Khabar Mantra
محاسبہ

بے اصولی بھی روا چند اصولوں کے تحت

محاسبہ...........................سید فیصل علی

اصولی طور پر مجھے عبوری بجٹ 20-2019 کا جائزہ لینا چاہیے۔ مودی نے وعدوں اور ارادوں کا جو پٹارا کھولا ہے اسے کھنگالنا چاہیے۔ اس میں ایسے کتنے کھلونے ہیں، کتنے سپنے ہیں، جو ملک کی خشک آنکھوں میں چمک لا سکتے ہیں مگر میں اس موضوع پر لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ عوام اتنے بےدار ہو چکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ سب چند ماہ بعد ہونے والے 2019 کے مہابھارت کے کھیل تماشے ہیں۔ لہذا بجٹ کو عوام پر چھوڑتے ہوئے بے اصولی کی راہ اپناتے ہوئے کسی دیگر موضوع کی تلاش کے تحت ذہن کو گردش دیتا رہا، تو دیکھا کہ موضوعات تو بے شمار ہیں لیکن ستم تو یہ ہے کہ ہر موضوع ایک کرب میں مبتلا ہے اور انصاف طلب ہے۔

یہ وقت کا کیسا المیہ ہے کہ جب ملک کا جمہوری نظام عدل و قانون سب بے بسی سے دوچار ہیں۔ ملک عجب دور سے گزر رہا ہے اور الیکٹرانک میڈیا اس دور کو مزید آلودہ بنا رہا ہے۔ وہ ایسے ایسے پروگرام اور ویڈیو چلا رہا ہے، جس سے فسطائی قوتوں کو تقویت مل رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر آج کا میڈیا ٹرائل ہندوستانی جمہوریت، سیکولرزم اور عدل وقانون کے آگے اس طرح تنا ہوا کھڑا ہے، جس پر نہ کوئی قدغن ہے اور نہ ہی میڈیا کو ذمہ داری کا احساس ہے کہ اس کے پروگرام سے دنیا میں ہندوستان کی کیا امیج بن رہی ہے۔ آج لاقانونیت کے کھلے ٹی وی شوز دکھائے جا رہے ہیں پھر بھی کوئی کارروائی نہیں۔کل پریس کلب میں ’’چوکیدار چور ہے‘‘ فلم پر پریس کانفرنس کے دوران چند بھگوا شدت پسندوں نے سیکڑوں افراد کے سامنے جس طرح توڑ پھوڑ مچائی، پوسٹر پھاڑے وہ دیدہ دلیری کی انتہا ہے۔ علی گڑھ میں تو بابائے قوم کی برسی پر ہندومہاسبھا کی قومی جنرل سکریٹری شکن پانڈے نے سرعام گاندھی کے پتلے پر گولیاں داغیں، ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کیا، کسی نے اس پر ڈبیٹ نہیں کی نہ دیش دروہ کہا۔ ادھر، رام مندر تعمیر پر نورا کشتی چل رہی ہے۔ آرایس ایس اور وی ایچ پی نے اب یوٹرن لے لیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ایک بار پھر مودی کو موقع ملنا چاہیے، یہ دیش ہندوئوں کا ہے۔ یقیناً مندر بن جائے گا جبکہ شنکر آچاریہ سرروپانند نے 21 فروری کو مندر بنانے کا اعلان کیا ہے، 4 فروری سے پریاگ سے سادھو سنت ایودھیا کوچ کریں گے، غرض کہ مندر کے نام پر آگ اس وقت تک جلتی رہے گی جب تک کہ الیکشن نہ ہو جائیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایک نئے ٹی وی چینل نے کارسیوکوں پر ملائم سنگھ حکومت میں گولی چلائے جانے کے 28سالہ پرانے گڑھے مردے کو اکھاڑنے کی سعی کی ہے۔

واضح رہے کہ 30 اکتوبر 1990 کو کارسیوک بابری مسجد کیمپ احاطہ میں گھس آئے تھے، جوانوں نے سختی سے کام لیتے ہوئے گولیاں چلا کر بابری مسجد کو بچایا تھا۔ 8 کارسیوک اس آپریشن میں مارے گئے تھے۔ اب نیوز چینل نے ایودھیا میں 1990 میں تعینات ایس ایچ او ویربہادر سنگھ کو سامنے کیا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ اس دوران 8 نہیں بے شمار کارسیوک مارے گئے تھے۔ 15-20 کو تو میں نے خود دفناتے ہوئے دیکھا۔ کارسیوکوں کو دفنانے والا بیان مزید فتنہ پھیلانے والا ہے۔ ایس ایچ او نے یہ بات چھپا کر کیوں رکھی؟ اور اب جب الیکشن نزدیک ہے تو اچانک نمودار ہوکر نفرت کی بازی گری ہو رہی ہے لیکن تمام تر نفرت کی بازی گری کے باوجود بی جے پی کی ہراسانی کی انتہا ہے کہ وہ بدزبانی پر اتر آئی ہے۔ میرے لئے یہی ایک موضوع ہے جو مسلسل ذہن و دل میں خلش پیدا کر رہا ہے۔ بی جے پی کے شدت پسند لیڈران نے آج پوری قوت کے ساتھ پرینکا گاندھی کے سیاسی شعور و شخصیت پر تنقید کی بوچھار کر دی ہے۔

حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جس پریوار کی تین پشتوں نے ملک کی خدمت ہی نہیں کی بلکہ وطن کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر دی ہیں۔ نہرو پریوار تہذیبی اقدار اور سنسکار کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ہندوستان کی اصل شبیہ ہے، آج اسی پریوار کی پرینکا گاندھی پوری طرح میدان سیاست میں آ گئی ہیں تو بی جے پی میں بوکھلاہٹ کا دور شروع ہو گیا ہے، اس کے لیڈران بدزبانی کی حدیں پار کرتے جا رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ خوبصورتی ووٹ نہیں دلا سکتی، کوئی ان کے سیاسی تجربہ کا مضحکہ اڑا رہا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کا ایک عام شہری بھی کانگریس کی تمام ترخستہ حالی کے باوجود نہرو خاندان کی قومی خدمات اور قربانیوں کو یاد ضرور کرتا ہے۔ پرینکا گاندھی کے سیاسی شعور اور ادراک و فہم کا کیا کہنا۔ جب وہ بچی تھیں تو ان کی دادی آنجہانی اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ پرینکا اگر سیاست میں آگئیں تو لوگ مجھے بھول جائیں گے۔ آنجہانی اندرا گاندھی کا یہ قول کہاں تک درست ہوگا یہ تو وقت بتائے گا لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ وہ اندرا ثانی ضرور بنتی جا رہی ہیں۔ وہی دادی جیسی بول چال، چلنے کا پروقار انداز، مؤثر خطابت، آہنی ارادہ اور ہنسنے بولنے کا انداز بلاشبہ اندرا گاندھی کی یاد دلاتا ہے۔ شاید بی جے پی کی بوکھلاہٹ کی وجہ یہی ہے کہ وہ پرینکا کے اندر اندرا کو دیکھ رہی ہے اور بی جے پی کو خوف ہے کہ اس کے ہندوتو کے کھیل کو پرینکا کی تکثیری سیاست مات نہ دے دے۔

پرینکا گاندھی نے 2014 کے الیکشن میں کہا تھا کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کو چلانے کے لئے 56انچ سینے کی نہیں بلکہ بڑے دل کی ضرورت ہے، پرینکا کا یہ جملہ ان کی پوری شخصیت اور سیاسی شعور اور ان کے سنسکار کا ایک ایسا آئینہ ہے جو عیاں کرتا ہے کہ وہ اپنی دادی آنجہانی اندرا گاندھی جیسا آہنی ارادہ اور اپنے دادا پنڈت جواہر لال نہرو جیسے وژن کی حامل ہیں۔ 2014 میں پرینکا کا یہ جملہ ان کی شخصیت اور ہندوستان کی تکثیریت کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ باور کراتا ہے کہ ہندوستان وہ حسین گلدستہ ہے، جس میں ہر پھول کی اپنی خوبصورتی ہے۔ ان کو مسل کر انہیں یک رنگی کرنے کی حماقت ملک کو بدنما کر دے گی۔ یہ ملک تبھی متحد رہ سکتا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے، جب یہاں کے حکمراں نہ صرف اس حسین گلدستہ کو سنبھال کر رکھیں بلکہ اس میں شامل تمام پھولوں کے رنگ و بو کی قدر وقیمت کو بھی تسلیم کریں، اسے یک رنگی کرنے کی سیاست ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔ بہرحال، پرنیکا کی آمد سے کانگریس کے ان تمام کارکنوں میں ایک اعتماد اور حوصلہ پیدا ہوا ہے جو بارہا پرینکا کو ذمہ داری دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ کسی بھی پارٹی کے لئے عام کارکن کا حوصلہ ہی جیت کا ضامن ہوتا ہے۔ شاید یہی دیکھ کر بی جے پی بوکھلاہٹ کی شکار ہے۔ پرینکا گاندھی کی آمد ملک کی تہذیب و تاریخ بدلنے والے سانپوں کی دم پر قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ لہذا فسطائی قوتیں بدزبانی پر اتر آئی ہیں مگر سیاست کے بھی کچھ اقدار ہوا کرتے ہیں بقول شاعر:

بے اصولی بھی روا چند اصولوں کے تحت
شیوۂ خار کا اظہار پھولوں کے تحت

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close