Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

احترام کریں، دوست بنائیں

مغرب ہمیشہ اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے یوروپ امریکہ شروع سے ہی اپنی ترقی پسند تہذیب اور علمیت کی برتری کو لے کر مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ حالانکہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مغربی قوتوں کی ایک افادیت تھی لیکن اسلام کی معاشرت بالخصوص اسلامی تشخص نے مغربیت کی برتریت کی ہوا نکال دی۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ عرب کے خطہ سے نکلے چند افراد کی کاوشوں کی وجہ سے اسلام پوری دنیا پر چھا گیا۔ تعلیمی میدان سے لے کر اقتصادیات کے سیکٹر تک علم و فن سے لے کر آسمان کو مسخر کرنے کے تجربات تک علم کیمیا سے لے کر میڈیکل سائنس تک، ریاضی سے لے کر علم فلکیات تک کہاں کہاں نہیں مسلمانوں نے اپنی دانش مندی کے جوہر دکھائے۔ چھٹی صدی سے لے کر بارہویں صدی تک مسلمانوں کا دور زریں باب کہلاتا ہے لیکن جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ مغرب نے مشرق پر خاص کر مسلمانوں پر کمند پھینکنا شروع کر دیا۔ انہیں مغلوب کرنے کے لئے طرح طرح کے جال بچھائے جانے لگے۔ اپنی تہذیب کو برتر ثابت کرنے کے لئے اسلامی تہذیب و معاشرت کو آلودہ کیا جانے لگا۔ حالانکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل ایک کشادہ ذہن کا منظر نامہ اسلام میں ہر سمت دکھائی دیتا ہے لیکن مغرب کی سازش یہ رہی کہ وہ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام اور غیر مسلموں میں دوری پیدا کرنے کی بساط بچھاتا رہا۔ پوری تاریخ ایسے معالات سے بھری پڑی ہے جب اسلام کو سمجھنے کے بجائے اسے تشدد کا مذہب کہا جانے لگا۔ 9/11 کے بعد تو اس میں اور شدت آگئی لیکن اب دنیا کو بھی حقیقت سمجھ میں آرہی ہے مغربی ممالک بھی مشرق کو سمجھ رہے ہیں خاص کر مسلم ملکوں کے تئیں اپنی منافقانہ سوچ کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مسلمانوں میں بھی بڑی تبدیلی آئی ہے انہوں نے مغرب کی سازش سے بد دل ہو کر جس طرح ایک خاص نظریہ بنا لیا تھا اب اس میں کمی آئی ہے۔ بر اک اوبامہ کے دور اقتدار کے بعد یا برطانیہ میں نئے اقتدار کے بعد مغرب کی جو سوچ ابھری ہے اس سے بھی مسلمانوں میں ایک مثبت پیغام گیا ہے اور اب مشرق اور مغرب خاص کر مسلمان اور یوروپی ممالک اور امریکی مالک ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلا تفریق سیاست اب یہ بات ہو رہی ہے کہ اسلام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اسے سمجھا جائے۔ مسلمانوں کی کارکردگی پر لعن طعن کے بجائے ان کے جذبے کو پرکھا جائے دوریاں کم کی جائیں نزدیکیاں بڑھائی جائیں۔ رشتوں کا استوار ہونا ہی دنیا مین امن و امان کا محرک ہوتا ہے۔ زیر نظر مضمون انہی تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے مغربی دنیا اور مسلم دنیا خاص کر مسلمانان عالم کے درمیان بڑھتی ہوئی دن بہ دن کم ہوتے ہوئی خلیج کو اجاگر کرتا ہے اور مغرب اور مسلمانوں کے آج کے رشتوں کو سامنے لاتا ہے:

جب مسلمانوں سے یہ بات معلوم کی گئی تھی کہ مغربی ممالک کے ساتھ خوش گوار رشتے کیسے بنائے جا سکتے ہیں تو مسلمانوں کا عمومی جواب یہ تھا کہ ان کے مذہب کا احترام کیا جائے۔ ان کی ایک بڑی اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ مغربی ملکوں کے ساتھ اسی وقت تعلقات یا رشتے استوار ہو سکتے ہیں جب وہ اسلام کا تہہ دل سے احترام کریں۔ تقریبا ً 9 سال قبل گیلپ (Gallap) کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے کی رپورٹ سے اس بات کا انکشاف ہوا۔اس دوران 72 فیصد مسلمانوں نے یہ خیال تبھی ظاہر کیا تھا کہ قرآن کریم، اسلام، مذہبی نشانات اور علامات و مقامات کی کسی بھی صورت میں بے حرمتی نہ کی جائے۔ تقریباً 52 فیصد لوگوں نے یہ احساس بھی ظاہر کیا تھا کہ مغربی ممالک اپنی پالیسیوں میں مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ و سلوک کا ایسا جذبہ دکھائیں جو ان پر اثر انداز ہو۔ نیو ابو ظہبی گیلپ سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مغربی ممالک کی حکومتوں کو عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ خوش گوار رشتے قائم کرنے کے لئے اپنی توجہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پر مرکوز کرنی چائیے۔ گیلپ نے 55 ممالک بشمول متحدہ عرب امارات کے 123000 افراد پر مشتمل یہ سروے 2006 اور 2010 کے درمیان کیا تھا۔ قسطوں میں آنے والی ان رپورٹ میں اس بات کی جانکاری حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی کہ اسلام کے حق میں کون کیا بولتا ہے۔ 2008میں شائع ہونے والی کتاب ’’Who speaks for Islam ‘‘ میں یہ امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ مسلم سوسائٹیوں اور مغربی ممالک کے درمیان کس طرح خوشگوار تعلقات قائم کئے جا سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اگرچہ 15سے 20 فیصد مسلمان آباد ہیں تاہم عالم گیر سطح پر اس خطہ کے زبردست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENA) خطہ میں 2008 اور 2009 کے بیچ مغربی ممالک کے لئے مثبت جذبہ کا زبردست اضافہ دیکھا گیا تھا اس کے برعکس امریکہ کے صدر جارج بش کے دور اقتدار کے اختتام تک امریکی لیڈر شپ کے تعلق سے مسلمانوں کا انتہائی کم درجہ کا خلوص و احترام نظر آیا تھا، جس کی تصدیق 12 فیصد درج کی گئی تھی۔ لیکن براک اوبامہ کے الیکشن میں کامیابی کے بعد صورت حال کافی حد تک بہتر ہو گئی تھی جو کہ رپورٹ کے مطابق 32 فیصد ہو گئی تھی یعنی جارج بش کے مقابلہ براک اوبامہ کے دور اقتدار میں مسلمانوں کی رغبت میں امریکہ کے تئیں اضافہ ہو گیا تھا۔ اسی دور میں ایشیائی ممالک کے ضمن میں یہ گراف 33 سے 30 فیصد پر آگیا تھا۔ جبکہ افریقہ کے لئے یہ گراف 72 فیصد سے بڑھ کر 74 فیصد ہو گیا تھا۔

یہ تبدیلی براک اوبامہ کی امریکی مسلمانوں سے خوشگوار رشتے بنانے کی پالیسی سے رونما ہو ئی تھی۔ ایک سینٹر کی ڈائریکٹردالیا موجہض(Dalia Moghed) نے اپنے ایک بیان میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ 2009 میں براک اوبامہ نے قاہرہ میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے خطاب کیا تھا۔ انہوں نے اوبامہ کے حوالے سے یہ بات کہی تھی کہ ان کی تقریر میں بہت سے پروگراموں کے تحت امریکہ کے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر سہولتوں کے تعلق سے ذکر کیا گیا تھا۔ چنانچہ ان کے اس بیان سے یہ پیغام جاتا ہے کہ مغربی ممالک خصوصی طور پر امریکی مسلمانوں کے تعلق سے وہ خلوص کا جذبہ دکھا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے تعلق سے رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 61 فیصد مسلمانوں کے مغربی ممالک سے رشتے بہت اہم اور دنیا میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے لیڈروں میں اسلام کے تعلق سے مثبت سوچ پیدا ہو گئی تھی۔ دالیا موجہض کا یہ بھی کہنا تھا ’’چونکہ وہ مسلمانوں کی جانب توجہ دے رہے ہیں رشتوں کو فروغ دینے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ لہذا، اس سے ان کے حساس ہونے کی ترجمانی ہوتی ہے۔‘‘

2010 میں ہونے والے سروے کی رپورٹ سے یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ اس جذبہ میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اوبامہ کے ذریعہ منظور کی گئی پالیسیوں کے باوجود مشرق وسطی کے کچھ ممالک میں اس کی ریٹنگ کم ہو نے لگی تھی۔ دالیا موجہض نے بھی اس بات کی توثیق کی ہے کہ افغانستان میں مسلسل عدم استحکام، عراق میں افواج کی موجودگی اور فلسطین و اسرائیل کے درمیان امن کا عمل جاری رکھنے میں ناکام ہو نے کی وجہ سے تعلقات استوار کرنے میں رخنہ اندازی پیدا ہو گئی تھی۔ حالانکہ مغربی ممالک کے لئے مسلمانوں کے ساتھ بہتر رشتے قائم رکھنے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس خطہ میں عوام کا نظریہ قابل تغیر ہے۔ یہ نہ تو دائمی ہے نہ ہی دشوار ہے۔ اس رپورٹ نے مذہبی احترام کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی تھی، اس میں اس بات کو بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عالم گیر سطح پر دو تہائی مسلمان (%63)اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ مغربی ممالک کے مذاہب کا احترام کرتے ہیں تو مشکل سے ایک چوتھائی (%26) لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مغربی ممالک مسلمانوں کا حترام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر مسلموں کی ایک اچھی خاصی اقلیت(42 فیصد) اس بات پر یقین نہیں رکھتی ہے کہ مغرب بنیادی طور پر مسلم سوسائٹیوں کا احترام کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 10 میں سے 6 سے زائد مسلمانوں کا یہ کہنا تھا کہ مسلم دنیا مغربی دنیا کا احترام کرتی ہے لیکن ان میں سے نصف لوگوں کا کہنا یہ بھی تھا کہ مغربی دنیا مسلمانوں کا احترام نہیں کرتی ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا سوال ہے تو ان میں ہر چار میں سے ایک کا کہنا یہ تھا کہ اسلامی دنیا مغرب کا احترام کرتی ہے۔ بہرکیف غیر مسلموں کا قابل قدر طبقہ مسلمانوں کے خیالات سے متفق نظر آتا ہے کہ مغربی ممالک اکثریتی مسلم سوسائٹیوں کے جذبات کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ عدم احترام کا یہ خیال مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے باشندوں (65 فیصد) سے ہے جبکہ یوروپ میں رہائش پذیر مسلمانوں میں نسبتاً کم ہے جبکہ ان کی تعداد 35فیصد ہے اور اسی طرح کی صورت حال سب سہارا افریقہ (Sub Sahara Africa) میں 37 فیصد ہے۔

متحدہ ہائے امریکہ میں 53 فیصد امریکہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب مسلم دنیا کا احترام نہیں کرتا ہے۔ جب مسلمانوں سے پوچھا گیا کہ مغربی ممالک کس طرح سے بنیادی طور پر آباد مسلم سوسائٹیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنا سکے ہیں تو مسلمانوں کا صرف ایک ہی جواب تھا کہ مغرب اسلام کا احترام کرے تو تعلقات خود بہ خود خوشگوار ہو جائیں گے۔ اس بات پر زور دئیے جانے سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اسلامی عقیدہ اور اس کے ضابطوں و نشانات، جو کہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں ان کے تعلق سے احترام کیا جانا چائیے۔ 72 فیصد مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کی مقدس کتاب اور مسلمانوں کے مذہبی نشانات، جو کہ ان کے لئے زبردست اہمیت کے حامل ہیں ان کی بے حرمتی سے مغربی لوگوں کو روکا جانا چائیے۔ دوسرے اقدامات کے تحت مغربی ممالک اکثریتی مسلم ممالک کے شہریوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں اچھی پالیسیاں مرتب کر سکتے ہیں۔ اس سے بھی کافی فرق (52 فیصد) پڑجائے گا۔

دالیہ موجہض(Dalia Moghed) کا کہنا ہے کہ اس مشورہ سے پالیسی سازی میں امریکہ میں بھی دلچسپی پیدا ہو جائے گی جوکہ ’’باقی دنیا کی مساوات سے زیادہ ہی ہوگی۔ ‘‘اعلی طبقات کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اس نظریہ کی جانب توجہ دی جا رہی ہے۔ موجہض کے مطابق اب اسلام کے خلاف لڑائی کے بارے میں شاذو نادر ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اب مذاکرات کا رخ سیاسی دلچسپی کی جانب ہو گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں فلسطین اور اسرائیل کا قضیہ ذہنی انتشار کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں عراق میں غیر ممالک کی فوجوں کی موجودگی سے بھی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ جو لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ راست طور پر مذہب سے ہی ذہنی انتشار پیدا ہوتا ہے یا اس سے ہی تمام متنازع ایشو پیدا ہوتے ہیں شاید وہ اس بات میں یقین کرتے ہیں کہ تنازعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے یا ان سے دامن نہیں بچایا جاسکتا ہے لیکن یہ غلط مفروضہ ہے۔ موجہض (Moghed) کے مطابق ایک تعجب خیز انکشاف بھی ہوا ہے کہ مذہبی اداروں کی نگرانی کرنے والے لوگ رجائیت پسند ہو گئے ہیں اور ان کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ تعلقات میں بہتری ضرور آئے گی۔

لیکن مغربی ممالک میں آج بھی خوف کا ماحول ہے۔ شمالی امریکہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’’9/11 ‘‘ کے بعد سے مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے اذہان پر اس کے اثرات باقی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ثبوتوں کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو ایسے مشورے دیئے گئے ہیں جو کہ مغربی ممالک سے مسلمانوں کے ساتھ بہتر رشتے بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مشورے مندرجہ ذیل ہیں۔

٭ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENA) کے ان عوام پر توجہ مرکوز کی جائے جو کہ کافی روادار ہیں اور موجودہ دور میں وہ امریکہ کی لیڈر شپ کے سامنے آسانی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔

٭ پالیسی سازی سے متعلق ایسے اقدامات جاری رہنے چاہئیں، جن کے تحت آپسی مفادات پر زور دیا جائے اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کا جذبہ دکھایا جائے۔ اس کے علاوہ ثقافتی پروگراموں کو بھی جاری رکھا جائے۔

٭ مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ مغربی سوسائٹی کے لیڈروں کے ذریعہ مذہبی تنازعات کے بجائے سیاسی مسائل حل کرنے پر زور دیا جانا چائیے۔
ابو ظہبی گیلپ سینٹر (Abu Dhabi Gallop Centre) متحدہ عرب امارات کی راجدھانی میں واقع ہے جو کہ ریسرچ کے کام کراتی ہے، جس میں دنیا کی معروف ترین عوامی ریسرچ کی فرم گیلپ کے ماہرین شراکت دار ہیں۔ 70برسوں کی مدت سے زائد گیلپ انسانی فطرت کے تعلق سے مطالعہ کر رہا ہے۔پوری دنیا کے لوگ کیا سوچتے ہیں اور کیسا محسوس کرتے ہیں، اس کے تعلق سے بر وقت سروے کرکے اس کی رپورٹ جاری کرتا ہے۔ یہی اس ادارے کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ گیلپ انتظامیہ نے دنیا کے بہت سے معروف ترین سائنسدانوں کو اپنے ادارے میں ملازمت دی ہوئی ہے جو کہ نہ صرف اقتصادیات، نفسیات اور سوشیالوجی کے ماہرین ہیں بلکہ وہ لیڈروں کے مشیر بھی ہیں اور متعلقہ امور میں ان کی معاونت بھی کرتے ہیں اور عالمگیر سطح پر وہ اقتصادی صورت حال پر بھی نظر رکھتے ہیں۔

گیلپ سینٹر کی جانب سے مسلمانوں کے تعلق سے جو مطالعہ یا سروے کرایا جاتا ہے وہ تعصب کی بنیاد پر نہیں ہوتا ہے، وہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے جمع کئے گئے اعداد وشمار، مشورات اور تعلیمی روشنی میں کئے گئے سروے کے بعد تیار کی گئی رپورٹ سے افشا کئے جاتے ہیں۔ یہ سینٹر نہ صرف روزگار، تعلیم، مذاہب اور ثقافت کے تعلق سے سروے کرنے کے بعد اپنی رپورٹ شائع کرتا ہے بلکہ کسی بھی ملک کی انتظامیہ اور میڈیا کے طرز عمل پر بھی رپورٹ جاری کرتا ہے۔ گیلپ ایک غیر جانب دار ادارہ ہے اور اس کے ذریعہ جاری کی گئیں رپورٹوں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور یوروپ کے تعلق سے مسلمانوں کے ساتھ اس کے تعلقات اور رشتوں کے بارے میں گیلپ نے اپنی جو رپورٹ جاری کی تھی، اس سے اس کی حقیقت پسندی کی عکاسی ہوتی ہے۔ دالیا موجہض نے اپنے بیانات میں جن نکات پر روشنی ڈالی تھی وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ عالمگیر سطح پر تمام مسلمانوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اسلام اور قرآن کریم کا دیگر مذاہب کے عقیدت مندوں کو احترام کرنا چائیے، اسی صورت میں رشتے استوار ہو سکتے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close