر کو ہٹایاگیا ان کے جانے کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہی ممتا پر حملہ ہوا۔ حالانکہ الیکشن کمیشن اس کی تردید کرتا ہے کہ بنگال کی مشنری اس کے ہاتھ میں ہے لیکن سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی اس دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انتخابات کے اعلان کے بعد ریاستی حکومت کا انتظامیہ اور پولیس پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ نندی گرام میں ممتا کو ہرانے کے لئے ہر سمت سے پوری قوت لگائی جارہی ہے ، بنگال جیتیں یا نا جیتیں مگر نندی گرام میں ممتا کو ہرانا بی جے پی کی حکمت عملی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ نندی گرام میں ممتا کے مقابلے شوبھیندو ادھیکاری ہیں جو کبھی ممتا کا ہاتھ تھے اب بی جے پی کے ہاتھ بن چکے ہیں لیکن نندی گرام کسانوں کی سرزمین ہے جہاں 2007میں کسانوں کی زمین تحویل میں لئے جانے کے خلاف ممتا بنرجی نے تاریخی اندولن کیا ، کیا کیا مظالم نہیں سہے۔ اور یہی مظالم ان کی طاقت بن گئے تین سالوں کے خونیں اندولن کے بعد 2011میں ممتا بنرجی نے بنگال میں بایاں محاذ کے 34سالہ اقتدارکے قلعہ کو منہدم کردیا۔

ٹی ایم سی سپریموممتا بنرجی کی شبیہ شروع سے ہی ایک بے خوف لیڈر کے طور پر رہی ہے 1993میں رائٹرس بلڈنگ کے سامنے ریلی نکالنے پر پولیس نے ان کی زبردست پٹائی کی تھی۔ پولیس کی گولی سے ان کے 14حامیوں کی موت ہوگئی تھی ۔ ممتا بنرجی کو مہینوں اسپتال میں رہنا پڑا تھا لیکن جب جب ان پر مظالم ہوئے ایک بڑی طاقت بن کر ابھریں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ممتا پر جب جب وارہوئے وہ اور مضبوط ہوئی ہیں اور نندی گرام اس بار بھی ممتا کے نئے دور کا پیغامبر بنے گا۔ خاص بات تو یہ ہے کہ کسان اندولن کی آنچ بھی بنگال پہنچ چکی ہے ،کسان لیڈر ٹکیت نندی گرام کے سنگرام میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دیش کا کسان کبھی بھی مودی کو ووٹ نہیں دے گا جس طرح پنجاب کے بلدیاتی چناﺅ میں بی جے پی کا صفایا ہوا اسی طرح بنگال میں سواہا ہوجائے گا۔ بہرحال ممتا بنرجی وہیل چیئرپر ہیں وہیل چیئرکے ذریعہ ہی وہ چناوی جنگ لڑ رہی ہیں۔ دنیا بھی حیرت سے اس جنگ کو دیکھ رہی ہے مودی اورشاہ کی قیادت میں بی جے پی کی فوج ظفر موج اور لیفٹ کانگریس گٹھ بندھن کے محاذ کا ممتا تن تنہا بڑے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کررہی ہیں۔لیکن ستم تو یہ ہے کہ گودی میڈیا حسب روایت حکومت وقت کی قصیدہ خوانی میں مصروف عمل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے ،بقول شاعر

طوفان کررہاہے مرے عزم کا طواف

دنیا سمجھ رہی ہے کہ کشتی بھنور میں ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close